آیت امانت اور انسان

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



وہ آیت کریمہ جس میں اللہ تعالی نے اپنی امانت مخلوقات کے سامنے پیش کی تو سب نے انکار کر دیا لیکن انسان نے اس کو قبول کر لیا، اس آیت کریمہ کو آیتِ امانت کہتے ہیں۔


آیت امانت کی وضاحت

[ترمیم]

قرآن کریم انسان کی معرفت اور شناخت کا سب سے معتبر منبع و ذریعہ ہے۔ قرآن کریم نے انسان کی خلقت، اس کے اہداف اور اس کی زندگی میں در پیش مسائل اور ان کے حل کا تفصیلی تعارف کروایا ہے۔ انسان کی حقیقت اور شناخت کے انہی موضوعات میں سے ایک موضوع آیتِ امانت ہے جس سے مراد اللہ تعالی کا امانتِ الہی کو مختلف مخلوقات کے سامنے پیش کرنا اور انسان کو اس کو اٹھا لینا ہے۔ سورہ احزاب میں ارشادِ الہی ہوتا ہے: إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمانَةَ عَلَى السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ الْجِبالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَها وَ أَشْفَقْنَ مِنْها وَ حَمَلَهَا الْإِنْسانُ إِنَّهُ كانَ ظَلُوماً جَهُولا؛ بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑ پر پیش کیا لیکن انہوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کر دیا اور وہ اس امانت سے گھبرا گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا، بے شک انسان تاریکیوں میں رہنے والا جاہلتوں میں ڈوبا ہوا ہے۔

آیتِ امانت کے تفسیری نکات

[ترمیم]

اس آیت کریمہ میں انسان کی تکوینی و فطری خلقت کو مدنظر رکھتے ہوئے گفتگو کی گئی ہے۔ اس آیت کریمہ میں مختلف کلمات ہیں جن کا دقیق جائزہ مفسرین نے لیا ہے لیکن زیر نظر سطور میں ہم صرف لفظِ امانت کا سیاقِ آیت کے تناظر میں جائزہ لیں گے اور ملاحظہ کریں گے کہ آیت کریمہ میں امانت سے کیا مراد ہے۔ مفسرین نے اس کلمہ کے متعدد معانی اور تأویلات ذکر کیں ہیں جن میں سے چند کا تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے:

← آیت امانت روائی تفاسیر میں


مکتب تشیع کی روائی تفاسیر میں وارد ہوا ہے کہ اس آیت کریمہ میں امانت سے مراد امامت اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت و امامت کو اختیار کرنا ہے۔ تفسیر القمی میں اس آیت کے ذیل میں وارد ہوا ہے: فالامانة هي الامامة عرضت على السماوات والارض والجبال فابين ان يحملنها، قال: ابين ان يدعوها او يغصبوها أهلها (واشفقن منها وحملها الانسان)؛ یعنی امانت سے مراد امامت ہے جس کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اس کو اٹھنے سے انکار کر دیا، وہ کہتے ہیں: یعنی آسمان و زمین و پہاڑ نے اس امانت کو ترک کرنے اور اس کو اس کے اہل سے چھیننے سے انکار کر دیا اور وہ سب اس امانت سے گھبرا گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔

متعدد روایاتِ اہل بیت ؑ میں وارد ہوا ہے کہ امانت سے مراد امام علی ؑ کی ولایت اور امامت ہے۔ شیخ محمد بن یعقوب کلینی نے امام جعفر صادقؑ سے نقل کیا ہے: قَالَ هِيَ وَلَايَةُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع؛ اس آیت کو ذکر کرنے کے بعد امام صادقؑ فرماتے ہیں: امانت سے مراد امیر المومنینؑ کی ولایت ہے۔ نیز روایات میں وارد ہوا ہے کہ جو شخص اس امانت کا اہل نہیں اور اس نے اس کا نا حق دعوی کیا اس نے کفر کیا۔ پس اس کے مطابق امانت سے مراد ولایت اور امامت ہے اور انسان سے مراد وہ شخص ہے جو اس کا اہل نہیں تھا اور اس نے ناحق اس امانت و ولایت کے حقدار ہونے کا دعوی کیا۔ اسی لیے اس انسان کو ظالم و جاہل کہا گیا ہے۔ نیز معانی الاخبار میں اس آیت کے ذیل میں ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ امانت سے مراد ولایت اور جس انسان نے اس کو ناحق حمل کیا وہ ابو الشرور اور منافق ہے۔

ایک روایتِ مرسل میں وارد ہوا ہے کہ امام علیؑ کے سامنے جب نماز کا وقت داخل ہو جاتا آپؑ کانپنے لگ جاتے اور ان کے قدموں لڑکھڑاہٹ آ جاتی اور چہرے کا رنگ تبدیل ہو جاتا، ان سے کہا گیا: آپ کو کیا ہوا اے امیر المومنینؑ؟ امامؑ جواب میں فرماتے: نماز کا وقت آ گیا ہے، اس امانت کو اداء کرنے کا وقت آ گیا ہے جسے اللہ نے آسمانوں، زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کر دیا اور وہ اس سے ڈر گئے۔

← متعدد مفسرین کی آراء


صدرِ اسلام سے مختلف نامور صحابہ کرام و تابعین ایسے گزرے ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی تفسیر بیان کی ہے۔ مفسرین نے عہدِ رسالت کے قریب اقوال کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ کتب تفاسیر میں یہ اقوال نقل ہوئے۔ ماوردی نے ان تمام اقوال کو جمع کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کل پانچ اقوال بنتے ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱۔ امانت سے مراد اللہ تعالی کے اپنی اطاعت کا حکم دینا اور اپنی معصیت سے منع کرنا ہے۔ یہ ابو العالیۃ کا قول ہے۔
۲۔ امانت سے مراد وہ الہی قوانین اور شرعی احکام جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر واجب قرار دیئے ہیں، یہ معنی پہلے معنی کے قریب ہی ہے۔ یہ قول ابن عباس، مجاہد، حسن بصری اور سعید بن جبیر کا ہے۔
۳۔ امانت سے مراد مرد اور خواتین کا اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنا اور اس امانت کو شرعی طریقے سے انجام دینا ہے۔
۴۔ امانت سے مراد لوگوں کے درمیان امانتوں کی ادائیگی مراد ہے کہ امانتیں لینے کے بعد انصاف کے ساتھ واپس کرنی چاہیں۔ پس امانت میں خیانت مذموم عمل ہے۔
۵۔ امانت سے مراد خلقت کے وجود میں وہ ودیعت اور الہی عنایت ہے جو اللہ تعالی کی ربوبیت پر دلالت کرے اور یہ مخلوقات اللہ تعالی کی ربوبیت کو ظاہر کرے، چنانچہ تمام خلقت نے امانت کو ظاہر کیا لیکن انسان ہے جس نے اس امانت کا چھپایا اور اس کا انکار کیا۔ یہ بعض متکلمین نے کہا ہے۔

← آیت امانت علامہ طباطبائی کی نظر میں


علامہ طباطبائی نے امانت کا معنی یہ ذکر کیا ہے کہ ایک شیء جو کسی غیر کے پاس رکھوائی جائے تاکہ وہ غیر اس شیء کی حفاظت کرے، پھر اس شیء کو اس کی طرف لوٹا دے جس نے اس شیء کو رکھوایا تھا یعنی اصل مالک کو لوٹا دے۔ علامہ طباطبائی نے آیت کریمہ میں امانت کے معنی کو بیان کرنے کے لیے تفصیلی بحث کی ہے جس کو مرحلہ بہ مرحلہ تقسیم کر کے مختصر الفاظ میں پیش کیا جا رہا ہے:

←← امانت کے ظاہری معنی


آیت میں امانت سے مراد وہ شیء ہے جو اللہ نے انسان کے وجود میں عنایت فرمائی ہے تاکہ انسان اس کی حفاظت کرے اور اس کو صحیح و سالم رکھے اور پھر جیسی اللہ نے دی تھی اسی طرح اللہ کو وہ لوٹا دے۔ اس امانت کی بناء پر انسان دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں: ایک سعید و مومن کہلاتے ہیں اور دوسرے منافق و مشرک و شقی۔ یہ تقسیم امانت کو اٹھانے کی صورت میں سامنے آتی ہے جیساکہ اس سے اگلی آیت یعنی سورہ احزاب آیت ۷۳ میں منافقین کو عذاب دینے کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔ اس طرف توجہ رہے کہ تمام مفسرین متفق ہیں کہ اس امانت سے مراد مادی یا جسمانی امانت نہیں ہے بلکہ امانت سے مراد معنوی امانت ہے جو غیر مادی اور غیر جسمانی ہے۔ نیز امانت سے مراد امانتِ موضوعی نہیں ہے بلکہ امانتِ نوعی ہے۔ امانتِ نوعی سے مراد یہ ہے کہ اس امانت کو جو اٹھانے کی صلاحیت اور قابلیت رکھتا ہے اس کو ہر صورت میں یہ امانت اٹھانا پڑے گی۔ یہاں صرف امانت لینے دینے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ انسان کو ہر صورت میں یہ امانت کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ اس کو امانتِ نوعی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

←← آیت امانت کو سیاق سے سمجھنا


آیتِ امانت کو اس سے اگلی آیت کے ساتھ ملحق کر کے غور و فکر کریں تو معلوم ہو گا کہ انسان کے علاوہ کوئی مخلوق اس کو اٹھانے کی صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتی اور انسان اس کی بناء پر سعید و شقی قرار پاتا ہے۔ کیونکہ آیتِ امانت کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کو یہ امانت اللہ تعالی کی طرف سے سپرد کی گئی ہے اور اس امانت کی حفاظت یا خیانت کی بناء پر مومن و منافق، مسلم و مشرک، سعادت و شقاوت کی مختلف تفسیم ہمارے پاس آتی ہے۔ یہ عناوین آسمانوں، زمین و پہاڑ وغیرہ پر جاری نہیں ہوتے۔ آسمانوں اور زمین کو منافق و مشرک و شقی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ اللہ تعالی کے سامنے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تابع، مطیع اور مومن ہیں اور ایک ذرہ بھی اللہ تعالی کی مخالفت نہیں کر سکتے۔ نہ فکری مخالفت اور نہ عملی مخالفت۔ پس آسمانوں و زمین وغیرہ کو ظالم، جاہل، مشرک، منافق، شقی نہیں کہا جا سکتا۔ جبکہ آیتِ امانت اور اس کے بعد والی آیت بتاتی ہے کہ امانت کا بوجھ اٹھانے کی وجہ سے انسانوں میں منافقین و مشرکین ہوں گے جن پر اللہ تعالی عذاب نازل کرے گا۔

←← امانت سے مراد اور مختلف احتمالات


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہاں امانت سے مراد کیا ہے؟ علامہ طباطبائی نے چار احتمالات ذکر کیے ہیں:
۱۔ پہلا احتمال یہ ہے کہ امانت سے مراد عقیدہِ برحق اور اللہ تعالی کی واحدنیت ہے۔ یعنی اللہ تعالی کی توحید کا قائل ہونا۔
۲۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ امانت سے مراد دینِ الہی اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ قبول کرنا ہے۔ یعنی مجموعی طور تمام برحق عقائد اور وہ اعمال جن کی تفصیل دین نے بیان کی ہے کو قبول کیا کرنا امانتِ الہی کہلائے گی۔ فرق نہیں پڑتا کہ ان تفصیلی دینی معلومات پر عمل کیا جائے یا نہ کیا جائے۔
۳۔ تیسرا احتمال یہ ہے کہ امانت سے مراد دینِ حق کو عملی طور پر اختیار کرنا اور انسان کا پہلے دو احتمالات میں مذکور نکات سے تعلق قائم کر کے کمال حاصل کرنا ہے۔ یعنی انسان برحق عقائد کا معتقد ہو کر کمال حاصل کرے یا دین کے تفصیلی احکام کو اختیار کر کے کمال حاصل کرے۔
۴۔ امانت سے مراد وہ کمال ہے جو توحید کو قبول کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
۵۔ امانت سے مراد وہ کمال ہے جو دینِ حق کی نظریاتی اور فکری تعلیمات کو جاننے سے حاصل ہوتا ہے۔
۶۔ امانت سے مراد ولایتِ الہی ہے۔

←← پہلے پانچ احتمالات کا رد


۱۔ پہلے احتمال کا رد: اگر ہم دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ امانت سے مراد توحید اور برحق عقائد نہیں ہو سکتے کیونکہ آسمان و زمین و پہاڑ بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ سبحانہ کی وحدانیت کا اپنے وجود کی گہرائی کے ساتھ قائل ہے اور ہر وقت اللہ تعالی کی تسبیح میں مشغول ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: تُسَبِّحُ لَهُ السَّماواتُ السَّبْعُ وَ الْأَرْضُ وَ مَنْ فيهِنَّ وَ إِنْ مِنْ شَيْ‌ءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَ لكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبيحَهُمْ إِنَّهُ كانَ حَليماً غَفُورا؛ سات آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب اس کی تسبیح کر رہی ہیں اور کوئی شیء ایسی نہیں ہے مگر وہ اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بجا لاتی ہے لیکن تم لوگ ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں پاتے بے شک وہ حلیم غفور ہے۔ پس یہ آیت واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ تمام مخلوقات توحید پر ہیں اور اللہ تعالی کی اصلًا منکر نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے یہاں امانت سے مراد عقیدہِ توحید نہیں ہو سکتا کیونکہ آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ آسمانوں، زمین اور پہاڑوں نے امانت کو اٹھانے سے انکار کر دیا جبکہ امانت بمعنی توحید کو آسمان و زمین سب قبول کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے عملی طور پر تابع ہیں۔
۲۔ دوسرے احتمال کا رد: اسی طرح امانت سے مراد دینِ حق اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ قبول کرنا نہیں ہو سکتا کیونکہ جو شخص مومن نہیں ہے وہ دین کو تفصیل کے ساتھ نہیں اختیار کرتا جبکہ آیت واضح طور پر بیان کر رہی ہے کہ یہ امانت ہر انسان اٹھائے گا، چار ناچار انسان کو یہ امانت کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔
۳۔ تیسرے احتمال کا ردّ: تیسرا احتمال بھی درست نہیں ہے کیونکہ دین پر عمل سب کے سب انسان نہیں کرتے جبکہ امانت کا بوجھ سب کے سب انسانوں نے اٹھانا ہے۔ پس تیسرا احتمال بھی صحیح نہیں ہے کہ امانت سے مراد دینِ الہی کو عملی طور پر اختیار کر کے کمال حاصل کیا جائے۔ کیونکہ اگر یہ معنی ہم صحیح قرار دیں تو اس سے بہت سے انسان نکل جائیں گے جنہوں نے اصلًا اس نوع کا کمال حاصل نہیں کیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ انہوں نے امانت نہیں اٹھائی جبکہ قرآن کریم کی یہ آیت سب انسانوں کے وجود میں امانت کا بوجھ اٹھانے اور اس کو برداشت کرنے کی صراحت کر رہی ہے۔ پس امانت سے نہ وہ کمال مراد ہے جو توحید اختیار کرنے سے حاصل ہوتا ہے اور نہ وہ کمال مراد ہے جو دینِ حق کو اختیار کرنے اور اس کی معرفت حاصل کرنے سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ ایمان، منافقت اور شرک، شقاوت، سعادت کی تقسیم برحق عقائد اور شریعت کے احکام کو فقط جاننے کی بناء پر حاصل نہیں ہوتی بلکہ ان کو عملی طور پر اختیار کرنے یا نہ کرنے سے ان امور کا تعلق ہے۔
۴۔ چوتھا احتمال بھی قبول نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم کی آیت تصریح کر رہی ہے کہ امانت صرف انسان نے اٹھائی۔ اگر ہم امانت سے مراد توحید کی بناء پر حاصل ہونے والا کمال کریں تو یہ کمال تو آسمان و زمین و پہاڑ سب کو حاصل ہے۔ اس میں انسان ان سے جدا نہیں ہے۔ پس یہاں امانت سے یہ مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ آیت کے مطابق آسمان و زمین و پہاڑ نے امانت کو نہیں اٹھایا۔
۵۔ پانچواں احتمال بھی قبول نہیں ہے کیونکہ اگرچے دینِ حق کی نظریاتی و فکری تعلیمات کو قبول کرنا ایک نوعِ کمال ہے لیکن اس کمال کی بناء پر مومن و منافق اور مسلم و مشرک کی تقسیم نہیں ہوتی بلکہ دینِ اسلام کی نظریاتی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ان پر عمل کیا جائے تو یہ تقسیم سامنے آتی ہے۔ سیاقِ آیت سے واضح ہوتا ہت کہ انسان نے جب اس امانت کو اٹھایا تو انسان مومن اور منافق و مشرک میں تقسیم ہوا جبکہ صرف عقائد اور احکام کے جان لینے سے یہ تقسیم سامنے نہیں آتی۔

←← امانت سے مراد ولایت الہیہ


یہاں سے ہمارے پاس آخری احتمال رہ جاتا ہے اور وہ ولایتِ الہیہ ہے۔ امانت سے مراد حاصل ہونے والا وہ کمال ہے جو برحق عقائد اور عملِ صالح کو جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے بعد اس کو عملی طور پر اخیتار کرنے سے حاصل ہوتا ہے، اور اسی کمال کی راہ پر چلتے ہوئے انسانی وجود میں ترقی ہوتی ہے اور یہ ترقی انسان کو اوج اخلاص پر فائز ہونے پر ابھارتی ہے، ایسا اخلاص جس میں انسان فقط اللہ تعالی کے لیے عمل انجام دے اور اپنی ہر فکر اور ہر عمل کو اللہ کے غیر سے پاک کرے اور اس کو خالص کر کے اللہ تعالی کے لیے قرار دے۔ اس صورت میں اللہ تعالی اس کے امور کی تدبیر کرے گا اور یہی تدبیر اور سفرِ کمال ولایت الہیہ سے عبارت ہے۔
پس امانت سے مراد ولایتِ الہیہ ہے اور اس کو آسمانوں اور زمین وغیرہ پر پیش کرنے سے مراد اس امانت کی صلاحیت و استعداد کا فقط انسان کے پاس ہونا ہے اور بقیہ مخلوقات اس امانت یا ولایتِ الہیہ کو اٹھانے کی اصلًا صلاحیت و قابلیت ہی نہیں رکھتیں۔ آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے وہ اپنی تمام قوت و شدت و وسعت سمیت یہ قابلیت و صلاحیت نہیں رکھتے کہ امانتِ الہی کو اٹھا سکیں۔ صرف انسان وہ مخلوق ہے جو اپنے وجود میں یہ صلاحیت اور قابلیت رکھتا ہے کہ اس امانت کو اٹھا سکے۔ نیز آسمانوں اور زمین و پہاڑوں کا حوفزدہ اور گھبرا جانے اور انکار کرنے سے مراد اس کی قابلیت اور صلاحیت کا نہ ہونا ہے۔ یہ امانت سنگین، بھاری اور اہم ذمہ داری ہے جس کو ایک ظالم جاہل انسان اپنی غفلتوں، گناہوں اور جہالت کی بناء پر نظر انداز کر دیتا ہے اور اس سے ڈرتا اور گھبراتا نہیں ہے۔ یہ وجہ بنتی ہے کہ انسان کا وجودی طور پر اس امانت کو اٹھانے کے بعد اس کی حفاظت کرنے اور نہ کرنے کے اعتبار سے دو قسمیں سامنے آتی ہیں جس پر سورہ احزاب آیت ۷۳ دلالت کرتی ہے:
۱۔ وہ انسان جس کو یہ امانت سپرد کی گئی تو اس نے اس امانت کا حق ادا کیا اور اس کی حفاظت کی، یہ مومن و سعید کہلاتا ہے۔
۲۔ وہ انسان جس کو یہ امانت سپرد کی گئی تو اس نے خیانت کی اور اس امانت کی حفاظت نہیں کی، یہ منافق و مشرک و شقی کہلاتا ہے اور مستحقِ عذاب ہے۔

← آیت امانت شہید باقر الصدر کی نظر میں


شہید صدر نے موضوعی تفسیر کے ذیل میں معاشرے کی اساس و بنیاد کے موضوع پر طویل بحث کی ہے۔ شہید صدر نے انسانی معاشرے کی چار بنیادوں کو ذکر کیا ہے جن میں سے پہلا عنصر خود انسان ہے، دوسرا کائنات و طبیعت، تیسرا انسان اور کائنات کا باہمی تعلق اور ربط اور چوتھا عنصر استخلاف یعنی اللہ تعالی کا انسان کو کائنات میں خیلفہ بنانا ہے۔ شہید باقر الصدر کے نزدیک سورہ احزاب آیت ۷۲ میں امانت سے مراد اللہ تعالی کی طرف سے انسان کو عطا ہونے والی خلافت ہے اور اس خلافت سے مراد یہی چوتھا عنصر استخلاف ہے۔ اس مطلب کی تائید میں شہید صدر نے سورہ بقرۃ آیت ۳۰ سے استدلال قائم کیا ہے کہ اللہ تعالی نے جب انسان کو خلیفہ قرار دیا تو فرشتوں نے اس پر اعتراض کیا۔ اللہ سبحانہ کا فقط انسان کو خلیفہ قرار دینا واضح طور پر بتاتا ہے کہ فرشتوں اور دیگر مخلوقات میں اس مسئوولیت اور ذمہ داری اٹھانے کی اہلیت و صلاحیت و قابلیت موجود نہیں تھی۔ انسان وہ مخلوق ہے جو خلافت اور استخلاف کا حامل بن سکتا ہے۔ سورہ بقرہ آیت ۳۰ میں ذکر ہوا ہے کہ خلافت کی امانت فرشتے نہیں اٹھا سکتے فقط انسان اٹھا سکتے ہیں اور سورہ احزاب آیت ۷۲ میں بقیہ تمام مخلوقات کی نفی کی گئی ہے وہ اس امانت کا بار نہیں اٹھا سکتے۔

شہید باقر الصدر کے نزدیک آیت امانت میں امانت سے مراد استخلاف ہے۔ انسان نے عملی طور پر اس امانت کو قبول کیا اور اللہ تعالی نے یہ امانت انسان ک سپرد کی۔ اس امانت سے مراد فقط تکلیفِ شرعی یا امر و نہی کا طلب کرنا نہیں ہے کیونکہ آسمان و زمین و پہاڑ وغیرہ مکلف نہیں ہیں اور ان پر کسی قسم کی تکلیفِ شرعی نہیں ہے۔ بالفاظِ دیگر یہاں امانت پیش کرنے سے مراد عرضِ تشریعی نہیں ہے بلکہ عرضِ تکوینی ہے۔ اللہ تعالی نے تکوینی طور پر یہ امانت انسان کو سپرد کی اور انسان نے اپنے ارادہ اور اختیار سے نہیں بلکہ تکوینی طور پر اس امانت کو قبول کیا ۔ پس امانت کا پیش ہونا بھی تکوینی ہے اور قبول کرنا بھی تکوینی ہے۔ بقیہ مخلوقات اصلاً تکوینی اور وجودی طور پر یہ صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتے کہ اس امانت کو اٹھا سکیں۔ اسی کو قرآن کریم نے فطرت سے تعبیر کیا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. احزاب/سوره۳۳، آیت ۷۲۔    
۲. قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج ۲، ص ۱۹۸۔    
۳. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص ۳۶۴۔    
۴. شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضاؑ، ج ۲، ص ۲۷۴۔    
۵. شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، ص ۱۱۰۔    
۶. ابن ابی جمہور، محمد بن زین العابدین، عوالی اللئالی، ج ۱، ص ۳۲۴۔    
۷. حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج ۲، ص ۴۵۸۔    
۸. ماوردی، علی بن محمد بصری، النکت والعیون المعروف بتفسیر الماوردی، ج ۴، ص ۴۲۹۔    
۹. احزاب/سوره۳۳، آیت ۷۳۔    
۱۰. شہید مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، ج ۲۱، ص ۳۳۔    
۱۱. شہید مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، ج ۲۱، ص ۳۲۔    
۱۲. اسراء/سوره۱۷، آیت ۴۴۔    
۱۳. احزاب/سوره۳۳، آیت ۷۳۔    
۱۴. علامہ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج ۱۶، ص ۳۵۰۔    
۱۵. احزاب/سوره۳۳، آیت ۷۲۔    
۱۶. بقرة/سوره۲، آیت ۳۰۔    
۱۷. شہید صدر، سید محمد باقر الصدر، المدرسۃ القرآنیۃ، ص ۹۹۔    


مأخذ

[ترمیم]
یہ مقالہ ویکی فقہ اردو کی طرف سے تحریر کیا گیا ہے۔


اس صفحے کے زمرہ جات : امانت الہی | خلافت الہی | خلقت انسانی




جعبه ابزار