ابو بکر احمد بن محمد بن ابی دارم

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



ابن ابی دارم اہل سنت کے معروف محدث، حافظِ حدیث اور متعدد اکابر محدثین کے شیخ ہیں۔ علماء جرح و تعدیل نے شدت کے ساتھ ابن ابی دارم پر نقد کی ہے جس کی بنیادی وجہ ابن ابی دارم سے ایسے امور کا صادر ہونا ہے جو اہل بیتؑ کے حق میں جاتے ہیں اور ان سے خلیفہ اول اور خلیفہ دوم پر تنقید ہوتی ہے۔ علماءِ رجال نے حدیث میں محکم اور قوی ہونے کا اعتراف کیا ہے لیکن اہل بیتؑ کا شدت سے طرفدار ہونا ابن ابی دارم پر سب و شتم اور طعن و تشنیع کا باعث بن گیا۔


اجمالی تعارف

[ترمیم]

ابن ابی دارم کا نام احمد بن محمد السَّرِیّ بن یحیی بن السَّرِی ہے۔ آپ کی کنیت ابو بکر، تمیمی قبیلہ سے اور کوفہ کے رہنے والے ہیں۔ ابن ابی دارم کے نام سے معروف ہیں اور کوفہ میں اہل سنت کے معروف محدث شمار ہوتے ہیں۔ علماءِ جرح و تعدیل نے علم رجال کی اصطلاح میں انہیں شیعہ قرار دیا ہے۔ آپ نے محمد بن عبد اللہ مطین، ابراہیم بن عبد اللہ عبسی، موسی بن ہارون وغیرہ سے احادیث کسب کی ہیں اور آپ سے حاکم نیشاپوری، ابو بکر بن مردویہ، یحیی بن ابراہیم مزکی وغیرہ نے حدیث نقل کی ہیں۔ آپ احادیث کے حفظ کرنے اور اس کی جان پہچان میں معروف تھے۔ آپ کی وفات محرم الحرام کے مہینے میں ۳۵۲ ھ کو ہوئی۔ ذہبی نے اپنی دوسری کتاب میزان الاعتدال میں ابن ابی دارم کی تاریخ وفات ۳۵۷ ھ رقم کی ہے۔

ابن ابی دارم کا ۱۵۰ ہزار احادیث نقل کرنا

[ترمیم]

ابن ابی دارم کا تعلق اہل سنت محدثین سے ہے اور انہوں کی تمام زندگی اہل سنت حلقہ احباب میں گزری۔ شیعہِ علم رجال و حدیث میں کسی جگہ ابن ابی دارم کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ابن ابی دارم نے جن شخصیات سے احادیث نقل کی ہیں ان میں ایک اہم شخصیت محمد بن عبد اللہ بن سلیمان حضرمی متوفی ۲۹۷ھ جن کی وثاقت پر تمام اہل سنت کا اتفاق ہے۔ ابن ابی دارم خود کہتے ہیں میں نے حضرمی سے ۱۵۰ ہزار احادیث لکھی ہیں۔ امام حاکم نے اپنے شیخ متعدد احادیث اپنی کتاب المستدرک فی الصحیحین میں نقل کی ہیں۔

جناب فاطمہؑ کو لات مارنے اور جناب محسن کی شہادت کا اعتراف

[ترمیم]

ابن ابی دارم پر تنقید اور غیر ثقہ کہنے کی اصل وجہ ابن ابی دارم کا معتقد ہونا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے دختر رسولؐ جناب فاطمہ علیہا السلام کو شہید کیا اور ان کے بیٹے جناب محسن کو شکمِ مادر میں سقط کر دیا۔ اس بارے میں ذہبی نے تصریح کی ہے: وقال محمد بن أحمد بن حماد الكوفي الحافظ - بعد أن أرخ موته: كان مستقيم الأمر عامة دهره، ثم في آخر أيامه كان أكثر ما يقرأ عليه المثالب، حضرته ورجل يقرأ عليه: إن عمر رفس فاطمة حتى أسقطت بمحسن.؛ محمد بن احمد بن حمال کوفی حافظ نے ابن ابی دارم کی تاریخ وفات ذکر کرنے کے بعد کہا: ابن ابی دارم ایک طویل عرصہ سیدھی راہ پر رہا لیکن اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس کے سامنے صحابہ کے نقائص بیان کیے جاتے تھے، میں ایک مرتبہ ابن ابی دارم کے پاس حاضر ہوا، تو وہ ایک شخص اس کے سامنے اس طرح تذکرہ کر رہا تھا: عمر نے فاطمہ (علیہا السلام) کو لات ماری جس کی وجہ سے جناب محسن سقط کر گئے۔

آیت کریمہ میں فرعون سے مراد خلیفہ دوم کے ہونا کا اعتراف

[ترمیم]

ذہبی نے نقل کیا ہے کہ ابن ابی دارم کے سامنے سورۃ الحاقۃ آیت ۹ کی تلاوت کی گئی ہے اور اس میں فرعون سے مراد خلیفہ دوم کو لیا گیا۔ ذہبی نے اس کو اس طرح سے نقل کیا ہے: وفي خبر آخر في قوله تعالى: وجاء فرعون عمر وقبله أبو بكر والمؤتفكات عائشة وحفصة، فوافقته على ذلك؛ ایک اور خبر اس طرح ملی ہے کہ (سورہ حاقہ آیت ۹ میں) فرمانِ الہی ہے: (اور فرعون آیا) یعنی عمر، (اور اس سے پہلے بھی) یعنی ابو بکر، (اور مؤتفکات) یعنی عائشہ اور حفصہ ہیں۔ اس کے بعد میں نے توقف کیا اور اس کی احادیث کو ترک کر دیا۔

آذان میں حی علی خیر العمل کے جزء ہونے کا اعتراف

[ترمیم]

ابن ابی دارم نے حدیث نقل کی ہے جس کی وجہ سے وہ معتقد تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے آذان کے آخر میں حی علی خیر العمل کو قرار دیا ہے۔

فدک کے ہبہ ہونے کو معتبر سند سے بیان کرنا

[ترمیم]

ابن ابی دارم کے بڑے جرائم میں سے ایک جرم یہ ہے کہ معروف تاریخی حقیقت کہ رسول اللہؐ نے فدک جناب فاطمہ علیہا السلام کو ہبہ کر دیا۔ اس حقیقت کو اہل سنت کتب میں مخدوش کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے لیکن ابن ابی دارم نے قوی اور صحیح سند سے اس حدیث مبارک کو نقل کیا جسے امام حاکم نے اپنی کتاب فضائل فاطمہ الزہراءؑ میں نقل کیا ہے۔ اس حدیث کی سند میں آئمہ اہل بیتؑ موجود ہیں جس کا اختتام امام حسینؑ پر ہوتا ہے کہ امام حسینؑ فرماتے ہیں کہ جب سورہ اسراء آیت ۲۶ نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے فاطمہؑ کو بلایا اور انہیں فدک عطا کر دیا۔

حقائق کے اعتراف کے نتیجہ میں طعن و تشنیع

[ترمیم]

ابن ابی دارم کو ان حقائق کے اعتراف میں شدید لعن طعن اور سخت الفاظ میں جرح کو برداشت کرنا پڑا۔ جیساکہ ذہبی نے امام حاکم کی نظر یہ بیان کی ہے کہ ابن ابی دارم رافضی اور غیر ثقہ ہیں۔ ذہبی نے اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکم لگایا: شَيْخٌ ضالّ مُعَثَّر؛ گمراہ پراگندہ اعتبار سے گرا ہوا شیخ ہے۔ جبکہ دوسری جگہ ابن ابی دارم کو کذاب کہا ہے۔ ایک اور محقق نے تمام حدود پار کر دیں اور اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ابن ابی دارم حدیثیں گھڑنے والا کذاب خبیث ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن ابی دارم ایک عظیم شخصیت، فنِ حدیث میں حافظ اور معرفت شناس اور حقائق کا اعتراف کرنے والا وہ عظیم محدث ہے جس نے دنیا میں لعن طعن اور سب و شتم قبول کر لیا لیکن آخرت میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کے سامنے سرخرو ہو گیا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۱۲، ص ۱۲۶۔    
۲. ذہبی، محمد بن احمد، میزان الاعتدال، ج ۱، ص ۱۳۹۔    
۳. حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج ۴، ص ۵۱۱۔    
۴. حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۳۵۱۔    
۵. ذہبی، محمد بن احمد، میزان الاعتدال، ج ۱، ص ۱۳۹۔    
۶. ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۱۲، ص ۱۲۶۔    
۷. ذہبی، محمد بن احمد، میزان الاعتدال، ج ۱، ص ۱۳۹۔    
۸. حاکم نیشاپوری، فضائل فاطمہ الزہراءؑ، ص ۵۱، حدیث ۳۳۔    
۹. ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۱۲، ص ۱۲۶۔    
۱۰. ذہبی، محمد بن احمد، میزان الاعتدال، ج ۱، ص ۱۳۹۔    
۱۱. حاکم نیشاپوری، فضائل فاطمہ الزہراءؑ، ص ۵۱، حدیث ۳۳۔    


مأخذ

[ترمیم]

ویکی فقہ اردو سے مربوط گروہِ محققین کی جانب سے یہ مقالہ تحریر کیا گیا ہے۔






جعبه ابزار