اجزاء

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



اجزاء کا مطلب مأمور بہ اضطراری کا مأمور بہ اختیاری سے اور مأمور بہ ظاہری کا مأمور بہ واقعی سے کفایت کرنا ہے۔


اجزاء کی تعریف

[ترمیم]

امرِ واقعی ثانوی یا امرِ ظاہری کا امتثال اور بجاآوری اور اس کا امر واقعی اوّلی سے کفایت کرنا اجزاء کہلاتا ہے۔ اجزاء ایک اصولی بحث ہے اور اصول فقہ میں مباحث الفاظ اور بعض کے نزدیک مستقلات غیر عقلیہ میں اس سے بحث کی جاتی ہے۔

معنی

[ترمیم]

اہل لغت نے اِجزاء کے معانی میں سے ایک معنی اکتفا کرنا ذکر کیا ہے۔ علم اصول میں یہ کلمہ مأمور بہ اضطراری کا اختیاری سے اور مأمور بہ ظاہری کا واقعی سے کفایت کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ اس کا لازمہ اعادہ اور قضاء کا سقوط نکلتا ہے، مثلا اگر کوئی شخص ضرورت پڑنے پر تیمم کر کے نماز پڑھ لے تو اس کی یہ نماز کفایت کرے گی اور نماز کا وقت ختم ہونے کے بعد جب عذر برطرف ہو جائے تو وضو کر کے دوبارہ نماز ادا کرنا لازمی قرار نہیں پائے گا۔ البتہ اگر مکلف کے لیے ایسا مورد پیش آئے جس میں کچھ وقت ایسا ہے جس میں اختیاری عمل کی فرصت مہیا ہے اور کچھ وقت ایسا ہے جس میں اس کو اضطراری عمل انجام دینا پڑے گا، ایسے مورد پر اضطرار صدق نہیں کرے گا کیونکہ مکلف کے پاس آغازِ وقت سے آخرِ وقت کے اندر یہ فرصت مہیا رہی ہے جس میں وہ یہ قدرت اور طاقت رکھتا تھا کہ اپنے وظیفہ کو تمام شرائط اور اَجزاء کے ساتھ انجام دے سکے۔ اسی طرح اگر کوئی دورانِ سفر جہالت کی بناء پر پوری نماز پڑھ لے اور آخرِ وقت تک اسے علم نہ ہو کہ اس کا وظیفہ چار رکعتی نماز کو دو رکعت یعنی قصر کر کے ادا کرنا تھا تو یہی چار رکعتی نماز کامل اس کے لیے کفایت کرے گی۔

آیات میں داخل ہونے سے پہلے دو نکتوں کا تذکرہ ضروری ہے:
۱. بعض آیات میں اطلاقِ مقامی سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مولی مقامِ بیان میں ہے کہ مکلف کے وظیفہ کو ذکر کرے اور اس نے کسی قسم کی قید نہیں لگائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولی نے اس اضطراری تکلیف کو قبول کیا ہے اور اس کی انجام دہی پر راضی ہے۔ نیز مولی نے اس کے لیے کوئی اور دلیلِ خاص کے ذریعے سے کسی اور تکلیف کا ذکر بھی نہیں کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکلف کا یہ عمل مجزی ہے۔ جس اطلاق کو گذشتہ سطور میں بیان کیا گیا ہے وہ اطلاقِ لفظی کے برابر ہے۔ کیونکہ اگر متکلم سے ایک کلام صادر ہوتا ہے اور وہ اپنی غرض و مقصود کو ذکر کرنے کے مقامِ بیان میں ہے اور کسی قید کو اس نے ذکر نہیں کیا تو اس سے روشن ہو جائے گا کہ مذکورہ قید اس کی غرض میں کسی قسم کی داخلت نہیں رکھتی۔
۲. بعض نے استدلال کرتے کہا ہے کہ آیات کریمہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ مضطر کی نماز اختیار رکھنے والے کی نماز کی مانند ہے اور طبیعتِ نماز کے مصادیق میں سے ایک مصداق ہے۔ چنانچہ اس طبیعت کو انجام دینا اس کا تحقق کہلائے گا اور چار ناچار قہرًا امر ساقط ہو جائے گا۔

اجزاء کا مورد

[ترمیم]

مولی کی طرف سے امر کے صادر ہونے کی وجہ سے عائد ہونے والی تکلیف کو انجام دینا اس امر کا بجالانا اور امتثال کرنا شمار ہو ہو گا، فرق نہیں پڑتا وہ امر جسے بجالایا ہے وہ امرِ واقعی اوّلی ہے یا امر واقعی ثانوی، یا امر ظاہری۔ امر دو طرح کے ہیں:
۱۔ امر واقعی اختیاری، اسے امر واقعی اوّلی بھی کہا جاتا ہے۔
۲۔ امر واقعی اضطراری، اسے امر واقعی ثانوی بھی کہا جاتا ہے، یا امر ظاہری۔
اگر مکلف امرِ اضطراری یا امرِ ظاہری بجالائے اور پھر اضطرار ختم ہو جائے یا امر ظاہری کی صورت میں خطاء و اشتباہ کا شکار ہونا ظاہر ہو جائے تو اس صورت میں یہ مسئلہ پیش آتا ہے کہ آیا امر اضطراری یا امر ظاہری امرِ واقعی اوّلی سے مجزی ہو گا یا نہیں؟ حقیقت میں بحثِ اجزاء کی اساس و بنیاد تکالیف کا امر اضطراری یا ظاہری کے مطابق انجام پانا اور ان کا امرِ واقعی سے کفایت درمیان ملازمت کے ثابت ہونے پر ہے۔ اس مطلب کی مزید وضاحت کے لیے آئیے ان دو محوروں یعنی امر اضطراری اور امر ظاہری سے مختصر گفتگو کرتے ہیں:

امر اضطراری کی تعریف

[ترمیم]

یہ امر ضرورت و اضطرار کے مورد کے ساتھ مختص ہے، جیسے پانی نہ ہونے یا پانی سے کسی ضرر کا اندیشہ ہونے کی صورتی میں تیمم کا امر۔ فقہاء کے درمیان معروف ہے کہ امر واقعی ثانوی کا امتثال مطلق طور پر امر واقعی اوّلی سے کفایت کرتا ہے، مثلا اگر تیمم کا مورد پیش آ جائے اور اس کے ساتھ نماز پڑھی جائے، بعد میں عذر برطرف ہو جائے یا پانی تک رسائی حاصل ہو جائے تو ایسی صورت میں تیمم کے ساتھ پڑھی گئی نماز کا اعادہ یا اس کی قضاء کرنا ضروری نہیں۔

امر ظاہری کی تعریف

[ترمیم]

یہ امر اس وقت عائد ہوتا ہے جب حکم واقعی سے جاہل ہونے کی صورت میں وظیفہِ ظاہری کا عنوان مکلف پر عائد ہو، فرق نہیں پڑتا اس امرِ ظاہری کی دلیل امارہ ہو یا اصل۔ البتہ اس مورد میں اجزاء کی بحث تب مطرح ہو گی جب امر ظاہری کا امرِ واقعی کے مخالف ہونے کا علم یا تو قعطی طور پر ہو یا اس دلیلِ معتبر کے ذریعے جس کی حجیت شرعی طور پر ثابت ہے۔ ہر دو صورت میں امرِ ظاہری کا مضمون یا تو موضوعِ تکلیف کی تنقیح کی جہت سے ہو گا جیسے اجزاء، شرائط اور موانعِ تکلیف، یا اصلِ تکلیف کے اثبات کی جہت سے، جیسے نمازِ جمعہ کا وجوب۔
۱۔ پہلی صورت میں یا تو شبہہ موضوعیہ جاری ہو گا، مثلا کوئی شخص ایک عمل کو انجام دے کر فارغ ہو گیا اور اب اس عمل کے کسی جزء یا شرط بارے میں شک کرے تو ایسی صورت میں قاعدہ فراغ جاری ہو گا، یا شبہہ حکمیہ[[]] کو جاری کریں گے، جیسے نماز میں سورہ کے جزء ہونے پر حدیثِ رفع کا قیام۔ ان دونوں فرضوں میں آیا امر ظاہری کا امتثال امرِ واقعی سے کفایت کرتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، چاہے امرِ واقعی کی مخالف قطعی طور پر ہو یا حجتِ معتبر شرعی کے ذریعے سے۔ ہر دو صورت میں امرِ ظاہری کے کفایت کرنے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
۲۔ دوسری صورت میں اگر امر ظاہری کا امرِ واقعی کے مخالف ہونا قطعی طور پر ثابت ہو تو عدمِ اجزاء پر اجماع کا دعوی کیا گیا ہے۔ البتہ اگر امرِ واقعی کی مخالفت حجتِ معتبر شرعی کے ذریعے ہو تو امتثالِ امر ظاہری کے مجزی ہونے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ مجتہد کی رائے کے بدلنے میں اختلافِ نظر اسی مسئلہ کی طرف پلتٹا ہے۔ نیز مقلد کا ایک مجتہد کی تقلید سے دوسرے مجتہد کی طرف عدول کرنے کی صورت میں جب دوسرے مجتہد کی رائے پہلے مجتہد کے برخلاف ہو تو گذشتہ مجتہد کے مطابق انجام دیئے گئے اعمال کے مجزی ہونے اور دوسرے مجتہد کے مطابق اعمال کے مجزی ہونے کی بازگشت بھی اسی مسئلہ کی طرف ہے۔
[۱۱] خوئی، سید ابو القاسم، محاضرات فی اصول الفقہ، ج۲، ص۳۰-۱۱۰۔


اجزاء سے متعلق آیات

[ترمیم]

بعض اصولیوں نے اجزاء سے بحث کرتے ہوئے بعض آیات سے استفادہ کیا ہے۔

← وضو یا غسل کے بدلے تیمم کا مجزی ہونا


۱. يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرافِقِ ... وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا وَ إِنْ كُنْتُمْ مَرْضى‌ أَوْ عَلى‌ سَفَرٍ أَوْ جاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغائِطِ أَوْ لامَسْتُمُ النِّساءَ فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعيداً طَيِّبا؛ اے ایمان لانے والو! جب تم نماز کے لیے قیام کرو تو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو ... اور اگر حالت جنابت میں ہو تو طہارت حاصل کرو اور اگر تم مریض ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کر کے آئے یا تم نے خواتین کے ساتھ نزدیکی کی ہے اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرو۔
۲.... وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى‌ أَوْ عَلى‌ سَفَرٍ أَوْ جاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغائِطِ أَوْ لامَسْتُمُ النِّساءَ فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعيداً طَيِّباً ...؛ اور اگر تم مریض ہو یا سفر پر ہو یا خواتین سے نزدیکی اختیار کی ہے پھر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو۔ قرطبی اور صاحب المنار
[۱۷] رشيد رضا، محمد، تفسیر المنار، ج۵، ص۱۲۷- ۱۲۸۔
ان آیات میں بیان کرتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد نماز کا اعادہ لازمی نہیں ہے کیونکہ مکلف نے ابںے وظیفہ پر خود عمل کیا ہے۔

← بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز کا اختیاری کامل نماز سے مجزی ہونا


۱.الَّذينَ يَذكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وقُعودًا وعَلى‌ جُنوبِهِم ...؛ وہ لوگ جو کھڑے، اٹھتے بیٹھتے اور پہلوؤں کے بل لیٹے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔
۲. روایات میں وارد ہوا ہے کہ اللہ کے ذکر سے مراد نماز ہے۔
[۱۹] بروجردی، سید حسین، جامع‌ احاديث الشيعہ، ج۵، ص۲۸۰- ۲۸۱۔
فَإِذا قَضَيْتُمُ الصَّلاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَ قُعُوداً وَ عَلى‌ جُنُوبِكُمْ فَإِذَا اطْمَأْنَنْتُمْ فَأَقيمُوا الصَّلاة...؛ پس جب تم نماز ختم کر لو تو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں کے بل لیٹے اللہ کا ذکر کرو، پس نماز قائم کرو۔ طبری اور اکثر و بیشتر مفسرین اس آیت کو نماز کے بعد سے مربوط قرار دیتے ہیں۔ لیکن کتاب العلل میں محمد بن علی بن ابراہیم نے اذا قَضَيتُمُ الصَّلوةَ کی تفسیر نماز کے وجوب سے کی ہے۔ سید مرتضی نے اس مطلب کو رسالہ محکم و متشابہ میں نقل کیا ہے۔
[۲۳] بروجردی، سید حسین، جامع احاديث الشيعہ، ج۵، ص۲۸۳۔
نیز ابن مسعود سے نقل ہوا کہ فَاذكُروا اللَّهَ نماز کا ارادہ کرنے سے مربوط ہے۔ اس بناء پر یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جب میدانِ جنگ میں دشمن کے روبرو ہوں تو اس وقت نماز کھڑے، بیٹھے اور لیٹے پڑھی جا سکتی ہے۔

← حالتِ جنگ میں سوار کی یا کسی بھی مجبوری کے وقت نماز کا مجزی ہونا


حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَ الصَّلاةِ الْوُسْطى‌ وَ قُومُوا لِلَّهِ قانِتين‌ فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجالاً أَوْ رُكْباناً فَإِذا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَما عَلَّمَكُمْ؛ نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی اور خضوع و خشوع کے ساتھ اللہ کے لیے قیام کرو، پس اگر تمہیں (جنگ یا کسی خطرے کی بناء پر) خوف ہے تو چلتے یا سوار حالت میں اس کو انجام دو، پھر جب تم امان سے ہو تو اللہ کا اس طرح ذکر کرو جیساکہ اس نے تمہیں تعلیم دیا ہے۔ فریقین کے فتاوی کے مطابق اگر کوئی ان مذکورہ صورتوں میں نماز پڑھے تو وہ نماز مجزی ہو گی۔
[۲۸] صادقی، تہرانی، محمد، الفرقان في تفسير القرآن، ج۲- ۳، ص۱۳۷۔
اہل حجاز میں سے ماوردی اور فقہِ شافعی میں سے قرطبی
[۳۰] قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن (تفسير قرطبى)، ج۳، ص۱۴۶۔
نے نقل کیا ہے کہ چونکہ یہ تکلیف ایک عذر کی وجہ سے پیش آئی اس لیے اعادہ ساقط ہو گا۔

← حالتِ جنگ میں نماز خوف نماز اختیاری سے مجزی ہے


و اذَا كُنتَ فيهِم فَاقَمتَ لَهُمُ الصَّلوةَ فَلتَقُم طَافَةٌ مِن هُم مَعَكَ وليَأخُذوا اسلِحَتَهُم فَاذا سَجَدوا فَليَكونوا مِن وَراكُم ولتَأتِ طَافَةٌ اخرى‌ لَم يُصَلّوا فَليُصَلّوا مَعَكَ ...؛اور جب آپ ان میں ہوں اور آپ ان کے لیے نماز قائم کریں، تو آپ کے ہمراہ ایک گروہ کو چاہیے کہ وہ مسلحہ ہو کر آپ کے ساتھ نماز پڑھیں، جب وہ سجدہ کر چکیں (اور اپنی نماز ختم کر لیں) تو انہیں تمہارے پیچھے ہونا چاہیے (کہ اس جانب سے وہ نکل جائیں) اور دوسرا گروہ جس نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی وہ آگے بڑھے اور آپ کے ساتھ نماز ادا کرے۔

نماز خوف اختیاری حالت میں پڑھی جانے والی نماز سے فرق رکھتی ہے۔ آیت کریمہ میں اطلاق اجزاء پر دلالت کرتا ہے۔ اگرچے نماز خوف کی کیفیت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ آیات کریمہ خاص موارد کو بیان کر رہی ہیں جن میں سے بعض آیات سے اجزاء کا استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

← تکلیف اضطراری سے مجزی ہونا


اگر ہم خاص موارد سے قطع نظر کریں تو بعض آیات دکھائی دیں گی جو عمومی طور پر اضطراری تکالیف کی طرف اشارہ کرتی ہیں: ... فَمَنِ اضطُرَّ غَيرَ باغٍ ولا عادٍ فَلَا اثمَ عَلَيهِ ...؛ پس اگر کوئی مجبوری میں گھیرا جائے نہ کہ سرکشی اور نہ ہی دشمنی کی وجہ سے ایسا کرے تو اس پر کوئی گناہ نہین ہے۔ امام صادقؑ اس آیت کریمہ کو نماز پر تطبیق فرماتے ہیں۔
ممکن ہے کہ ہم ان آیات سے اجزاء کا استفادہ کریں جن میں تکالیف شرعیہ میں تخفیف اور آسانی کے ہونے کو بیان کیا گیا ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے: ... يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسرَ ولا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ ...؛ اللہ تمہارے پر آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے پر سخت نہیں چاہتا۔ اگر ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ اضطرار کے دور ہو جانے کے بعد اعادہ اور قضاء ضروری ہے تو یہ آیت میں موجود مصلحت یعنی آسانی کے خلاف ہے۔

فہرست مصادر

[ترمیم]

۱.اصول الفقہ، مظفر؛
۲.بحارالانوار؛
۳.تفسير المنار؛
۴.جامع احاديث الشيعۃ؛
۵.جامع‌ البيان عن تأويل آى القرآن؛
۶.الجامع لاحكام القرآن، قرطبى؛ الكافى؛
۷.كفايۃ الاصول؛
۸.مجمع‌ البيان فى تفسير القرآن؛
۹.محاضرات فى اصول الفقہ؛
۱۰.مواہب الرحمن فى تفسير القرآن، سبزوارى؛
۱۱.النكت والعيون، ماوردى؛
۱۲.نہايۃ الاصول؛
۱۳.النہايۃ فى غريب الحديث والاثر.

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن‌ اثیر، مجد الدین، النہایۃ، ج۱، ص۲۶۶۔    
۲. آخوند خراسانی، محمد کاظم، کفایۃ الاصول، ج۱، ص۸۲-۸۴۔    
۳. خوئی، سید ابو القاسم، محاضرات فی الاصول، ج۲، ص ۲۲۲۔    
۴. خوئی، سید ابو القاسم، محاضرات فی الاصول، ج ۲، ص ۲۴۰۔    
۵. آخوند خراسانی، محمد کاظم، کفایۃ الاصول، ج۱، ص۸۵۔    
۶. خوئی، سید ابو القاسم، محاضرات فی الاصول، ج ۲، ص ۲۲۲۔    
۷. بروجردی، سید حسین، نہایۃ الاصول، ج۱، ص۱۱۶۔    
۸. مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، ج۱، ص ۲۲۳-۲۳۵۔    
۹. سبحانی، جعفر، الموجز فی اصول الفقہ، ج۱، ص۷۰-۷۷۔    
۱۰. مکارم شیرازی، ناصر، انوار الاصول، ج۱، ص۳۳۲-۳۳۴۔    
۱۱. خوئی، سید ابو القاسم، محاضرات فی اصول الفقہ، ج۲، ص۳۰-۱۱۰۔
۱۲. خوئی، سید ابو القاسم، محاضرات فی اصول الفقہ، ج۲، ص ۲۴۲۔    
۱۳. مظفر، محمد رضا، اصول‌ الفقہ، ج۲، ص ۳۰۵۔    
۱۴. مائده/سوره۵، آیت ۶۔    
۱۵. نساء/سوره۴، آیت ۴۳۔    
۱۶. قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن (تفسیر قرطبی)، ج۵، ص۲۱۹۔    
۱۷. رشيد رضا، محمد، تفسیر المنار، ج۵، ص۱۲۷- ۱۲۸۔
۱۸. آل‌ عمران/سوره۳، آیت ۱۹۱۔    
۱۹. بروجردی، سید حسین، جامع‌ احاديث الشيعہ، ج۵، ص۲۸۰- ۲۸۱۔
۲۰. نساء/سوره۴، آیت ۱۰۳۔    
۲۱. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع‌ البیان، ج۳، ص۱۵۸۔    
۲۲. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۸۲، ص ۲۹۹۔    
۲۳. بروجردی، سید حسین، جامع احاديث الشيعہ، ج۵، ص۲۸۳۔
۲۴. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع‌ البیان، ج۳، ص۱۵۸۔    
۲۵. بقره/سوره۲، آیت ۲۳۸- ۲۳۹۔    
۲۶. طبری، محمد بن‌ جریر، جامع‌ البیان، ج۵، ص۲۳۷۔    
۲۷. سبزواری، سید عبد الاعلی، مواہب الرحمن، ج۴، ص۹۶۔    
۲۸. صادقی، تہرانی، محمد، الفرقان في تفسير القرآن، ج۲- ۳، ص۱۳۷۔
۲۹. ماوردی، علی بن محمد، تفسیر ماوردی، ج۱، ص۳۱۰۔    
۳۰. قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن (تفسير قرطبى)، ج۳، ص۱۴۶۔
۳۱. نساء/سوره۴، آیت ۱۰۲۔    
۳۲. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع‌ البیان، ج ۳، ص ۱۵۶۔    
۳۳. بقره/سوره۲، آیت ۱۷۳۔    
۳۴. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۳، ص۴۱۰۔    
۳۵. بقره/سوره۲، آیت ۱۸۵۔    
۳۶. مظفر، محمد رضا، اصول‌ الفقہ، ج۱، ص۲۲۷۔    


مأخذ

[ترمیم]
کتاب «فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام» جلد۱ صفحہ ۲۴۸_۲۴۹؛ تالیف شده توسط جمعی از پژوهشگران زیر نظر سید محمود هاشمی شاهرودی۔
دائرة المعارف قرآن کریم، مقالہِ إجزاء سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : اجزاء | اصولی اصطلاحات | فقہی اصطلاحات




جعبه ابزار