اسم فاعل کی وضع

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



الفاظ کو اس لیے ایجاد کرنا تاکہ وہ اسم فاعل کے معنی پر دلالت کرے اصطلاح میں اسم فاعل کی وضع کہلاتا ہے۔ اس كے مقابلے میں اسم مفعول آتا ہے۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

اگر کوئی اسم فعل معلوم سے مشتق ہو اور اس چیز یا فرد پر دلالت کرے جس سے فعل سرزد ہوا ہے اور انجام پایا ہے، اس کو اسم فاعل کہا جاتا ہے۔ فعل جس شیء سے یا جس کسی سے انجام پایا ہے تو اسم فاعل کی صورت میں فعل کی نسبت اس شیء یا شخص کی طرف دی جائے گی۔ جرجانی نے اپنی کتاب التعریفات میں اسم فاعل کی درج ذیل تعریف درج کی ہے: اسم الفاعل ما اشتق مِن یفعل لمن قام به الفعل بمعنی الحدوث؛ اسم فاعل وہ ہوتا ہے جسے فعل مضارع معلوم یفعل سے مشتق کیا جائے، اس کے لیے جس نے فعل کو انجام دیا ہے، حدوث یعنی رونما اور واقع کرنے کے معنی میں۔ اس تعریف میں جرجانی نے وضاحت کی ہے کہ اسم فاعل فعل مضارع معلوم سے بنایا جاتا ہے اور فعل کی انجام دہی کو بیان کرتا ہے، یعنی فعل کے حادث اور واقع ہونے کو بیان کرتا ہے۔ تعریف میں حدوث کہہ کر ثبوت اور ثابت صفت کو خارج کیا گیا ہے جوکہ صفت مشبہ میں پائی جاتی ہے۔ پس اسم فاعل میں حدوث اور صفت مشبہ میں ثبوت پر دلالت ہوتی ہے۔

اسم فاعل کے وضع کی اقسام

[ترمیم]

دیگر مشتقات کی مانند اسم فاعل کی بھی دو وضع ہیں:
۱. مادہ کی وضع: مثلا ضارب اسم فاعل ہے، اس میں مادہ ض-ر-ب ہے جسے اسم فاعل کے اصلی حروف کہا جا سکتا ہے۔
۲ ہیئت کی وضع: اسم فاعل خاص وزن پر آتا ہے، اس وزن کو ہیئت سے تعبیر کیا جاتا ہے، ہیئت یعنی صورت اور وزنِ اسم فاعل، مثلا کلمہِ ناصر فاعل کے وزن پر آ رہا ہے۔ یہ وزن ہیئت فاعل کہلائے گی۔
ہیئت اسم فاعل کو اس لیے وضع کیا گیا ہے تاکہ یہ ہیئت اس بات پر دلالت کرے کہ یہ فعل اس فاعل سے صادر ہوا ہے اور انجام پایا ہے۔ یعنی ہیئت اسم فاعل کا معنی اور موضوع لہ فعل اور فاعل کے درمیان نسبتِ صدوری کا ہے۔

اسم فاعل کی وضع نوعی ہے

[ترمیم]

علم اصول میں اسم فاعل اور اسم مفعول کی ہیئت سے بالخصوص دو مقامات پر بحث کی جاتی ہے:
۱) مشتق کی بحث میں اسم فاعل کی ہیئت سے بحث کی جاتی ہے۔
۲) مباحث الفاظ میں مفردات اور مرکبات کی وضع سے بحث کرتے ہوئے اسم فاعل کو زیر بحث لایا ہے۔
اصولیوں نے مفردات و مرکبات کی ہیئات کی وضع کے ذیل میں بیان کیا ہے کہ واضع جب لفظ کو معنی کے لیے وضع کرتا ہے تو وہ لفظ کا بھی تصور کرتا ہے اور معنی کا بھی تصور کرتا ہے۔ پس وضع کرنے کا عمل جس طرح معنی کے تصور پر موقوف ہے اسی طرح لفظ کے تصور پر بھی موقوف ہے۔ واضع جب لفظ کا تصور کرتا ہے تو اس کو دو طرح سے تصور کرتا ہے:
۱) یا تو وہ بذاتِ خود لفظ کو تصور کرے گا ، یعنی ایک لفظ معین کو ایک معنی معین کے لیے ایجاد کرے گا۔ اس کو وضع شخصی کہتے ہیں، جیسے اسماء اجناس۔
۲) یا وہ بذاتِ خود لفظ کو تصور نہیں کرتا بلکہ ایک جامع عنوان کو تصور کرتا ہے اور اس عنوان کے ذریعے معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی واضع معنی کے لیے لفظ کی بجائے ایک ہیئت کو وضع کرتا ہے اور اس ہیئت کے ذریعے معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ عنوانِ جامع سے مراد یہی ہیئت ہے، اس کو اصطلاح میں وضعِ نوعی کہا جاتا ہے، مثلا اسم فاعل، کہ اسم فاعل کی ہیئت اور وزن تمام اسماءِ فاعل میں محفوظ رہتا ہے اور اس کے ذریعے فعل کا فاعل سے صادر ہونے پر دلالت مراد لی جاتی ہے۔ پس اسم فاعل کی ہیئت کی وضع نوعی ہے جو تمام اسماءِ فاعلی میں محفوظ رہتی ہے اور یہ ابنے خاص وزن سے پہچانی جاتی ہے۔
[۷] اشرفی، سید حسن، نہایۃ الایصال شرح فارسی اصول فقہ، ج ۱، ص ۱۷۹، ناشر: قدس، قم، اولی، ۱۴۲۷ھ ۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. جرجانی، محمد بن علی، کتاب التعریفات، ص۱۱۔    
۲. خوئی، ابو القاسم، محاضرات فی اصول الفقہ، ج۱، ص ۲۴۰-۲۳۹۔    
۳. اشکنانی، محمد حسین، خلاصۃ الحلقۃ الثانیۃ، ج ۱، ص ۵۶۔    
۴. شہید صدر، سید محمد باقر، دروس فی علم الاصول، ج ۱، ص ۱۸۸۔    
۵. مکارم شیرازی، ناصر، انوار الاصول، ج ۱، ص ۸۰۔    
۶. لنکرانی، محمد فاضل، ایضاح الکفایۃ، ج ۱، ص ۷۲۔    
۷. اشرفی، سید حسن، نہایۃ الایصال شرح فارسی اصول فقہ، ج ۱، ص ۱۷۹، ناشر: قدس، قم، اولی، ۱۴۲۷ھ ۔


مأخذ

[ترمیم]
فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، برگرفتہ از مقالہ وضع اسم فاعل۔






جعبه ابزار