امام علی نقیؑ کی امامت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



امام ہادیؑ کی ولادت ماہ ذی الحج سنہ ۲۱۲ہجری کو مدینہ کے اطراف میں واقع مقام صریا میں ہوئی۔
[۱] اعلام الوری، طبرسی، ج۱، ص۳۲۷، امین الاسلام، فضل بن حسن، مؤسسة آل البیت لاحیاء التراث، قم، ۱۴۱۷ھ۔
آپؑ کو ۴۱ برس کے سن میں بمطابق ماہ ماہ رجب سنہ ۲۵۴ کو سامرا میں عباسی خلیفہ معتز باللّه، نے زہر دے کر شہید کر دیا۔
[۵] تذکرة الخواص، ابن جوزی، ج۱، ص۳۶۳، یوسف شمس الدین، مؤسسه أهل البیت، بیروت، ۱۴۰۱ھ۔
[۶] مروج الذهب، مسعودی، ج۴، ص۸۶، علی بن الحسین، قم۔
[۷] مناقب آل ابوطالب، ابن شهرآشوب، سید بن محمد،ج۲، ص۴۴۲، مکتبة العلمیة، قم، بی تا۔
آپؑ کی والدہ گرامی کا اسم مبارک حضرت سمانہ ہے اور کلینیؒ کی نقل کے مطابق سوسن تھا۔


امام ہادیؑ کی امامت پر دلائل

[ترمیم]

امام ہادیؑ اپنے والد بزرگوار کی سنہ ۲۲۰ہجری میں شہادت کے بعد آٹھ برس کے سن میں امامت کے منصب پر فائز ہوئے اور آپ کی مدتِ امامت ۳۳ سال ہے۔
[۹] کشف الغمه، اربلی، ج۳، ص۱۶۹، ابوالحسن علی بن عیسی، دارالأضواء، بیروت، بی تا۔

بارہ آئمہؑ کی امامت پر دلالت کرنے والی نصوص کے علاوہ امام ہادیؑ کی امامت کے دیگر دلائل درج ذیل ہیں:

← امام جوادؑ کی وصیت


۱. امام ہادیؑ کی امامت پر اہم ترین دلیل آپ کے والد بزرگوار امام جوادؑ کی تصریح اور وصیت ہے۔ کلینیؒ اور مفیدؒ نے وہ روایات ذکر کی ہیں کہ جن میں امام ہادیؑ کی امامت کی تصریح کی گئی ہے۔
ان میں سے ایک روایت اسماعیل بن مہران سے منقول ہے جس میں انہوں نے کہا: جب امام جوادؑ پہلی مرتبہ مدینہ سے بغداد جا رہے تھے تو میں نے ان کے باہر نکلتے وقت عرض کیا: میں آپ پر قربان! جس سفر پر آپؑ جا رہے ہیں، مجھے اس پر تشویش ہے، آپؑ کے بعد امامت کا امر کس کی طرف منتقل ہو گا؟! حضرتؑ نے تبسم فرماتے ہوئے میری طرف دیکھ کر فرمایا: جو تم خیال کر رہے ہو، وہ اس سال نہیں ہے، جب معتصم نے دوسری مرتبہ طلب کیا، تو میں خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپؑ کے بعد امامت کس کی ہے؟! حضرتؑ نے فرمایا: میرے بعد امامت میرے بیٹے علی کی ہے۔ «الأمر من بعدی إلی ابنی علی»۔
[۱۳] کشف الغمه، اربلی، ج۳، ص۱۶۹، ابوالحسن علی بن عیسی، دارالأضواء، بیروت، بی تا۔


← پیغمبرؐ سے منقول نصوص


۲. پیغمبر اکرمؐ سے منقول خاص نصوص میں سے عظیم صحابی حضرت سلمانؓ کی حدیث میں امام ہادیؑ کی امامت کی طرف واضح و روشن انداز سے اشارہ کیا گیا ہے۔
[۱۴] کفایة الأثر، قمی، ج۱، ص۴۲، ابوالقاسم علی بن محمد، قم، بیدار، ۱۴۰۱ھ۔
[۱۵] غایة المرام، ج۱، ص۲۴۳۔


← اہل تشیّع کا اجماع


۳. ابن شہرآشوب ، امین الاسلام طبرسی ، ابوالفتح اربلی نے امام ہادیؑ کی امامت پر شیعوں کے اجماع کو آپؑ کی امامت کے صحیح ہونے پر انتہائی مضبوط اور ناقابل تردید دلیل قرار دیا ہے۔
[۱۶] مناقب آل ابوطالب، ابن شهرآشوب، سید بن محمد، ج۲، ص۴۰۲، مکتبة العلمیة، قم، بی تا۔
[۱۷] اعلام الوری، طبرسی، امین الاسلام، فضل بن حسن،ص۳۵۷، مؤسسة آل البیت لاحیاء التراث، قم، ۱۴۱۷ھ۔
[۱۸] کشف الغمه، اربلی، ج۳، ص۱۹۱، ابوالحسن علی بن عیسی، دارالأضواء، بیروت، بی تا۔


← امام جوادؑ کے بعد امامت کا انحصار


۴. امام ہادیؑ کیلئے وراثت و جانشینی کا انحصاربھی ایک دلیل ہے؛ کیونکہ امام جوادؑ کے دو بیٹے علی الھادی اور موسیٰ مبرقع تھے۔ موسیٰ نے کبھی امامت کا دعویٰ نہیں کیا اور جو لوگ ان کی امامت کی طرف مائل تھے، انہیں بھی دھتکار دیا۔
[۲۰] المقالات والفرق، اشعری، ج۱، ص۹۹، سعد بن عبداللّه ابوخلف، مرکز انتشارات علمی فرهنگی، ۱۳۶۰، دار الهجرة۔
تو اس طرح امامت، امام ہادیؑ میں منحصر ہو جاتی ہے۔

← امام ہادیؑ کی کرامت


۵. معجزات اور فوق العادۃ امور آپؑ سے منقول ہیں۔ شیخ مفیدؒ اور ابن شہر آشوب نے مختلف طرق سے متعدد روایات اس حوالے سے نقل کی ہیں۔
[۲۲] مناقب آل ابوطالب، ابن شهرآشوب، سید بن محمد،ج۴، ص۲۰۳ـ ۲۱۲، مکتبة العلمیة، قم، بی تا۔


منابع کی فہرست

[ترمیم]

• اعلام الوری، طبرسی، امین الاسلام، فضل بن حسن، مؤسسة آل البیت لاحیاء التراث، قم، ۱۴۱۷ھ۔
• الارشاد، مفید، محمد بن نعمان، انتشارات علمیه اسلامیه، تهران، بی تا.
• الاصول من الکافی، کلینی، محمد بن یعقوب، دار الصعب، بیروت، ۱۴۰۱ ھ۔
• تذکرة الخواص، ابن جوزی، یوسف شمس الدین، مؤسسه أهل البیت، بیروت، ۱۴۰۱ ھ۔
• کشف الغمه، اربلی، ابوالحسن علی بن عیسی، دارالأضواء، بیروت، بی تا۔
• کفایة الأثر، قمی، ابوالقاسم علی بن محمد، قم، بیدار، ۱۴۰۱ ھ۔
• المقالات والفرق، اشعری، سعد بن عبداللّه ابوخلف، مرکز انتشارات علمی فرهنگی، ۱۳۶۰، دار الهجرة۔
• مروج الذهب، مسعودی، علی بن الحسین، قم۔
• مناقب آل ابوطالب، ابن شهرآشوب، سید بن محمد، مکتبة العلمیة، قم، بی تا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. اعلام الوری، طبرسی، ج۱، ص۳۲۷، امین الاسلام، فضل بن حسن، مؤسسة آل البیت لاحیاء التراث، قم، ۱۴۱۷ھ۔
۲. الارشاد، مفید، ج۲، ص۲۸۵، محمد بن نعمان، انتشارات علمیه اسلامیه، تهران، بی تا۔    
۳. الاصول من الکافی، کلینی، ج۱، ص۴۹۷، محمد بن یعقوب، دار الصعب، بیروت، ۱۴۰۱ھ۔    
۴. الاصول من الکافی، کلینی، ج۱، ص۴۹۸، محمد بن یعقوب، دار الصعب، بیروت، ۱۴۰۱ھ۔    
۵. تذکرة الخواص، ابن جوزی، ج۱، ص۳۶۳، یوسف شمس الدین، مؤسسه أهل البیت، بیروت، ۱۴۰۱ھ۔
۶. مروج الذهب، مسعودی، ج۴، ص۸۶، علی بن الحسین، قم۔
۷. مناقب آل ابوطالب، ابن شهرآشوب، سید بن محمد،ج۲، ص۴۴۲، مکتبة العلمیة، قم، بی تا۔
۸. الاصول من الکافی، کلینی، ج۱، ص۴۹۷، محمد بن یعقوب، دار الصعب، بیروت، ۱۴۰۱ھ۔    
۹. کشف الغمه، اربلی، ج۳، ص۱۶۹، ابوالحسن علی بن عیسی، دارالأضواء، بیروت، بی تا۔
۱۰. الاصول من الکافی، کلینی، ج۱، ص۳۲۴، محمد بن یعقوب، دار الصعب، بیروت، ۱۴۰۱ھ۔    
۱۱. الارشاد، مفید، ج۲، ص۲۹۸، محمد بن نعمان، انتشارات علمیه اسلامیه، تهران، بی تا۔    
۱۲. الارشاد، مفید، ج۲، ص۲۸۶، محمد بن نعمان، انتشارات علمیه اسلامیه، تهران، بی تا۔    
۱۳. کشف الغمه، اربلی، ج۳، ص۱۶۹، ابوالحسن علی بن عیسی، دارالأضواء، بیروت، بی تا۔
۱۴. کفایة الأثر، قمی، ج۱، ص۴۲، ابوالقاسم علی بن محمد، قم، بیدار، ۱۴۰۱ھ۔
۱۵. غایة المرام، ج۱، ص۲۴۳۔
۱۶. مناقب آل ابوطالب، ابن شهرآشوب، سید بن محمد، ج۲، ص۴۰۲، مکتبة العلمیة، قم، بی تا۔
۱۷. اعلام الوری، طبرسی، امین الاسلام، فضل بن حسن،ص۳۵۷، مؤسسة آل البیت لاحیاء التراث، قم، ۱۴۱۷ھ۔
۱۸. کشف الغمه، اربلی، ج۳، ص۱۹۱، ابوالحسن علی بن عیسی، دارالأضواء، بیروت، بی تا۔
۱۹. الارشاد، مفید، ج۲، ص۲۸۵، محمد بن نعمان، انتشارات علمیه اسلامیه، تهران، بی تا۔    
۲۰. المقالات والفرق، اشعری، ج۱، ص۹۹، سعد بن عبداللّه ابوخلف، مرکز انتشارات علمی فرهنگی، ۱۳۶۰، دار الهجرة۔
۲۱. الارشاد، مفید، ج۲، ص۲۸۹ ۲۹۵، محمد بن نعمان، انتشارات علمیه اسلامیه، تهران، بی تا۔    
۲۲. مناقب آل ابوطالب، ابن شهرآشوب، سید بن محمد،ج۴، ص۲۰۳ـ ۲۱۲، مکتبة العلمیة، قم، بی تا۔


ماخذ

[ترمیم]

دانشنامه کلام اسلامی، مؤسسه امام صادق(ع)، ماخوذ از مقالہ «امامت امام هادی (علیه السلام)»، شماره ۸۱    






جعبه ابزار