امکان عام

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



امکانِ عام ایک منطفی اور فلسفی اصطلاح ہے جس کا مطلب مخالف طرف سے ضرورت کو سلب کرنا ہے۔


امکان عام علم منطق میں

[ترمیم]

علم منطق میں قضایا کی بحث میں قضیہ کو کم اور کیف کی جہت سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ کیفِ قضیہ میں مخالف طرف سے ضرورت کو سلب کرنے کو امکانِ عام کہتے ہیں۔

← منطقی پہلو سے وضاحت


امکانِ عام میں جہات اور موادِ قضایا کے اعتبار سے قضیہ کی مخالف جانب سے ضرورت کو سلب کیا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کے مطابق جب یہ کہا جاتا ہے کہ انسان ممکن ہے تو اس کا معنی یہ بنے گا کہ انسان سے وجود کو سلب کرنا ضروری نہیں ہے، یعنی قضیہ کی مخالف جانب ضروری نہیں ہے۔ بالفاظِ دیگر وجودِ انسان ممتنع نہیں ہے۔ البتہ یہ بیان نہیں کیا جا رہا ہے کہ انسان کے لیے وجود کا ثابت کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ یعنی آیا قضیہ کی موافق جانب کو ثابت کرنا ضروری ہے؟ اس بارے میں دونوں احتمال دیئے جا سکتے ہیں۔ خلاصہِ کلام یہ کہ قضیہِ موجبہ میں امکانِ عام فقط امتناع کی نفی کرتا ہے، جبکہ امکان کو وجود کو نہ ثابت کرتا ہے اور نہ اس کی نفی و سلب کرتا ہے۔ اس اعتبار سے امکانِ عام وجوب کے ساتھ بھی جمع ہو سکتا ہے اور وجوب اس کا مصداق قرار پا سکتا ہے۔
[۶] شہاب‌ الدین سہروردی، یحیی بن حبش، منطق التلویحات، ص ۲۸۔


←← امکان عام کا وجوب کے ساتھ جمع ہونا


امکانِ عام کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ امکانِ خاص کے علاوہ وجوبِ ذاتی کے ساتھ بھی جمع ہو جاتا ہے؛ مثلا: اللہ ممکن ہے، اس مثال میں ممکن سے مراد امکانِ عام لیں تو مثال درست ہے کیونکہ امکانِ عام قضیہ کی مخالف جانب کے ضروری ہونے کو سلب کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اللہ ممتنع الوجود نہیں ہے اور امتناع اس کے لیے ضروری نہیں ہے۔ امکانِ خاص کی جانب سے مثلا ہم کہتے ہیں: انسان ممکن ہے۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ انسان کا ممتنع ہونا ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ہم قضیہ سالبہ بناتے ہوئے امکانِ عام کی جہت سے دیکھیں تو کہا جائے گا کہ انسان کا وجود ضروری اور واجب نہیں ہے۔ اس صورت میں امتناع نہ اس کے لیے ثابت کیا جا رہا ہے اور نہ اس کی نفی کی جا رہی ہے۔

←← امکان عام کا امتناع کے ساتھ جمع ہونا


اسی طرح سے امکانِ عام ممتنع کے ساتھ بھی جمع ہو جاتا ہے، مثلا: شریک باری تعالی ممکن ہے کہ موجود نہ ہو۔ یہاں امکانِ عام کے اعتبار سے صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ شریک باری تعالی کا موجود ہونا ضروری نہیں ہے۔ نیز قضیہ سالبہ کی جہت سے یہ امکان خاص کے ساتھ سازگار ہے، مثلا انسان ممکن ہے کہ موجود نہ ہو۔ ان دونوں قضیہ کے دو معنی سامنے آتے ہیں:
۱۔ شریک باری تعالی اور انسان کا وجود ضروری و واجب نہیں ہے۔
۲۔ امکانِ عام دونوں قضایا میں یہ بیان نہیں کر رہا ہے کہ آیا یہ ممتنع ہے یا نہیں۔
[۸] ابوالبركات ابن‌ملكا، ہبۃ اللہ بن علي، الکتاب المعتبر فی الحکمۃ، ص۸۰۔



←← امکان عام کا وجوب، امتناع و امکان خاص سے اعم ہونا


یہاں سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہر وہ مورد جہاں جہاں امکانِ خاص صدق کرتا ہے وہاں امکانِ عام بھی صدق کرتا ہے۔ اس کا برعکس درست نہیں کیونکہ بعض موارد میں امکانِ عام صدق کرتا ہے لیکن امکانِ خاص وہاں صدق نہیں کرتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امکانِ عام کا دائرہ وسیع تر ہے اور وہ امکانِ خاص سے اعم ہے۔ اس کو امکانِ عام کہنے کی ایک وجہ اس کا اعم ہونا ہے ۔ نیز عرفِ عام میں عموما عوام الناس امکان کہہ کر یہی اصطلاح یہی امکانِ عام مراد لیتی ہے، مثلا جب عوامی طور پر کہا جاتا ہے: ممکن ہے کہ روح وجود رکھتی ہو تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ روح کا وجود محال نہیں ہے اور نہ روح ممنتع الوجود ہے۔ لیکن کیا اس کا وجود واجب ہے یا نہیں اس بارے میں وہ کچھ ثابت نہیں کرنا چاہ رہے بلکہ طرفِ مخالف سے ضرورت کو سلب کر رہے ہیں۔ اس کو عامۃ الناس کی طرف نسبت کی وجہ سے امکانِ عامی بھی کہا جاتا ہے۔
[۱۲] قطب‌الدین رازی، محمد بن‌ محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، ص۲۹۔
[۱۳] مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۱۷۱۔
[۱۴] خوانساری، محمد، منطق صوری، ص۶۶۔


امکان عام فلسفی و کلامی جہت سے

[ترمیم]

فلاسفہ نے امکان کا جائزہ سلبِ ضرورت اور لازمہ کے اعتبار سے لیا ہے۔ حکماء کے نزدیک امکانِ عام سے مراد طرفِ مخالف کی ضرورت کو سلب کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں امکانِ خاص آتا ہے جس کا مطلب سلب الضرورتین ہے۔ اس اعتبار سے امکانِ عام سے مراد طرفِ مخالف کے ضروری اور لازمی ہونے کو سلب کرنا اور اس کی نفی کرنا ہے۔ چنانچہ امکانِ عام میں اگر عدم کے ضروری ہونے کو سلب کیا جائے تو اس کا مصداق واجب بھی قرار با سکتا ہے اور ممکن الوجود بھی۔ اسی طرح اگر امکانِ عام مصداق کے لحاظ سے امکانِ خاص اور امتناعِ ذاتی ہر دو سے اعم تر ہے، چنانچہ جب عدم کے مقابل وجود کے ضروری ہونے کو سلب کیا جائے تو اس کا مصداق ممکن الوجود بھی قرار پائے گا اور ممتنع الوجود بھی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن‌سینا، حسین بن عبد اللہ، الاشارات و التنبیہات، ص ۲۶۔    
۲. ابن‌ سینا، حسین بن عبد اللہ، دانش‌ نامہ علائی، ص ۴۴۔    
۳. مظفر، محمد رضا، المنطق، ص۱۷۰۔    
۴. ابن‌سینا، حسین بن عبد اللہ، النجاة، ص ۵۰۔    
۵. علامہ حلی، حسن بن یوسف، الجوہر النضید، ص۶۲-۶۳۔    
۶. شہاب‌ الدین سہروردی، یحیی بن حبش، منطق التلویحات، ص ۲۸۔
۷. مظفر، محمد رضا، المنطق، ص۱۷۱۔    
۸. ابوالبركات ابن‌ملكا، ہبۃ اللہ بن علي، الکتاب المعتبر فی الحکمۃ، ص۸۰۔
۹. تفتازانی، عبد الله بن شہاب‌ الدین، الحاشیۃ علی تہذیب المنطق، ص۲۹۲۔    
۱۰. ابن‌سینا، حسین بن عبد اللہ، النجاة، ص۵۱۔    
۱۱. خواجہ نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد، اساس الاقتباس، ص۱۳۷۔    
۱۲. قطب‌الدین رازی، محمد بن‌ محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، ص۲۹۔
۱۳. مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۱۷۱۔
۱۴. خوانساری، محمد، منطق صوری، ص۶۶۔
۱۵. علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص ۴۵۴۔    
۱۶. سبزواری، ملا ہادی، شرح المنظومۃ، ج۲، ص۲۵۶۔    


مأخذ

[ترمیم]

پایگاه مدیریت اطلاعات علوم اسلامی، برگرفتہ از مقالہ امکان عام، تاریخ لنک:۱۳۹۵/۱۱/۱۲۔    






جعبه ابزار