تکلیف مشکوک

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



تکلیفِ مشکوک کا اطلاق اس تکلیف محتمل پر ہوتا ہے جس کے وجود اور عدم کا احتمال مساوی ہو۔


اصطلاح کی تعریف

[ترمیم]

تکلیفِ مشکوک کے مقابلے میں تکلیف مظنون اور موہوم آتا ہے۔ تکلیفِ محتمل کی اقسام میں سے ایک تکلیفِ مشکوک ہے جس سے مراد مکلف کا اصلِ تکلیف کے بارے میں شک کرنا ہے اور مکلف کے پاس تکلیف کے ہونے یا نہ ہونے پر کسی قسم کی کوئی دلیل وجود نہیں رکھتی، مثلا اسلامی مہنیے کی پہلی تاریخ کو جب چاند دیکھا جاتا ہے تو اس وقت شک کرے کہ آیا چاند دکھائی دینے کی صورت میں دعا پڑھنا واجب ہے یا واجب نہیں؟ یا سیگریٹ پینے کی حرمت یا عدم حرمت میں شک کرنا۔

اصولی اور اخباریوں کے مختلف نظریات

[ترمیم]

اصلِ تکلیف میں شک کے موارد میں اکثر و بیشتر اصولی قائل ہیں کہ سب سے پہلے دلیل جس سے شک برطرف ہو جائے کی خوب تلاش و جستجو کی جائے گی۔ جب دلیل کے ملنے سے ناامید ہو جایا جائے تو اصل عملی کی طرف رجوع کیا جائے گا اور برائت سے تمسک کریں گے۔ ان کے مقابلے میں علماءِ اخباری قائل ہیں کہ شبہ وجوبی کے مورد میں احتیاط اور شبہ تحریمی کے مورد میں براءت سے تمسک کیا جائے گا۔

اخوند خراسانی اپنی کتاب کفایۃ الاصول میں بیان کرتے ہیں: لو شک فی وجوب شی ء او حرمته و لم تنهض حجة علیه، جاز شرعا و عقلا ترک الاول و فعل الثانی؛ اگر کسی شیء کے وجوب یا اس کی حرمت میں شک کیا جائے اور اس پر کوئی حجت موجود نہ ہو تو شرعی و عقلی طور پر پہلے کو ترک کرنا اور دوسرے کو انجام دینا جائز ہے۔
[۲] محمدی، علی، شرح اصول فقہ، ج۴، ص ۳۰-۲۹۔
[۳] مختاری مازندرانی، محمد حسین، فرہنگ اصطلاحات اصولی، ص۲۱۹۔
[۴] فاضل لنکرانی، محمد، کفایۃ الاصول، ج۴، ص۴۳۹۔


مربوط عناوین

[ترمیم]

تکلیف محتمل۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. آخوند خراسانی، محمد کاظم بن حسین، کفایۃ الاصول، ص۳۳۸۔    
۲. محمدی، علی، شرح اصول فقہ، ج۴، ص ۳۰-۲۹۔
۳. مختاری مازندرانی، محمد حسین، فرہنگ اصطلاحات اصولی، ص۲۱۹۔
۴. فاضل لنکرانی، محمد، کفایۃ الاصول، ج۴، ص۴۳۹۔
۵. صدر، محمد باقر، دروس فی علم الاصول، ج۳، ص۳۸۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۳۵۹، مقالہِ تکلیف مشکوک سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    






جعبه ابزار