دال

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



علم منطق کی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح دَالٌّ ہے جس کا معنی ایک شیء کا کسی دوسری شیء پر دلالت کرنا ہے۔


دَالٌّ کا معنی

[ترمیم]

لغت میں لفظِ دَالٌّ اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے حروفِ اصلی د - ل - ل ہیں۔ اس کا لغوی معنی شیء کو کسی علامت کے ذریعے ظاہر و آشکار کرنے اور رہنمائی کرنے کے ہیں۔ ہر وہ چیز جو کسی شیء کے جاننے کا سبب بنے اس کو دلالت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پس دَالّ کا مطلب رہنمائی کرنے یا راہ کو ظاہر و آشکار کرنے کے ہیں۔

اصطلاحی طور پر دالٌّ سے مراد ایک شیء کا جاننا دوسری شیء کے علم کا باعث بننا ہے، فرق نہیں پڑتا یہ لفظ ہو یا طبعِ انسانی ہو یا عقلِ انسانی، مثلا: دھواں آگ کے وجود پر دالّ ہے، چہرے کی سرخی خوف یا شرمندگی یا بخار پر دالّ ہے، قدموں کے نشان کسی گزرنے والے پر دلالت کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہم لفظِ انسان بول کر حیوان ناطق مراد لیتے ہیں۔ یہاں پر لفظِ انسان دالٌّ ہے اور حیوانِ ناطق مدلولٌ کہلائے گا۔

اس پناء پر کہا جا سکتا ہے کہ دالٌّ کا مطلب دلالت کرنے، رہنمائی کرنے اور ظاہر و آشکار کرنے والے کے ہیں۔ وہ چیز جس کا علم ہونے کی وجہ سے دوسری شیء کا علم ہو جائے تو پہلی شیء کو دالّ کہیں گے اور دوسری کو مدلول، مثلا اگر سرخی دیکھ بخار کا علم ہوتا ہے تو سرخی دالٌّ کہلائے گی جبکہ بخار مَدۡلُولٌ، اسی طرح قدموں کے نشان دیکھ کر گزرنے والے کا علم ہوتا ہے تو قدموں کے نشان دالٌّ کہلائیں گے اور گزرنے والے کا علم ہونا مَدۡلُولٌ کہلائے گا۔

اہم نکتہ

[ترمیم]

بعض منطقیوں نے دلالت کی تقسیم دلالتِ لفظی اور دلالتِ غیر لفظی کی ہے اور دالٌّ کو تقسیم کا ملاک قرار دیا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں: دالّ اگر لفظ ہو تو دلالتِ لفظی کہلائے گی اور اگر دالٌّ غیر لفظ ہو تو دلالت غیر لفظی کہلائے گی۔ کتابِ منطق میں مذکور ہے: کُلُّ شَیۡءٍ إِذَا عَلِمۡتَ بِوُجُودِهِ، فَیَنۡتَقِل ذِهۡنُکَ مِنۡهُ إِلِی وُجودِ شِیۡءٍ آخر نُسَمِّیهِ دَالاًّ؛ ہر وہ شیء جس کے وجود کا آپ کو علم ہو جائے تو آپ کا ذہن اس سے کسی دوسر شیء کی طرف منتقل ہو جائے تو اس کو دال کہیں گے۔
[۴] قطب الدین رازی، محمد بن محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، ص۲۸۔
[۵] خوانساری، محمد، منطق صوری، جزء۱، ص۵۷۔
[۷] مجتہدخراسانی(شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۱۷۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۲، ص ۲۵۹۔    
۲. راغب اصفہانی، حسین، المفردات فی غریب القرآن، ص ۱۷۱۔    
۳. مظفر، محمد رضا، المنطق، ص ۴۰۔    
۴. قطب الدین رازی، محمد بن محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، ص۲۸۔
۵. خوانساری، محمد، منطق صوری، جزء۱، ص۵۷۔
۶. طوسی، نصیر الدین، اساس الاقتباس، ص۶۲۔    
۷. مجتہدخراسانی(شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۱۷۔


مأخذ

[ترمیم]

پایگاه مدیریت اطلاعات علوم اسلامی، مقالہِ دال سے یہ تحریر لی گئی ہے، مشاہدہ کرنے کی تاریخ:۱۳۹۵/۱۰/۲۶۔    

رده:منطق رده:دلالت رده:اصطلاحات منطقی





جعبه ابزار