دلالت اشارہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



دلالتِ اشارہ سے مراد متکلم کے کلام کے وہ لوازم ہیں جو مقصود و مراد نہیں ہوتے۔ دلالتِ اشارہ کو نص، دلالتِ التزامی عقلی، دلالتِ ایماء اور دلالت معنوی بھی کہا جاتا ہے۔


دلالتِ اشارہ کی وضاحت

[ترمیم]

دلالتِ اشاہ کا شمار دلالتِ سیاقی کی اقسام میں ہوتا ہے۔ بالفاظِ دیگر وہ دلالت جو کلام کا لازمہ ہے لیکن اس کے باوجود کلام کا مدلولِ التزامی نہیں۔

لازمہ کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں: ۱۔ لازمہ بیّن ، ۲۔ لازمہِ غیر بیّن۔ پھر لازمہِ بیّن کی دو قسمیں کی جاتی ہیں:
۱۔ لازمہ بیّن بمعنی اخصّ
۲۔ لازم بیّن بمعنی اعمّ
کلام کا لازمہ اگر لازمہِ بیّن بمعنی اعمّ ہو تو عرفِ عام کی نظر میں یہ متکلم کا مقصود و مراد شمار نہیں ہوتا۔ کلام کے اسی لازمہِ بیّن بمعنی اعم کو دلالتِ اشارہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ فرق نہیں پڑتا یہ لازمہ ایک کلام سے استنباط کیا جائے یا چند کلاموں سے، مثلا سورہ احقاف میں خاتون کے حاملہ ہونے کی مدت اور دودھ پلانے کی مدت کا بیان وارد ہوا ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے: وَحَمْلُهُ وَفِصالُهُ ثَلاثُونَ شَهْرا؛ اور اس کو حمل رکھنے اور اس کو دودھ پلانے کی مدت تیس (۳۰) مہینے ہیں۔ حالانکہ سورہ لقمان میں دوسری آیت بیان کرتی ہے: وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ؛ اور مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔ ان دو آیات پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ سورہ احقاف میں حمل اور دودھ پلانے کی مجموعی مدت تیس (۳۰) مہینے بیان کی گئی ہے جبکہ سورہ بقرہ میں دو سال دودھ پلانے کا حکم وارد ہوا ہے۔ ان دونوں آیات کو اگر باہمی طور پر جوڑا جائے تو کہا جائے گا کہ یہ دو آیات میں دلالتِ اشارہ پائی جاتی ہے، لہذا آیت میں حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ذکر ہوئی ہے۔ پس اگر ہم حمل کے لیے چھ ماہ قرار دے دیں تو دونوں آیات کے مضامین ایک دوسرے کی تائید کریں گے۔
[۷] شرح اصول فقہ، محمدی، علی، ج ۱، ص ۲۹۵۔
[۸] اصول الفقہ الاسلامی، زحیلی، وہبہ، ج ۱، ص ۳۶۱۔
[۹] مفاتیح الاصول، مجاہد، محمد بن علی، ص ۱۳۔
[۱۰] مبانی استنباط حقوق اسلامی یااصول فقہ، محمدی، ابو الحسن، ص ۶۸۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. اجود التقریرات، نائینی، محمد حسین، ج ۱، ص ۴۱۴۔    
۲. اصطلاحات الاصول، مشکینی، علی، ص ۱۳۳۔    
۳. الاصول العامۃ للفقہ المقارن، طباطبائی حکیم، محمد تقی، ص ۳۱۸۔    
۴. احقاف/سوره۴۶،آیت ۱۵۔    
۵. بقره/سوره۲،آیت ۲۳۳۔    
۶. اصول الفقہ، مظفر، محمد رضا، ج ۱، ص ۱۳۴۔    
۷. شرح اصول فقہ، محمدی، علی، ج ۱، ص ۲۹۵۔
۸. اصول الفقہ الاسلامی، زحیلی، وہبہ، ج ۱، ص ۳۶۱۔
۹. مفاتیح الاصول، مجاہد، محمد بن علی، ص ۱۳۔
۱۰. مبانی استنباط حقوق اسلامی یااصول فقہ، محمدی، ابو الحسن، ص ۶۸۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص ۴۵۶، مقالہِ دلالت اشارہ سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    






جعبه ابزار