دلالت تصدیقی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



دلالت تصدیقی سے مراد لفظ کا مرادِ متکلم پر دلالت کرنا ہے۔ اس دلالت کو دلالتِ تصدیقی نفسی اور دلالتِ نفسی بھی کہا جاتا ہے۔


دلالتِ تصدیقی کی تعریف

[ترمیم]

لفظ کا متکلم کے معنیِ مراد پر دلالت کرنا دلالت تصدیقی کہلاتا ہے۔ دلالتِ تصدیقی کے مقابلے میں دلالت تصوری آتا ہے۔ دلالتِ تصوری میں لفظ کی اپنے معنیِ لغوی و وضعی پر دلالت ہوتی ہے جبکہ دلالتِ تصدیقی میں لفظ کی مرادِ متکلم پر دلالت ہوتی ہے۔ مرادِ متکلم اس معنی کو کہتے ہیں جو معنی متکلم نے لفظ بول کر بیان کرنا چاہا ہے۔ متکلم لفظ بول کر کبھی اس لفظ کے لغوی معنی جسے مدلولِ تصوری کہا جاتا ہے مراد لیتا ہے اور کبھی مدلولِ تصوری سے ہٹ کر معنی مراد لیتا ہے۔ چنانچہ متکلم کے کلام میں ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ متکلم نے لفظ بول کر کونسا معنی مراد لیا ہے۔ متکلم کا معنی بیان کرنے کی غرض اور ارادہ سے لفظ کو استعمال کرنا دلالتِ تصدیقی کہلاتا ہے۔ دلالتِ تصدیقی کا علم متکلم کی حالت اور سیاقِ کلام سے معلوم ہوتا ہے۔

دلالت تصدیقی کی اقسام

[ترمیم]

دلالتِ تصدیقی میں متکلم لفظ کے ذریعے معنی کو مخاطب کے ذہن تک پہنچانا چاہتا ہے۔ دلالتِ تصدیقی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک متکلم کا ارادہ اور قصد شامل نہ ہو۔ اس کے برخلاف دلالتِ تصوری میں ارادہ کے بغیر بھی لفظ کی معنی پر دلالت ہو جاتی ہے۔ دلالت تصدیقی ہمیشہ ارادہ کے ہمراہ ہوتی ہے۔ اس طور پر ہمارے پاس دلالت کی دو صورتیں سامنے آتی ہیں:
۱۔ دلالتِ تصدیقی اوّلی: اس سے مراد متکلم کا اس ارادہ اور غرض سے لفظ کا استعمال کرنا ہے کہ وہ لفظ کے ذریعے معنی سامع کے ذہن تک پہنچائے۔ متکلم کے ارادہ کرنے کو ارادہ استعمالیہ کہا جاتا ہے اور جس معنی کو اس نے قصد کیا ہے اس کو مرادِ متکلم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر ارادہ علت ہے اور اس کا معلول استعمالِ لفظ ہے، پھر استعمالِ لفظ علت بنتا ہے اور اس کا معلول دلالت ہے۔
۲۔ دلالتِ تقدیقی ثانوی: اس سے مراد جدّیت اور سنجیدگی ہے یعنی جب متکلم معنی پہنچانے کی غرض اور ارادہ سے لفظ کو استعمال کرے تو وہ مذاق کے موڈ میں نہ ہو اور نہ شوخی کے عالم میں ہو۔
[۹] فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ولائی، عیسی، ص۲۰۵۔
[۱۲] سیری کامل در اصول فقہ، فاضل لنکرانی، محمد، ج۱۰، ص۲۲۲۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. المعجم الاصولی، حیدر، محمد صنقور علی، ص۵۹۰۔    
۲. ایضاح الکفایۃ، فاضل لنکرانی، محمد، ج۱، ص۹۶۔    
۳. تہذیب الاصول، سبزواری، عبد الاعلی، ج۱، ص ۲۴۔    
۴. دروس فی علم الاصول، صدر، محمد باقر، ج۱، ص ۲۰۷۔    
۵. محاضرات فی اصول الفقہ، خوئی، ابو القاسم، ج۱، ص۱۰۳۔    
۶. اجود التقریرات، نائینی، محمد حسین، ج۱، ص۴۴۸۔    
۷. اصطلاحات الاصول، مشکینی، علی، ص۱۳۲۔    
۸. اجود التقریرات، نائینی، محمد حسین، ج۱، ص۵۳۰۔    
۹. فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ولائی، عیسی، ص۲۰۵۔
۱۰. کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم، تہانوی، محمد علی بن علی، ج۱، ص۴۸۶۔    
۱۱. تلخیص الاصول، ملکی، حبیب الله، ص۱۶۵۔    
۱۲. سیری کامل در اصول فقہ، فاضل لنکرانی، محمد، ج۱۰، ص۲۲۲۔
۱۳. ایضاح الکفایۃ، فاضل لنکرانی، محمد، ج۱، ص۹۶۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۴۵۷، برگرفتہ از مقالہ دلالت تصدیقی۔    






جعبه ابزار