دلالت منطوقی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



لفظ کی براہ راست اپنے معنی پر دلالت دلالتِ منطوقی کہلاتی ہے۔


دلالتِ منطوقی کا معنی

[ترمیم]

دلالتِ لفظی کی اقسام میں سے ایک دلالتِ منطوقی ہے جس کے مقابلے میں دلالتِ مفہومی آتی ہے۔ اس سے مراد لفظ اور کلام کی براہ راست معنی پر دلالت ہے، جیسے إِذَا كَانَ الْمَاءُ قَدْرَ كُرٍّ لَمْ‌ يُنَجِّسْهُ‌ شَيْ‌ء؛ جب پانی کُر کی مقدار تک پہنچ جائے تو (نجس) شیء اس کو نجس نہیں کرتی۔ پس اگر پانی کُر کی مقدار تک ہو تو وہ نجاست کے ملنے سے نجس نہیں ہوتا ہے۔

دلالتِ منطوقی کا دلالتِ مطابقی کو شامل ہونا

[ترمیم]

علماء اصول متفقہ طور پر قائل ہیں کہ دلالتِ منطوقی دلالتِ مطابقی کو شامل ہے۔ اس مسئلہ میں اصولیوں کے درمیان اختلاف نہیں پایا جاتا۔ البتہ دلالتِ تضمنی کے اعتبار سے اختلاف پایا جاتا ہے، اس طور پر کہ آیا دلالتِ منطوقی دلالتِ تضمنی کو شامل ہے یا نہیں؟ یہاں یہ بحث کی جاتی ہے کہ آیا منطوق دلالت کی صفت ہے یا مدلول کی صفت ہے؟ علماء میں اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض علماء قائل ہیں کہ منطوق مدلول کی صفت ہے جیساکہ آیت اللہ بروجردی، آمدی، جوینی اور متعدد علماءِ اہل سنت قائل ہیں۔ اسی وجہ سے یہ بزرگان قائل ہیں کہ منطوق کا دلالت کی صفت بالعرض ہے۔

ان کے مقابلے میں دیگر بزرگان مثل ابن حاجب معتقد ہیں کہ منطوق دلالت کی صفت ہے۔ اسی لیے ان نظریے کے حامل علماء نے دلالتِ منطوقی کی یہ تعریف کی ہے: مَا دَلَّ عَلَیۡهِ اللَّفۡظُ فِی مَحَلِّ النُّطۡقِ ..... سواء ذُکِرَ الۡحُکۡمُ وَنُطِقَ بِهِ أَمۡ لَا؛ محلِ نطق میں لفظ جس پر دلالت کرے، چاہے حکم مذکور ہو اور اس کو بیان کیا گیا ہو یا ایسا نہ ہو۔ بعض دیگر قائل ہیں کہ منطوق یا مفہوم کا دلالت سے متصف ہونا یا مدلول کے ساتھ متصف ہونا اعتباری ہے اور اس جہت سے یہ ایک امرِ اضافی ہے۔
[۲] اصول الفقہ، زہیر المالکی، محمد ابو النور، ج۲، ص۹۳۔
[۷] تہذیب الاصول، سبزواری، عبد الاعلی، ج۱، ص۱۰۵۔
[۸] تہذیب الاصول، سبزواری، عبد الاعلی، ج۱، ص۱۱۷۔
[۹] فرہنگ معارف اسلامی، سجادی، جعفر، ج ۴، ص ۳۹۳-۳۹۴۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. الکافی، کلینی، محمد بن یعقوب، ج ۲، ص ۳۔    
۲. اصول الفقہ، زہیر المالکی، محمد ابو النور، ج۲، ص۹۳۔
۳. اصول الفقہ، مظفر، محمد رضا، ج۱، ص۱۱۱۔    
۴. ء مناہج الوصول الی علم الاصول، خمینی، روح الله، ج۲، ص۱۷۸۔    
۵. محاضرات فی اصول الفقہ، أخری خوئی، ابو القاسم، ج۵، ص۱۴۴۔    
۶. نہایۃ الاصول، بروجردی، سید حسین، ص۲۸۲۔    
۷. تہذیب الاصول، سبزواری، عبد الاعلی، ج۱، ص۱۰۵۔
۸. تہذیب الاصول، سبزواری، عبد الاعلی، ج۱، ص۱۱۷۔
۹. فرہنگ معارف اسلامی، سجادی، جعفر، ج ۴، ص ۳۹۳-۳۹۴۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص ۴۶۱، مقالہِ دلالت منطوقی سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    






جعبه ابزار