دوران بین اقل و اکثر

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



دَوَران بین اقل و اکثر اصول فقہ کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب تکلیفِ معلوم کا تعلق جس سے ہے اس میں تردید کا ہونا ہے۔ اقل اور اکثر کی نسبت سے دو مصداق کے مابین تردد کا ہونا اقل و اکثر کے درمیان تردد کہلاتا ہے۔


دوران بین اقل و اکثر کی وضاحت

[ترمیم]

دوران بین اقل و اکثر کے مقابلے میں دوران بین متباینین آتا ہے۔ مجموعہِ افعال یا اجزاء و شرائط جو باہمی طور پر مشترک ہیں ان میں اگر ایک امر الزامی طور پر اضافہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں شک ہو تو دوران بین اقل و اکثر کہلاتا ہے۔ پس اس کا دیگر افعال یا اجزاء و شرائط میں دو امر میں سے کسی ایک کے زائد اور بیشتر ہونے سے اس کا تعلق ہے۔

علم اجمالی سے مقرون شبہ کا ایک مورد دوران بین اقل و اکثر

[ترمیم]

علم اجمالی سے مقرون شبہہ کے موارد میں سے ایک مورد دوران بین اقل و اکثر ہے۔ اس مورد میں اصلِ تکلیف اجمالی طور پر معلوم ہے لیکن مکلف بہ میں تردید پائی جاتی ہے۔ پس اصلِ تکلیف کا علم ہے لیکن اس تکلیف کا تعلق جس کے ساتھ ہے اس میں تردید پائی جاتی ہے۔ مثلا: مکلف کو علم ہے کہ نماز اس پر واجب ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ نماز سورہ کے ساتھ واجب ہے یا بدونِ سورہ؟ پس مکلف کو نماز کے نو (۹) اجزاء کے وجوب میں شک نہیں ہے بلکہ دسویں جزء یعنی سورہ میں شک ہے کہ آیا سورہ کا پڑھنا واجب ہے یا نہیں؟ اسی کی مانند دوسری مثال یہ ہے کہ ایک شخص کو یہ معلوم ہے کہ وہ فلاں شخص کا مقروض و مدیون ہے اور اس نے ایک رقم اس کو ادا کرنا ہے، لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ رقم ایک ہزار روپے ہے یا دو ہزار روبے۔ اس کو دوران بین اقل و اکثر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس میں بدونِ سورہ اقل اور بمع سورہ اکثر کہلائے گا۔ اسی طرح ایک ہزار روپے اقل اور دو ہزار روپے اکثر کہلائیں گے۔ دوران بین اقل و اکثر کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ اقل و اکثر ارتباطی
۲۔ اقل و اکثر استقلالی، اس کو اقل و اکثر غیر ارتباطی بھی کہتے ہیں

مربوط عناوین

[ترمیم]

اقل و اکثر؛ دوران بین اقل و اکثر ارتباطی؛ دوران بین اقل و اکثر استقلالی۔
[۲] تحریر الفصول، ذہنی تہرانی، محمدجواد، ج ۵،۶، ص ۶۲۰۔
[۳] شرح رسائل، محمدی، علی، ج ۴، ص ۵۔
[۴] فیض، علی رضا، مبادی فقہ و اصول، ص ۱۷۴۔
[۶] فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ولائی، عیسی، ص ۱۱۴۔
[۸] کفایۃ الاصول، آخوند خراسانی، محمد کاظم بن حسین، ص ۴۰۶۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مشکینی، علی، اصطلاحات الاصول، ص ۶۶۔    
۲. تحریر الفصول، ذہنی تہرانی، محمدجواد، ج ۵،۶، ص ۶۲۰۔
۳. شرح رسائل، محمدی، علی، ج ۴، ص ۵۔
۴. فیض، علی رضا، مبادی فقہ و اصول، ص ۱۷۴۔
۵. ایضاح الکفایۃ، فاضل لنکرانی، محمد، ج ۵، ص ۱۴۔    
۶. فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ولائی، عیسی، ص ۱۱۴۔
۷. کفایۃ الاصول، آخوند خراسانی، محمد کاظم بن حسین، ص۳۵۸۔    
۸. کفایۃ الاصول، آخوند خراسانی، محمد کاظم بن حسین، ص ۴۰۶۔
۹. دروس فی علم الاصول، صدر، محمدباقر، ج ۱، ص ۱۴۰۔    
۱۰. المحکم فی اصول الفقہ، حکیم، محمد سعید، ج ۴، ص ۳۵۲۔    
۱۱. دروس فی علم الاصول، صدر، محمد باقر، ج ۲، ص ۴۲۳۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۴۷۲، مقالہِ دوران بین اقل و اکثر سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    






جعبه ابزار