زیارت اربعین

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



زیارتِ اربعین منجملہ ان زیارات میں سے ہے جو اربعین کے دن وارد ہوئی ہے۔ یہ زیارت حضرت کی شہادت کے چالیسویں دن مسنون ہے۔


مومن کی علامت

[ترمیم]

امام حسن عسکریؑ کی معروف حدیث میں زیارتِ اربعین مومن کی پانچ علامتوں میں سے ایک شمار کی گئی ہے؛ خواہ سید الشہداء کی تربت اور مزار پر پڑھی جائے اور خواہ دور سے پڑھی جائے۔ اہم چیز یہ ہے کہ اس زیارت میں بیان کردہ مفاہیم پر توجہ کی جائے۔ اس زیارت شریف کے عالی مضامین پر توجہ سے قبل لازم ہے کہ اس کی سند کی طرف ایک اشارہ کیا جائے۔
زیارت اربعین کا متن امام صادقؑ نے صفوان مہران کو تعلیم فرمایا اور فرمایا کہ یہ زیارت اربعین کے دن جب سورج نکل آئے اور بلند ہو جائے تو پڑھی جائے۔ یہاں سے اس ماثور زیارت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔
اس حدیث کو سید بن طاؤس نے اپنی سند سے صفوان سے روایت کیا ہے۔ زیارت کا متن سید بن طاؤس کی اقبال الاعمال، محمد بن جعفر مشہدی کی المزار الکبیر، کفعمی کی المصباح اور شیخ طوسی کی مصباح المتھجد میں وارد ہوا ہے۔ علامہ مجلسیؒ نے بھی بحار الانوار میں شیخ طوسی کی تہذیب سے نقل کیا ہے۔ اگرچہ بعض کلمات میں ان منقولات کے مابین جزوی اختلاف دیکھنے کو ملتا ہے مگر ان کی کلیت ثابت اور معتبر ہے۔

زیارت اربعین کا مضمون

[ترمیم]

اس بنا پر شائستہ ہے کہ اربعین کی زیارت کے متن و محتوا میں دقت اور تدبر کیا جائے تاکہ سید الشہداء کے زائرین و محبین اس کے ناب معارف اور عالی مفاہیم سے مستفیض ہوں۔ اس زیارت نامہ کے عمدہ اقتباسات درج ذیل ہیں۔

← امامؑ کا تعارف


اربعین کی زیارت دیگر بہت سے زیارت ناموں کی طرح سلام سے شروع ہوتی ہے جو اولیائے دین کی نسبت شیعہ تولّی کی علامت ہے اور اس سلام کے مخاطب کو ایسے اوصاف و القاب سے یاد کیا جاتا ہے کہ جن میں سے ہر ایک سید الشہدا کی شخصیت کے کسی نہ کسی پہلو کو اجاگر کرتے ہیں۔ حضرت کو ولی خدا، حبیب خدا، خلیل خدا، نجیب خدا، شہید مظلوم، رنج و مصیبت میں گرفتار اور قتیل العبرات جیسے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔
ان اوصاف و مقامات کے بیان کے بعد زائر خدا کی بارگاہ میں گواہی دیتا ہے کہ آپ امام شہید، ولی خدا، ولی خدا کےفرزند، صفی خدا اور صفی خدا کے فرزند ہیں۔ تاکہ یہ گواہی زائر کے ایمان کی گہرائی اور عقیدے کو ظاہر کرے اور یہ عقائد اس کے دل و جان میں راسخ ہو جائیں۔

← قیام عاشورا کا فلسفہ


تحریک عاشورا کے بارے میں مختلف تحلیلیں پیش کی جاتی ہیں اور اس خونی قیام کے مختلف اہداف بیان کیے گئے ہیں۔ اس زیارت نامے میں بیان کیا گیا ہے کہ ہدف امت کی ہدایت، نجات اور بیداری ہے۔ حضرتؑ نے راہ خدا، پیغمبرؐ کی سنت اور احکام قرآن کی جانب دعوت پر یوں عمل کیا کہ تمام لوگوں پر بہانوں اور عذر خواہیوں کا راستہ بند کر دیا اور حجت کو تمام کر دیا: فَاَعْذَرَ فی الدُّعآءِ، وَمَنَحَ النُّصْحَ.
بعض اوقات معاشرے کی بیداری، گھٹن کی فضا کا خاتمہ اور بدعتوں اور انحرافوں کے خلاف جدوجہد خون کا تقاضا کرتی ہے۔ امام، نے اپنے خون دل کو راہ خدا میں نثار کر دیا: وَبَذَلَ مُهْجَتَهُ فیک، اس ہدف سے کہ لوگوں کو جہالت اور گمراہی سے نکالیں اور حیرت و پریشانی کی فضا کو ختم کر دیں اور اللہ کے بندوں کے فرائض کو واضح کریں: لِیسْتَنْقِذَ عِبادَک مِنَ الْجَهالَةِ وَحَیرَةِ الضَّلالَةِ. عاشورا کی عبرتوں اور لوگوں کی جہالت اور بے بصیرتی کے حوالے سے بہت زیادہ باتیں کی جا سکتی ہیں۔ معاشرے کی حالت کچھ اس طرح ہو چکی تھی کہ صرف رسول خداؐ کے نواسے کا پاکیزہ خون ہی کسی انقلاب کا نقطہ آغاز بن کر اموی حکومت کہ جس کی بنیادیں لوگوں کی جہالت پر تھیں؛ کو زوال پذیر کر سکتا تھا۔

← مخالفین کے چہرے کی شناخت


کون سے لوگ کن خصوصیات اور اہداف کے تحت امام حسینؑ کے خلاف جنگ کیلئے آئے اور انہوں نے اس عظیم گناہ کا ارتکاب کیا؟ ان کا ہدف کیا تھا کہ جس تک ثار اللہ کے قتل کے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے؟ اگلے اقتباس میں ولی خدا کے خلاف ایکا کرنے والے گروہوں کی خصوصیات کو ترسیم کیا گیا ہے کہ یہ درحقیقت صدر اسلام میں پھوٹنے والے بغض و کینے کا اظہار تھا:
ـ دنیا کے فریب خوردہ: غَرَّتْهُ الدُّنْیا؛
ـ آخرت کو ناچیز دنیا کے بدلے میں فروخت کرنے والے: وَشَری آخِرَتَهُ؛
ـ خواہش پرست: وَتَرَدّی فی هَواهُ؛
ـ خدا، پیغمبرؐ اور امام کو غضبناک کرنے والے؛
ـ منافقین اور فسادیوں کے پیروکار؛

← جہاد سے شہادت تک


جہاد فی سبیل اللہ سے دین کی حیات و بقا کی ضمانت فراہم ہوئی اور یہ اسلام مخالف امویوں کی سازشوں کا قلع قمع کرنے کا باعث بنا۔ جہاد کی شرط یہ ہے کہ اسے فرض کی ادائیگی اور اخلاص کی نیت سے بجا لایا جائے: فَجاهَدَهُمْ فیک صابِراً مُحْتَسِباً، حَتّی سُفِک فی طاعَتِک دَمُهُ، وَاسْتُبیحَ حَریمُهُ.
احیائے دین کی سعی اور اسلام مخالف بدعات کے خلاف جدوجہد قربانی اور فداکاری کا تقاضا کرتی ہے۔ جو اس راستے میں قدم رکھے، اس کیلئے ضروری ہے کہ اہل جہاد بھی ہو اور اہل صبر و اخلاص بھی، اس کے اندر خون کا نذرانہ دینے کی آمادگی بھی ہو اور اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ کی بے حرمتی کو بھی برداشت کر سکتا ہو۔ امامؑ، خدا و رسولؐ کے عزیز تھے، مگر اس تپتے ہوئے صحرا میں ان کمینوں کے محاصرے میں گرفتار ہو گئے۔ اہل و عیال اور ساتھیوں کے ساتھ آپؑ کی پیاس، بدن پاک کا بلا کفن ہونا، سر کاٹا جانا، سر مطہر کو نیزے پر بلند کرنا، خیموں کو جلایا جانا، جسد پاک پر گھوڑے دوڑانا، خیام کو لوٹا جانا، اہل بیتؑ کی اسیری اور ۔۔۔ سب کچھ راہ خدا میں تھا اور حضرت الهی رضیً بقضائک کہہ کر ان سب مصائب کا سامنا کرنے پر آمادہ تھے۔

← دشمنوں پر لعنت و تبرا


بہت سے زیارت ناموں میں موالات کے عنوان سے سلام کے ساتھ ساتھ دشمنوں پر لعنت بھی وارد ہوئی ہے جو ظالموں اور اہل بیتؑ کے دشمنوں پر تبرا کی علامت ہے کہ جس کا ایک نمونہ اس زیارت میں وارد ہوا ہے: اَللّهُمَّ فَالْعَنْهُمْ لَعْناً وَبیلاً.
عاشورا کے مجرمین پر خدا کے عذاب اور لعنت کی دعا، دشمنی اور تبرا کی روح ہے اور زائر کو دشمنان خدا و رسول کے ساتھ دشمنی کے خط پر زیادہ ثابت قدم کرتی ہے۔

← امامؑ کا خاندان رسالت سے رشتہ


امام حسینؑ کی زیارت کے کلمات میں جب ہم پیغمبرؐ، امیر المومنین اور خاندان نبوت کے اسما کا ذکر کرتے ہیں تو یہ سید الشہدا کے اس اعلیٰ و ارفع خاندان کے ساتھ تعلق پر تاکید ہے۔ ایک دوسری زیارت میں بھی اس طرح ہے کہ ہم امام حسینؑ پر فرزند پیغمبر، فرزند فاطمہؑ، امین خدا، فرزند امین خدا، فرزند وصی خدا، فرزند وصی پیغمبرؐ کے عنوان سے سلام بھیجتے ہیں تاکہ اس تعلق کو آشکار اور برملا کریں۔ یہ امر ان دشمنوں کی چالوں کو ناکام کرنے کا باعث ہے کہ جو شہدائے کربلا کو خاندان نبوت اور آل اللہ سے جدا قرار دیتے ہیں۔

← سعادت مند زندگی


امام حسینؑ نے فرمایا: موتٌ فی عزٍّ خیر من حیاةٍ فی ذلّ؛ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔
زیارت کے ایک اور اقتباس میں سید الشہدا کو ایسی شخصیت کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے کہ جن کی زندگی عِشتَ سَعیدا اور جن کی موت مَضیْتَ حمیداً اور جن کی شہادت مظلوماً شهیداً کا مصداق تھی۔
اللہ تعالیٰ نے بھی راہ خدا میں قتل ہونے والوں کیلئے نصرت و عزت جبکہ مستکبرین و ظالمین کی نابودی کا وعدہ فرمایا ہے؛ خواہ یہ فوری طور پر ہو اور خواہ طولانی مدت میں؛ خواہ دنیا میں ہو اور خواہ آخرت میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ زائر ان موارد میں اللہ کے وعدوں کے حتمی ہونے پر یقین رکھتا ہے:وَاَشْهَدُ اَنَّ اللَّهَ مُنْجِزٌ ما وَعَدَک، وَمُهْلِک مَنْ خَذَلَک.

← ظالمین کے ہم خیالوں سے بیزاری


دینی تعلیمات میں مجرم اور ظالم بھی دھتکارے ہوئے اور ملعون ہیں اور وہ لوگ بھی شریک جرم ہیں جو بظاہر خاموش تھے اور مجرموں کے ساتھ شامل نہیں تھے مگر قلبی طور پر ان کے کام سے راضی تھے۔ یہ حقیقت متعدد زیارات منجملہ زیارت عاشورا میں وارد ہوئی ہے۔ یہاں پر خدا کی لعنت ان لوگوں پر بھی ہے کہ جنہوں نے امامؑ کو قتل کیا اور ان پر ظلم کیا اور اس جماعت پر بھی ہے جنہوں نے یہ واقعہ سنا مگر اس پر راضی و خوش تھے۔ فتنے کے سامنے خاموشی اختیار کرنے والے اور دشمنان خدا و رسول کے عمل پر راضی ہونے والوں کا انجام ایک جیسا ہو گا: وَلَعَنَ اللَّهُ اُمَّةً سَمِعَتْ بِذلِک فَرَضِیتْ بِهِ.
اس اعتبار سے شیعہ زائر اپنا موقف شفاف اور واضح طور پر بیان کرتا ہے اور خود کو اولیائے خدا کی صف میں اور دشمنان خدا و رسولؐ کے مقابلے میں قرار دیتا ہے اور خدا کو بھی اس موالات و معادات پر گواہ بناتا ہے: اَللّهُمَّ اِنّی اُشْهِدُک اَنّی وَلِی لِمَنْ والاهُ، وَعَدُوٌّ لِمَنْ عاداهُ.
خاندان عصمت کی پیروی اور ان کی ولایت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنی اور اپنے ماں باپ کی جان قربان کرنے پر آمادہ ہے: بِاَبی اَنْتَ وَاُمّی یا بْنَ رَسُولِ اللَّهِ.

← آباؤ اجداد کی طہارت و پاکیزگی کا ذکر


اَشْهَدُ اَنَّک کنْتَ نُوراً فی الْاَصْلابِ الشَّامِخَةِ
یہ اقتباس، اہل بیتؑ کے آباؤ اجداد کی پاکیزگی، طہارت اور شرافت کی شہادت ہے۔ یہ خاندان زمانہ جاہلیت کی اعتقادی اور اخلاقی آلودگیوں سے دور تھا۔ قرآن میں آیت تطہیر اہل بیتؑ کی عصمت اور کامل طہارت پر گواہ ہے۔ پس اس زیارت میں آئمہ اطہارؑ کے اجداد کے موحد اور پاک و پاکیزہ ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔

← امامت و ائمّہ کا بلند مقام


شیعہ آئمہؑ بشمول سید الشہدا اسلامی معاشرے کی ہدایت اور دین کی حفاظت کے ضامن ہیں۔ یہ خاندان مسلمانوں اور شیعوں کی پناہ گاہ اور اسلام کا ستون ہے۔ امامؑ کو زیارت کے اس فقرے میں بر، تقی، رضی، زکی، ہادی اور مہدی جیسے اوصاف کے ساتھ دین کا رکن اور مومنین کا قلعہ شمار کیا گیا ہے۔ البتہ تمام آئمہؑ ان اوصاف کے حامل ہیں۔ امام حسینؑ باقی آئمہؑ کے پدر گرامی بھی ہیں۔ حضرتؑ کی یہ خصوصیت روایات میں بیان ہوئی ہے کہ آئمہؑ آپؑ کی نسل سے ہیں۔ یہ امتیازات بالخصوص ان کا حجت ہونا، والحجّة علی اهل الدّنیا امت کے فکری، عملی، معاشرتی اور سیاسی نظام میں آپؑ کے بلند مقام کی دلیل ہے اور ہدایت کی ان نشانیوں کی پیروی درست راستے اور منزل تک رسائی کی باعث ہے۔

← ایمان، تسلیم اور تبعیّت


یہ تین عناصر آئمہؑ کی راہِ ہدایت و سعادت کے اصلی عوامل ہیں۔ ہم شیعہ ان کی امامت پر ایمان رکھتے ہیںمؤمن بکم اور آخر الزمان میں ان کی رجعت پر ایمان رکھتے ہیں وَبِاِیابِکمْ مُوقِنٌ اور تمام دینی قوانین و سنن پر عمل پیرا ہو کر اس کا اظہار کرتے ہیں اور ان احکام کے سامنے تسلیم محض ہیں اور ان کی مکمل پیروی پر یقین رکھتے ہیں؛ خواہ قلبی مرحلہ میں اور خواہ عملی؛وَقَلْبی لِقَلْبِکمْ سِلْمٌ، وَاَمْری لِاَمْرِکمْ مُتَّبِعٌ. یہ ایمان و تسلیم اور اتباع ایک دوسرے عنصر کا خواہاں ہے جس کا نام ہے ’’نصرت‘‘۔ جس طرح امام حسینؑ کے ساتھی کربلا میں آپؑ پر ایمان رکھتے تھے، آپ کے حکم اور تحریک کے تابعدار تھے اور انہوں نے پوری طاقت سے حضرتؑ کا دفاع کیا یہاں تک کہ درجہ شہادت پر فائز ہو گئے۔ زائر، اربعین میں بھی انہی مراتب و مراحل کا اظہار کرتا ہے اور آئمہؑ کی راہ میں اپنے تمام وسائل کو پیش کر دیتا ہے تاکہ خدا اذن دے اور اہل بیتؑ کی دولت کریمہ حضرت ولی عصر کی قیادت میں تشکیل پائے: وَنُصْرَتی لَکمْ مُعَدَّةٌ، حَتّی یاْذَنَ اللَّهُ لَکمْ.
یہ امر کہ آج ہم اس خاندان کی کس طرح نصرت کر سکتے ہیں، انتہائی لائق تامل ہے اور اس میں لمبی چوڑی بحث کی گنجائش ہے؛ ہمارا کون سا عمل آئمہؑ کے موقف کے مطابق ہے؟ نصرت کیلئے ہمارے پاس کیا وسائل ہیں؟ کیونکہ صرف ساتھ دینے کے نعروں سے مسائل حل نہیں ہوتے۔

← موقف کی وضاحت


زیارت جامعہ کبیرہ، زیارت عاشورا اور دیگر زیارات میں یہ عبارت ملتی ہے: فَمَعَکمْ مَعَکمْ لامَعَ عَدُوِّکمْ؛ اس کا مطلب ہے اپنے موقف کی وضاحت، موقف پر ثابت قدمی، دشمنوں کی ہاں میں ہاں نہ ملانا اور آئمہؑ کے خط کی حمایت؛
آئمہؑ کے ساتھ یہ معیت اور ہمراہی کس نوعیت کی ہے؟ اگر آئمہؑ ہمارے زمانے میں ہوتے تو سیاسی دھڑے بندیوں کے پیش نظر وہ کس طرف ہوتے؟ بین الاقوامی مسائل کے حوالے سے ان کا کیا موقف ہوتا؟ عالمی استکبار اور بین الاقوامی صہیونزم اور تکفیری گروہوں اور استکبار سے وابستہ حکمرانوں اور فلسطین جیسے مسائل سے متعلق کیا موقف اختیار کرتے؟ آئمہؑ کی نسبت ہماری شناخت ہمارے لیے ان کے موقف کو واضح کرتی ہے۔
آئمہؑ کی راہ کی کچھ علامات ہیں؛ جیسا کہ دشمنوں کی راہ بھی مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ زیارت کا یہ اقتباس بھی تولّی اور تبرا پر زور دیتا ہے۔

← آخری سلام


زیارت کا آخری حصہ یہ ہے: صَلَواتُ اللَّهِ عَلَیکمْ، وَعلی اَرْواحِکمْ وَاَجْسادِکمْ، وَشاهِدِکمْ وَغآئِبِکمْ، وَظاهِرِکمْ وَباطِنِکمْ، آمینَ رَبَ الْعالَمینَ.
اس اقتباس میں پہلے ان ہستیوں کی عظمت و احترام کے پیش نظر ان پر اللہ کا درود و سلام ہے جو ہم بندوں کے درود سے برتر ہے۔ پھر ان پر اور ان کی حیات کے تمام پہلوؤں پر درود ہے؛ ان کی روح پر، ان کے بدنوں پر، ان کے ظاہر و باطن پر؛ یہ درود شہید آئمہؑ کو بھی شامل ہے کہ جو دنیا سے پردہ فرما گئے ہیں اور امام عصرؑ کو بھی شامل ہے؛ جو ظاہر ہیں اگرچہ ہماری نظروں سے غائب ہیں اور شاہد بھی ہیں اگرچہ ہم انہیں دیکھنے سے قاصر ہیں۔

فقہ میں زیارت اربعین کا ذکر

[ترمیم]

باب حج میں ایک مناسبت سے اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
امام حسینؑ کی زیارت حضرتؑ کی شہادت کے چالیسویں دن (بیس صفر) کو مستحب مؤکد ہے اور ایک روایت میں امام حسن عسکریؑ نے اسے مومن کی پانچ میں سے ایک علامت قرار دیا ہے۔

نتیجہ

[ترمیم]

زیارت اربعین، امام حسینؑ، اہل بیتؑ اور آئمہ معصومینؑ کے ساتھ ایک قسم کا تجدید میثاق ہے۔ ان کی نسبت اور ان کے اہداف کی نسبت وفاداری کا اظہار ہے، ان کے دشمنوں اور قاتلوں سے برائت و عداوت کا اظہار ہے، تولّی و تبرا کی حامل ہے، ان کی مقدس راہ میں جانفشانی کیلئے آمادگی کا اظہار، اتباع، تسلیم اور نصرت، حق اور باطل کے چہروں اور نور و نار کے رہبروں کی شناخت، مکتب و عقیدے کی راہ میں فداکاری، جہاد اور شہادت کا عزم جو فلسفہ عاشورا اور قیام حسینی کی شناخت کا خلاصہ ہے۔
زیارت اربعین میں ان موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور حسینی زائر ان عقائد کو دل کی گہرائیوں سے زبان پر جاری کرتا ہے تاکہ یہ دل میں راسخ ہو جائیں اور معاشرے میں جلوہ فگن ہوں۔
اللہ تعالیٰ کی توفیق آپ کے شامل حال ہو تاکہ آپ اربعین کے موقع پر اس خوبصورت اور پر مغز زیارت جو امام صادقؑ کی تعلیم کردہ ہے؛ کا سید الشہداؑ کے حرم میں ورد کریں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. علامه مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۱۰۱، ص۳۳۱۔    
۲. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۰۔    
۳. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۰۔    
۴. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۰۔    
۵. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۰۔    
۶. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۰۔    
۷. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۰۔    
۸. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۰۔    
۹. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۰۔    
۱۰. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۰۔    
۱۱. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۰۔    
۱۲. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۰۔    
۱۳. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۰۔    
۱۴. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۰۔    
۱۵. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۰۔    
۱۶. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۰۔    
۱۷. احزاب/سوره۳۳، آیه۳۳۔    
۱۸. قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان، ج۱، ص۵۶۹۔    
۱۹. شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتهجد، ج۱، ص۷۸۹۔    
۲۰. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج۲، ص۵۹۱۔    
۲۱. مشهدی، محمد بن جعفر، المزار الشریف، ج۱، ص۵۱۶۔    
۲۲. قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان، ج۱، ص۵۶۹۔    
۲۳. شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتهجد، ج۱، ص۷۸۹۔    
۲۴. وسائل الشیعة، ج۱۴، ص۴۷۸۔    


ماخذ

[ترمیم]

سائٹ حوزه، ماخوذ از مقالہ «مضامین زیارت اربعین»۔    
فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت علیهم السلام، ج۴، ص۳۳۱۔    






جعبه ابزار