شق صدر کی داستان کا جائزہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



تاریخی شواہد کی رو سے پیغمبر اکرمؐ کی زندگی معجز نما کرامات و حوادث سے عبارت تھی جن سے آنحضرتؐ کی عظمت اور شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان فضائل کے باوجود بعض مورخین نے ایسے حوادث و واقعات کو پیغمبرؐ سے منسوب کیا ہے کہ جن سے آنحضورؐ کی توہین کا پہلو نکلتا ہے اور آپؐ کی عصمت اور عظمت پر اعتراضات پیدا ہوتے ہیں۔ ان واقعات میں سے ایک ’’شق الصدر‘‘ کی داستان ہے۔ اہل سنت کے بعض سیرت نگاروں اور محدثین نے اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے کچھ افسانوی مطالب کو پیغمبرؐ کی طرف نسبت دی ہے کہ جو نبی اعظمؐ کی شخصیت و عصمت کے ساتھ متعارض ہیں۔ یہاں تک کہ بعض کتابوں میں پیغمبرؐ کی زندگی میں اس واقعے کے تکرار کا ذکر بھی ملتا ہے جیسا کہ حلبی نے اپنی سیرت میں نقل کیا ہے۔


شق صدر کی داستان

[ترمیم]

اہل سنت کے بعض تاریخی و حدیثی منابع کی رو سے رسول خداؐ ۴ یا ۵ سال کے تھے کہ آپؐ کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا، جو شق صدر کے نام سے معروف ہے۔ ان منابع نے حلیمہ سعدیہ سے نقل کیا ہے کہ جب میں دوسری مرتبہ حضرت محمدؐ کو اپنے قبیلے میں لے گئی تو ایک دن آپؐ دوسرے بچوں کے ساتھ خیموں کے پیچھے چلے گئے، اچانک ان کا رضاعی بھائی حیران و پریشان ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا: ہمارے قریشی بھائی کی مدد کرو کیونکہ دو سفید پوش مردوں نے اسے پکڑ کر لٹایا پھر اس کے سینے کو چیر کر اس میں سے ایک چیز نکال لی ہے۔ حلیمہ کہتی ہیں: میں اپنے شوہر کے ہمراہ چل پڑی، بچے کو صحرا میں ایک جگہ پر اس حالت میں پایا کہ اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور وہ مضطرب و خوفزدہ تھا۔ بے اختیار اسے آغوش میں لیا اور اس سے پوچھا: بیٹا! تجھے کیا ہوا ہے؟! اس نے کہا: دو سفید پوش مرد میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے مجھے لٹا کر میرا سینہ چیرا پھر میرے دل کو نکالا اور اس میں سے ایک سیاہ غدود کو کھینچ دیا، پھر اسے سنہری طشت میں دھو کر دوبارہ اپنی جگہ پر لگا دیا۔ اہل سنت کے حدیثی و تاریخی منابع میں اس داستان کو مختلف بیانات کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اور اسے پیغمبرؐ کے فضائل و کرامات میں سے شمار کیا ہے۔ حلیمہ اس واقعے سے سخت پریشان ہوئیں اور سیرت نگاروں کے بقول وہ آنحضورؐ کو آپؐ کی والدہ اور دادا کے پاس واپس چھوڑ آئیں۔
بعض اہل سنت مفسرین نے اس واقعے کی تائید میں سورہ انشراح کی آیات سے تمسک کیا ہے؛ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: اَ لَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَک‌ • وَ وَضَعْنا عَنْکَ وِزْرَک‌؛ کیا ہم نے آپ کا سینہ کشادہ نہیں کیا اور کیا ہم نے آپ کا بوجھ نہیں اتارا۔ اہل سنت مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں مختلف روایات ذکر کی ہیں اور یہ توہم کیا ہے کہ شرح صدر سے مراد وہی پیغمبرؐ کے شکم کو چاق کرنا ہے۔

داستان کا روائی پس منظر

[ترمیم]

اس داستان کی جڑوں کا سراغ حدیثی کتب صحیح بخاری و مسلم یا اہل سنت کی دیگر تفسیری کتابوں میں لگایا جا سکتا ہے۔
۱۔ بخاری نے صحیح میں ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے کہ: آدم کی اولاد کا کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا مگر یہ کہ شیطان ولادت کے وقت اسے مس کرتا ہے سوائے مریم اور ان کے فرزند کے۔
۲۔ صحیح مسلم میں ہے: اولاد آدم میں سے کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا مگر یہ کہ شیطان کے ڈنک مارنے سے گریہ کرتا ہے۔
۳۔ اہل سنت کی تفاسیر میں آیت ’’اِنِّی اُعیذُها بِکَ وَ ذُرِّیَّتَها مِنَ الشَّیْطانِ‘‘ کے ذیل میں عیسیؑ کے سوا باقی اولاد آدم کو مس کرنے کے بارے میں کچھ مطالب نقل ہوئے ہیں۔

← ضعف اور عدم نقل


’’شق الصدر‘‘ کی داستان سے مسلمانوں کے ایک اہم عقائدی اصول یعنی عصمت پیغمبرؐ پر سوال اٹھتا ہے! اس کے علاوہ سندی، متنی، عقلی اور اعتقادی سوالات بھی سامنے آتے ہیں کہ جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔
البتہ علمائے امامیہ کی جانب سے اس داستان کی عدم صحت کے اثبات کے بعد شیعہ کی قدیم تاریخی کتب جیسے شیخ مفیدؒ کی الارشاد، شیخ طبرسیؒ کی اعلام‌ الوریٰ باعلام‌ الھدیٰ اور علی بن عیسیٰ اربلی کی کشف الغمہ کہ جن میں پیغمبرؐ اور معصومینؑ کی زندگی کے تاریخی حوادث پر روشنی ڈالی گئی ہے؛ میں اس واقعے کی طرف معمولی سا بھی اشارہ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح زیر نظر روایت کی سند اہل سنت کے منابع کی رو سے بھی مخدوش ہے۔ اہل سنت کی رجالی کتب کی طرف رجوع سے معلوم ہوتا ہے کہ ثور بن یزید شامی اس روایت کا ایک ناقل ہے اور طبری نے یہ داستان اس سے نقل کی ہے جبکہ اس راوی پر قدریہ جماعت میں سے ہونے کا بھی الزام ہے اور علما نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔ ابن حجر کہتا ہے: اس کا دادا صفین میں معاویہ کے لشکر میں شامل تھا اور اس لڑائی میں مارا گیا تھا۔ وہ جب بھی علیؑ کا نام سنتا تو کہتا تھا کہ جس شخص نے میرے دادا کو قتل کیا ہے مجھے وہ پسند نہیں ہے اور جب بھی اس کے سامنے علیؑ کی شان میں جسارت کی جاتی تو یہ سکوت اختیار کر لیتا تھا۔ اس کے علاوہ اس کا تعلق ’’قدریہ‘‘ سے تھا۔ لہٰذا اس پر تہمت ہے کہ اس نے اپنے مذہب کے اصولوں کے مطابق اس جعلی داستان کو بیان کیا ہے۔ ابن ہشام دو طریقوں سے اس داستان کو نقل کرتا ہے:
الف) (حدثنی جهم بن ابی جهم مولی الحارث بن حاطب الجهمی عن عبد اللّه بن جـعفر بن ابی‌طالب عن حلیمه سعدیه) حالانکہ طبری نے ’’جھم‘‘ کو ’’مولی عبد اللہ بن جعفر‘‘ذکر کیا ہے۔ ب) ابن ھشام دوسری روایت کو بعض اہل علم سے نقل کرتا ہے، اس طرح سے نقلِ روایت ایک اور سندی ضعف شمار ہوتا ہے؛ کیونکہ معلوم نہیں ہے کہ یہ بعض اہل علم کون لوگ ہیں، نتیجہ یہ کہ یہ خبر مجہول اور ضعیف ٹھہرے گی۔

← روایات کے متن کا ضعف


اس داستان کے متن کا اضطراب اس کی صحت میں تشکیک کا سبب ہو سکتا ہے۔
الف) بعض منابع میں ثور بن یزید سے منقول ابن اسحاق کی روایت میں فرشتوں کی تعداد دو ذکر ہوئی ہے اور پیغمبرؐ سے منقول ہے: اذا اتانی رجلان علیها ثیاب بیض جبکہ طبری اسی راوی کی زبانی فرشتوں کی تعداد تین تک نقل کرتے ہیں: «اذا‌ اتـانا رهـط‌ ثلاثه‌ معهم بطست.»
ب) ابن اسحاق نے اس وقت پیغمبر کے ساتھ موجود افراد کی تعداد ایک ذکر کی ہے: فبینا انا مع اخ لی» جبکہ طبری کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ اپنے چند ہم جولیوں کے ساتھ تھے۔مع اتراب لی من الصبیان»
ج) جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا، اس کے بارے میں بھی مختلف روایتوں میں اختلاف ہے؛ ابن اسحاق کی روایت میں اس واقعے کی جگہ خیموں اور گھروں کی پچھلی سائڈ بیان کی گئی ہے۔مع اخ لی خلف بیوتنا» جبکہ طبری کی روایت کے مطابق یہ واقعہ لوگوں کی نظروں سے دور اور صحرا کے وسط میں پیش آیا۔منتبذ من اهل فی بطن واد»
د) اہل سنت کے منابع میں پیغمبرؐ کو اپنی والدہ کے پاس واپس لانے کی وجہ ان کے سینے کا چیرا جانا ذکر کی گئی ہے؛ کیونکہ حلیمہ اور ان کے شوہر ڈر گئے کہ کہیں جنات پیغمبرؐ کو نقصان نہ پہنچا دیں۔ لہٰذا انہوں نے پیغمبرؐ کو ان کی والدہ کے حوالے کر دیا جبکہ شق الصدر کا واقعہ پیغمبرؐ کے دو یا تین سال کے سن میں نقل کیا گیا ہے حالانکہ سب کا اتفاق ہے کہ پیغمبرؐ کو پانچ سال کی عمر میں ان کی والدہ کے حوالے کیا گیا۔ خلاصہ یہ کہ ’’شق الصدر‘‘ کی روایات کے متن میں اضطراب اور اسناد و رواۃ کا مجہول ہونا بذات خود اس کے تحریف شدہ اور موضوع ہونے کی دلیل ہے۔

← آیات کے ساتھ تناقض


اس مضمون کی روایات قرآنی آیات کے محکمات سے ٹکراتی ہیں۔ قرآنی آیات کے اصول و محکمات میں سے ایک یہ ہے کہ شیطان کا خدا کے مخلص بندوں پر کوئی زور نہیں ہے۔ مگر اہل سنت کے حدیثی و تفسیری منابع میں ایسی روایات موجود ہیں کہ شیطان تمام اولاد آدم کو مس کرتا ہے اور شیطان کا ان سب میں حصہ ہے۔ وہ غدود یا خون کا لوتھڑا جو ان روایات کی بنیاد پر پیغمبرؐ کے قلب میں تھا؛ درحقیقت شیطان کے مس کا اثر تھا اور پیغمبرؐ کے قلب میں بھی شیطان کا حصہ تھا۔ اہل سنت کے محدثین اور سیرت نگار اس قبیل کی ضعیف روایات پر یقین رکھتے ہیں حالانکہ یہ قرآن کریم کی متعدد آیات سے ٹکراتی ہیں کہ جن میں پیغمبروں اور اولیائے الٰہی کے قلوب پر شیطان کے ہر طرح کے تسلط اور نفوذ کی نفی کی گئی ہے۔جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: «ان عبادی لیس لک علیهم سلطان» ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے: انه لیس له سلطان علی الذین آمنوا و علی ربهم یتوکلون» اور آیت و لاغوینهم اجمعین الا عبادک منهم المخلصین» معاصر اہل سنت عالم ابوریہ کتاب ’’اضواء عـلی‌ السـنه‌ المـحمودیه‘‘ میں لمس شیطان اور شق صدر کی روایات کے قرآنی آیات کے ساتھ تناقض کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’یہ لوگ کس طرح کتاب خدا کو سنت ظنیہ کہ جو مفیدِ ظن ہے؛ کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں۔
[۴۸] ابوریه، محمود، اضواء عـلی‌ السـنه‌ المـحمودیه، ص۱۸۸۔


← عصمت سے متصادم


پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں اہل سنت کی کتب میں منقول ’’شق الصّدر‘‘ کا واقعہ تسلیم کر لینا، پیغمبرؐ کی عصمت سے متصادم ہے؛ کیونکہ آیت تطھیر اور دیگر آیات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ پیغمبرؐ زندگی کے تمام لمحات حتی بچپن میں بھی عصمت کے مقام پر فائز تھے۔ جیسا کہ آیت تطہیر (اِنَّما یُریدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهیراً) میں ’’یرید‘‘ سے مراد » ارادہ تکوینی ہے نہ ارادہ تشریعی؛ ارادہ تشریعی اور ارادہ تکوینی کسی ایک زمانے سے مخصوص نہیں ہے۔ امامیہ اس امر کے قائل ہیں کہ نبی کریمؐ کی زندگی کے آغاز سے وصال تک آپ کی عصمت کا عقیدہ رکھنا واجب ہے۔ علامہ حلیؒ اس حوالے سے کہتے ہیں: ان السفير الالهی معصوم في جميع احواله قبل البعثة او بعدها.» علامہ طباطبائی اس بارے میں فرماتے ہیں: و المعنی: ان اللّه سبحانه تستمر ارادته ان یـخصکم بموهبه العصمه باذهاب الاعتقاد الباطل و اثر عمل السیی‌ء عنکم اهل البیت و ایراد‌ ما یزیل اثر ذلک علیکم و هی العصمه (معنی یہ ہے کہ اللہ سبحانہ کا مسلسل ارادہ یہ ہے کہ اے اہل بیتؑ تم سے باطل عقائد اور برے عمل کے اثرات کو زائل کر کے عصمت کی عطا کو تم سے مخصوص کر دے؛ یہ ہے عصمت) .»
دوسری طرف سے ’’شق الصدر‘‘ کی داستان کو قبول کرنے کا معنی یہ ہے کہ حضرتؐ کی گناہ سے پاکی جبری اور بلا اختیار تھی؛ اسے آپ پر نافذ کیا گیا تھا۔ اس بنا پر اسے حضرتؐ کی ایک فضیلت کے عنوان سے ذکر نہیں کیا جا سکتا جبکہ دوسری طرف سے پیغمبرؐ کی عصمت پر سوال اٹھتا ہے۔

علما کی آرا

[ترمیم]

بہت سے شیعہ قدما نے ان روایات کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے اس ماجرے کا بالکل ذکر نہیں کیا؛ جیسے شیخ مفیدؒ، شیخ صدوقؒ، کلینیؒ اور ۔۔۔؛ دوسری جانب بعض علما نے اس واقعے کو رد کیا ہے؛ جیسے مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں واقعہ معراج کے ضمن میں فرمایا ہے: یہ روایت کہ آنحضرتؐ کا سینہ چیرا گیا اور قلب کو دھویا گیا؛ اس کا ظاہر درست نہیں ہے اور یہ قابل تاویل بھی نہیں ہے مگر بڑی مشقت کے ساتھ؛ کیونکہ آنحضرتؐ ہر بدی اور عیب سے پاک و پاکیزہ تھے تو پھر کس طرح آپؐ کے دلی عقائد کو پانی کے ساتھ غسل دیا گیا؟!
معاصر مفکر علامہ جعفر مرتضیٰ نے بھی اس واقعے کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور اس کی بنیاد کتاب الاغانی میں منقول زمانہ جاہلیت کی ایک داستان کو قرار دیا ہے۔ ابوالفرج اصفہانی نے زہری سے نقل کیا ہے: دخل یـوما‌ امـیه بـن ابـی الصـلت علی اخته ... فادر‌کـه‌ النـوم ... و اذا بطائرین قد وقع احدهما علی صدره و وقف الاخر مکانه فشق الواقع صدره فاخرج قلبه فشقه...»
علامہ مجلسیؒ نے بحار کی پندرہویں جلد میں اس داستان کو اہل سنت کے طریق سے نقل کیا ہے اور اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: هذا الخـبر ان لم یـعتمد علیه کثیر لکونه‌ من‌ طریق المخالفین انـّما اوردتـه لمـا فـیه مـن الغـرائب التی لا تابی عنها‌ العقول‌ و لذکره فی مؤلفات اصحابنا؛
شق الصدر کی روایات مخالفین کے طریق سے نقل ہوئی ہیں اور علمائے شیعہ کی اکثریت ان پر اعتماد نہیں کرتی مگر میں نے دو نکتوں کی وجہ سے انہیں ذکر کیا ہے:
الف) اگرچہ شق الصدر کی روایات پیغمبرؐ کی شخصیت کے بارے میں عجیب و غریب حوادث کو بیان کرتی ہیں مگر عقل ان کا انکار نہیں کرتی ہے۔
ب) بعض شیعہ مؤلفین نے اس روایت کو ذکر کیا ہے۔ بطور مثال اس داستان کو مرحوم ابن شہر آشوب نے مختلف انداز سے نقل کیا ہے کہ جس کی وجہ سے متعدد اعتراضات ختم ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے مناقب میں لکھا ہے: فرشتے محمدؐ کو پکڑ کر ایک پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے اور انہیں دھو دھلا کر صاف ستھرا کر دیا۔
علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں عامہ کے طریق سے ’’شق الصدر‘‘ کا واقعہ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: پیغمبرؐ کے سینے کو کھولنے کا مسئلہ ایک مثالی حالت کا بیان ہے کہ جسے آنجناب نے مشاہدہ کیا نہ یہ کہ واقعا سونے کا ایک مادی طشت استعمال ہوا اور پیغمبرؐ کے دل کو اس میں دھویا گیا ہو جیسا کہ بعض نے یہ سمجھا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. نورالدین حلبی، علی بن ابراهیم، السیره الحلبیه، ج۱، ص۱۴۸۔    
۲. ابن اسحاق مطلبی، محمد ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص۵۰۔    
۳. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۶۴۔    
۴. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۱۲۰۔    
۵. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۰۔    
۶. نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۱ ص۱۴۷۔    
۷. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۱، ص۵۷۶-۵۷۷۔    
۸. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۰۔    
۹. ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۱، ص۴۶۳-۴۶۵۔    
۱۰. شرح/سوره۹۴، آیه۱۔    
۱۱. شرح/سوره۹۴، آیه۲۔    
۱۲. فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، ج۳۲، ص۲۰۵۔    
۱۳. آلوسی، شهاب الدین، تفسیر روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، ج۱۵، ص۳۸۶۔    
۱۴. سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، ج۸، ص۵۴۷۔    
۱۵. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج۶، ص۳۴۔    
۱۶. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج۴، ص۱۶۴۔    
۱۷. نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۴، ص۱۸۳۸۔    
۱۸. آل عمران/سوره۳، آیه۳۶۔    
۱۹. زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، ج۱، ص۳۵۷۔    
۲۰. آلوسی، شهاب الدین، تفسیر روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، ج۲، ص۱۳۲۔    
۲۱. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۱، ص۵۷۵۔    
۲۲. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، تهذیب التهذیب، ج۲، ص۳۴۔    
۲۳. یوسفی‌ غروی، محمد‌هادی، موسوعه فی التاریخ‌ الاسلامی، ج۱، ص۲۶۹۔    
۲۴. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۴۹۔    
۲۵. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۱، ص۵۷۳۔    
۲۶. هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۵۳۔    
۲۷. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۵۲۔    
۲۸. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۲۷۵۔    
۲۹. ابوبکر بیهقی، احمد بن حسین، دلائل النبوه، ج۱، ص۱۴۶۔    
۳۰. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۱، ص۵۷۵۔    
۳۱. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۵۲۔    
۳۲. ابوبکر بیهقی، احمد بن حسین، دلائل النبوه، ج۱، ص۱۴۶۔    
۳۳. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۱، ص۵۷۵۔    
۳۴. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۵۲۔    
۳۵. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۱، ص۵۷۵۔    
۳۶. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۵۲۔    
۳۷. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۱، ص۵۷۴۔    
۳۸. ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۱، ص۴۱۹۔    
۳۹. ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۱، ص۴۱۹۔    
۴۰. تقی‌الدین مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، ج۱، ص۱۳۔    
۴۱. عاملی، جعفرمرتضی، الصحیح من السیرة النبی الاعظم، ج۲، ص۱۶۷۔    
۴۲. تقی‌الدین مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، ج۱، ص۱۲۔    
۴۳. اسرا/سوره۱۷، آیه۶۵۔    
۴۴. حجر/سوره۱۵، آیه۴۲۔    
۴۵. نحل/سوره۱۶، آیه۹۹۔    
۴۶. فجر/سوره۸۹، آیه۴۰۔    
۴۷. فجر/سوره۸۹، آیه۴۱۔    
۴۸. ابوریه، محمود، اضواء عـلی‌ السـنه‌ المـحمودیه، ص۱۸۸۔
۴۹. احزاب/سوره۳۳، آیه۳۳۔    
۵۰. علامه حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد، ج۱، ص۵۹۳۔    
۵۱. علامه طباطبایی، سید محمدحسین، تفسیر المیزان، ج۱۶، ص۳۱۳۔    
۵۲. شیخ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج۶، ص۲۱۵۔    
۵۳. عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی، ج۲، ص۱۷۱۔    
۵۴. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، الاغانی، ج۴، ص۳۴۷۔    
۵۵. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۳۵۷۔    
۵۶. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۳۲۔    
۵۷. علامه طباطبایی، سید محمدحسین، ترجمه تفسیر المیزان، ج۲۰، ص۵۳۵۔    


ماخذ

[ترمیم]







جعبه ابزار