طلاق عدی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



طلاقِ عدی کا شمار طلاق کی اقسام میں سے ہوتا ہے جس سے علم فقہ میں تفضیلی بحث کی جاتی ہے۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

طلاقِ عدی سے بابِ طلاق میں گفتگو کی جاتی ہے۔ طلاقِ عدی کا شمار طلاقِ سنت کے مقابلے میں ہوتا ہے۔ اس سے مراد ایک شخص کا اپنی زوجہ کو طلاق دینا اور طلاق کی عدت کے دوران اس کا اپنی زوجہ کی طرف رجوع کر لینا ہے اور اس سے نزدیکی اختیار کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ پھر اسے طلاق دیتا ہے اور طلاق دینے کے بعد دوبارہ رجوع کرتا ہے اور اس سے نزدیکی اختیار کرتا ہے۔ اس کے بعد تیسری مرتبہ دوبارہ طلاق دیتا ہے۔ طلاقِ عدی کے مقابلے میں طلاقِ سنت بمعنی اخص آتا ہے۔

مختلف آراء

[ترمیم]

طلاقِ عدّی تین طلاقوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ کس طلاق کو طلاقِ عدّی کہا جائے گا؟ آیا تین طلاقیں جاری ہوں تو تیسری کو طلاقِ عدّی سے موسوم کیا جائے گا یا نہیں بلکہ طلاق دینے کے بعد طلاق کی عدت ختم ہونے سے پہلے شوہر اپنی زوجہ کی طرف رجوع کر لیتا ہے اور اس کے ساتھ قربت اختیار کرتا ہے اور پھر اس کے بعد دوبارہ وہ طلاق دیتا ہے اور عدتِ طلاق ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لیتا ہے اور قربت اختیار کرتا ہے اس کو طلاقِ عدّی کہیں گے؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں:
۱۔ پہلے قول کے مطابق تین طلاقوں میں سے تنہا کسی ایک طلاق کو طلاقِ عدّی نہیں کہا جائے گا۔
۲-۳۔ جبکہ دوسرے اور تیسرے قول کے مطابق پہلے اور دوسری طلاق کو طلاقِ عدّی کہا جائے گا۔
۴۔ جبکہ چوتھے قول کے مطابق پہلی طلاق کو طلاقِ عدّی نہیں کہا جائے گا کیونکہ وہ رجوع کرنے اور قربت اختیار کرنے کے بعد واقع نہیں ہوئی جبکہ اس کے برخلاف دوسری اور تیسری طلاق طلاقِ عدّی کہلائے گی۔

حرام مؤبد ہونا

[ترمیم]

ایک شخص جب اپنی زوجہ کو تین مرتبہ طلاق دیتا ہے تو وہ شخص اپنی زوجہ کی طرف اس وقت تک رجوع نہیں کر سکتا جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے اور وہ دوسرا شوہر سے جدا ہو تو وہ پہلا شوہر دوبارہ رجوع کر سکتا ہے۔ پس ہر تین طلاقوں کے بعد ایک محلل کی ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ ۹ طلاقیں ہو جائیں تو وہ خاتون اس مرد پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ اگر ایک شخص نو (۹) مرتبہ طلاق کی شرائط کے مطابق اپنی زوجہ کو طلاق دے دیتا ہے تو وہ خاتون اس مرد پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. نہایۃ المرام، موسوی عاملی، سید محمد بن علی، ج۲، ص۴۶-۴۷۔    
۲. کفایۃ الاحکام، محقق سبزواری، محمد باقر، ج۲، ص۳۳۵۔    
۳. کشف اللثام، فاضل ہندی، محمد بن حسن، ج۸، ص۵۰-۵۱۔    
۴. الحدائق الناضرة، بحرانی، شیخ یوسف، ج۲۵، ص۲۷۳-۲۷۴۔    
۵. جواہر الکلام، نجفی جواہری، محمد حسن، ج۳۲، ص۱۲۴-۱۲۵۔    
۶. جواہر الکلام، نجفی جواہری، محمد حسن، ج۳۲، ص۱۲۸۔    
۷. تحریر الوسیلۃ، خمینی، سید روح اللہ، ج ۲، ص ۳۵۷۔    


منبع

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم‌السلام، زیر نظر آیت‌الله محمود ہاشمی‌شاہرودی، ج۵، ص۲۰۴، مقالہِ طلاق عدی سے یہ تحریر لی گئی۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : طلاق | طلاق کی اقسام | فقہ




جعبه ابزار