عام و خاص

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



مشترک اور مختص کی بحث ایک جامع اور وسیع بحث ہے جس کو اصطلاح میں عام و خاص سے کہا جاتا ہے۔


لغوی معنی

[ترمیم]

لغت میں عام کا مطلب عمومی، وسیع اور شامل ہونے کے ہیں جبکہ خاص کا مطلب خصوصی اور عمومیت کا نہ ہونے کے ہیں۔

اصطلاحی معنی

[ترمیم]

عام و خاص کے معانی عموما ذہنوں میں موجود ہیں کیونکہ ہر زبان میں کچھ کلمات عموم پر دلالت کرتے ہیں اور کچھ کلمات خصوص پر۔ وہ لفظ جس کے عمومی ہونے پر ادوات اور کلمات دلالت کریں اس لفظ کو عام کہا جاتا ہے اور وہ لفظ جو خاص ہونے پر دلالت کرے اس کو خاص سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پس وہ لفظ جو مصادیق کو گھیرے ہوئے اور انہیں شامل ہو اسے عام کہتے ہیں۔ عام و خاص کی اصطلاح کے وجود میں آنے کے اسباب میں درج نکات بیان کیے جاتے ہیں:
۱۔ علماءِ اصول کی سیرت یہ ہے کہ وہ مباحثِ عام اور مباحث خاص کو عام و خاص کا نام دیتے ہیں۔
۲۔ مشترک کی بحث کا وجود باعث بنا کہ عام اور خاص کی اصطلاح ایجاد کر کے بحث کی جائے۔
۳۔ اس اصطلاح کو اختیار کرنے کی وجہ سے بہت سی اصطلاحات ہمارے سامنے آ جاتی ہیں جن میں منطقی نوعیت کا نظم ایجاد کر کچھ اصطلاحات سامنے لائی گئی ہیں جیسے عام، خاص، عام و خاص مطلق، عام و خاص من وجہ۔ ان اصطلاحات کو ہم عام اور خاص کی اصطلاح کے زیر تحت قرار دے سکتے ہیں۔
[۵] محمدی، ابو الحسن، مبانی استنباط حقوق اسلامی ‌یا اصول فقہ، ص۸۲۔
[۷] فاضل لنکرانی، محمد، سیری کامل دراصول فقہ، ج۸، ص ۸۸-۸۹۔
[۸] فاضل لنکرانی، محمد، سیری کامل دراصول فقہ، ج۸، ص۱۰۳۔


الفاظ عموم

[ترمیم]

ہر وہ لفظ جو عموم پر دلالت کرے وہ الفاظِ عموم کہلاتا ہے۔ اصولیوں نے عربی زبان میں عموم پر دلالت کرنے والے کلمات کی تعیین کی ہے جن میں پانچ سے خصوصی طور پر بحث کی جاتی ہے جوکہ درج ذیل ہیں:
۱۔ کُلّ اور جو اس کے معنی میں ہو
۲۔ نفی کے سیاق میں نکرہ کا آنا
۳۔ نہی کے سیاق میں نکرہ کا آنا
۴۔ الف لام جمع کا آنا
۵۔ الف لام کا مفرد پر آنا۔
[۱۷] زہیر المالکی، محمد ابو النور، اصول الفقہ، ج۲، ص۱۹۵۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. سبزواری، سید عبد الاعلی، تہذیب الاصول، ج۱، ص۱۲۵۔    
۲. شہید صدر، سید محمد باقر، دروس فی علم الاصول، ج ۱، ص ۸۴۔    
۳. مشکینی، علی، تحریر المعالم فی اصول الفقہ، ص ۹۷۔    
۴. صاحب معالم، حسن بن زین الدین، معالم الدین و ملاذ المجتہدین، ص ۱۰۰۔    
۵. محمدی، ابو الحسن، مبانی استنباط حقوق اسلامی ‌یا اصول فقہ، ص۸۲۔
۶. شہید ثانی، زین الدین بن علی، تمہید القواعد، ص۱۴۷۔    
۷. فاضل لنکرانی، محمد، سیری کامل دراصول فقہ، ج۸، ص ۸۸-۸۹۔
۸. فاضل لنکرانی، محمد، سیری کامل دراصول فقہ، ج۸، ص۱۰۳۔
۹. سبحانی، جعفر، الموجزفی اصول الفقہ، ج۱،۲، ص ۱۸۵۔    
۱۰. مکارم شیرازی، ناصر، انوار الاصول، ج۲، ص ۱۷۲-۱۷۶۔    
۱۱. سبزواری، سید عبد الاعلی، تہذیب الاصول، ج۱، ص۱۲۷۔    
۱۲. مشکینی، علی، تحریر المعالم فی اصول الفقہ، ص۹۷۔    
۱۳. آخوند خراسانی، محمد کاظم بن حسین، کفایۃ الاصول، ص ۲۱۷۔    
۱۴. نائینی، محمد حسین، اجود التقریرات، ج۱، ص۴۴۰۔    
۱۵. علامہ حلی، حسن بن یوسف، مبادی الوصول الی علم الاصول، ص۱۱۷۔    
۱۶. میرزا قمی، ابو القاسم بن محمد حسن، قوانین الاصول، ج۱، ص۱۹۲۔    
۱۷. زہیر المالکی، محمد ابو النور، اصول الفقہ، ج۲، ص۱۹۵۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، یہ تحریر مقالہ بنامِ عام و خاص سے لی گئی ہے۔


اس صفحے کے زمرہ جات : اصول فقہ | عام اور خاص | مباحث الفاظ




جعبه ابزار