عوامی رائے کی حیثیت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



عوام کى رائے یا اکثریت کى رائے جدىد اصطلاحات مىں سے ہىں۔ بعض معاصر علماء کرام نے اس اصطلاح کا فقہى تناظر مىں جائزہ لیا ہے جس کو اجمالى طور پر بىان کىا جاتا ہے۔


عوامی رائے یا اکثریت کى رائے

[ترمیم]

اکثریت کى رائے سے دو جگہ بحث کى جاتى ہے:
۱. حاکم کے چناؤ مىں اکثریت کى رائے لىنا؛
۲. قوانین کى تشکیل میں عوام کى رائے یا اکثریت کى رائے لىنا؛

← حاکم کے چناؤ میں اکثریت کى رائے


ریاست اور حاکمیت کی زمام فقط اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت مىں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنى حکمت و اختیار سے یہ منصب عطا کرتا ہے اور جو ہستىاں قابلیت رکھتى ہىں ان کو اس منصب کى سنگىن ذمہ دارى سے ہمکنار کرتا ہے۔ مکتب تشىع کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حکومت اور معاشروں پر سیاست کرنے کى ذمہ دارى رسول اللہ (صلى اللہ علىہ وآلہ) اور ان کے بعد ۱۲ آئمہ علىہم السلام کے سپرد کى۔ پس اس طرزِ تفکر کے مطابق حاکم کے چناؤ اور اس کو حکومت کا حق دىنے مىں عوامى اور اکثرىت کى رائے کى کوئى اہمىت نہىں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حاکم چننے کا اختىار اپنى مخلوق کو عناىت نہىں کىا۔ اللہ تعالیٰ اپنى حکمت و مشىت کے تحت حق حکومت اپنے مخصوص بندوں کو عطا کرتا ہے اور عوام پر اس الہى حکمران کى اطاعت کرنا ضرورى ہے۔ اس مسئلہ مىں عوام کى ذمہ دارى رائے دىنا نہىں ہے بلکہ الہى حاکم کى بھر پور اطاعت کرنا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئى حکومت کا قانونى حق نہىں دے سکتا۔
اگرچہ عوامی رائے کى اہمىت حکومت کا حق دىنے کى جہت سے نہىں ہے لىکن عملى طور پر حکومت کے تحقق کے لىے عوام کى رضا مندى ىا عوامى مقبولىت شرط ہے کىونکہ اسلام مىں جبرى حکومت کا تصور موجود نہىں ہے۔ لہذا عوام کى طرف سے قبولىت کو حکومت کے تحقق کى شرط قرار دىا گىا ہے۔
اىک طرز تفکر ىہ بھى پاىا جاتا ہے کہ اگر حاکم کى تعىىن اللہ تعالیٰ کى طرف سے کر دى جائے تو پھر عوام اور اکثرىت کو رائے دىنے کا کسى قسم کا حق حاصل نہىں ہے، مثلا اللہ تعالیٰ کى جانب سے رسول ( صلى اللہ علىہ وآلہ) یا امام (علىہ السلام) کو منصوب کر دىا گىا ہے تو اىسے مورد مىں اکثریت کى رائے کى کوئى اہمیت نہیں ہے۔
لىکن اگر اللہ تعالیٰ کى طرف سے حاکم کو معىن نہىں کىا گىا تو پھر عوامى رائے حجت اور قابل قىمت ہے۔ اس مورد مىں حکومت کى زمام اور رہبرى اىک طرف سے اللہ کے ہاتھوں مىں ہے اور دوسرى طرف سے عوام بھى اس حاکمىت مىں شرىک ہىں۔

←← اسلامی حاکم کی شرائط


اسلامی حاکم مىں دو شرائط کا ہونا ضرورى ہے:
۱۔ دىن کى کامل سوجھ بوجھ رکھتا ہو اور عدالت کے ملکہ سے آراستہ ہو، ىعنى فقاہت و عدالت رکھتا ہو۔
۲۔ عوامى رضا مندى اور مقبولیت رکھتا ہو، یعنى عوام کى اکثریت اس کے حکومت کرنے پر راضى ہو اور اس کو قبول کرتى ہو۔
لہذا کہا جا سکتا ہے کہ اگر عوام کى اکثریت ایک ایسے شخص کو حاکم کے طور پر قبول کرلیں کہ جو نہ فقیہ ہو اور نہ عادل، تو ایسا شخص شرعى طور پر اسلامى حاکم نہیں بن سکتا۔ یا اگر ایک شخص فقیہ و عادل ہو لىکن عوام کى اکثریت اس کے حکومت کرنے پر رضا مند نہ ہو اور اسے قبول نہ کرے تو بھى حاکم نہىں بن سکتا۔
[۵] الفقہ، ص۱۸۱ -۱۸۲۔
[۶] صدر، محمد باقر، الاسلام یقود الحیاة (البنک اللاربوی)، ص۱۹-۲۱۔


← قوانین کى تشکیل میں اکثریت کى رائے


اکثریت کى رائے کو ایک اور مورد میں بھى لحاظ رکھا جاتا ہے اور وہ قانون کى تشکىل ہے۔ مکتب اسلام کے مطابق اللہ تعالیٰ کى طرف سے نازل کردہ شرىعت اور اس کے قوانىن کے سامنے کسى کو کسى قسم کا حق حاصل نہىں ہے۔۔ لىکن جہاں شرىعت نے وسعت دى ہے اور کوئى خصوصىى نوعىت کا حکم ىا قانون ذکر نہىں کىا وہاں زمانے کے تقاضوں اور عمومى مصالح کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازى کى جا سکتى ہے جىساکہ عموما معاشروں مىں پارلىمنٹ ىا مثلا مجلس شورى عوامى نمائندوں کى آراء کے تناظر مىں قانون بناتے ہىں۔ البتہ اس مورد مىں ضرورى ہے کہ مجلس شورى ىا پارلىمنٹ جو قانون بنائے وہ اسلام کى بلند افکار اور اس کے شرعى ضوابط سے متصادم نہ ہوں۔
[۸] صدر، محمد باقر، اقتصادنا، ص ۶۸۶تا۶۸۰۔
[۹] صدر، محمد باقر، الاسلام یقود الحیاة (البنک اللاربوی)، ص ۱۸-۱۹۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. نعیمیان، ذبیح اللہ، نشریہ معرفت، ص ۸۔    
۲. یزدی، محمد تقی مصباح، نظریہ سیاسی اسلام، ج ۲، ص ۴۸۔    
۳. رنجبر مقصود، پگاہ حوزہ، ص ۵۔    
۴. جوادی آملی، عبد اللہ، ولایت فقیہ رہبری در اسلام، ج ۱، ص ۱۶۔    
۵. الفقہ، ص۱۸۱ -۱۸۲۔
۶. صدر، محمد باقر، الاسلام یقود الحیاة (البنک اللاربوی)، ص۱۹-۲۱۔
۷. عبد اللہ شفائی، فقہ، ص ۴۔    
۸. صدر، محمد باقر، اقتصادنا، ص ۶۸۶تا۶۸۰۔
۹. صدر، محمد باقر، الاسلام یقود الحیاة (البنک اللاربوی)، ص ۱۸-۱۹۔


ماخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام ج۱، ص۱۲۷۔    






جعبه ابزار