قرآن کریم میں برہان صدیقین

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



اللہ تعالی کے وجود کو خود اسی کی ذات کے ذریعے سے ثابت کرنا برہانِ صدّیقین کہلاتا ہے۔


برہان صدیقین کا دیگر براہین سے امتیازی پہلو

[ترمیم]

اللہ تعالی کے اثبات کے لیے علماء و حکماء نے مختلف براہین پیش کیے ہیں جن میں سے ایک برہانِ صدّیقین ہے۔ تمام براہین کے برخلاف فقط برہان صدّیقین واحد وہ دلیل ہے جس میں تنہا اللہ تعالی کی ذاتِ حق کے ذریعے اس کے وجود کو ثابت کیا جاتا ہے۔ درحالانکہ دیگر براہین مثلا برہانِ نظم، برہانِ حرکت، برہانِ حدوث وغیرہ اس طرح نہیں ہیں کیونکہ ان میں اللہ تعالی کی مخلوقات اور اس کی آیات کے ذریعے سے وجودِ باری تعالی پر استدلال قائم کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی تمام خلقت سے برتر، بلند تر اور روشن و ظاہر تر ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ دیگر مخلوقات اور وجودات آ کر اس کی ذات کو آشکار اور ظاہر کریں!! کیا اللہ تعالی غائب اور بقیہ مخلوقات روشن و آشکار ہیں!! حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تمام وجودات کو خلق کیا اور ان کو ظلمتوں سے نکل کر روشنی عنایت کی اور قوت سے فعل میں لا کر ان کو حیات و بقاء دی۔ بھلا کیسے ممکن ہے جو خود عطا کرنے والا ہو اور ہر شیء اپنے وجود، حیات و بقاء میں اس کی محتاج ہو وہی ذاتِ حق اپنے وجود کے اثبات اور ظہور کے لیے اپنے غیر کا محتاج ہو جائے!!

وجہِ تسمیہ

[ترمیم]

تاریخ میں سب سے پہلے جس نے اس برہان کا نام برہانِ صدّیقین رکھا وہ شیخ الرئیس ابن سینا ہیں۔ اس برہان کو برہانِ صدّیقین کہنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ برہان حکماء کے طریقے کے مطابق محکم ترین اور صحیح ترین برہان ہے۔ شیخ الرئیس نے اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو برہانِ صدیقین کا نام دیا۔
[۱] ابن سینا، حسین بن عبد الله، الاشارات و التنبیہات، ج‌۳، ص‌۶۷‌۔


← صدیق کے لغوی معنی


لفظِ صدیق صِدۡق سے مشتق ہے اور صدیق و صدق میں باہمی ربط اور ملازمت پائی جاتی ہے۔ لغت کے مطابق وہ شخص جو بہت سچا، راستگو اور اپنے قول میں کا ذمہ دار ہو اسے لغت میں صادق کہتے ہیں اور ہر عمل، فعل اور قول کو تصدیق کہا جاتا ہے۔

دینی کتب میں برہان صدیقین

[ترمیم]

برہان صدیقین کے نام سے کسی برہان کا تذکرہ قرآن کریم اور دینی مصادر و منابع میں نہیں آیا۔ البتہ بعض آیات واضح طور برہان صدیقین کے معنی کو ثابت کرتی ہیں، جیسے سوره فصلت آیت ۵۳؛ سوره نور آیت ۳۵؛ سوره آل‌ عمران آیت ۱۸۔ اسی طرح اور چند آیات اور بھی ہیں جن کو بطورِ شاہد پیش کرتے ہوئے برہان صدیقین کو قائم کیا جا سکتا ہے، مثلا سوره فرقان کی آیت ۴۵ ، سورہ حدید آیت ۳۔

برہان صدیقین روایات میں

[ترمیم]

برہان صدّیقین جس معنی پر مشتمل ہے وہ معنی آئمہ اطہار ؑ سے منقول احادیث مبارکہ اور مناجات و دعاؤں میں وارد ہوا ہے۔ ذیل میں چند نمونے اس مطلب پر پیش کیے جاتے ہیں:

← دعاؤں سے چند نمونے


۱۔ امیر المؤمنینؑ سے منقول ہے کہ آپؑ نماز فجر کی دو رکعت پڑھ لینے کے بعد ایک دعا پڑھا کرتے تھے جس میں برہان صدیقین پر مشتمل معانی کا تذکرہ ہوا ہے: يَا مَنْ‌ دَلَ‌ عَلَى‌ ذَاتِهِ‌ بِذَاتِه‌؛ اے وہ جو اپنے ذات پر اپنی ہی ذات کے ذریعے دلیل ہے۔
۲۔ اسی طرح دعاء عرفہ میں امام حسینؑ سے یہ کلمات منقول ہوئے ہیں جو برہان صدیقین کے معنی کو ثابت کرتے ہیں: أَ يَكُونُ‌ لِغَيْرِكَ‌ مِنَ الظُّهُورِ مَا لَيْسَ لَكَ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الْمُظْهِرَ لَكَ مَتَى غِبْتَ حَتَّى تَحْتَاجَ إِلَى دَلِيلٍ يَدُلُّ عَلَيْك‌؛ بار الہا کیا تیرے غیر کسی ایسے ظہور و نور کا مالک ہے جو تیرے پاس نہ ہو یہاں تک کہ وہ تجھ کو ظاہر اور آشکار کرے !! تو غائب ہی کب تھا کہ (اپنی ذات کے علاوہ) کسی ایسی دلیل کا محتاج ہو جو تیرے وجود پر دلالت کرے !!
۳۔ امام سجادؑ سے دعا حمزہ ثمالی میں برہان صدیقین کا تذکرہ وارد ہوا ہے، امامؑ فرماتے ہیں: بِكَ‌ عَرَفْتُكَ‌ وَأَنْتَ دَلَلْتَنِي عَلَيْكَ وَدَعَوْتَنِي إِلَيْكَ وَ لَوْ لَا أَنْتَ لَمْ أَدْرِ مَا أَنْت‌؛ (اے اللہ) تیرے ہی ذریعے میں نے تجھ کو پہچانا اور تو نے اپنی طرف میری رہنمائی کی اور مجھے اپنی طرف بلایا، اگر تو نہ ہوتا تو میں نہ جان پاتا کہ تو کون ہے!

← احادیث مبارکہ سے چند نمونہ


دعاؤں کی طرف مختلف احادیث میں بھی برہان صدیقین کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔
۱۔ الکافی میں امیر المؤمنینؑ سے روایت میں برہان صدیقین ان کلمات کے ساتھ وارد ہوئی ہے: اعْرِفُوا اللَّهَ‌ بِاللَّه‌؛ تم لوگ اللہ کو اللہ ہی کے ذریعے سے پہچانو۔
۲۔ معتبر روایت میں امام جعفر صادقؑ سے دعا وارد ہوئی ہے جسے غیبتِ امام زمانؑ میں خصوصی طور پر پڑھنے کی تاکید وارد ہوئی ہے اس کے آغاز میں وارد ہوا ہے: اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي‌ نَفْسَكَ‌ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْ نَبِيَّك‌ ...؛ بارِ الہا ! مجھے اپنے آپ کی معرفت عنایت فرما، اگر تو نے مجھے اپنی معرفت عنایت نہ فرمائی تو میں تیرے نبیک کو نہیں جان سکوں گا ...۔
۳۔ امام علیؑ سے الکافی میں روایت وارد ہوئی ہے جس میں سائل نے امامؑ سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنے ربّ کو کس چیز کے ذریعے پہچانا؟ امامؑ نے اس کے جواب میں فرمایا: بِمَا عَرَّفَنِي‌ نَفْسَه‌؛ اس نے جس کے ذریعے سے خود اپنی پہچان کرائی۔
۴۔ صحیح السند روایت میں منصور بن حازم امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک گروہ سے مناظرہ کیا ہے اور انہیں کہا ہے کہ اللہ جل جلالہ اس سے اجلّ، اعزّ اور اکرَم ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے ذریعے پہچانا جائے بلکہ بندوں نے اللہ کے ذریعے اس کی معرفت حاصل کی ہے۔ امامؑ نے یہ سن کر فرمایا: اللہ تجھ پر رحمت نازل کرے۔
۵۔ آیت اللہ حسن زادہ آملی نے متعدد کتب میں برہان صدیقین اور اس کے دینی منابع کو ذکر کیا ہے۔ انہی میں سے ایک جگہ رسول اللہؐ سے حدیث کو نقل کیا ہے جس میں آنحضرتؐ سے سوال کیا گیا آپؐ نے کس چیز سے اپنے ربّ کی معرفت حاصل کی۔ آپؐ نے فرمایا: بِاللّهِ عَرَفۡتُ الۡأَشۡیَاءَ؛ میں نے اللہ کے ذریعے سے اشیاء کو پہچانا ہے۔
[۲۳] ہاشمی خوئی، میرزا حبیبب اللہ، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، ج ۱۹، ص ۲۲۹۔

اس معتبر اور صحیح السند روایات سے واضح ہو جاتا ہے کہ احادیث مبارکہ میں برہان صدیقین موجود ہے۔ البتہ بعض نے ان معارف پر مشتمل احادیث کا برہان صدیقین بیان کرنے کو قبول نہیں کیا اور ان کلمات بِکَ عَرَفۡتُکَ... سے قلب و دل کی راہ سے معرفت الہی کا ہونا مراد لیا ہے۔
[۲۴] خدا در نہج البلاغہ، ص‌۹۲ - ۹۴۔


نتیجہ

[ترمیم]

آیات و روایات واضح طور پر برہان صدیقین پر دلالت کرتی ہیں۔ حکماءِ اسلامی اور فلاسفہِ متألہین نے وجود، واقعیت اور واجب الوجود بالذات پر برہان صدیقین سے استدلال کیا ہے برخلاف حکماءِ یونان مثل ارسطو اور ان کے پیرو کے جنہوں نے اللہ تعالی کے وجود پر برہانِ حرکت اور حدوث سے استدلال قائم کیا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن سینا، حسین بن عبد الله، الاشارات و التنبیہات، ج‌۳، ص‌۶۷‌۔
۲. راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص‌۴۷۹، صدق۔    
۳. فصّلت/سوره۴۱، آیت ۵۳۔    
۴. نور/سوره۲۴، آیت ۳۵۔    
۵. آل‌عمران/سوره۳، آیت ۱۸۔    
۶. فرقان/سوره۲۵، آیت ۴۵۔    
۷. حدید/سوره۵۷، آیت ۳۔    
۸. صدر الدین شیرازی، محمد بن ابراہیم‌، مفاتیح الغیب، ج‌۱، ص‌۲۳۹۔    
۹. مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، ج‌۳، ص‌۸۹-۹۰۔    
۱۰. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج‌۸۷، ص‌۳۳۹۔    
۱۱. ابن طاووس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، ج ۱، ص ۳۴۹۔    
۱۲. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج‌ ۶۷، ص‌۱۴۲۔    
۱۳. ابن طاووس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، ج‌۱، ص‌۱۵۷۔    
۱۴. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج‌۳، ص‌۲۷۰۔    
۱۵. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج‌۹۸، ص‌۸۲۔    
۱۶. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۸۵، حدیث:۱۔    
۱۷. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج‌۳، ص‌۲۷۰۔    
۱۸. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۳۳۷، ح ۵۔    
۱۹. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۸۶، ح ۲۔    
۲۰. شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، ص ۲۸۵، باب ۴۱، ح ۱۔    
۲۱. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۸۶، ح ۳۔    
۲۲. آملی، حسن حسن زادہ، وحدت از دیدگاه عارف و حکیم، ص‌۱۱۵۔    
۲۳. ہاشمی خوئی، میرزا حبیبب اللہ، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، ج ۱۹، ص ۲۲۹۔
۲۴. خدا در نہج البلاغہ، ص‌۹۲ - ۹۴۔
۲۵. صدر الدین شیرازی، محمد بن ابراہیم‌، الحکمۃ المتعالیۃ فی الأسفار العقلیۃ الأربعۃ، ج‌۶‌، ص‌۱۳‌-۱۴۔    


مأخذ

[ترمیم]

دائرة‌ المعارف قرآن کریم، مقالہِ برہانِ صدیقین۔    






جعبه ابزار