لفظ محکم

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



وہ لفظ جو ایک معنی میں ظاہر ہو اس کو لفظِ محکم کہتے ہیں۔


محکم کی تعریف

[ترمیم]

لفظِ محکم ان الفاظ کی اقسام میں سے ہے جو واضح الدلالۃ ہوں ۔ اس کے مقابلے میں لفظِ متشابہ آتا ہے۔ لفظِ محکم میں لفظ اپنے معنی پر واضح اور آشکار دلالت کرتا ہے اور لفظِ نص اور لفظِ ظاہر کے درمیان مشترک ہے۔ اگر لفظ واضح طور پر دلالت کر رہا ہو اور اس میں کسی اور معنی کا اصلًا احتمال نہ دیا جائے تو اس کو نصّ کہا جاتا ہے۔ اگر لفظ واضح الدلالۃ ہو جس میں متعدد معانی کا احتمال دیا جائے لیکن لفظ سنتے ساتھ ایک لفظ سبقت کرتے ہوئے فورا ذہن میں آ جائے جبکہ بقیہ معانی کے احتمالات مرجوع ہوں تو اس کو لفظِ ظاہر کہتے ہیں، مثلا قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے: إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئا؛ بے اللہ ذرہ برابر لوگوں پر ظلم نہیں کرتا۔ چونکہ اس آیت کریمہ کے تمام الفاظ کی دلالت اپنے معانی پر واضح اور آشکار ہے اس لیے اس آیت کو آیاتِ محکم قرار دیا جائے گا۔

← اہل سنت اصولیوں کی بیان کردہ تعریف


اہل سنت علماءِ اصول نے لفظِ محکم کی ان الفاظ میں تعریف کی ہے: وہ لفظ جو خود اپنے معنی پر واضح دلالت کرے اور اس میں تاویل، تخصیص اور نسخ کا احتمال نہ پایا جائے اس کو لفظِ محکم کہتے ہیں۔
[۴] زحیلی، وہبہ، اصول الفقہ الاسلامی، ج۱، ص۳۲۳۔
[۸] فیض، علی رضا، مبادی فقہ و اصول، ص۲۴۔
[۹] زہیر مالکی، محمد ابو النور، اصول الفقہ، ج۲، ص۱۷۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. یونس/سوره۱۰، آیت ۴۴۔    
۲. سرخسی، محمد بن احمد، اصول السرخسی، ج۱، ص۱۶۵۔    
۳. علامہ حلی، حسن بن یوسف، مبادئ الوصول الی علم الاصول، ص ۶۶-۶۵۔    
۴. زحیلی، وہبہ، اصول الفقہ الاسلامی، ج۱، ص۳۲۳۔
۵. جرجانی، محمد بن علی، کتاب التعریفات، ص۸۹۔    
۶. حکیم، محمد تقی طباطبائی، الاصول العامۃ للفقہ المقارن، ص۱۰۱۔    
۷. سجادی، جعفر، فرہنگ معارف اسلامی، ج۳، ص۱۷۱۲۔    
۸. فیض، علی رضا، مبادی فقہ و اصول، ص۲۴۔
۹. زہیر مالکی، محمد ابو النور، اصول الفقہ، ج۲، ص۱۷۔
۱۰. مشکینی، علی، اصطلاحات الاصول، ص ۲۳۳-۲۳۲۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص ۶۷۳، ماخوذ از مقالہ لفظ محکم۔    






جعبه ابزار