مجتہد مطلق

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



مجتہدِ مطلق سے مراد وہ شخص ہے جو تمام فقہیِ ابواب میں حکم شرعی کے استنباط کی صلاحیت و ملکہ رکھتا ہے۔



مجتہد مطلق کی تعریف

[ترمیم]

مجتہدِ مطلق سے مراد وہ فقیہ و مجتہد ہے جو تمام ابوابِ فقہ میں شرعی ادلہ مثلا امارہ یا اصلِ عملی کے ذریعے حکمِ شرعی کو شرعی منابع سے استنباط کرنے کی قدرت و ملکہ رکھتا ہے۔ پس تمام ابوابِ فقہی میں ملکہِ اجتہاد رکھنے والے کو مجتہدِ مطلق کہتے ہیں۔

بعض نے تمام احکامِ شرعی کے استنباط کی قدرت اور توانائی سے نوعِ احکامِ شرعی کا استنباط کرنا مراد لیا ہے؛ کیونکہ یقینی طور پر ہمیں معلوم ہے کہ مجتہدِ مطلق تمام کے تمام احکامِ شرعی کو استنباط کرنے کی ایسی توانائی نہیں رکھتا کہ اصلا اس کو کسی قسم کی دشواری یا پیچیدگی کا سامنا ہی نہ کرنا پڑے۔ بلکہ حتمی طور پر بعض ایسے حکمِ شرعی کا امکان موجود ہے جن کو استنباط کرنے کے لیے مجتہدِ مطلق مختلف قسم کی دشواریوں کا سامنا کرے۔

مجتہد مطلق سے متعلق مختلف مباحث

[ترمیم]

اصولِ فقہ کی کتب میں مجتہدِ مطلق اور اجتہادِ مطلق کی مباحث ذکر کی گئی ہیں جن میں سے بعض ابحاث درج ذیل ہیں:
۱. کیا خارج میں اجتہادِ مطلق کا امکان ہے یا اجتہادِ مطلق محال ہے؟
۲. اگر ہم قبول کریں کہ اجتہادِ مطلق ہو سکتا ہے تو درج ذیل مسائل ابھر کر سامنے آتے ہیں:
الف) کیا مجتہدِ مطلق یہ قدرت رکھتا ہے کہ فتوی دے یا نہیں؟ یعنی منصب افتاء اس کے لیے ثابت ہے یا نہیں ؟ کیا وہ اپنی رائے دے سکتا ہے یا نہیں؟ اور ابنی رائے کے مطابق عمل کر سکتا ہے یا نہیں؟
ب) کیا مجتہدِ مطلق کے لیے منصبِ قضاوت ثابت ہے یا نہیں؟ کیا وہ مختلف جھگڑوں اور باہمی مسائل میں حکم جاری کرنے کا حق رکھتا ہے یا نہیں؟
ج) کیا مجتہدِ مطلق کے لیے سازگار اور مناسب ہے کہ وہ پورے معاشرے پر حکومت کی ذمہ داری سنبھالے یا اس کے لیے یہ سازگار نہیں؟
[۴] الاجتہاد اصولہ و احکامہ، بحرالعلوم، محمد، ص۱۳۲۔
[۶] التنقیح فی شرح العروة الوثقی، خوئی، ابو القاسم، ص۲۸۔
[۸] منتہی الدرایۃ فی توضیح الکفایۃ، جزائری، محمد جعفر، ج۸، ص۳۸۲۔


مربوط عناوین

[ترمیم]

اجتہاد مطلق، اجتہادِ متجزی، مجتہد متجزی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. طباطبائی حکیم، محمد تقی، الاصول العامۃ للفقہ المقارن، ص۵۷۹۔    
۲. مکارم شیرازی، ناصر، انوار الاصول، ج۳، ص۶۰۹۔    
۳. ایضاح الکفایۃ، فاضل لنکرانی، محمد، ج۶، ص۳۳۳۔    
۴. الاجتہاد اصولہ و احکامہ، بحرالعلوم، محمد، ص۱۳۲۔
۵. الرسائل الاربع قواعد اصولیۃ و فقہیۃ، سبحانی تبریزی، جعفر، ج۳، ص۲۴۔    
۶. التنقیح فی شرح العروة الوثقی، خوئی، ابو القاسم، ص۲۸۔
۷. کفایۃ الاصول، آخوند خراسانی، محمد کاظم بن حسین، ص۴۶۷۔    
۸. منتہی الدرایۃ فی توضیح الکفایۃ، جزائری، محمد جعفر، ج۸، ص۳۸۲۔


مأخذ

[ترمیم]
فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۶۸۳، برگرفتہ از مقالہ مجتہد مطلق۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : اصطلاحات فقہی | علم اصول فقہ | مجتہد




جعبه ابزار