وصف اصولی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



وصف وہ قید ہے جو موضوع پر عارض ہوتی ہے اور یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ موضوع کے دائرہ کو تنگ کر دے۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

اصول فقہ میں وصف سے مراد وہ قید ہے جو موضوع پر عارض ہوتی ہے اور یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ موضوع کو قید لگا کر اس کا دائرہ تنگ کر دے، مثلا فی الغنم السائمۃ زکاۃ، اس عبارت میں غنم کی صفت سائمہ وارد ہو رہے ہے جوکہ غنم کے اطلاق کو مقید کر رہی ہے اور اس کے دائرہ کو تنگ کر رہی ہے۔ سائمہ کا مطلب وہ جانور ہے جو بیابانوں میں چر کر پلا بڑھا ہو۔

وصف کا شامل ہونا

[ترمیم]

اصول فقہ میں وصفِ اصولی کا دائرہ وصفِ نحوی کی نسبت عمومی تر اور اعم ہے اور درج ذیل امور کو شامل ہو جاتا ہے:
۱. وصف نحوی ، مثلا: أکرم إنسانًا عالِمًا یا أطعم مِسۡکِیۡنًا عادِلًا، اس میں عالم اور عادل نحوی اور اصولی ہر دو لحاظ سے صفت واقع ہو رہے ہیں جن کا موصوف انسان اور مسکین ہے؛
۲. حال ، مثلا: جِاءَنِي زَیۡد رَاکِبًا یا جَاءَنِي زید ماشیًا، ان مثالوں میں راکبا اور ماشیا حال ہے جوکہ اصولی طور پر زید کے لیے وصف واقع ہو رہا ہے؛
۳. تمییز ، مثلا: جاءني بِرَطۡلٍ زیتًا یا اشتعل الرأس شیۡبًا، ان مثالوں میں زیت اور شیب تمیز واقع ہو رہے ہیں اور وصفِ اصولی بن رہے ہیں؛
۴. ظرف ، مثلا: أکرِمۡ زَیۡدًا یَوۡمَ الۡجُمعَة یا رأیت زیدًا یوم الجمعة، ان مثالوں میں یومِ جمعہ ظرفِ زمان اور وصفِ اصولی بن رہا ہے؛
۵. جار اور مجرور ، مثلا: أکرمۡ زیدًا في المَدۡرَسَةِ یا رأیت زیدًا في السوق، ان مثالوں میں فی حرف جر ہے جو اپنے مجرور کے ساتھ مل کر وصفِ اصولی بن رہا ہے۔

اصول فقہ میں وصف کی تعریف

[ترمیم]

اصولیوں نے وصف کی تعریف اس طرح سے ذکر کی ہے:
المقصود بالوصف هنا: ما یعمُّ النعتَ وغیرَه، فیشمل الحال والتمییز ونحوهما مما یصلح ان یکون قیدا لموضوع التکلیف؛ وصف سے مقصود وہ ہے جو صفت اور غیرِ صفت کو شامل ہو، پس وصف حال، تمییز اور ان کی مانند دیگر موارد جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ موضوعِ تکلیف کے لیے قید بنیں کو شامل ہو جاتا ہے۔

وصف کی مفہوم پر دلالت

[ترمیم]

اصولیوں میں یہ بحث موجود ہے کہ آیا وصف کی دلالت مفہوم پر ہے یا نہیں ہے؟ اکثر اصولی قائل ہیں کہ وصف مفہوم نہیں رکھتا۔ اس مسئلہ میں اکثر اصولیوں کا اتفاق پایا جاتا ہے۔ محقق خوئی بیان کرتے ہیں: وکیف کان فالظاهر أنه لا خلاف ولا إشکال فی عدم دلالته علی المفهوم؛ ظاہر یہ ہے کہ وصف کی مفہوم پر دلالت نہ ہونے پر کسی کو نہ کوئی اختلاف ہے اور نہ کوئی اعتراض و اشکال۔

وصف کی شرائط

[ترمیم]

وصف کی متعدد شرائط ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ضروری ہے کہ وصف موصوف سے اخص ہو، نہ موصوف کے مساوی ہو اور نہ اس سے اعم تر ہو۔
[۳] شرح اصول فقہ، محمدی، علی، ج۱، ص۲۵۴۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. اصول الفقہ، مظفر، محمد رضا، ج۱، ص ۱۲۳-۱۲۲۔    
۲. محاضرات فی اصول الفقہ، خوئی، ابو القاسم، ج۵، ص۱۲۷۔    
۳. شرح اصول فقہ، محمدی، علی، ج۱، ص۲۵۴۔
۴. کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم، تہانوی، محمد علی بن علی، ج۲، ص۱۰۷۸۔    
۵. إیضاح الکفایۃ، فاضل لنکرانی، محمد، ج۳، ص۳۱۳۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۸۹۰، مقالہِ وصف سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : اصول فقہ | مباحث الفاظ | مفاہیم




جعبه ابزار