یزید کی ہلاکت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



یزید بن معاویہ بن ابو سفیان دوسرے اموی بادشاہ کی پیدائش سنہ ۲۲ یا ۲۵ ہجری کو ہوئی۔ اس کی ماں میسون بنت بجدل بن انیف کلبی تھی۔


حکومت یزید کی مدت

[ترمیم]

معاویہ نے اپنی حکومت کے آخری ایام میں دھمکیوں اور لالچ کے بل بوتے پر مسلمانوں سے یزید کیلئے خلافت کی بیعت لے لی اور امام حسنؑ کے ساتھ کیے گئے صلح نامہ کی شرائط کہ جس پر اس کے دستخط تھے؛ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے بدکار بیٹے کو اسلامی دنیا کا حاکم مقرر کر دیا۔
[۳] مقدسی، مطهر بن طاهر، آفرینش و تاریخ، ج۲، ص۹۰۱، تهران، آگه، ۱۳۷۴۔
یزید سنہ ۶۰ھ میں تخت نشین ہوا اور سنہ ۶۴ھ تک حکومت پر براجمان رہا۔

یزید کا رہن سہن اور اخلاق

[ترمیم]

عام مورخین نے یزید کو ایک شراب خور، بندروں سے کھیلنے والا اور اسلامی احکامات کی نسبت بے اعتنا قرار دیا ہے۔ تاریخ میں وارد ہوا ہے کہ عبد اللہ بن حنظلہ اور اہل مدینہ کی ایک جماعت نے یزید کے طرز زندگی سے آگاہی کی غرض سے دمشق کا سفر کیا۔ انہوں نے مدینہ واپسی پر یزید کے بارے میں کہا: ہم ایک ایسے شخص کے پاس گئے تھے جو بے دین ہے، شراب خور ہے، تنبور بجاتا ہے، موسیقار اس کے پاس لہو و لعب میں مشغول رہتے ہیں اور وہ کتوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔۔۔ ۔
[۴] طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۷، ص۳۰۹۷، ترجمه ابوالقاسم پاینده، تهران، اساطیر، ۱۳۷۵۔

عبد اللہ بن حنظلہ نے مزید کہا: خدا کی قسم! ہم یزید کے پاس سے اس حال میں باہر نکلے کہ ہمیں آسمان سے پتھر برسنے کا خوف تھا۔
[۵] ذهبی، محمد به احمد، تاریخ الاسلام، ج۳، ص۲۷، بیروت، دارالکتب العربی، ۱۴۱۳ھ طبع دوم۔

مسعودی بھی یزید کے بارے میں لکھتا ہے: اس کی زندگی فرعون کی مثل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر تھی۔
[۶] مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۳، ص۶۳، قم، دار الهجره، ۱۴۰۹ھ طبع دوم۔

بعض مصنفین کے مطابق یزید دیہات میں اپنی دایہ کے پاس پروان چڑھا اور اس کے ننھیال قبول اسلام سے پہلے عیسائی تھے اور ابھی تک مسیحی عادات و اطوار ان میں باقی تھیں۔ لہٰذا یزید کی تربیت عیسائیوں کے طریقے پر ہوئی تھی۔
[۷] رستم نژاد، مهدی، عاشورا، ص۲۱۴، قم، به نقل از شریف قرشی، محمد، حیاة الامام الحسین بن علی، مدرسه امام علی بن ابیطالب علیه‌السّلام، ۱۳۸۴ ھ، طبع دوم۔


یزید کے جرائم

[ترمیم]

یزید نے اپنے تین چار سالہ دور حکومت میں انتہائی بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا۔

← امام حسینؑ کی شہادت


یزید کا سب سے بڑا جرم امام حسینؑ اور آپؑ کے ۷۲ باوفا ساتھیوں کو شہید کرنا ہے۔ تاریخوں میں منقول ہے: یزید نے اپنی حکومت کے آغاز میں مدینے کے والی عتبہ کو ایک خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ امام حسینؑ اور دیگر شخصیات سے بیعت لے۔ یزید نے اس خط میں حکم دیا کہ اگر یہ لوگ بیعت نہ کریں تو ان کے سر قلم کر کے میرے پاس بھیجو۔
[۹] یعقوبی، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۷۷۲، ترجمه محمد ابراهیم آیبی، تهران، انتشارات علمی و فرهنگی، ۱۳۸۲ ھ۔


← حرہ کا واقعہ


مدینہ شہر پر حملے اور قتل و غارت کو واقعہ حرہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اس سال یزید نے پانچ ہزار شامیوں کو مسلم بن عقبہ کی قیادت میں مدینہ روانہ کیا۔ مسلم نے مدینہ پر حملہ کر کے واقعہ حرہ کا ارتکاب کیا۔ اس سانحے میں بہت سے لوگ قتل کر دئیے گئے۔ اس نے اپنے آدمیوں کو تین دن کیلئے کھلی چھٹی دے دی کہ وہ مدینہ میں جو مرضی کریں۔ دینوری لکھتے ہیں: واقعہ حرہ میں اسی کے لگ بھگ صحابہ کرامؓ کو قتل کیا گیا۔ مہاجرین و انصار میں سے ۷۰۰ اور باقی مسلمانوں میں سے دس ہزار افراد کام آئے۔

← مکہ شہر پر حملہ


اس کا ایک اور جرم مکہ شہر پر حملہ اور کعبہ پر سنگ باری ہے۔ مسلم بن عقبہ واقعہ حرہ کے بعد ابن زبیر کے ساتھ لڑائی کی غرض سے مکہ کی طرف روانہ ہوا مگر راستے میں ہی ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد حصین بن نمیر کو لشکر یزید کا سپہ سالار مقرر کیا گیا۔ شام کے سپاہیوں نے مکہ کا محاصرہ کیا اور منجنیق سے اس شہر پر حملہ کیا۔ حرم کو آگ لگا دی۔ اس واقعے میں خانہ کعبہ منہدم ہو گیا اور لوگوں کے بہت سے گھر نذر آتش ہو گئے اور سنہ ۶۴ھ میں یزید کی ہلاکت کی خبر مشہور ہونے کے بعد سپاہی شام واپس آ گئے۔
[۱۴] ابن خلدون، العبر، ج۲، ص۳۸، ترجمه عبدالمحمد آیتی، مؤسسه مطالعات فرهنگی، ۱۳۶۳، طبع اول۔


یزید کی ہلاکت

[ترمیم]

شیخ عباس قمی نقل کرتے ہیں: چودہ ربیع الاول سنہ ۶۴ھ کو اس کی ہلاکت کا دن ہے۔
[۱۵] قمی، شیخ عباس، وقائع الایام، ص۲۷۷، قم، صبح پیروزی، ۱۳۸۵۔

طبری لکھتے ہیں: یزید ۱۵ ربیع الاول سنہ ۶۴ھ کو جمعرات کے دن مرا۔
سہیل طقوش لکھتا ہے: یزید حوران کے اطراف میں تین سال آٹھ ماہ اور چودہ دن کی حکمرانی کے بعد ہلاک ہو گیا۔
[۱۷] طقوش، محمد سهیل، دولت امویان، ص۹۸، قم، پژوهشکده حوزه و دانشگاه، ۱۳۸۰۔


← یزید کی ہلاکت کی وجہ


اس کی موت کی علت کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ وہ ایک بیماری کے باعث حوران میں ہلاک ہوا۔
[۱۸] قمی، شیخ عباس، وقائع الایام، ص۲۷۷، قم، صبح پیروزی، ۱۳۸۵۔
شیخ عباس قمی لکھتے ہیں: شیخ صدوق نے روایت کیا ہے کہ وہ ناگہانی موت کا شکار ہوا۔ رات کو مستی کی حالت میں سویا تو صبح مردہ پایا گیا اور اس کی لاش خراب ہو چکی تھی۔
[۱۹] قمی، شیخ عباس، وقائع الایام، ص۲۷۷، قم، صبح پیروزی، ۱۳۸۵۔


← دیگر اقوال


اس حوالے سے دیگر اقوال بھی نقل ہوئے ہیں جو زیادہ اہم نہیں ہیں۔ شیخ عباس قمی لکھتے ہیں: اس کا مقام دفن حواریین نامی مقام پر واقع ہے۔
[۲۰] قمی، شیخ عباس، وقائع الایام، ص۲۷۷، قم، صبح پیروزی، ۱۳۸۵۔
ایک اور مقام پر منقول ہے کہ اس کا جنازہ دمشق میں لایا گیا اور اسے باب صغیر میں دفن کیا گیا اور اس کی قبر اس وقت کوڑے کے ڈھیر میں بدل چکی ہے۔
[۲۱] قمی، شیخ عباس، وقائع الایام، ص۲۷۷، قم، صبح پیروزی، ۱۳۸۵۔

تاریخی منابع میں ہلاکت کے وقت اس کی عمر ۳۷،
[۲۲] قمی، شیخ عباس، وقائع الایام، ص۲۷۷، قم، صبح پیروزی، ۱۳۸۵۔
۳۹ اور ۳۵ سال ذکر کی گئی ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. جوزی، علی بن محمد، المنتظم، ج۴، ص۳۲۲، بیروت، دارالکتب العلمیه، ۱۴۱۲۔    
۲. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۲۴۳۔    
۳. مقدسی، مطهر بن طاهر، آفرینش و تاریخ، ج۲، ص۹۰۱، تهران، آگه، ۱۳۷۴۔
۴. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۷، ص۳۰۹۷، ترجمه ابوالقاسم پاینده، تهران، اساطیر، ۱۳۷۵۔
۵. ذهبی، محمد به احمد، تاریخ الاسلام، ج۳، ص۲۷، بیروت، دارالکتب العربی، ۱۴۱۳ھ طبع دوم۔
۶. مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۳، ص۶۳، قم، دار الهجره، ۱۴۰۹ھ طبع دوم۔
۷. رستم نژاد، مهدی، عاشورا، ص۲۱۴، قم، به نقل از شریف قرشی، محمد، حیاة الامام الحسین بن علی، مدرسه امام علی بن ابیطالب علیه‌السّلام، ۱۳۸۴ ھ، طبع دوم۔
۸. شریف قرشی، محمد، حیاة الامام الحسین بن علی، ج۲، ص۱۸۰۔    
۹. یعقوبی، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۷۷۲، ترجمه محمد ابراهیم آیبی، تهران، انتشارات علمی و فرهنگی، ۱۳۸۲ ھ۔
۱۰. ابن اثیر، عزالدین، الکامل، ج۱۱، ص۲۴۲۔    
۱۱. ابن اثیر، عزالدین، الکامل، ج۱۱، ص۱۱۲۔    
۱۲. دینوری، ابن قتیبه، الامامه و السیاسه، ج۱، ص۱۸۸۔    
۱۳. دینوری، ابوحنیفه، اخبار الطوال، ص۳۷۰۔    
۱۴. ابن خلدون، العبر، ج۲، ص۳۸، ترجمه عبدالمحمد آیتی، مؤسسه مطالعات فرهنگی، ۱۳۶۳، طبع اول۔
۱۵. قمی، شیخ عباس، وقائع الایام، ص۲۷۷، قم، صبح پیروزی، ۱۳۸۵۔
۱۶. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۳۸۳، ترجمه ابوالقاسم پاینده، تهران، اساطیر، ۱۳۷۵۔    
۱۷. طقوش، محمد سهیل، دولت امویان، ص۹۸، قم، پژوهشکده حوزه و دانشگاه، ۱۳۸۰۔
۱۸. قمی، شیخ عباس، وقائع الایام، ص۲۷۷، قم، صبح پیروزی، ۱۳۸۵۔
۱۹. قمی، شیخ عباس، وقائع الایام، ص۲۷۷، قم، صبح پیروزی، ۱۳۸۵۔
۲۰. قمی، شیخ عباس، وقائع الایام، ص۲۷۷، قم، صبح پیروزی، ۱۳۸۵۔
۲۱. قمی، شیخ عباس، وقائع الایام، ص۲۷۷، قم، صبح پیروزی، ۱۳۸۵۔
۲۲. قمی، شیخ عباس، وقائع الایام، ص۲۷۷، قم، صبح پیروزی، ۱۳۸۵۔
۲۳. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۷، ص۳۱۲۱، ترجمه ابوالقاسم پاینده، تهران، اساطیر، ۱۳۷۵۔    


ماخذ

[ترمیم]

سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ «ہلاکت یزید بن معاویہ»، نظر ثانی ۹۵/۰۱/۱۷۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : بنی امیہ | تاریخ خلفا | مقالاتِ پژوھہ | یزید




جعبه ابزار