نص اور ظاہر میں تعارض

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



دلیلِ نص اور دلیل ظاہر کے مدلول کے درمیان ٹکراؤ اور تنافی کو تعارضِ نص و ظاہر کہتے ہیں۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

ادلّہ لفظی میں تعارض کی اقسام میں سے ایک نص اور ظاہر میں تعارض ہے۔ اس سے مراد نص کے مدلول اور ظاہر کے مدلول کے درمیان تنافی کا ہونا ہے۔ نص اس دلیل کو کہتے ہیں جس کا معنی واضح اور آشکار ہو اور اس میں دیگر معانی کا احتمال نہیں دیا جاتا، جبکہ ظاہر میں دیگر معانی کا احتمال موجود ہوتا ہے لیکن ایک معنی ذہن میں دیگر معانی کی نسبت سبقت کر جاتا ہے۔ پس اگر نص اور ظاہر میں تعارض ہو جائے تو ان میں سے ایک راجح اور دوسرا مرجوح کہلائے گا، جیساکہ عام اور خاص کے درمیان تعارض ہے کہ عام اپنے معنی میں ظاہر اور خاص اپنے معنی میں نص ہے، مثلا مولی کہتا ہے: أکرم العلماء، اس مثال میں اکرام و احترام کا وجوب تمام علماء میں ظاہر ہے، فرق نہیں پڑتا وہ علماء اصولی ہیں یا نحوی و صرفی وغیرہ، وجوبِ اکرام کا ظہور سب علماء میں ہے، پھر مولی کہتا ہے: لا بأس بترک إکرام النحاة، اس مثال میں نحویوں کے اکرام کا عدمِ وجوب نص ہے۔

اصولیوں کے اقوال

[ترمیم]

نص اور ظاہر میں تعارض کے مورد میں علماءِ اصول کی نظر مختلف ہے، بعض اقوال درج کیے جاتے ہیں:
۱. مرحوم شیخ انصاری و مشہور علماءِ اصول قائل ہیں کہ نص کو ظاہر پر مقدم کیا جائے گا اور ظاہر کی توجیہ کی جائے گی۔
۲. بعض علماءِ اصول معتقد ہیں کہ اس مورد میں ضروری ہے کہ باب تعارض کے قواعد کی رعایت کی جائے۔
۳. بعض دیگر علماء اس مورد میں تفصیل کے قائل ہیں۔
[۳] فاضل لنکرانی، محمد، کفایۃ الاصول، ج۶، ص ۱۵۴-۱۵۰۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. آخوند خراسانی، محمد کاظم بن حسین، کفایۃ الاصول، ص۴۳۸۔    
۲. انصاری، مرتضی بن محمد امین، فرائد الاصول، ج۴، ص۸۶۔    
۳. فاضل لنکرانی، محمد، کفایۃ الاصول، ج۶، ص ۱۵۴-۱۵۰۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۳۴۱، مقالہِ تعارض نص و ظاہر سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    






جعبه ابزار