ایام فاطمیہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



ایام فاطمیہ ان دنوں کا نام ہے کہ جن کے دوران اہل بیتؑ کے محبین حضرت فاطمہ زہراؑ کی شہادت کی مناسبت سے عزاداری کا اہتمام کرتے ہیں۔ حضرت زہراؑ کی تاریخِ شہادت میں اختلاف اور شیعہ علما کی جانب سے دونوں تاریخوں کو معتبر سمجھنے کی وجہ سے اہل تشیع ’’ایام فاطمیہ‘‘ کو دو مرتبہ مناتے ہیں اور ان ایام میں نبی کریمؐ کی دختر گرامی کے مصائب اور آپؑ کے شریک حیات حضرت علیؑ کی مظلومیت کی یاد میں مجالس عزا منعقد کرتے ہیں۔ ان مجالس و محافل میں اسلام کی سب سے افضل خاتون اور راہ ولایت کی پہلی شہیدہ کے فضائل و مصائب بیان کیے جاتے ہیں جبکہ اہل بیتؑ کے دشمنوں سے اظہار بیزاری کیا جاتا ہے۔


حضرت زہراؑ کی شہادت

[ترمیم]

حضرت زہراؑ کائنات کی سب سے کامل اور افضل خاتون ہیں۔ آپؑ معصوم کی بیٹی، زوجہ اور ماں ہونے کے عنوان سے سیدۃ نساء العالمین، ام ‌الائمہ، ام‌ ابیها، طاہرہ اور صدیقہ کبریٰ جیسے القاب اور کنیات سے پہچانی جاتی ہیں۔
اپنے والد بزرگوار کی شہادت اور اپنے شوہر نامدار کی مظلومیت اور ان کا حق غصب ہو جانے کے بعد بعض مشہور و معروف افراد کے حملے کے دوران آپؑ کے بدن اطہر پر زخم لگے جس کی وجہ سے آپؑ کی شہادت واقع ہوئی۔ اور اپنی وصیت کے مطابق رات کے وقت اور مخفیانہ طور پر دفن ہوئیں؛ لہٰذا آج تک آپؑ کا نشان قبر معلوم نہیں ہے۔ دنیا بھر کے شیعوں کی ایک اہم مذہبی مناسبت حضرت فاطمہ زہراؑ کے ایام شہادت کے دوران مجالس و عزاداری کا انعقاد ہے؛ یہ دن ’’ایام فاطمیہ‘‘ کے عنوان سے معروف ہیں۔

فاطمیہ اول اور فاطمیہ دوم

[ترمیم]

مشہور شیعہ علما کے نزدیک ’’فاطمیہ اول‘‘ کی مدت تیرہ جمادی الاول سے پندرہ جمادی الاول تک ہیں جبکہ ’’فاطمیہ دوم‘‘ کو تین سے پانچ جمادی الثانی کے دوران منایا جاتا ہے۔
حضرت زہراؑ کی تاریخ شہادت کے بارے میں روایات مختلف ہیں کہ جن میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے چالیس دن بعد سے چھ ماہ بعد تک کی روایات بیان کی گئی ہیں۔ تاہم علمائے شیعہ کے درمیان دو احتمال معتبر ہیں:
۱۔ آپؑ کی شہادت وصال رسولؐ کے ۷۵ دن بعد ہوئی۔
۲۔ آپؑ کی شہادت ۹۵ دن بعد ہوئی۔
لہٰذا اگر پیغمبر اکرمؐ کی ۲۸ صفر کے دن رحلت کے بعد ۷۵ دن شمار کیے جائیں تو آپؑ کی شہادت تیرا سے پندرہ جمادی الاول کے مابین واقع ہوئی؛ پس ان ایام کو ’’فاطمیہ اول‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اور ۹۵ دن کی روایت کے مطابق حضرت زہراؑ کی شہادت تین سے پانچ جمادی الثانی کے دوران واقع ہوئی؛ لہٰذا ان دنوں کو ’’فاطمیہ دوم‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس بنا پر ’’ایام فاطمیہ‘‘ مجموعی طور پر ۶ دنوں پر محیط ہیں، جمادی الاول کے تین دن اور جمادی الثانی کے تین دن؛ ’’فاطمیہ اول‘‘ ۱۳ سے ۱۵ جمادی الاول جبکہ ’’فاطمیہ دوم‘‘ ۳ سے ۵ جمادی الثانی کے دوران منعقد ہوتا ہے۔
ان دونوں مہینوں میں تین دن تک جناب سیدہؑ کی شہادت کا سوگ کرنے کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس زمانے میں آنحضرتؐ کی رحلت سے حضرت زہراؑ کی شہادت تک کے قمری مہینوں کے دن انتیس انتیس ہوں؛ اس طرح تین دنوں کا فرق پڑ جاتا ہے؛ چنانچہ قمری مہینے انتیس دن کے ہونے کی صورت میں آپؑ کایوم شہادت ۷۵ دن کی روایت کے مطابق ۱۱ جمادی الاول ہو گا اور ۹۵ دن کی روایت کی رو سے یکم جمادی الثانی بنے گا؛ وعلی ھذا القیاس تینوں مہینے پورے تیس تیس دن کے ہونے کی صورت میں تین دن زیادہ ہو جاتے ہیں؛ اس حساب سے ایک روایت کے مطابق آپؑ کا یوم شہادت ۱۳ جمادی الاول جبکہ دوسری روایت کے مطابق ۳ جمادی الثانی ہو گا۔
البتہ عرف میں جمادی الاول کے دوسرے عشرے یعنی دس سے بیس جمادی الاول کہ ۷۵ دنوں کی روایت کے مطابق خاتون جنتؑ کی شہادت ان دنوں میں واقع ہوئی تھی؛ کو ’’عشرہ فاطمیہ اول‘‘ کہا جاتا ہے اور جمادی الثانی کے پہلے عشرے یکم سے دس جمادی الثانی کو ۹۵ دنوں کی روایت کے حساب سے ’’عشرہ فاطمیہ دوم‘‘ کہا جاتا ہے۔

تاریخی پس منظر

[ترمیم]

ایام فاطمیہ کی باقاعدہ عزاداری کی رسم ایران کی معاصر تاریخ میں لگ بھگ ڈیڑھ صدی پر محیط ہے؛ اگرچہ اس سے قبل بھی شیعہ اس مناسبت کا اہتمام کرتے تھے۔
[۳۶] فتحی، علی اشرف، نگاهی تاریخی به ایام فاطمیه، فصلنامه شهر قانون، سال دوم، شماره پنجم، بهار ۱۳۹۲۔
اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ اس دن کو منانا چونکہ بعض خلفا کے کردار پر تنقید سے خالی نہیں ہے، اس لیے اس مذہبی مناسبت سے مربوط مراسم اہل سنت کے دور حکومت میں سرکاری سطح پر رائج نہیں تھے؛ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ان ادوار میں پیغمبر اکرمؐ کی لخت جگر کے مصائب باضمیر مسلمانوں اور اہل تشیع کی نگاہوں سے اوجھل رہ گئے ہوں۔
ٹھوس تاریخی اسناد و مدارک سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آئمہ معصومینؑ اور شیعہ حضرت زہراؑ کی شہادت کے ایام میں مجلس عزا منعقد کرتے تھے، تاہم خاص حالات اور گھٹن کے ماحول کی وجہ سے آئمہ اطہارؑ کے زمانے میں آپؑ کے مصائب پر عزاداری عام اور علی الاعلان نہیں ہوتی تھی۔ حضرت سید الشہداؑ سے منقول ہے کہ فرمایا: امیر المومنینؑ حضرت فاطمہ زہراؑ کے دفن کے موقع پر اس ماں کی طرح گریہ و زاری فرما رہے تھے کہ جس کا بچہ جاں بحق ہو چکا ہو۔ یا رسول اللہ! خدا کے حضور آپؑ کی دختر نیک اختر مخفیانہ سپرد خاک ہوئیں، ان کا حق زبردستی چھینا گیا اور علی الاعلان انہیں میراث سے محروم کیا گیا حالانکہ ابھی آپ کی رحلت کو زیادہ وقت نہیں گزرا تھا اور آپؑ کا تذکرہ باقی تھا۔
یہ عزاداری دیگر آئمہؑ کے ادوار میں بھی جاری رہی؛ مثال کے طور پر خصیبی نے الھدایۃ الکبریٰ میں اور بحرانی نے العوالم میں اور اسی طرح بہت سے دیگر افراد نے سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ امام صادقؑ اپنی جدہ حضرت فاطمہؑ کی عزاداری میں ایسے گریہ کرتے تھے اور ایسے ذکر مصیبت کرتے تھے کہ آپؑ کی ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی تھی۔
آئمہ اطہارؑ کے بعد بھی یہ عزاداری ہر دور کے شیعوں کی سیاسی آزادی کے تناسب سے جاری رہی۔ جب بھی شیعہ حکومتی دباؤ کے تحت نہیں ہوتے تھے تو آئمہ اطہارؑ اور حضرت فاطمہ زہراؑ کی عزاداری میں اضافہ ہو جاتا تھا؛ تاہم جب حکومتی دباؤ اور سختی زیادہ ہو جاتی تو یہ عزاداری کچھ کم رنگ ہو جاتی اور مخفیانہ طور پر انجام دی جاتی۔ ابن اثیر لکھتے ہیں: تیسری، چوتھی اور پانچویں صدی کے دوران عراق میں آل بویہ کی حکومت، شام میں حمدانیون کی حکومت اور مصر میں فاطمیون کی حکومت تشکیل پانے کے بعد شیعہ مذہب پھیل گیا اور عزاداری کی رسومات میں بھی تنوع پیدا ہو گیا۔
تاریخی شواہد کی بنا پر ’’ایام فاطمیہ‘‘ کی عزاداری اور اس کی ترویج قاجاری دور حکومت اور بالخصوص ناصر الدین شاہ کے زمانے میں سرکاری سطح پر کی گئی؛ چنانچہ شیخ ابراہیم زنجانی کی تحریر کردہ یاد داشت کے مطابق ان کے زمانے میں ’’ایام فاطمیہ‘‘ سرکاری سطح پر رائج ہوئے تھے۔
ان کی نقل سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’فاطمیہ اول‘‘ کی عزاداری ان کی تشویق و ترغیب کے باعث ناصری عہد سے زنجان میں رائج ہوئی۔ اس کے ساتھ ناصر الدین شاہ اور مظفر الدین شاہ کے زمانے میں حوزہ علمیہ نجف بھی ’’ایام فاطمیہ‘‘ کی عزاداری کا انعقاد کرتا رہا ہے۔ آخوند خراسانی کا اس حوالے سے نمایاں کردار ہے اور ان کے بیت میں ’’فاطمیہ دوم‘‘ کی عزاداری بڑے پیمانے پر مقبول ہوئی۔ ’’ایام فاطمیہ‘‘ کے حوزہ نجف میں انعقاد کی اہمیت اس حوالے سے ہے کہ نجف قاجار کے عہد میں ابھی تک متعصب عثمانی حکومت کے زیر تسلط تھا اور دوسری طرف سے علمائے نجف ہمیشہ یہ سعی کرتے تھے کہ شیعہ و سنی کے مابین اتحاد کا ماحول قائم رکھیں۔
[۴۶] فتحی، علی اشرف، نگاهی تاریخی به ایام فاطمیه، فصلنامه شهر قانون، سال دوم، شماره پنجم، بهار ۱۳۹۲۔


عزاداری کا دورانیہ

[ترمیم]

یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جناب سیدہؑ کیلئے دو عشروں تک عزاداری کیوں منعقد ہوتی ہے؟!
اس حوالے سے ہمارے پاس کوئی حدیث نہیں ہے کہ مومنین حضرت فاطمہ زہراؑ کی عزاداری میں کتنے دن سوگ کریں؛ تاہم روایات میں ہے: اے مومنو! ہماری خوشی میں خوش ہو اور ہمارے غم میں غم کرو۔
امام رضاؑ نے ریان بن شبیب سے فرمایا: اگر تم یہ چاہتے ہو کہ بہشت کے اعلیٰ درجات میں تمہیں ہماری صحبت اور ساتھ نصیب ہو تو ہمارے غم میں غم کرو اور ہماری خوشی میں خوشی کرو۔
امیر المومنین علیؑ بھی فرماتے ہیں: خداوند تبارک و تعالیٰ نے زمین پر نظر کی اور ہمیں چنا اور ہمارے شیعوں کو ہمارے لیے چنا جو ہمارا ساتھ دیتے ہیں؛ ہماری خوشی میں خوش اور ہمارے غم میں مغموم ہوتے ہیں اور اپنے مال و جان کو ہمارے راستے میں نثار کرتے ہیں؛ وہ ہم سے ہیں اور ہماری طرف پلٹ کر آئیں گے۔
اس بنا پر شیعوں کے نزدیک عزاداری کیلئے کسی محدود مدت کا تصور نہیں ہے اور حالیہ برسوں میں پہلے اور دوسرے عشرے کی شہرت محرم کے عشرہ اول کی تقلید میں ہے؛ البتہ ہمیں اس حوالے سے کوئی ایسی روایت نہیں ملتی۔ تاہم حضرتؑ کی تاریخ شہادت میں اختلاف کی وجہ سے شیعہ اسے منانے کی غرض سے دونوں اختلافی تاریخوں میں عزاداری کا اہتمام کرتے ہیں؛ چونکہ حضرتؑ کی شہادت کیلئے مشہور دونوں تاریخوں میں بیس دنوں کا فاصلہ ہے؛ اس لیے شیعوں نے اسے دو عشروں میں تقسیم کر دیا ہے اور اس کے دوران وہ عزاداری کرتے ہیں۔ ان دو عشروں کا وقت مختلف شہروں میں مختلف ہے لیکن عام طور پر ۷۵ دنوں کے قول کی بنا پر جمادی الاول کے دوسرے عشرے دس سے بیس تاریخ کو ’’فاطمیہ اول‘‘ اور ۹۵ روز کے قول کی بنا پر جمادی الثانی کے پہلے عشرے میں اول سے دہم تک کو عشرہ ’’فاطمیہ دوم‘‘ کہا جاتا ہے؛ چونکہ شہادت کی دقیق تاریخ معلوم نہیں ہے اس لیے علما، بزرگان اور شیعہ شہادت کی نقل شدہ دونوں تاریخوں کی مناسبت سے ’’ایام فاطمیہ‘‘ کا اہتمام کرتے ہیں۔
شیخ عباس قمی نے منتھی آلامال میں نقل کیا ہے: بہتر یہ ہے کہ ہم دونوں روایتوں پر عمل کریں اور دونوں تاریخوں میں عزاداری کا اہتمام کریں۔
[۵۶] قمی، شیخ عباس، منتهی الامال، ج۱، ص۲۵۹۔
[۵۷] قمی، شیخ عباس، منتهی الامال، ج۱، ص۲۶۷۔

دوسری طرف سے حضرت زہراؑ کی مصیبت ایک عظیم مصیبت ہے اور جس قدر مصیبت بڑی ہو، اسی قدر اس سے مربوط عزاداری بھی زیادہ ہو گی۔ اہل تشیع بنت پیغمبرؐ کی نسبت خاص عقیدت رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جناب سیدہؑ کی شہادت امیر المومنینؑ کی ولایت اور حقانیت کے اثبات کی راہ میں ہوئی تھی؛ اس لیے وہ ان دنوں میں عزاداری کا اہتمام کرتے ہیں۔

ایام فاطمیہؑ کی افادیت

[ترمیم]

ایام فاطمیہ کی افادیت عالمگیر ہے اور یہ عصر حاضر میں شیعہ بلکہ اسلام کو تربیتی اور معاشرتی بحران سے نجات دینے میں ممد و معاون ہو سکتے ہیں؛ چونکہ ان ایام میں ’’درسگاہ فاطمہؑ‘‘ کے دروازے کھلے ہوتے ہیں اور اس میں ہر انسان بالخصوص خواتین کیلئے انفرادی، معاشرتی اور سیاسی سطح پر اسلامی طرز زندگی کو بیان کیا جاتا ہے۔ ذیل میں اس افادیت کے چند نمونوں کی طرف اشارہ کیا جائے گا:

← اسلامی معاشرے میں مثالی کردار


حضرت زہراؑ دنیا کی سب سے کامل اور اعلیٰ خاتون ہیں کہ جو معصومؑ کی بیٹی، شریک حیات اور ماں ہونے کے عنوان سے سیدۃ نساء العالمین، ام ‌الائمہ، ام ‌ابیها، طاہرہ، صدیقہ کبریٰ و... جیسے القاب و کنیات سے معروف ہیں؛ اس لیے یہ شائستہ ہے کہ آپؑ سے مربوط تمام مناسبتوں اور فرصتوں میں ان کی ذات کو دنیا کی تمام خواتین بالخصوص مسلمان خواتین کیلئے بطور نمونہ پیش کیا جائے؛ تاکہ آپؑ کی زندگی کے حساس اور سخت مراحل مسلمان خواتین کیلئے ایک رول ماڈل کی حیثیت سے برجستہ اور نمایاں ہوں۔
سب سے پہلا مرحلہ آپؑ کی ولادت ہے۔ حضرت زہراؑ کی ولادت کا دن ’’یوم خواتین‘‘ اور ’’روز مادر‘‘ کے عنوان سے معروف ہے۔ پس آپؑ کا یوم ولادت ایک قومی اور عالمی مناسبت ’’روز مادر(مدر ڈے)‘‘ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ آپؑ کی زندگی کا ایک اور تاریخی موڑ آپؑ کا حضرت علیؑ سے ازدواج ہے کہ جسے ایرانی کیلنڈر کے مطابق ’’ازدواج اور خاندان کے قومی دن‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس دن حضرت زہراؑ ’’رشتہ تزویج‘‘ کے حوالے سے ایک مثالی کردار کے طور پر جانی جاتی ہیں اور آپؑ کے عقد کی تقریب کو دیکھتے ہوئے نوجوانوں کی آسان اور سادہ شادی کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ آپؑ کی مختصر زندگی کا آخری مرحلہ یعنی آپؑ کی شہادت، زندگی کے تمام ابعاد میں حضرتؑ کے فضائل و سیرت کا احاطہ کرنے کی ایک نادر فرصت ہے۔
منقول روایات کے مطابق ایک دن آنحضرتؐ نے اپنے اصحاب سے عورت کے بارے میں سوال فرمایا کہ عورت کس حال میں خدا سے زیادہ نزدیک ہوتی ہے؟ اصحاب نے جواب نہیں دیا، جب حضرت فاطمہؑ نے یہ بات سنی تو عرض کیا کہ عورت اس وقت خدا کے سب سے زیادہ نزدیک ہوتی ہے کہ جب اپنے گھر کی نگرانی کرے اور باہر نہ جائے پس آنحضورؐ نے فرمایا: فاطمہ میرا حصہ ہے۔

← عفاف و حجاب کی ترویج


نامحرم مردوں سے آمنا سامنا ہونے کی صورت میں عفاف و حجاب کا خیال رکھنا؛ ہمارے معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ حضرت زہراؑ سے اظہار عقیدت کے علاوہ ’’ایام فاطمیہ‘‘ کو عشرہ عفاف و حجاب بھی کہا جاتا ہے۔ اس عشرے میں ایک مکمل باحجاب خاتون کیلئے نمونہ ہونے کے عنوان سے حضرت زہراؑ کی شخصیت اور کردار کو امت کے سامنے رکھا جاتا ہے۔
سید فضل اللّه راوندی نوادر میں امیر المومنینؑ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نے حضرت فاطمہؑ سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی، فاطمہؑ نے اس سے پردہ کیا، پیغمبرؐ نے جناب فاطمہؑ سے فرمایا: آپؑ نے خود کو کیوں چھپایا ہے جبکہ یہ نابینا شخص آپؑ کو نہیں دیکھ رہا؟ عرض کیا: اگر وہ مجھے نہیں دیکھ رہا تو میں تو اسے دیکھ رہی ہوں، اگر میں پردے میں نہ جاؤں تو وہ میری خوشبو محسوس کر سکتا ہے۔ پس آنحضرتؐ نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تو میری لخت جگر ہے۔
[۶۳] راوندی، قطب‌الدین، النوادر، ص۱۱۹۔

ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ جب پیغمبرؐ نے آپؑ سے یہ سوال فرمایا کہ عورت کیلئے کون سی چیز بہتر ہے؟ تو حضرت فاطمہؑ نے فرمایا: یہ کہ وہ کسی مرد کو نہ دیکھے اور کوئی مرد اسے نہ دیکھے؛ پس حضرتؐ نے اپنی نور چشم کو سینے سے لگایا اور فرمایا: ذُرِّیةً بعضهُا منْ بَعْضٍ
آپؑ کی زندگی معاشرے میں عفاف و حجاب کو عملی کرنے کے حوالے سے روشن دروس اور لطیف نکات کی حامل ہے اور ایک مسلمان خاتون کے معاشرے میں ظاہر ہونے کی حدود و کیفیت کو آشکار کرنے کے حوالے سے ایک بہترین اسوہ ہے۔

← سیاسی جدوجہد میں عورت کا مقام


پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد بعض مشہور شخصیات میں ذاتی اور جاہلی کینے ظاہر ہونا شروع ہوئے؛ ان حالات میں سقیفہ بنی ساعدہ نے اہل بیتؑ کا مسلمہ حق خلافت غصب کر لیا۔ حضرت زہراؑ نے اسلامی معاشرے میں اپنے مقام و منزلت کو دیکھتے ہوئے مختلف محاذوں پر سیاسی جدوجہد کی اور آخرکار ولایت کے دفاع اور خلفا کی بیعت نہ کرنے کی پاداش میں مجروح ہوئیں اور چند دنوں کے بعد شہید ہو گئیں۔
تاریخی منابع کے مطابق حضرت زہراؑ کی جدوجہد کا ایک پہلو یہ تھا کہ امیر المومنینؑ کے ہمراہ انصار و مہاجرین کے گھروں میں تشریف لے جاتی تھیں اور ان سے خلافت کا رخ درست سمت موڑنے کے حوالے سے تعاون طلب فرماتی تھیں۔
شاید حضرت زہراؑ کا سب سے نمایاں سیاسی اقدام فدک غصب کیے جانے کے بعد مدینہ کی مسجد میں خطبہ ارشاد فرمانا تھا۔ یہ خطبہ فدکیہ کہ جو فدک کو واپس لینے کی غرض سے حضرت فاطمہؑ کی بے ثمر کوششوں کے بعد دیا گیا؛ یہ درحقیقت ایک شکوہ تھا جو حضرت زہراؑ نے اس وقت کے حالات پر کیا تھا۔ آپؑ پہلے ہی اپنے والد گرامی کی رحلت کے بعد اسلامی حکومت کے ولایت اہل بیتؑ سے انحراف پر ناراض تھیں؛ چنانچہ آپؑ نے فدک کے ضمن میں اس حوالے سے بھی اپنا درست موقف پیش کیا اور معاشرے کے اہم مسائل کے بارے میں بھی اپنے نقطہ نظر واضح فرمایا۔ اس محفل میں ابوبکر عمر اور مہاجرین و انصار میں سے چند اصحاب موجود تھے۔ حضرتؑ نے کمال عفت و حجاب کے عالم میں خطبہ ارشاد فرمایا۔

← قومی اتحاد اور ہمآہنگی


تشیع کی پوری تاریخ میں اہل بیتؑ کی زندگی کے اہم واقعات کی محوریت کے ساتھ منعقد کیے جانے والے مراسم اور مذہبی تقریبات جیسے ایام ولادت کی محافل یا ایام شہادت کی عزاداری؛ کے انعقاد سے عالمی استکبار کے خلاف سیاسی اور جہادی شعور بڑھنے کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران اور دیگر عظیم اقوام کے مابین زیادہ سے زیادہ اتحاد اور ہمبستگی کا ماحول قائم ہوا ہے۔
حضرت زہراؑ کی شہادت کا سوگ اور ’’ایام فاطمیہ‘‘ اس قومی یکجہتی کا ایک مثالی نمونہ ہیں۔ ’’ایام فاطمیہ‘‘ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرتؑ کے محبین امام بارگاہوں اور مساجد میں منعقد ہونے والی محافل میں جمع ہوتے ہیں اور آپؑ کی سیرت و اقوال پر روشنی ڈالنے کے بعد آپؑ کے مصائب پر گریہ کرتے ہیں اور یوں اپنے دلوں کو خواب غفلت سے بیدار کرتے ہیں اور اللہ کی رسی سے تمسک کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔

آخری بات

[ترمیم]
آخر میں ایک نکتے کی طرف اشارہ کریں گے کہ فاطمیہ ایک عشرہ نہیں ہے بلکہ دفاع ولایت کی راہ میں حضرت فاطمہؑ کے جہاد کی غریبانہ اور مظلومانہ حقیقت کو نقل کرنے کی ایک فرصت ہے جبکہ آپؑ امت میں رسول اکرمؐ کی واحد بیٹی تھیں کہ جن کا اجر رسالت ان کے اہل بیتؑ سے محبت کے سوا کچھ نہ تھا۔ قلْ لا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی
ایام فاطمیہ درحقیقت اسلامی معاشرے میں حضرت فاطمہؑ کی سیرت اور طرز زندگی کو عام کرنے کی ایک فرصت کا نام ہے؛ احیائے فاطمیہ کا مطلب صرف عزاداری نہیں ہے بلکہ ’’ایام فاطمیہ‘‘ ایک پلیٹ فارم ہے کہ جس پر آج کے معاشرے کے تمام انفرادی، عائلی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کو سیرت فاطمی کی روشنی میں حل کیا جا سکتا ہے۔
آپؑ کی زندگی کسی خاص زمانے میں محدود نہیں تھی بلکہ اس میں ہر زمانے کیلئے اسوہ قرار پانے کی شائستگی موجود ہے۔ آپؑ نہ صرف گھریلو کام کاج، شوہر داری اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے ایک بے نظیر نمونہ ہیں بلکہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی حضرت سیدہؑ اسلامی کردار کی ایک عملی تصویر ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ہر معاشرے کا بنیادی رکن اور تربیتی اساس ماں ہے اور اگر معاشرے میں تربیت کا فقدان دیکھنے کو ملتا ہے یا بلند اشخاص و افکار پیدا ہوتے ہیں، تو ان سب کا سرچشمہ ماں ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک خود مختار اور عزت و آبرو کا حامل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواتین عزت و آبرو کی حامل نہ ہوں۔
اس لیے حضرت فاطمہ زہراؑ کو تشیع اور اسلامی انقلاب کی ماں اور فاطمی تعلیمات کو مرد و زن سمیت تمام مسلمانوں کیلئے مثالی قرار دیا جا سکتا ہے تاکہ وہ حضرت فاطمہؑ کی سیرت پر عمل پیرا ہو کر ظہور کی راہ ہموار کریں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۰۔    
۲. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۱۔    
۳. صدوق، محمد بن علی، الامالی، ص۵۷۵۔    
۴. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص۲۲۔    
۵. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۶۔    
۶. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السلام)، ج۳، ص۱۳۲۔    
۷. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۶۔    
۸. ابن اثیر، علی بن محمد، اسدالغابة، ج۶، ص۲۲۰۔    
۹. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص۱۹۔    
۱۰. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۲۸۶-۲۸۸۔    
۱۱. صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج۱، ص۲۰۵۔    
۱۲. صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمة، ص۲۷۴-۲۷۸۔    
۱۳. صدوق، محمد بن علی، الخصال، ص۵۵۳-۵۵۴۔    
۱۴. حاکم نیشابوری، احمد، مستدرک حاکم، ج۳، ص۱۷۴۔    
۱۵. ابونعیم اصفهانی، احمد بن عبدالله، حلیة الاولیاء، ج۲، ص۴۱۔    
۱۶. ابن ابی‌شیبه، عبداللَّه بن محمد، المصنف، ج۷، ص۴۳۲۔    
۱۷. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۱، ص۵۸۶۔    
۱۸. حمویی جوینی، ابراهیم بن محمد، فرائد السمطین، ج۲، ص۳۵۔    
۱۹. ذهبی، شمس‌الدین، سیر اعلام النبلاء، ج۱۲، ص۱۲۶۔    
۲۰. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۱، ص۴۵۸۔    
۲۱. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۱۱۔    
۲۲. مفید، محمد بن محمد، الامالی، ص۲۸۱۔    
۲۳. بخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۵، ص۱۳۹۔    
۲۴. نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۳۸۰۔    
۲۵. طوسی، محمد بن حسن، الامالی، ص۱۰۹۔    
۲۶. ابن سعد، محمد بن عمر، طبقات الکبری، ج۸، ص۲۴۔    
۲۷. ابن قتیبه دینوری، عبداله بن مسلم، الامامة و السیاسة، ص۳۱۔    
۲۸. ابن اثیر، علی بن ابی‌الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۲۰۰۔    
۲۹. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۱۱، ص۵۹۸۔    
۳۰. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۳، ص۲۴۰۔    
۳۱. مزی، یوسف ‌بن‌ ‌عبد‌الرحمن‌، تهذیب الکمال فی اسماء الرجال، ج۳۵، ص۲۵۲۔    
۳۲. ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینه دمشق، ج۳، ص۱۶۲۔    
۳۳. مجلسی، محمدباقر، مرآه العقول، ج۵، ص۳۱۲۔    
۳۴. مجلسی، محمدباقر، مرآه العقول، ج۵، ص۳۱۴۔    
۳۵. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السلام)، ج۳، ص۳۵۷۔    
۳۶. فتحی، علی اشرف، نگاهی تاریخی به ایام فاطمیه، فصلنامه شهر قانون، سال دوم، شماره پنجم، بهار ۱۳۹۲۔
۳۷. طوسی، محمد بن حسن، الامالی، ص۱۰۹۔    
۳۸. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۵۸۔    
۳۹. مفید، محمد بن محمد، الامالی، ص۲۸۱۔    
۴۰. خصیبی، حسین بن حمدان، الهدایه الکبری، ص۴۰۷۔    
۴۱. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۷، ص۳۸۰۔    
۴۲. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۵۳، ص۱۸۔    
۴۳. انصاری زنجانی، اسماعیل، الموسوعة الکبری عن فاطمة الزهراء (علیهاالسّلام)، ج۲۰، ص۱۹۳۔    
۴۴. قمی، شیخ عباس، بیت الاحزان، ص۱۲۶۔    
۴۵. ابن اثیر، علی بن ابی‌الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۸، ص۵۴۹۔    
۴۶. فتحی، علی اشرف، نگاهی تاریخی به ایام فاطمیه، فصلنامه شهر قانون، سال دوم، شماره پنجم، بهار ۱۳۹۲۔
۴۷. صدوق، محمد بن علی‌، الخصال، ص۶۳۵۔    
۴۸. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۶۸، ص۱۸۔    
۴۹. ابن شعبه حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، ص۱۲۳۔    
۵۰. صدوق، محمد بن علی‌، عیون اخبار الرضا (علیه‌السّلام)، ج۲، ص۲۶۹۔    
۵۱. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۶۔    
۵۲. حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، ج۱۰، ص۳۹۳۔    
۵۳. صدوق، محمد بن علی‌، الامالی، ص۱۹۳۔    
۵۴. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۶۵، ص۱۸۔    
۵۵. صدوق، محمد بن علی‌، الخصال، ص۶۳۵۔    
۵۶. قمی، شیخ عباس، منتهی الامال، ج۱، ص۲۵۹۔
۵۷. قمی، شیخ عباس، منتهی الامال، ج۱، ص۲۶۷۔
۵۸. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۵۰۔    
۵۹. نمازی شاهرودی، علی، مستدرک سفینة البحار، ج۳، ص۱۷۹۔    
۶۰. نوری طبرسی، حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۱۸۲۔    
۶۱. نوری طبرسی، حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۲۸۹۔    
۶۲. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۴، ص۳۸۔    
۶۳. راوندی، قطب‌الدین، النوادر، ص۱۱۹۔
۶۴. آل عمران/سوره۳، آیه۳۴۔    
۶۵. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۴۳، ص۸۴۔    
۶۶. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اهل اللجاج، ج۱، ص۱۰۸۔    
۶۷. انصاری، محمدباقر، کتاب سلیم بن قیس، ص۱۴۸۔    
۶۸. ابن حیون، نعمان بن محمد، شرح الاخبار فی فضائل الائمه الاطهار (علیهم‌السلام)، ج۳، ص۳۴۔    
۶۹. صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیه، ج۳، ص۵۷۶۔    
۷۰. صدوق، محمد بن علی، علل الشّرایع، ج۱، ص۲۴۸۔    
۷۱. حسنی، سید بن طاووس، الطرائف، ص۲۶۴۔    
۷۲. شوری/سوره۴۲، آیه۲۳۔    


ماخذ

[ترمیم]

ویکی فقہ ریسرچ بورڈ۔






جعبه ابزار