عائشہ بنت سعد زہری

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



تاریخ میں متعدد ایسی خواتین گزری ہیں جن کا نام عائشہ تھا۔ عائشہ نام عرب دنیا میں رائج نام تھا جس کی وجہ سے عام لوگ اس لفظ کو اپنے بچوں کے لیے پسند کرتے۔ معروف صحابی سعد بن ابی وقاص نے بھی اپنی دختر کا نام عائشہ رکھا۔


اجمالی تعارف

[ترمیم]

صحابی رسولؐ سعد بن ابی وقّاص کی بیٹی کا نام عائشہ تھا جوکہ اہل سنت کتبِ رجال کے مطابق ثقہ اور قابل اعتماد راویوں میں سے ہیں۔ عائشہ بنت سعد زہری مدینہ میں زندگی بسر کرتی تھیں اور کئی علماء نے آپ سے علم کسب کیا اور احادیث مبارکہ نقل کی ہیں۔ آپ کا شمار تابعین میں ہوتا ہے اور قرشی خواتین میں نامور حیثیت رکھتی ہیں۔ آئمہ صحاحِ ستہ میں سے بخاری، ترمذی، نسائی اور ابو داؤد نے اپنی کتب میں عائشہ بنت سعد سے روایات نقل کی ہیں۔ اسی طرح دیگر اکابر محدثین نے آپ کی نقل کردہ روایات کو اپنی کتب میں تحریر کیا ہے جن میں سے نامور احمد بن حنبل ہیں۔ آپ کا انتقال ۱۱۷ ھ میں ۸۴ سال کی عمر میں مدینہ میں ہوا۔

اہل سنت کتب میں حدیث منزلت جن نامور صحابہ اور تابعین سے نقل ہوئی ہے ان میں سے ایک تابعی عائشہ بنت سعد ہیں جنہوں نے اپنے والد سے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور علماء و محدثین نے اس کو صحیح درجہ کی حدیث قرار دیا ہے جس کے شواہد جمع کیے جائیں تو یہ تواترِ معنوی کی مرتبہ پر پہنچ جاتی ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں اس طرح سے وارد ہوا ہے: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلالٍ، حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهَا: أَنَّ عَلِيًّا خَرَجَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى جَاءَ ثَنِيَّةَ الْوَدَاعِ وَعَلِيٌّ يَبْكِي يَقُولُ: تُخَلِّفُنِي مَعَ الْخَوَالِفِ؟ فَقَالَ: أَوَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلا النُّبُوَّةَ؛ عائشہ بنت سعد نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ علی (علیہ السلام) نبی صلی اللہ علیہ (وآلہ) کے ساتھ نکلے یہاں تک (الوداع کہنے والی دو پہاڑیوں کے درمیان) ثنیۃ الوداع میں ٹھہر گئے، امام علیؑ روتے ہوئے فرمانے لگے: آپؐ مجھے پیچھے چھوڑے جانے والوں کے ساتھ چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: (اے علیؑ) کیا آپؑ اس پر راضی نہیں ہیں کہ آپؑ مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہیں جو ہارونؑ کی موسیؑ سے تھی سوائے نبوت کے۔ اس روایت کو معروف محقق شعیب ارنؤوط نے بخاری کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔

حدیث منزلت کا شمار ان متواتر اور معتبر ترین احادیث میں ہوتا ہے جو امام علیؑ کی خلافتِ بلا فصل اور امامت پر واضح دلالت کرتی ہے اور اس حدیث کے الفاظ سے امام علیؑ کا راہِ الہی میں شوقِ جہاد اور شہادت کی تمنا کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی عظمتِ امام علیؑ ہے کہ اللہ تعالی کی رضا اور اسلام کی بلندی کے لیے تلواروں کی چنگاریوں میں آپؑ سکون و اطمینان محسوس کرتے ہبں جبکہ دنیا کا مادی آرام سکون اس طرح سے بے چین کر دیتا ہے کہ چشمِ مبارک سے آنسو جاری ہو گئے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. زرکلی، خیر الدین، الاعلام، ج۳، ص۲۴۰۔    
۲. ابو الفرج اصفہانی، علی بن حسین، الاغانی، ج۱۷، ص۱۷۷۔    
۳. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج۸، ص۲۳۵۔    
۴. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، ج۱۲، ص۴۳۶۔    
۵. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۸، ص۴۶۷۔    
۶. حنبل، احمد بن محمد، مسند احمد بن حنبل، ج ۳، ص ۶۶۔    
۷. حنبل، احمد بن محمد، مسند احمد بن حنبل، ج ۳، ص ۶۷۔    


مأخذ

[ترمیم]

عبدالسلام ترمانینی، رویدادہای تاریخ اسلام، ترجمہ پژوہشگاه علوم و فرہنگ اسلامی، ج۱، ص ۳۰۹۔
بعض مطالب محققینِ ویکی فقہ اردو کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار