احد کا مفہوم

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



أَحَد، یکتا و یگانہ کے معنی میں ہے۔


لغوی معنی

[ترمیم]

أحد کی اصل’’وحد‘‘ ہے اور یہ واحد کی طرح ’’و ح د‘‘ سے مشتق ہے؛ اس کی ’’واو‘‘ کو ’’ہمزہ‘‘ میں تبدیل کیا گیا ہے اور اس کا معنی یکتا و یگانہ ہے۔
[۲] روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۶۔

بعض نے اس کی اصل کو ’’أوحد‘‘ قرار دیا ہے کہ جس کی ’’واو‘‘ کو حذف کر دیا گیا تاکہ اسم اور صفت میں فرق کیا جا سکے۔
[۴] الفروق اللغویه، ص‌۵۶۵۔
اگرچہ کلمہ ’’واحد‘‘ اور ’’احد‘‘ کا مادہ ایک ہے مگر اکثر علما ان کے مابین فرق کے قائل ہیں۔

واحد اور احد میں فرق

[ترمیم]

۱۔ ’’واحد‘‘ ، ’’اثنان‘‘ سے پہلے اعداد کی گنتی کا نقطہ آغاز ہے جبکہ ’’احد‘‘ گنتی کا نقطہ آغاز واقع نہیں ہوتا؛ اس بنا پر ’’احد‘‘ اور ’’اثنان‘‘ کی ترتیب درست نہیں ہے۔
[۶] مجمع‌البیان، ج‌۱۰، ص‌۸۶۰۔
[۷] روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۷۔

۲۔ ’’أحد‘‘ کا اطلاق ایسی چیز پر ہوتا ہے جو خارجی یا ذہنی طور پر قابل کثرت نہ ہو جبکہ ’’واحد‘‘ خارج یا ذہن میں قابل کثرت ہوتا ہے۔
۳۔ واحد اکثر و بیشتر اثبات کیلئے استعمال ہوتا ہے جیسے رأیت رجلا واحدا جبکہ ’’احد‘‘ زیادہ تر سلب اور نفی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
[۱۰] کشف‌الاسرار، ج‌۱۰، ص۶۶۲۔
[۱۱] التفسیر الکبیر، ج‌۳۲، ص‌۱۷۹۔

۴۔ ’’احد‘‘ عموم کی نفی کرتا ہے جبکہ واحد صرف ایک فرد کی نفی کرتا ہے؛ مثال کے طور پر جب کہا جاتا ہے: لایقاومه أحد تو مقصود یہ ہے کہ کوئی بھی اس کے مقابلے میں مزاحمت نہیں کر سکتا؛ مگر جب لایقاومه واحد کی تعبیر استعمال کی جائے تو مقصود یہ ہے کہ ایک فرد اس کے مقابلے میں مزاحمت نہیں کر سکتا؛ مگر دو یا زیادہ افراد مزاحمت کر سکتے ہیں۔
[۱۲] مفردات، ص‌۶۷، ’’أحد‘‘۔
[۱۳] التفسیرالکبیر، ج‌۳۲، ص‌۱۷۸۔
[۱۴] مجمع‌البیان، ج۱۰، ص‌۸۶۰۔

۵۔ ’’احد‘‘ ’’واحد‘‘ سے عام ہے؛ اس معنی میں کہ جب بھی ’’احد‘‘ ہو گا تو ’’واحد‘‘ اس کے ضمن میں ہو گا۔
[۱۵] التفسیر الکبیر، ج۳۲، ص‌۱۷۸۔

۶۔ ’’واحد‘‘ ہر چیز کیلئے وصف ہو سکتا ہے جیسے رجل واحد، ثوب واحد؛ ’’احد‘‘ کے برخلاف کہ جملہ اثبات میں یہ صرف اللہ کا وصف واقع ہوتا ہے اور منفی جملے میں حق تعالیٰ کے علاوہ غیر کی صفت بھی واقع ہو سکتا ہے؛ جیسے ما رأیت احدا
[۱۶] مفردات، ص۶۷، ’’أحد‘‘۔

اس بنا پر ’’احد‘‘ اور ’’واحد‘‘ رحمن و رحیم کی طرح ہیں کہ رحمان خدا کی خاص صفت ہے مگر رحیم غیر خدا کی صفت بھی واقع ہو سکتا ہے۔
[۱۹] تسنیم، ج‌۱، ص‌۳۱۷۔
بعض علما ’’احد‘‘ پر الف لام داخل کرنے کی صورت میں اسے خدا کی مخصوص صفت قرر دیتے ہیں۔
[۲۰] التفسیر الکبیر، ج‌۳۲، ص‌۱۷۸۔
مگر فخر رازی نے یہ احتمال دیا ہے کہ چونکہ احد کو صرف خدا کیلئے وصف لایا جاتا ہے تو اس لیے اس سے الف لام تعریف کو حذف کر دیا گیا ہے اور یہ حق تعالیٰ سے مخصوص ہو چکا ہے۔
[۲۱] شرح اسماء اللّه الحسنی، ص‌۲۹۹۔
[۲۲] مفاهیم‌القرآن، ج۶، ص‌۲۹۱۔
[۲۳] مفردات، ص‌۶۷، ’’أحد‘‘۔


احد و واحد کا مترادف ہونا

[ترمیم]

کچھ لوگوں نے ان دونوں کو مترادف قرار دیا ہے اور ایک معنی میں لیا ہے حتی’’واحد‘‘ کو ’’احد‘‘ کی اصل قرار دیا ہے اور کہا ہے: ’’واو‘‘ کے ’’ہمزہ‘‘ میں قلب کے بعد دو ہمزہ کا عربی زبان میں اجتماع ثقیل ہے تو ان میں سے ایک ہمزہ تخفیف کی خاطر حذف کر دی گئی ہے۔
[۲۴] روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۷۔
یہ رائے درست نہیں ہے چونکہ اس صورت میں ان دونوں کی جمع آحاد ہونی چاہئیے تھی حالانکہ ’’آحاد‘‘ فقط واحد کی جمع ہے؛ جیسے اشھاد و شاھد، ’’احد‘‘ کی کوئی جمع نہیں ہے؛ جیسا کہ ازہری نے کہا ہے: احمد بن یحییٰ سے آحاد کے بارے میں پوچھا گیا کہ آیا ’’احد‘‘ کی کوئی جمع بھی ہے؟! تو انہوں نے جواب میں کہا: اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ ’’احد‘‘ کی کوئی جمع ہو۔
[۲۶] شرح اسماء اللّه الحسنی، ص‌۲۹۹۔


← مترادف ہونے کی وجہ


بعض نے کہا ہے: ان دو کلمات کے مترادف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ’’احد‘‘ اعداد کی گنتی میں واحد کی جگہ آ سکتا ہے؛
[۲۷] التفسیر الکبیر، ج‌۳۲، ص‌۱۷۸۔
تاہم اکثر علما نے اس بات کو غلط قرار دیا ہے۔
[۲۸] روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۷۔


کلمہ احد کی قرآن میں تعداد اور اس کے معانی

[ترمیم]

’’احد‘‘ قرآن کریم کی ۳۱ سورتوں میں ۷۴ مرتبہ استعمال ہوا ہے کہ جن میں سے صرف ایک مورد میں اسم الہٰی کے عنوان سے آیا ہے۔

احد کا معنی

[ترمیم]

اس کے چند معانی بیان کیے گئے ہیں؛ جو درج ذیل ہیں:

← اول


۱۔ احد کا اطلاق ایسے موجود پر ہوتا ہے جو کسی طرح کی کثرت (ذہنی یا خارجی) خواہ عددی ہو یا مقداری ہو؛
[۳۰] بیان‌السعاده، ج‌۴، ص‌۲۸۲۔
کو قبول نہیں کرتا؛ اس لیے عرفا کی اصطلاح میں ’’احد‘‘ مقام غیب کا اسم ہے کہ جس میں کثرت اور لحاظِ کثرت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ مقام؛ اسم، رسم اور صفت کا حامل نہیں ہوتا، کسی طور اس کی خبر نہیں دی جا سکتی؛ اس اعتبار سے سورہ توحید کی پہلی آیت ذاتِ الہٰی میں ہر نوع کے تجزیہ و ترکیب کی طرف ناظر ہے؛
[۳۱] مفاهیم‌القرآن، ج‌۱، ص‌۲۹۳۔
اور خداوند عالم ہر چیز جیسے جنس فصل ، مادّه و صورت ، اعراض، اجزا، اعضا ، اشکال، الوان
[۳۲] روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۸۔
اور ہر نوع کی ترکیب و کثرت
[۳۳] شرح‌الاسماء، ص۳۶۷۔
[۳۴] شرح‌المنظومه، ج۳، ص۵۳۶۔
جو ذات باری تعالیٰ کیلئے شائستہ نہیں ہے؛ سے منزہ و مبرہ ہے؛ جیسا کہ اس کے شان نزول میں آیا ہے کہ مشرکین کا ایک گروہ،
[۳۵] جامع‌البیان، مج‌۱۵، ج‌۳۰، ص‌۴۴۶‌-۴۴۷۔
دو آدمی،
[۳۶] مجمع‌البیان، ج‌۱۰، ص‌۸۵۹۔
یا یہود کا ایک گروہ
[۳۷] جامع‌البیان، مج‌۱۵، ج‌۳۰، ص‌۴۴۷۔
[۳۸] کشف‌الاسرار، ج‌۱۰، ص‌۶۶۲۔
[۳۹] مجمع‌البیان، ج۱۰، ص۸۵۹۔
نصارائے نجران کا وفد
[۴۰] کشف‌الاسرار، ج‌۱۰، ص‌۶۶۲۔
یا پانچ جماعتوں یعنی مادہ پرستوں، مشرکین، ثنویہ، یہود اور نصاریٰ کے رہنما
[۴۱] الفرقان، ج‌۳۰، ص‌۵۱۰۔
پیغمبر اکرمؐ کے پاس آئے اور کہا: ہمارے سامنے خدا کی توصیف کیجئے اور ہمیں بتائیے کہ خدا کیا ہے اور کس جنس سے ہے؟
[۴۲] جامع‌البیان، مج‌۱۵، ج‌۳۰، ص‌۴۴۷ ۔
[۴۳] کشف‌الاسرار، ج۱۰، ص۶۶۲۔
کیا سونے، چاندی، لوہے یا لکڑی کا ہے؟!
[۴۴] مجمع‌البیان، ج‌۱۰، ص‌۸۵۹۔
اور کیا کھاتا پیتا ہے؟!
[۴۵] کشف‌الاسرار، ج‌۱۰، ص‌۶۶۲۔
خدا تعالیٰ نے ان کے جواب میں سورہ توحید کو ستر ہزار فرشتوں کے ہمراہ
[۴۶] جامع‌البیان، مج‌۱۵، ج‌۳۰، ص‌۴۴۷ ۔
[۴۷] کشف الاسرار، ج‌۱۰، ص۶۶۲۔
پیغمبرؐ پر نازل فرمایا
[۴۸] جامع‌البیان، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۴۷ ۔
[۴۹] کشف‌الاسرار، ج‌۱۰، ص‌۶۶۲۔
اور ہر قسم کی ترکیب یا ترکیب پر منتہی ہونے والے احتمال جیسے جسمانیت؛ کو اپنی ذات سے سلب کیا۔

← دوم


۲۔ ’’أحد‘‘، صفات سلبیہ کا جامع ہے کیونکہ احدیت کا معنی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی ذات میں ہر ترکیب سے منزہ ہے؛ کیونکہ ہر مرکب اپنے اجزا کی طرف احتیاج رکھتا ہے اور مرکب کا ہر جزو مرکب کا غیر ہے؛ اس بنا پر ہر مرکب جو اپنے غیر کا نیازمند ہو، وہ اپنی ذات میں ممکن ہو گا؛ لیکن چونکہ امکان حق تعالیٰ میں جاری نہیں ہو سکتا تو ترکیب بھی محال ہو گی؛ لہٰذا احدیت (بمعنی ترکیب ذاتی کی نفی) کے اثبات کیساتھ صفات سلبیہ جیسے مکان رکھنا، حلول، تغییر وغیرہ کی بھی خداوند عالم سے نفی ہو جائے گی؛ اس جہت سے کہا جاتا ہے کہ ’’احد‘‘ صفات سلبیہ کا جامع ہے۔
[۵۰] التفسیرالکبیر، ج۳۲، ص۱۸۰۔
[۵۱] روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۸۔


← سوم


۳۔ خداوند صفات ذات میں یگانہ ہے؛ اس معنی میں کہ وجود ، علم ، قدرت اور حیات فقط اس کیلئے واجب و ضروری ہیں اور غیر خدا کیلئے واجب و ضروری نہیں ہیں۔
[۵۲] روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۸۔
[۵۳] مجمع‌البیان، ج‌۱۰، ص۸۵۹۔


← چہارم


۴۔ خدا تعالیٰ افعال میں یگانہ ہے؛ کیونکہ دوسرے اپنے کاموں کو منفعت کے حصول اور نقصان کے دفع کیلئے انجام دیتے ہیں؛ جبکہ خدائے متعال اپنے افعال کو مخلوقات کی بہتری کیلئے انجام دیتا ہے۔
[۵۴] تاج‌العروس، ج‌۹، ص‌۲۷۵۔
[۵۵] مجمع‌البیان، ج‌۱۰، ص‌۸۶۰۔
[۵۶] نورالثقلین، ج‌۵، ص‌۷۰۹۔


← مزید معانی


۵۔ خدائے متعال ’’احد‘‘ ہے؛ اس معنی میں کہ اشیا کی ایجاد اور اظہار میں یکتا و یگانہ ہے۔
[۵۷] کشف الاسرار، ج‌۱۰، ص‌۶۶۲۔

۶۔ ’’احد‘‘ اول کے معنی میں ہے؛ کیونکہ خدا ہر چیز کی ابتدا کرنے والا اور ہر چیز پر سابق ہے۔
[۵۸] کشف الاسرار، ج‌۱۰، ص‌۶۶۲۔

۷۔ خدا تعالیٰ الوہیت و ربوبیت میں یکتا و یگانہ ہے۔
[۵۹] روح المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۸۔

۸۔ خدا تعالیٰ ذات، فاعلیت، صفات، سرمدیت اور معبود ہونے میں یگانہ ہے۔
[۶۱] الفرقان، ج۳۰، ص‌۵۱۸۔
[۶۲] روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۸۔

۹۔ ’’احد‘‘ ذات میں یکتائی اور ’’واحد‘‘ حق تعالیٰ کے صفات میں یکتا و یگانہ ہونے کی حکایت کرتا ہے۔
[۶۳] روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۷۔

۱۰۔ ’’احد‘‘، صفات میں حق تعالیٰ کے یکتا ہونے اور ’’واحد‘‘ ذات میں یکتائی کی خبر دیتا ہے۔
[۶۴] روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۷۔

۱۱۔ ’’احد‘‘، یعنی خداوند بسیط ہے اور کسی طرح کے اجزا نہیں رکھتا اور واحد یعنی شریک و نظیر نہیں رکھتا۔
[۶۵] شرح الاسماء، ص‌۳۶۷۔
[۶۶] شرح المنظومه، ج‌۳، ص‌۵۳۶۔

۱۲۔ بعض نے ’’احد‘‘ اور ’’واحد‘‘ کو مترادف قرار دیا ہے اور ان کا معنی کچھ اس طرح کیا ہے: یہ دونوں، اس خدا کی صفات ہیں جو کسی صورت شریک و نظیر نہیں رکھتا؛ جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود کی قرائت میں منقول ہے کہ انہوں نے سورہ توحید کی پہلی آیت کو ’’قل هو اللّه واحد‘‘ قرائت کیا
[۶۷] کشف‌الاسرار، ج‌۱۰، ص‌.۶۶۲۔
اور چونکہ وہ بعض کلمات کی قرائت کی بجائے ان کے ایسے مترادف استعمال کرتے تھے جو زیادہ واضح ہوں؛ اس امر کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ’’واحد‘‘ کو ’’احد‘‘ کا مترادف سمجھتے تھے۔ یہ قرائت اعمشی سے بھی نقل ہوئی ہے
[۶۸] روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۷۔
اور امام باقرؑ سے منقول ایک روایت میں ’’احد‘‘ اور ’’واحد‘‘ ہم معنی ہیں۔
[۷۰] نورالثقلین، ج‌۵، ص‌۷۰۸۔

امام علیؑ سے منقول ایک روایت میں ہے کہ آپؑ نے واحد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کا خدائے متعال کی نسبت یہ معنی ارشاد فرمایا: کہ خدا کی نسبت سے واحد کا درست معنی ہے: احدیّ المعنی یعنی جو وجود، عقل اور خیال میں قابل تجزیہ و تقسیم نہیں ہے۔ بعض نے سورہ رعد کی آیت ۱۶ قُلِ اللّهُ خلِقُ کُلِّ شَیء و هُوَ الوحِدُ القَهّار میں دو مرکب صفات ’’الواحد القهّار‘‘ کا ماحصل باری تعالیٰ کی صفتِ احدیت کو قرار دیا ہے۔

منابع کی فہرست

[ترمیم]
بیان السعادة فی مقامات العباده؛ تاج العروس من جواهرالقاموس؛ تسنیم تفسیر قرآن کریم؛ التفسیر الکبیر؛ تفسیر نورالثقلین؛ التوحید؛ جامع البیان عن تأویل آی القرآن؛ شرح اسماء اللّه الحسنی (لوامع البینات)؛ شرح الاسماء او شرح دعاء الجوشن الکبیر؛ شرح المنظومة السبزواری؛ روح‌المعانی فی تفسیر القرآن العظیم؛ الفرقان فی تفسیر القرآن؛ کشف الاسرار و عدة الابرار؛ مجمع البیان فی تفسیر القرآن؛ معجم الفروق اللغویه؛ مفاهیم القرآن؛ مفردات الفاظ القرآن؛ المیزان فی تفسیرالقرآن۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. تاج‌العروس، ج‌۹، ص‌۲۶۴، وحد۔    
۲. روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۶۔
۳. المیزان، ج‌۲۰، ص‌۳۸۷۔    
۴. الفروق اللغویه، ص‌۵۶۵۔
۵. تاج‌العروس، ج‌۹، ص‌۲۶۴ ’’وحد‘‘۔    
۶. مجمع‌البیان، ج‌۱۰، ص‌۸۶۰۔
۷. روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۷۔
۸. المیزان، ج‌۲۰، ص‌۳۸۷۔    
۹. تاج‌العروس، ج‌۹، ص‌۲۶۴ ’’وحد‘‘۔    
۱۰. کشف‌الاسرار، ج‌۱۰، ص۶۶۲۔
۱۱. التفسیر الکبیر، ج‌۳۲، ص‌۱۷۹۔
۱۲. مفردات، ص‌۶۷، ’’أحد‘‘۔
۱۳. التفسیرالکبیر، ج‌۳۲، ص‌۱۷۸۔
۱۴. مجمع‌البیان، ج۱۰، ص‌۸۶۰۔
۱۵. التفسیر الکبیر، ج۳۲، ص‌۱۷۸۔
۱۶. مفردات، ص۶۷، ’’أحد‘‘۔
۱۷. تاج‌العروس، ج۹، ص‌۲۶۹۔’’وحد‘‘۔    
۱۸. مفاهیم القرآن، ج‌۶، ص‌۱۲۲‌-۱۲۳۔    
۱۹. تسنیم، ج‌۱، ص‌۳۱۷۔
۲۰. التفسیر الکبیر، ج‌۳۲، ص‌۱۷۸۔
۲۱. شرح اسماء اللّه الحسنی، ص‌۲۹۹۔
۲۲. مفاهیم‌القرآن، ج۶، ص‌۲۹۱۔
۲۳. مفردات، ص‌۶۷، ’’أحد‘‘۔
۲۴. روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۷۔
۲۵. تاج العروس، ج‌۹، ص‌۲۶۴ ۔    
۲۶. شرح اسماء اللّه الحسنی، ص‌۲۹۹۔
۲۷. التفسیر الکبیر، ج‌۳۲، ص‌۱۷۸۔
۲۸. روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۷۔
۲۹. المیزان، ج‌۲۰، ص‌۳۸۷۔    
۳۰. بیان‌السعاده، ج‌۴، ص‌۲۸۲۔
۳۱. مفاهیم‌القرآن، ج‌۱، ص‌۲۹۳۔
۳۲. روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۸۔
۳۳. شرح‌الاسماء، ص۳۶۷۔
۳۴. شرح‌المنظومه، ج۳، ص۵۳۶۔
۳۵. جامع‌البیان، مج‌۱۵، ج‌۳۰، ص‌۴۴۶‌-۴۴۷۔
۳۶. مجمع‌البیان، ج‌۱۰، ص‌۸۵۹۔
۳۷. جامع‌البیان، مج‌۱۵، ج‌۳۰، ص‌۴۴۷۔
۳۸. کشف‌الاسرار، ج‌۱۰، ص‌۶۶۲۔
۳۹. مجمع‌البیان، ج۱۰، ص۸۵۹۔
۴۰. کشف‌الاسرار، ج‌۱۰، ص‌۶۶۲۔
۴۱. الفرقان، ج‌۳۰، ص‌۵۱۰۔
۴۲. جامع‌البیان، مج‌۱۵، ج‌۳۰، ص‌۴۴۷ ۔
۴۳. کشف‌الاسرار، ج۱۰، ص۶۶۲۔
۴۴. مجمع‌البیان، ج‌۱۰، ص‌۸۵۹۔
۴۵. کشف‌الاسرار، ج‌۱۰، ص‌۶۶۲۔
۴۶. جامع‌البیان، مج‌۱۵، ج‌۳۰، ص‌۴۴۷ ۔
۴۷. کشف الاسرار، ج‌۱۰، ص۶۶۲۔
۴۸. جامع‌البیان، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۴۷ ۔
۴۹. کشف‌الاسرار، ج‌۱۰، ص‌۶۶۲۔
۵۰. التفسیرالکبیر، ج۳۲، ص۱۸۰۔
۵۱. روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۸۔
۵۲. روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۸۔
۵۳. مجمع‌البیان، ج‌۱۰، ص۸۵۹۔
۵۴. تاج‌العروس، ج‌۹، ص‌۲۷۵۔
۵۵. مجمع‌البیان، ج‌۱۰، ص‌۸۶۰۔
۵۶. نورالثقلین، ج‌۵، ص‌۷۰۹۔
۵۷. کشف الاسرار، ج‌۱۰، ص‌۶۶۲۔
۵۸. کشف الاسرار، ج‌۱۰، ص‌۶۶۲۔
۵۹. روح المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۸۔
۶۰. المیزان، ج‌۲۰، ص‌۳۸۷۔    
۶۱. الفرقان، ج۳۰، ص‌۵۱۸۔
۶۲. روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۸۔
۶۳. روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۷۔
۶۴. روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۷۔
۶۵. شرح الاسماء، ص‌۳۶۷۔
۶۶. شرح المنظومه، ج‌۳، ص‌۵۳۶۔
۶۷. کشف‌الاسرار، ج‌۱۰، ص‌.۶۶۲۔
۶۸. روح‌المعانی، مج‌۱۶، ج‌۳۰، ص‌۴۸۷۔
۶۹. التوحید، ص‌۹۰۔    
۷۰. نورالثقلین، ج‌۵، ص‌۷۰۸۔
۷۱. التوحید، ص‌۸۳‌-۸۴۔    
۷۲. رعد/سوره۱۳، آیه۱۶۔    
۷۳. المیزان، ج‌۱۱، ص‌۱۷۶۔    
۷۴. المیزان، ج‌۱۱، ص‌۳۲۶۔    


ماخذ

[ترمیم]

فرھنگ و معارف قرآن،مقالہ مفهوم احد۔    



جعبه ابزار