مغنی اللبیب عن کتب الاعاریب

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



’’مغنی اللبیب عن کتب الأعاریب‘‘، ابو محمد عبد اللہ جمال الدین بن یوسف بن احمد بن عبد اللہ بن ہشام انصاری مصری کی کتاب ہے۔ فقہ میں شافعی تھے پھر زندگی کے آخری ایام میں حنبلی ہو گئے۔ آپ نے علوم عرب اور فنون ادب پر ایسا عبور حاصل کیا کہ تمام اہل مصر اور دیگر علما پر سبقت لے گئے۔ آپ نے بہت سے طلبہ کو علمی فیوض سے بہرہ مند کیا نیز بکثرت فوائد غریبہ، مباحث دقیقہ، استدراکات عجیبہ، کمال درجے کی تحقیق، عنانِ کلام کو پھیرنے کی مہارت اور اپنے ما فی الضمیر کیلئے لفظوں کے چناؤ کا ملکہ آپ کی منفرد اور منحصر فی الفرد خوبیاں تھیں۔


مختصر تعارف

[ترمیم]
’’مغنی اللبیب عن کتب الأعاریب‘‘، ابو محمد عبد اللہ جمال الدین بن یوسف بن احمد بن عبد اللہ بن ہشام انصاری مصری (متوفی ۷۶۱ھ) کی نحوی اور ادبی کتاب ہے کہ جسے عربی زبان میں تحریر کیا گیا ہے اور اس کی تالیف ۷۵۶ھ کو مکہ میں مکمل ہوئی۔ اس کتاب کی تحقیق و تصحیح کا کام محمد محی الدین عبد الحمید نے انجام دیا ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کیلئے یہی کافی ہے کہ یہ علم نحو کی انتہائی معروف اور اہم کتاب ہے اور یہ دنیا بھر کے دینی مدارس اور ادبی مراکز کے درسی نصاب میں شامل ہے۔ اس کتاب پر اب تک متعدد حواشی اور شروحات تحریر کیے جا چکے ہیں۔
ابن خلدون نے کتاب مغنی کو مراکش میں دیکھا؛ چنانچہ وہ اعتراف کرتا ہے کہ اس کتاب سے اس نے بہت علمی استفادہ کیا اور کتاب کی جامعیت اس کے مؤلف کی علمی استعداد اور بلند مقام کی دلیل ہے۔
[۱] بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۴، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔

مصنّف کی سیرت

[ترمیم]

ابن ہشام تواضع، نیکی، شفقت اور نرم دلی میں ممتاز تھے۔ ایک متقی و پرہیزگار عالم تھے؛ ہرگز آپ کے عقیدے، دینداری اور کردار پر کوئی دھبہ نہیں ہے۔ حصول علم کیلئے انتہائی صابر تھے اور زندگی کے آخری ایام تک اس کا سلسلہ جاری رکھا۔ حصول علم پر صبر کے حوالے سے آپ کا ایک شعر یہ ہے:
ومن يصطبر للعلم يظفر بنيله ومن يخطب الحسناء يصبر على البذل‌
ومن لم يذل النفس في طلب العلا يسيرا يعش دهرا طويلا أخاذل
جو علم کیلئے صبر سے کام لیتا ہے وہ اپنے مقصود کو پہنچ جاتا ہے اور جو خوبصورت عورت کیلئے خواستگاری کرتا ہے وہ مال خرچ کرنے پر صبر کرتا ہے۔
جو بلندی کی طلب میں اپنے نفس کو تھوڑا سا نہیں جھکاتا تو وہ لمبے عرصوں تک رسوا رہتا ہے۔


کتاب کی ترتیب

[ترمیم]

کتاب کے آغاز میں محقق کا مقدمہ ہے جس میں انہوں نے ابن ہشام کا زندگی نامہ بیان کیا ہے؛ اس کے بعد مصنف کا خطبہ ہے جس میں ابواب کے عناوین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور مطالب کو دو جلدوں اور آٹھ ابواب میں مرتب کیا گیا ہے۔
یہ کتاب، علم نحو کے کلی قواعد اور ان کی آیات کریمہ اور اشعارِ عرب پر مخصوص روش کے ساتھ تطبیق پر مشتمل ہے اور ابن ہشام کے نزدیک یہ کتاب غیر ضروری تکرار کی حامل نہیں ہے۔ مؤلف، کسی خاص نحوی مکتب سے وابستہ نہیں ہے کیونکہ اس کے زمانے میں نحویوں کے بصری اور کوفی مکاتب کے مابین رقابت اور تنازعات کا سلسلہ ختم ہو چکا تھا؛ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی کتابوں میں بصرہ اور کوفہ دونوں مکاتب کے علمائے نحو کی آرا اور نظریات پر اعتماد کیا ہے۔ البتہ بصریوں کی منطقی آرا ان کی ساری کتاب میں بکثرت دیکھی جا سکتی ہیں۔
[۳] بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔
یہ امر مسلمہ ہے کہ ابن ہشام کی دنیا بھر بالخصوص عالم اسلام کے مشرق میں یہ آفاقی شہرت کتاب ’’مغنی‘‘ کے ہی مرہون منت ہے۔
[۴] بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔

انہوں نے کتاب مغنی کی تالیف کا آغاز سب سے پہلے ۷۴۹ ھ / ۱۳۴۸ء کو مکہ میں کیا، مگر ان کے بقول مصر واپسی کے دوران یہ کتاب گم ہو گئی۔ پھر ۷۵۶ھ / ۱۳۵۵ء کو مکہ مکرمہ کی زیارت کے موقع پر از سر نو اس کی تالیف کا آغاز کیا اور اس مرتبہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔
[۵] بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔

یہ کتاب ابتدا سے ہی علما کے نزدیک حائز اہمیت تھی اور آج بھی صدیاں گزرنے کے باوجود اسی طرح دینی مدارس کے درسی نصاب میں شامل ہے اور آج دیگر مقامات کی نسبت ایران میں اس پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔
[۶] بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔


کتاب کا متن

[ترمیم]


← نحوی کتب کے مفصل، مبہم اور پیچیدہ ہونے کی وجوہات


مصنف نے کتاب کے خطبہ میں تین عوامل کو علم نحو کے مفصل، مبہم اور پیچیدہ ہونے کا باعث قرار دیا ہے:

←← اوّل


پہلا سبب یہ ہے کہ نحویوں نے اپنے آثار میں نحوی قواعد کو کلی صورت میں بیان نہیں کیا ہے تاکہ دیگر مشابہہ مقامات پر ان کا تکرار کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ لہٰذا وہ اس قبیل کے ابواب جیسے مبتدا و خبر کے احکام، توابع، حال، تمییز اور عطف و اضافت کی اقسام کو چوتھے باب میں لائے ہیں اور اسی لیے اس باب پر دینی مدارس زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
[۷] بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔


←← دوّم


دوسری وجہ ابن ہشام کے نزدیک یہ ہے کہ بعض نحوی علم صرف سے مربوط مسائل جیسے اشتقاق، جمع تکسیر، تصغیر اور تذکیر و تأنیث کی مباحث کو نحوی مسائل کے ساتھ مخلوط کر دیتے ہیں اور اس حوالے سے مکی بن ابی طالب کی کتاب ’’مشکل اعراب القرآن‘‘ پر تنقید کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود بھی بعض موارد میں صرفی اور نحوی مسائل کے اختلاط سے دوچار ہوئے ہیں۔
(مثال کے طور پر ملاحظہ کیئے:مغنی جلد ۲/۴۵۸- ۴۶۰، اسم فاعل اور صفت مشبہہ کے مابین اختلاف کی وجوہ)

←← سوم


سوم یہ کہ کہتے ہیں: قدما بعض اوقات سادہ اور ابتدائی مسائل از قبیل مبتدا و خبر کا اعراب ، فاعل و مفعول، نائب فاعل اور جار و مجرور کہ جنہیں سب جانتے ہیں؛ میں مشغول ہو جاتے ہیں جس سے کتاب کے طولانی ہونے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اسی وجہ سے دیگر کتب میں موجود نقائص اور خامیوں کے پیش نظر انہوں نے ایک جامع کتاب تالیف کی ہےجو ابتدائی طلبہ کو علم نحو کی دیگر کتب سے بے نیاز کرتی ہے اور اسی وجہ سے اس کا نام ’’مغنی اللبیب عن کتب الأعاریب‘‘ رکھا ہے۔ تاہم یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ یہ کتاب دینی مراکز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے اہل فن اور محققین کیلئے بہت مفید ہے مگر ابن ہشام کی خواہش کے باوجود آج کل کے ابتدائی طلبہ اس سے کماحقہ استفادہ نہیں کر سکے (اگرچہ اس امر کے اسباب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے) اور عام طور پر دینی مدارس میں اسے ’’البهجة المرضیة‘‘ (سیوطی) کے بعد پڑھایا جاتا ہے۔
[۸] بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔


← باب اول


پہلی جلد کے باب اول میں’’الف‘‘ سے’’میم‘‘(مذ و منذ) تک حروف پر بحث کی گئی ہے۔ دوسری جلد کا آغاز حرفِ ’’نون‘‘ سے کیا گیا ہے اور اس میں دیگر ابواب بھی شامل ہیں۔کتاب کے زیادہ تر مطالب پہلے باب میں مذکور ہیں اور یہ باب حروف اور ان کی اقسام سے مخصوص ہے۔ مؤلف نے اس باب میں نحویوں کی پیش کردہ حروف کی قدیم تقسیم کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں الفبا کی ترتیب سے مرتب کیا ہے اور پھر تفصیل سے بکثرت شواہد کی مدد سے ان میں سے ہر ایک کی تشریح کی ہے؛ مثلا حروف ندا ’’أ‘‘ اور ’’أیا‘‘ کو اس باب کی ابتدا میں اور ’’یا‘‘ کو آخر میں ذکر کیا ہے۔
[۹] بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔


← دوسرا باب


دوسرے باب میں مؤلف نے ’’جملہ‘‘ پر بحث کی ہے۔ عام طور پر اس کا ذکر کم کیا جاتا ہے اور ابن مالک جیسے بڑے نحوی نے بھی اسے نظر انداز کیا ہے۔ اس باب میں اس کے زیادہ تر نظریات کا محور زمخشری کی ’’المفصل‘‘ اور عبد القاہر جرجانی کی دلائل الاعجاز ہے کہ جنہوں نے جملہ کے مسائل پر خصوصی توجہ کی ہے۔
[۱۰] بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔

بہت سے قدما سادہ و مرکب اور اصل و تابع جملوں کے مابین تفاوت کے قائل رہے ہیں، مگر تابع کا نام رکھنے کے حوالے سے ہمیشہ مردد رہے اور مثلا دونوں کو ’’جملہ‘‘ ہی کہتے تھے۔ البتہ ابن ہشام نے یہ چاہا کہ اس عیب کو برطرف کر دے؛ لہٰذا اس نے قدما کی آرا پر تنقید کے بعد بطور کلی اصل جملوں کو کلام اور ان کے توابع کو جملات کا نام دیا۔
[۱۱] بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔


←← مذکورہ بالا دعوے کا اثبات


وہ اس دعوے کے اثبات میں کہتا ہے: شرط، جزا اور موصول کا صلہ جملات ہیں، تاہم مفید نہیں ہیں اور ان پر سکوت جائز نہیں ہے۔ مگر ابن ہشام اور اس کے ہم خیال نحویوں کی جملہ کے بارے میں تھیوری کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف دستوری ساخت اور مفہوم عام کے اعتبار سے معنوی عامل پر توجہ کر رہے تھے اور بہترین امر اس عبارت کو قرار دے رہے تھے کہ یصحّ السکوت علیها.
[۱۲] بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۶، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔

چونکہ بعض دیگر عوامل ان کے مورد نظر نہیں ہوتے تھے؛ اس لیے لا تَقْرَبوا الصَّلاة جیسی قرآنی عبارات جو بظاہر جملہ تامہ ہیں؛ کے حوالے سے مجبور ہو جاتے تھے کہ مقتضائے حال جیسے خارجی عوامل کا سہارا لیں کیونکہ وَ اَنْتُمْ سُکاریٰ کا معنی کامل نہیں ہے۔
انہوں نے اس باب میں آگے چل کر جملے کو دو قسموں کبریٰ اور صغریٰ میں تقسیم کیا ہے، جملہ کبریٰ ایسے جملہ اسمیہ کو قرار دیتے ہیں کہ جس کی خبر ایک اور جملہ ہو؛ جیسے زیدٌ ابوهُ قائمٌ۔ اس میں جملہ ’’ابوه قائم‘‘ صغریٰ ہے اور زید کی خبر ہے۔ انہوں نے پھر کلام اور جملے کا مسئلہ چھوڑ کر بہت سی جزئیات اور شواذ پر بحث کی ہے اور اس باب کا زیادہ تر حجم یہی شاذ و نامعلوم موارد نیز شعری شواہد ہی تشکیل دیتے ہیں (مثال کے طور پر اس امر کی تعیین کہ آیا معروف قرآنی یا غیر قرآنی جملات جملہ اسمیہ ہیں یا فعلیہ، اس پر بہت محنت کی ہے)
[۱۳] بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۶، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔


← تیسرا باب


تیسرا باب شبہ جملہ اور اس کے احکام سے مخصوص ہے جنہیں قدما کے آثار سے اخذ کیا گیا ہے۔

← چوتھا باب


چوتھا باب کلیات از قبیل مبتدا و خبر کے احکام، فاعل و مفعول، عطف بیان، بدل، حال، تمییز، حال و تمییز کے وجوہ افتراق اور ان میں سے ہر ایک کی اقسام، اسمائے شرط کے اعراب، نکرہ سے ابتدا کے مسوغات اور عطف و اضافت کی اقسام سے مخصوص ہے اور اسی لیے یہ باب مدارس علمیہ میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کتاب کے دیگر ابواب بھی قدیم نحویوں کے آثار سے ماخوذ ہیں کہ جن میں کسی قسم کا ابداع اور جدت دکھائی نہیں دیتی۔ اس باب کے عناوین یہ ہیں: معرب کی وجوہ، مشہور امور جبکہ ان کا برعکس درست ہے، اعراب کی کیفیت، کلی امور۔

←← کتاب کی خصوصیت


یہ کتاب ابن ہشام کی اہم ترین تالیف ہے۔ شعری شواہد کی کثرت اور ادبی متون اور قرآنی آیات سے بکثرت استناد نے اس کتاب کو محض ایک نحوی تالیف ہونے سے خارج کر کے اسے نحوی۔ادبی تالیف میں تبدیل کر دیا ہے اور گویا گزشتہ علما اس مسئلے کی طرف متوجہ تھے کیونکہ اس کتاب کی تلخیص جو احمد نائب نے کی ہے؛ کا نام ’’قراضة الذّهب فی علمی النحو و الأدب‘‘ رکھا گیا ہے۔
[۱۴] بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔


کتاب کا جائزہ

[ترمیم]
یہ کتاب پہلی مرتبہ تہران میں (۱۲۶۴شمسی) میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب مازن المبارک اور محمد علی خیر اللہ کے تبصرے کے ساتھ سنہ (۱۹۵۹ء) کو قاہرہ میں شائع ہوئی؛ جبکہ ایک اور ایڈیشن محمد محیی الدین عبد الحمید کے تبصرے کے ساتھ (۱۹۶۴ء) کو بیروت سے شائع ہوا۔ دو شروحات کے علاوہ کہ جسے مؤلف نے شرح الکبیر اور شرح الصغیر کے عنوان سے اس کے شواہد پر لکھا ہے؛ اس کی اہم ترین شروحات اور حواشی درج ذیل ہیں: شرح تقی الدین احمد بن محمد شمتنی (شمنی) جس کا عنوان ہے ’’الکلام علی مغنی ابن هشام‘‘ (قاہرہ، ۱۳۰۵ھ)؛ شرح شیخ محمد بن ابی ‌بکر دمامینی (۸۲۸ ھ) جس کا عنوان ہے ’’تحفة الغریب بشرح مغنی اللبیب‘‘ جو بارہا منجملہ شرح شمنی کے حاشیہ پر چھپ چکی ہے؛ شرح ابو یاسر شمس الدین محمد بن عمار مالکی (۸۴۴ ھ) ’’کافی المغنی‘‘ کے نام سے؛ شرح عبد اللہ بن اسماعیل صاوی ’’شرح المغنی و شواھدہ‘‘ کے نام سے جو قاہره میں (۱۹۵۸ء) میں شائع ہوئی؛ حاشیہ شیخ شمس الدین محمد بن عبد الرحمن بن صائغ (۷۷۶ء) ’’تنزیه السّلف عن تمویه الخلف‘‘ کے نام سے؛ حاشیہ محمد بن احمد دسوقی (بولاق، ۱۲۸۴، ۱۲۸۶ و ۱۳۰۲ء؛ قاہره، ۱۳۰۵ھ)؛ حاشیہ محمد بن محمد سنباوی ’’حاشیة الکبیر علی مغنی اللبیب‘‘ کے عنوان سے (قاہرہ، ۱۲۹۹ و ۱۳۰۲ھ)؛ سیوطی کی مغنی کے شواہد پر شرح؛ جس کا عنوان ہے ’’فتح الغریب بشرح شواھد مغنی اللبیب عن کتب الأعاریب‘‘ (قاہرہ، ۱۳۲۲ و ۱۳۲۴ھ) کہ جس میں ہر جلد کے مطالب کی فہرست اس جلد کے آخر میں اور متن میں موردِ استفادہ شواہد کی فہرست کتاب کے آخر میں مذکور ہے۔
کتاب کے حواشی میں مصحح کی متن کے حوالے سے توضیحات کے علاوہ اصل نسخوں میں پائے جانے والے لفظی اختلافات کا ذکر کیا گیا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۴، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔
۲. الموسوی الخوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، ج۵، ص۱۳۷۔    
۳. بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔
۴. بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔
۵. بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔
۶. بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔
۷. بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔
۸. بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔
۹. بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔
۱۰. بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔
۱۱. بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔
۱۲. بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۶، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔
۱۳. بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۶، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔
۱۴. بجنوردی، سید کاظم و همکاران (۱۳۷۷)، دائرةالمعارف بزرگ اسلامی (چاپ دوم)، تهران: مرکز دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج ۵، ص ۱۱۵، نوشته عنایت الله فاتحی‌نژاد۔


مآخذ

[ترمیم]

ادبیات عرب سافٹ وئیر، مرکز تحقيقات کامپيوتری علوم اسلامی۔






جعبه ابزار