حضرت معصومہؑ کی مخصوص زیارت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
کریمہ اہل بیت حضرت معصومہؑ کی زیارت سے متعلق یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ
چہاردہ معصومینؑ کی زیارت کے بعد
انبیا و اولیا میں سے کسی کیلئے بھی حضرت معصومہؑ کی زیارت کی حد تک ترغیب و تشویق نہیں ہوئی۔ جالب یہ کہ ان میں سے بعض روایات حضرتؑ کی ولادت سے قبل وارد ہوئی ہیں۔
[ترمیم]
زیارت متبرک مقامات کے دیدار کے معنی میں ہے۔
[ترمیم]
’’زیارت‘‘ کا معروف و محبوب لفظ اس کے مشتقات کو دیکھتے ہوئے مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے؛ منجملہ: ملاقات، تمایل، نقارہ کوچ اور ۔۔۔ ۔
یہ تمام معانی مشاہد مشرفہ اور مقامات مقدسہ کے زائرین پر مکمل طور پر منطبق ہوتے ہیں؛ کیونکہ زائرین پہلے دل میں دیدار کا اشتیاق رکھتے ہیں، اس کے بعد اپنے اندر شدید رغبت کو محسوس کرتے ہیں، پھر رخت سفر باندھتے ہیں اور آخرکار صاحب زیارت کی آرامگاہ کا دیدار کرتے ہیں۔ زیارت سے مقصود بنیادی طور پر یہی آخری معنی ہے۔
[ترمیم]
بزرگان اور مذہبی شخصیات کے
مزارات کی زیارت طول تاریخ سے ادیان و
مذاہب کے پیروکاروں میں رائج رہی ہے۔
رسول اکرمؐ نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہؑ کی قبر مبارک کی مقام ’’ابواء‘‘ پر زیارت کی۔ اس موقع پر آپؐ کی چشم مبارک سے ابر بہار کی طرح آنسو رواں تھے۔ آپؐ نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا: قبور کی زیارت کیا کرو؛ چونکہ یہ تمہیں
موت کی یاد دلانے کا باعث ہیں۔
اہل سنت کی کتب میں متعدد احادیث رسول اکرمؐ کے روضہ مبارک اور
بقیع کے دیگر مزارات کی زیارت کے لزوم میں وارد ہوئی ہیں۔ علامہ امینیؒ نے الغدیر میں اس حوالے سے سو کے لگ بھگ احادیث کو قابل اعتماد مصادر سے نقل کیا ہے۔
شیعہ مصادر میں بھی متعدد احادیث و روایات
اہل بیت کے مزارات کی زیارت کے استحباب میں وارد ہوئی ہیں۔
[ترمیم]
کریمہ اہل بیتؑ کے مورد میں قابل دقت نکات میں سے ایک یہ ہے کہ
چودہ معصومینؑ کی زیارت کے بعد
انبیا و اولیا میں سے کسی کیلئے بھی حضرت معصومہؑ کی زیارت کے برابر ثواب نقل نہیں ہوا ہے۔
تین معصومینؑ سے منقول معتبر روایات میں حضرتؑ کی زیارت کی ترغیب و تشویق دلائی گئی ہے۔
جالب یہ کہ بعض روایات حضرتؑ کی زیارت سے قبل وارد ہوئی ہیں۔
[ترمیم]
تین معصومینؑ کی لسان مبارک سے حضرت معصومہؑ کی زیارت کی پاداش
بہشت متعین کی گئی ہے۔ اس کیلئے بڑے اہم جملات جیسے:
بہشت اس کیلئے ہے؛ بہشت اس کیلئے ثابت ہے، وغیرہ؛ معصومینؑ سے منقول ہیں کہ جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کریں گے:
شیخ صدوقؒ نے بسند صحیح
امام رضاؑ سے حضرت معصومہؑ کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں روایت نقل کی ہے کہ فرمایا:
من زارها فَلَهُ الجنَّه جو ان کی زیارت کرے گا، اس کیلئے بہشت ہے۔
ابن قولویہ نے انتہائی اہم کتاب ’’کامل الزیارات‘‘ کہ جو چوتھی صدی ہجری کی معتبر ترین کتاب ہے؛ میں بسند معتبر
امام جوادؑ سے نقل کیا ہے کہ فرمایا:
من زارَ عَمّتی بِقُم فَلَهُ الجنَّه جو بھی میری پھوپھی کی
قم میں زیارت کرے گا، اس کیلئے بہشت ہے۔
شیخ حسن قمی نے اپنی گرانقدر کتاب ’’تاریخ قم‘‘ میں یہ روایت نقل کی ہے:
اِنَّ زیارتَها تَعادِل الجنَّه حضرت معصومہؑ کی زیارت کا بدلہ جنت ہے۔
[ترمیم]
اہل بیتؑ کے زائرین زیارت سے مشرف ہونے سے قبل شائستہ ہے کہ
زیارت کے چند
آداب کو ملحوظ خاطر رکھا جائے:
۱۔
سفر کے دوران
گناہ و معصیت سے دوری کریں۔
۲۔ مقدس سرزمین میں وارد ہونے کے بعد
غسل کریں اور مشرف ہوتے وقت با
وضو ہوں۔
۳۔ دروازے پر کھڑے ہو کر اذن دخول پڑھا جائے اور
خضوع و خشوع سے وارد ہوں پھر زیارت کے بعد دو رکعت نماز ادا کی جائے۔
[ترمیم]
حضرت معصومہؑ کی زیارت کی ایک خصوصیت وہ ماثور زیارت نامہ ہے جو معصوم سے منقول ہے۔ قابل ذکر ہے کہ
حضرت فاطمہ زہراؑ کے بعد آپؑ ہی وہ تنہا خاتون ہیں کہ جن کی زیارت ماثور و منقول ہے۔
یہ امر خود حضرت معصومہؑ کیلئے بھی ایک خصوصی امتیاز ہے کہ
حضرت فاطمہ زہراؑ کے بعد آپؑ ہی وہ عظیم خاتون ہیں جو ماثور زیارت کی حامل ہیں۔
انتہائی معزز و برجستہ خواتین جیسے:
آمنہ بنت وہب!
فاطمہ بنت اسد،
خدیجہ بنت خویلد،
فاطمہ ام البنین،
زینب کبریٰ،
حکیمہ خاتون اور
نرجس خاتون کے بلند و بالا مقام میں کوئی شک و تردید نہیں ہے مگر ان کیلئے کوئی مخصوص زیارت منقول نہیں ہوئی۔ لہٰذا یہ امر، اہل بیتؑ کی مخدرات میں سے اسلام کی اس عظیم خاتون کے بلند و بالا مقام کی نشاندہی کرتا ہے۔
[ترمیم]
حضرت معصومہؑ کے معروف زیارت نامے کو
علامہ مجلسیؒ نے اپنے عظیم دائرۃ المعارف
بحار الانوار میں نقل کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
میں نے زیارات کی بعض کتب میں دیکھا ہے کہ علی بن ابراہیم نے اپنے والد ابراہیم بن ہاشم سے، انہوں نے سعد بن سعد احوص سے، انہوں نے
حضرت علی بن موسی الرضاؑ سے روایت کی ہے کہ حضرتؑ نے فرمایا: یا سعد عندکم لنا قبر» «اے سعد! تمہارے نزدیک ہماری ایک قبر ہے۔
سعد کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان! کیا فاطمہ بنت
موسی بن جعفر کی بات کر رہے ہیں؟! فرمایا: ہاں، جو اس کی زیارت کرے گا جبکہ اس کے حق کی معرفت رکھتا ہو، اس کیلئے بہشت ہے۔
پس جب بھی اس کی قبر پر پہنچو تو اس کے سرہانے کھڑے ہو کر ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر، ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ اور ۳۳ مرتبہ الحمد للہ کہو، پھر کہو: السلام علی آدم صفوه الله، السلام علی نوح نبی الله.... علامہ مجلسیؒ نے بحار الانوار کے علاوہ اپنی گرانقدر کتاب «تحفه الزائر» میں بھی اس
حدیث شریف کو امام رضاؑ سے نقل کیا ہے۔
تحفة الزائر کی اہمیت اس لیے ہے کہ علامہ مجلسیؒ اس کے مقدمے میں ملتزم ہوئے ہیں کہ اس کتاب میں فقط ان زیارات کو نقل کریں گے جو بسند معتبر ان تک پہنچی ہیں۔
علامہ مجلسیؒ کے بعد عظیم محقق
آیت اللہ حاج سید حیدر کاظمی متوفی ۱۲۶۵ھ نے بھی اپنی انتہائی اہم کتاب ’’عمدۃ الزائر‘‘ میں حضرت معصومہؑ کا زیارت نامہ اس تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے: ’’بعض کتب میں حسن سند کے ساتھ علی بن موسیٰ الرضاؑ سے مروی ہے کہ سعد کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
اے سعد! تمہارے یہاں ہماری ایک قبر ہے۔ میں نے کہا: آپ پر قربان! فاطمہ بنت موسیٰ کی قبر کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟! فرمایا: ہاں، جو بھی اس کی زیارت کرے جبکہ ان کے حق کا عارف ہو اس کیلئے بہشت ہے۔
پس جب ان کی قبر کے پاس پہنچو تو ان کے سرہانے رو بقبلہ کھڑے ہو کر ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر، ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ اور ۳۳ مرتبہ الحمد للہ کہو، پھر کہو: السلام علی آدم صفوه الله....
یہ تیرہویں صدی کے ممتاز مرجع تقلید اور عظیم خاندان آل سید حیدر کے کاظمین میں بزرگ ہیں۔
شیخ آقا بزرگ تہرانی نے ان کے حق میں فرمایا ہے کہ: عالم، فقیہ، محدث جلیل القدر، مرجع خاص و عام اور الہٰی حدود کے دفاع میں غیور و حسّاس تھے۔
انہوں نے بھی
علامہ مجلسیؒ کی طرح کتاب مزار کا نام ہمارے لیے بیان نہیں فرمایا ہے مگر یہ کہ اس سند کے معتبر ہونے کی تصریح کی ہے اور علم حدیث کے اعتبار سے اسے ’’حسن‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
سید حیدر کاظمی کی تعبیر سے استفادہ ہوتا ہے کہ مذکورہ کتاب ’’مزار‘‘ کے تمام راویانِ حدیث، کتاب کے مؤلف اور سلسلہ روات بھی قابل اعتماد و مستند ہیں؛ کیونکہ ’’حدیث حسن‘‘ کا معنی جیسا کہ علمائے حدیث نے فرمایا ہے، یہ ہے: حدیثِ حسن وہ ہے کہ جس کی سند معصومؑ سے متصل ہو اور اس کے تمام راوی امامی و ممدوح ہوں ایسی مدح کے ساتھ جو مقبول اور قابل اعتنا ہو؛ اس مدح کی معارض کوئی ذم نہ ہو۔ اگرچہ ان میں سے بعض کی عدالت پر تصریح نہ ہوئی ہو۔
اس امر کو دیکھتے ہوئے کہ سید حیدر کاظمی
علامہ تہرانی کی تصریح کے مطابق ایک جلیل القدر حدیث شناس تھے اور انہوں نے یہ تصریح کی ہے کہ اس زیارت نامے کی سند، ’’حسن‘‘ ہے اور حدیثِ حسن کی تعریف میں سند کے
امام معصومؑ سے اتصال کی قید لگائی ہے؛ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب ’’مزار‘‘ میں اس زیارت کے سلسلہ اسناد مذکور تھے، مگر یہ کہ علامہ مجلسی اور مرحوم سید حیدر کاظمی نے انہیں نقل نہیں کیا ہے۔ مندرجہ بالا مطالب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کتاب کے مؤلف سے علی بن ابراہیم تک اس حدیث کے راویوں کی وثاقت کے اثبات کے دو راستے ہیں:
۱۔ سید حیدر کاظمی کی جانب سے علم حدیث و رجال کے نقطہ نظر سے ان کی وثاقت کی تصریح اور اس روایت کیلئے سندِ حسن کی تعبیر؛
۲۔ علامہ مجلسیؒ کی جانب سے اس زیارت نامے کو کتاب ’’تحفۃ الزائر‘‘ میں نقل کر کے کا ان پر اظہار اعتماد؛ چونکہ وہ اس کتاب کے مقدمے میں پابند و ملتزم ہوئے ہیں کہ اس کتاب میں صرف ان زیارات کو نقل کریں گے کہ جو معتبر اسناد کے ساتھ ان تک پہنچی ہیں۔
تاہم حدیث کے دیگر رجال محکم وثاقت کے حامل ہیں کہ جن کی طرف بطور خلاصہ اشارہ کریں گے:
اس حدیث کو علی بن ابراہیم نے اپنے والد ابراہیم بن ہاشم سے، انہوں نے سعد بن سعد سے، انہوں نے حضرت علی بن موسی الرضاؑ سے روایت کیا ہے؛ یہ تینوں آئمہؑ کے نمایاں اصحاب میں سے ہیں اور حضرات معصومینؑ کی خصوصی عنایت ان کے شامل حال رہی ہے۔
[ترمیم]
علی بن ابراہیم نے اپنے والد سے، انہوں نے سعد سے، انہوں نے علی بن موسی الرضاؑ سے نقل کیا ہے کہ آپؑ نے فرمایا: اے سعد! تمہارے نزدیک ہماری ایک قبر ہے! میں نے عرض کیا، میں آپ پر قربان! آپ فاطمہ بنت موسیٰ کی قبر کے بارے میں فرما رہے ہیں؟ فرمایا: ہاں، جو اس کی معرفت کے ساتھ زیارت کرے، وہ
بہشت کا سزاوار ہے۔
جب تم حرم کی زیارت سے مشرف ہو اور بی بیؑ کے بالائے سر کی طرف تمہاری نگاہ پڑے، تو روبقبلہ کھڑے ہو جاؤ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس مرتبہ الحمد للہ کہو، پھر یہ پڑھو:
السَّلَامُ عَلَى آدَمَ صِفْوَةِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَى نُوحٍ نَبِيِّ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَى مُوسَى كَلِيمِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَى عِيسَى رُوحِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا خَيْرَ خَلْقِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا صَفِيَّ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَصِيَّ رَسُولِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا فَاطِمَةُ سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ السَّلَامُ عَلَيْكُمَا يَا سِبْطَيْ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ وَ سَيِّدَيْ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ سَيِّدَ الْعَابِدِينَ وَ قُرَّةَ عَيْنِ النَّاظِرِينَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ بَاقِرَ الْعِلْمِ بَعْدَ النَّبِيِّ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ الصَّادِقَ الْبَارَّ الْأَمِينَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ الطَّاهِرَ الطُّهْرَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا عَلِيَّ بْنَ مُوسَى الرِّضَا الْمُرْتَضَى السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ التَّقِيَّ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا عَلِيَّ بْنَ مُحَمَّدٍ النَّقِيَّ النَّاصِحَ الْأَمِينَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا حَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ السَّلَامُ عَلَى الْوَصِيِّ مِنْ بَعْدِهِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى نُورِكَ وَ سِرَاجِكَ وَ وَلِيِّ وَلِيِّكَ وَ وَصِيِّ وَصِيِّكَ وَ حُجَّتِكَ عَلَى خَلْقِكَ السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا بِنْتَ فَاطِمَةَ وَ خَدِيجَةَ السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا بِنْتَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا بِنْتَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا بِنْتَ وَلِيِّ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا أُخْتَ وَلِيِّ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا عَمَّةَ وَلِيِّ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا بِنْتَ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْكِ عَرَّفَ اللَّهُ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ فِي الْجَنَّةِ وَ حَشَرَنَا فِي زُمْرَتِكُمْ وَ أَوْرَدَنَا حَوْضَ نَبِيِّكُمْ وَ سَقَانَا بِكَأْسِ جَدِّكُمْ مِنْ يَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ أَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يُرِيَنَا فِيكُمُ السُّرُورَ وَ الْفَرَجَ وَ أَنْ يَجْمَعَنَا وَ إِيَّاكُمْ فِي زُمْرَةِ جَدِّكُمْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ أَنْ لَا يَسْلُبَنَا مَعْرِفَتَكُمْ إِنَّهُ وَلِيٌّ قَدِيرٌ أَتَقَرَّبُ إِلَى اللَّهِ بِحُبِّكُمْ وَ الْبَرَاءَةِ مِنْ أَعْدَائِكُمْ وَ التَّسْلِيمِ إِلَى اللَّهِ رَاضِياً بِهِ غَيْرَ مُنْكِرٍ وَ لَا مُسْتَكْبِرٍ وَ عَلَى يَقِينِ مَا أَتَى بِهِ مُحَمَّدٌ وَ بِهِ رَاضٍ نَطْلُبُ بِذَلِكَ وَجْهَكَ يَا سَيِّدِي اللَّهُمَّ وَ رِضَاكَ وَ الدَّارَ الْآخِرَةِ يَا فَاطِمَةُ اشْفَعِي لِي فِي الْجَنَّةِ فَإِنَّ لَكِ عِنْدَ اللَّهِ شَأْناً مِنَ الشَّأْنِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنْ تَخْتِمَ لِي بِالسَّعَادَةِ فَلَا تَسْلُبْ مِنِّي مَا أَنَا فِيهِ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ اللَّهُمَّ اسْتَجِبْ لَنَا وَ تَقَبَّلْهُ بِكَرَمِكَ وَ عِزَّتِكَ وَ بِرَحْمَتِكَ وَ عَافِيَتِكَ وَ صَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ أَجْمَعِينَ وَ سَلَّمَ تَسْلِيماً يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِين.
[ترمیم]
سلام ہو
آدم پر جو خدا کے برگزیدہ ہیں! سلام ہو
نوح پر جو خدا کے نبی ہیں! سلام ہو ابراہیم پر جو خدا کے دوست ہیں! سلام ہو موسیٰ پر جو کلیم اللہ ہیں! سلام ہو
عیسیٰ پر جو روح اللہ ہیں! سلام ہو آپ پر اے خدا کے رسول! سلام ہو آپ پر اے خلق خدا میں سے بہترین! سلام ہو آپ پر اے خدا کے انتخاب شدہ! سلام ہو آپ پر اے
محمد بن عبد اللہ اے نبیوں کے خاتم! سلام ہو آپ پر اے مومنو کے سردار علی بن ابی طالب! اے رسول خدا کے وصی! سلام ہو آپ پر اے فاطمہ! اے تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار! سلام ہو آپ پر اے
حسن و
حسین نبی رحمت کے دونوں نواسو اور اے جوانان
جنت کے سردارو! سلام ہو آپ پر اے علی ابن الحسین عبادت کرنے والوں کے سردار اور دیدار کرنے والوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک! سلام ہو آپ پر اے محمد بن علی اے بعد رسول
علم و
حکمت پھیلانے والے ! سلام ہو آپ پر اے جعفر بن محمد! اے صاحب صدق نیک خو امانتدار! سلام ہو آپ پر اے موسیٰ بن جعفر اے پاک و پاکیزہ! سلام ہو آپ پر اے علی بن موسیٰ اے راضی و پسندیدہ! سلام ہو آپ پر اے محمد بن علی علیہ السلام اے صاحب تقویٰ! سلام ہو آپ پر اے علی بن محمد اے پاکیزہ، خیر خواہ امانتدار ! سلام ہو آپ پر اے حسن بن علی! سلام ہو اس پر جو ان کے بعد وصی ہے!
اے معبود! رحمت فرما اپنے نور امامت و چراغ ہدایت پر جو تیرے ولی کے ولی، تیرے وصی کے وصی اور تیری مخلوق پر تیری حجت ہیں! سلام ہو آپ پر اے رسول خدا کی دختر! سلام ہو آپ پر اے فاطمہ و خدیجہ کی دختر! سلام ہو آپ پر اے دختر امیر المومنین کی دختر! سلام ہو آپ پر اے حسن و حسین کی دختر! سلام ہو آپ پر اے ولی خدا کی دختر! سلام ہو آپ پر اے
ولی خدا کی خواہر! سلام ہو آپ پر اے ولی خدا کی پھوپھی! سلام ہو آپ پر اے امام محمد تقی بن علی کی دختر! خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات و سلام ہوں آپ پر کہ خدا جنت میں ہماری آپ کی شناسائی کرائے! ہمیں آپ کے گروہ سے اٹھائے! ہمیں آپ میں سے نبی کے حوض پر پہچائے! آپ کے نانا کے جام کے ساتھ علی بن ابی طالب کے ہاتھوں سیراب فرمائے! خدا کی رحمتیں ہوں آپ پر! سوال کرتا ہوں خدا سے کہ وہ ہمیں ولی عصر کے ظہور سے آپ کا سرور دکھائے نیز ہم آپ کو آپ کے نانا حضرت محمد کے گروہ میں اکٹھا کر دے اور ہم سے آپ کی معرفت سلب نہ کرے کہ وہ
سرپرست اور قدرت والا ہے!
میں خدا کا
قرب چاہتا ہوں آپ کی محبت اور آپ کے دشمنوں سے بیزاری کے ذریعے! خدا کی رضا پر راضی ہو کر نہ انکار و تکبر کے باعث! جو کچھ محمدؐ لے کے آئے اس پر یقین رکھتے ہوئے اور اسے پسند کرتے ہوئے جو
محمدؐ پر نازل ہوا! اس طرح ہم تیری توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اے میرے سردار اے معبود! تیری رضا اور آخرت کا گھر طلب کرتے ہیں اے
فاطمہ ! جنت دلانے میں میری شفاعت کریں؛ کیونکہ خدا کے ہاں آپ کے لیے بڑی شان ہے؛ معبود! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میرا انجام سعادت پر فرما! میں جس
عقیدے پر ہوں وہ مجھ سے سلب نہ کر اور نہیں حرکت و قوت مگر وہ جو خدائے بزرگ و برتر سے ملتی ہے! اے معبود! ہماری دعائیں منظور و قبول فرما بواسطہ اپنی بزرگی اپنی عزت اپنی رحمت اور پردہ پوشی کے اور خدا رحمت کرے اور ان کے خاندان والوں پر اور درود و سلام بھیجے! اے سب سے زیادہ رحمت کرنے والے!
[ترمیم]
(۱) ابن منظور، لسان العرب۔
(۲) کشف الارتیاب، مننقول از صحیح مسلم و سنن نسائی۔
(۳) علامه امینی، الغدیر، اسفارات۔
(۴) شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا۔
(۵) بن قولویه، کامل الزیارات، چ نجف۔
(۶) عن بن محمد بن حسن قمی، تاریخ قم، ترجمه عبدالملک قمی، چ تهران۔
(۷) فخر الدین طریحی، مجمع البحرین، چ تهران، ۱۳۶۵۔
(۸) بن بته، تاریخ مدینه، چ قم، ۱۴۱۰ھ۔
(۹) شیخ صدوق، ثواب الاعمال، چ بیروت۔
(۱۰) بن اثیر، النهایه، چ بیروت۔
(۱۱) مجلسی، بحار الانوار۔
[ترمیم]
[ترمیم]
سائٹ اندیشہ، ماخوذ از مقالہ، تاریخ نظر ثانی ۱۳۹۵/۱/۲۳۔