خرابی کی رپورٹ
ہر لفظ کے معنی اور تفصیل دیکھنے کے لیے اس پر کلک کریں۔
عقائدية ، تاريخية ، اخلاقية
وَ مِنْ خُطْبَة لَهُ (عَلَيْهِالسَّلامُ) امامؑ کے خطبات میں سے
خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
«أَمْرُهُ قَضَاءٌ وَ حِکْمَةٌ،»۱اس کا حکم فیصلہ کن اور حکمت آمیز
«وَ رِضَاهُ أَمَانٌ وَ رَحْمَةٌ،»۲اور اس کی خوشنودی امان اور رحمت ہے
«یَقْضِی بِعِلْمٍ،»۳وہ اپنے علم سے فیصلہ کرتا ہے
«وَ یَعْفُو بِحِلْمٍ.»۴اور اپنے حلم سے عفو کرتا ہے
«اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى مَا تَأْخُذُ وَ تُعْطِی،»۵بارالٰہا! تو جو کچھ (دے کر) لے لیتا ہے اور جو کچھ عطا کرتا ہے
«وَ عَلَى مَا تُعَافِی وَ تَبْتَلِی;»۶اور جن (مرضوں سے) شفا دیتا ہے اور جن آزمائشوں میں ڈالتا ہے (سب پر) تیرے لئے حمد و ثنا ہے
«حَمْداً یَکُونُ أَرْضَی الْحَمْدِ لَكَ، وَ أَحَبَّ الْحَمْدِ إِلَيْكَ، وَ أَفْضَلَ الْحَمْدِ عِنْدَكَ.»۷ایسی حمد جو انتہائی درجے تک تجھے پسند آئے اور انتہائی درجے تک تجھے محبوب ہو اور تیرے نزدیک ہر ستائش سے بڑھ چڑھ کر ہو
«حَمْداً یَمْلَأُ مَا خَلَقْتَ،»۸ایسی حمد جو کائنات کو بھر دے
«وَ یَبْلُغُ مَا أَرَدْتَ.»۹اور جو تو نے چاہا ہے اس کی حد تک پہنچ جائے
«حَمْداً لَا یُحْجَبُ عَنْكَ،»۱۰ایسی حمد کہ جس کے آگے تیری بارگاہ تک پہنچنے سے کوئی حجاب ہے
«وَ لَا یُقْصَرُ دُونَکَ،»۱۱اور نہ اس کیلئے کوئی بندش
«حَمْداً لَا یَنْقَطِعُ عَدَدُهُ،»۱۲ایسی حمد کہ جس کی گنتی نہ کہیں پر ٹوٹے
«وَ لَا یَفْنَی مَدَدُهُ.»۱۳اور نہ اس کا سلسلہ ختم ہو
«فَلَسْنَا نَعْلَمُ کُنْهَ عَظَمَتِکَ،»۱۴ہم تیری عظمت و بزرگی کی حقیقت کو نہیں جانتے
«إِلَّا أَنَّا نَعْلَمُ»۱۵مگر اتنا کہ
«أَنَّكَ «حَیٌّ قَیُّومٌ، لَا تَأْخُذُکَ سِنَةٌ وَ لَا نَوْمٌ»(۱)»۱۶تو زندہ و کار ساز (عالم) ہے نہ تجھے غنودگی ہوتی ہے اور نہ نیند آتی ہے
«لَمْ یَنْتَهِ إِلَيْكَ نَظَرٌ،»۱۷نہ تارِ نظر تجھ تک پہنچ سکتا ہے
«وَ لَمْ یُدْرِکْکَ بَصَرٌ.»۱۸اور نہ نگاہیں تجھے دیکھ سکتی ہیں
«أَدْرَکْتَ الْأَبْصَارَ،»۱۹تو نے نظروں کو پا لیا ہے
«وَ أَحْصَیْتَ الْأَعْمَالَ،»۲۰اور عمروں کا احاطہ کر لیا ہے
«وَ أَخَذْتَ «بِالنَّوَاصِی وَ الْأَقْدَامِ»(۲)»۲۱اور پیشانی کے بالوں کو پیروں (سے ملا کر) گرفت میں لے لیا ہے
«وَ مَا الَّذِي نَرَی مِنْ خَلْقِکَ،»۲۲یہ تیری مخلوق کیا ہے جو ہم دیکھتے ہیں
«وَ نَعْجَبُ لَهُ مِنْ قُدْرَتِکَ،»۲۳اور اس میں تیری قدرت (کی کارسازیوں) پر تعجب کرتے ہیں
«وَ نَصِفُهُ مِنْ عَظِیمِ سُلْطَانِکَ،»۲۴اور تیری عظیم فرمانروائی (کی کارفرمائیوں) پر اس کی توصیف کرتے ہیں
«وَ مَا تَغَیَّبَ عَنَّا مِنْهُ،»۲۵حالانکہ درحقیقت وہ (مخلوقات) جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے
«وَ قَصُرَتْ أَبْصَارُنَا عَنْهُ،»۲۶اور جس تک پہنچنے سے ہماری نظریں عاجز
«وَ انْتَهَتْ عُقُولُنَا دُونَهُ،»۲۷اور عقلیں درماندہ ہیں
«وَ حَالَتْ سُتُورُ الْغُیُوبِ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهُ أَعْظَمُ!»۲۸اور ہمارے اور جن کے درمیان غیب کے پردے حائل ہیں اس سے کہیں زیادہ با عظمت ہے
«فَمَنْ فَرَّغَ قَلْبَهُ،»۲۹جو شخص (وسوسوں سے) اپنے دل کو خالی کرکے
«وَ أَعْمَلَ فِکْرَهُ،»۳۰اور غور و فکر (کی قوتوں) سے کام لے لے کر
«لِیَعْلَمَ کَیْفَ أَقَمْتَ عَرْشَکَ،»۳۱یہ جاننا چاہے کہ تو نے کیونکر عرش کو قائم کیا ہے
«وَ کَیْفَ ذَرَأْتَ خَلْقَکَ،»۳۲اور کس طرح مخلوقات کو پیدا کیا ہے
«وَ کَیْفَ عَلَّقْتَ فِي الْهَواءِ سَمَاوَاتِکَ،»۳۳اور کیونکر آسمانوں کو فضا میں لٹکایا ہے
«وَ کَیْفَ مَدَدْتَ عَلَى مَوْرِ الْمَاءِ أَرْضَکَ،»۳۴اور کس طرح پانی کے تھپیڑوں پر زمین کو بچھایا ہے
«رَجَعَ طَرْفُهُ حَسِیراً،»۳۵تو اس کی آنکھیں تھک کر
«وَ عَقْلُهُ مَبْهُوراً،»۳۶اور عقل مغلوب ہو کر
«وَ سَمْعُهُ وَالِهاً،»۳۷اور کان حیران
«وَ فِکْرُهُ حَائِراً.»۳۸و سراسیمہ اور فکر گم گشتہ راہ ہو کر پلٹ آئے گی
اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے
«یَدَّعِی بِزَعْمِهِ أَنَّهُ یَرْجُو اللهَ،»۳۹وہ اپنے خیال میں اس کا دعویدار بنتا ہے کہ اس کا دامنِ امید اللہ سے وابستہ ہے
«کَذَبَ وَالْعَظِیمِ!»۴۰خدائے برتر کی قسم! وہ جھوٹا ہے
«مَا بَالُهُ لَا یَتَبَیَّنُ رَجَاؤُهُ فِي عَمَلِهِ؟»۴۱(اگر ایسا ہی ہے) تو پھرکیوں اس کے اعمال میں اس امید کی جھلک نمایاں نہیں ہوتی
«فَكُلُّ مَنْ رَجَا»۴۲جبکہ ہر امیدوار کے کاموں میں
«عُرِفَ رَجَاؤُهُ فِي عَمَلِهِ»۴۳امید کی پہچان ہو جایا کرتی ہے
«وَ كُلُّ رَجَاء - إِلَّا رَجَاءَ اللهِ تَعَالَی -»۴۴سوائے اس امید کے کہ جو اللہ سے لگائی جائے
«فَإِنَّهُ مَدْخُولٌ»۴۵کہ اس میں کھوٹ پایا جاتا ہے
«وَ كُلُّ خَوْف مُحَقَّقٌ،»۴۶اور ہر خوف و ہراس جو (دوسروں سے ہو) ایک مسلمہ حقیقت رکھتا ہے
«إِلَّا خَوْفَ اللهِ فَإِنَّهُ مَعْلُولٌ.»۴۷مگر اللہ کا خوف غیر یقینی سا ہے
«یَرْجُو اللهَ فِي الْکَبِیرِ،»۴۸وہ اللہ سے بڑی چیزوں کا امیدوار ہوتا ہے
«وَ یَرْجُو الْعِبَادَ فِي الصَّغِیرِ،»۴۹اور بندوں سے چھوٹی چیزوں کا
«فَیُعْطِی الْعَبْدَ مَا لَا یُعْطِی الرَّبَّ!»۵۰پھر بھی جو عاجزی کا رویہ بندوں سے رکھتا ہے وہ رویہ اللہ سے نہیں برتتا
«فَمَا بَالُ اللهِ جَلَّ ثَنَاؤُهُ یُقَصَّرُ بِهِ عَمَّا یُصْنَعُ بِهِ لِعِبَادِهِ؟»۵۱تو آخر کیا بات ہے کہ اللہ کے حق میں اتنا بھی نہیں کیا جاتا جتنا بندوں کیلئے کیا جاتا ہے
«أَتَخَافُ أَنْ تَکُونَ فِي رَجَائِکَ لَهُ کَاذِباً؟»۵۲کیا تمہیں کبھی اس کا بھی اندیشہ ہوا ہے کہ کہیں تم ان امیدوں (کے دعووں) میں جھوٹے تو نہیں؟
«أَوْ تَکُونَ لاَ تَرَاهُ لِلرِّجَاءِ مَوْضِعاً؟»۵۳یا یہ کہ تم اسے محل امید ہی نہیں سمجھتے
«وَ كَذلِكَ إِنْ هُوَ خَافَ عَبْداً مِنْ عَبِیدِهِ،»۵۴یوں ہی انسان اگر اس کے بندوں میں سے کسی بندے سے ڈرتا ہے
«أَعْطَاهُ مِنْ خَوْفِهِ مَا لاَ یُعْطِی رَبَّهُ،»۵۵تو جو خوف کی صورت اس کیلئے اختیار کرتا ہے اللہ کیلئے ویسی صورت اختیار نہیں کرتا
«فَجَعَلَ خَوْفَهُ مِنَ الْعِبَادِ نَقْداً،»۵۶انسانوں کا خوف تو اس نے نقد کی صورت میں رکھا ہے
«وَ خَوْفَهُ مِنْ خَالِقِهِ ضِماراً وَ وَعْداً.»۵۷اور اللہ کا ڈر صرف ٹال مٹول اور (غلط سلط) وعدے
«وَ كَذلِكَ مَنْ عَظُمَتِ الدُّنْیَا فِي عَیْنِهِ،»۵۸یوں ہی جس کی نظروں میں دنیا عظمت پا لیتی ہے
«وَ کَبُرَ مَوْقِعُهَا مِنْ قَلْبِهِ،»۵۹اور اس کے دل میں اس کی عظمت و وقعت بڑھ جاتی ہے
«آثَرَهَا عَلَى اللهِ تَعَالی،»۶۰تو وہ اسے اللہ پر ترجیح دیتا ہے
«فَانْقَطَعَ إِلَيْهَا،»۶۱اور اس کی طرف مڑتا ہے
«وَ صَارَ عَبْداً لَهَا.»۶۲اور اسی کا بندہ ہو کر رہ جاتا ہے
۴. سيرة النّبىّ (صلىاللهعليهوآلهوسلم) و الانبياء الالهيّين «وَ لَقَدْ کَانَ فِي رَسُولِ اللهِ (صَلَّىاللّهُعَلَيْهِوَآلِهِ) کَاف لَكَ فِي الاُْسْوَةِ،»۶۳تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کا قول و عمل پیروی کیلئے کافی ہے
«وَ دَلِیلٌ لَكَ عَلَى ذَمِّ الدُّنْیَا وَ عَیْبِهَا،»۶۴اور ان کی ذات دنیا کے عیب و نقص اور اس کی رسوائیوں
«وَ کَثْرَةِ مَخَازِیهَا وَ مَسَاوِیهَا،»۶۵اور برائیوں کی کثرت دکھانے کیلئے رہنما ہے
«إِذْ قُبِضَتْ عَنْهُ أَطْرَافُهَا،»۶۶اس لئے کہ اس دنیا کے دامنوں کو ان سے سمیٹ لیا گیا
«وَ وُطِئَتْ لِغَیْرِهِ أَکْنَافُهَا،»۶۷اور دوسروں کیلئے اس کی وسعتیں مہیا کر دی گئیں
«وَ فُطِمَ عَنْ رَضَاعِهَا،»۶۸اور اس (زالِ دنیا کی چھاتیوں سے) آپؐ کا دودھ چھڑا دیا گیا
«وَ زُوِیَ عَنْ زَخَارِفِهَا.»۶۹اور اس کی آرائشوں سے آپؐ کا رخ موڑ دیا گیا
«وَ إِنْ شِئْتَ ثَنَّیْتُ بِمُوسَی کَلِیمِ اللهِ (عليهالسلام) حَيْثُ یَقُولُ:»۷۰اگر دوسرا نمونہ چاہو تو موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام ہیں کہ جنہوں نے اپنے اللہ سے کہا کہ:
(رَبِّ إِنِّی لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْر فَقِیرٌ)
(۳)۷۱«پروردگار! تو جو کچھ بھی اس وقت تھوڑی بہت نعمت بھیج دے گا میں اسی کا محتاج ہوں»
«وَ اللهِ، مَا سَأَلَهُ إِلاَّ خُبْزاً یَأْکُلُهُ،»۷۲خدا کی قسم! انہوں نے صرف کھانے کیلئے روٹی کا سوال کیا تھا
«لاَِنَّهُ کَانَ یَأْکُلُ بَقْلَةَ الاَْرْضِ،»۷۳چونکہ وہ زمین کا ساگ پات کھاتے تھے
«وَ لَقَدْ کَانَتْ خُضْرَةُ الْبَقْلِ تُرَی مِنْ شَفِیفِ صِفَاقِ بَطْنِهِ، لِهُزَالِهِ وَ تَشَذُّبِ لَحْمِهِ.»۷۴اور لاغری اور (جسم پر) گوشت کی کمی کی وجہ سے ان کے پیٹ کی نازک جلد سے گھاس پات کی سبزی دکھائی دیتی تھی
«وَ إِنْ شِئْتَ ثَلَّثْتُ بِدَاوُودَ (علیهالسلام)»۷۵اگر چاہو تو تیسری مثال داؤد علیہ السلام کی سامنے رکھ لو
آیه قبل
«صَاحِبِ الْمَزَامِیرِ،»۷۶جو صاحب زبور
«وَ قَارِئِ أَهْلِ الْجَنَّةِ،»۷۷اور اہل جنت کے قاری ہیں
«فَلَقَدْ کَانَ یَعْمَلُ سَفَائِفَ الْخُوصِ بِیَدِهِ،»۷۸وہ اپنے ہاتھ سے کھجور کی پتیوں کی ٹوکریاں بُنا کرتے تھے
«وَ یَقُولُ لِجُلَسَائِهِ:»۷۹اور اپنے ساتھیوں سے فرماتے تھے
«أَيُّكُمْ یَکْفِینِی بَیْعَهَا!»۸۰کہ تم میں سے کون ہے جو انہیں بیچ کر میری دستگیری کرے
«وَ یَأْکُلُ قُرْصَ الشَّعِيرِ مِنْ ثَمَنِهَا.»۸۱(پھر) جو اس کی قیمت ملتی اس سے جو کی روٹی کھا لیتے تھے
«وَ إِنْ شِئْتَ قُلْتُ فِي عِیسَی بْنِ مَرْیَمَ (علیهاالسلام)،»۸۲اگر چاہو تو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا حال کہوں
«فَلَقَدْ کَانَ یَتَوَسَّدُ الْحَجَرَ،»۸۳کہ جو (سر کے نیچے) پتھر کا تکیہ رکھتے تھے
«وَ یَلْبَسُ الْخَشِنَ،»۸۴سخت اور کھردرا لباس پہنتے تھے
«وَ یَأْکُلُ الْجَشِبَ،»۸۵وہ ایسی غذائیں کھاتے جو لذیذ نہیں ہوتی تھیں
«وَ کَانَ إِدَامُهُ الْجُوعَ،»۸۶اور (کھانے) میں سالن کے بجائے بھوک
«وَ سِرَاجُهُ بِاللَّیْلِ الْقَمَرَ،»۸۷اور رات کے چراغ کی جگہ چاند
«وَ ظِلاَلُهُ فِي الشِّتَاءِ مَشَارِقَ الاَْرْضِ وَ مَغَارِبَهَا،»۸۸اور سردیوں میں سایہ کے بجائے (ان کے سر پر) زمین کے مشرق و مغرب کا سائبان ہوتا تھا
«وَ فَاکِهَتُهُ وَ رَیْحَانُهُ مَا تُنْبِتُ الاَْرْضُ لِلْبَهَائِمِ;»۸۹اور زمین جو گھاس پھوس چوپاؤں کیلئے اُگاتی تھی وہ ان کیلئے پھل پھول کی جگہ تھی
«وَ لَمْ تَکُنْ لَهُ زَوْجَةٌ تَفْتِنُهُ،»۹۰نہ ان کی بیوی تھیں جو انہیں دنیا (کے جھنجٹوں) میں مبتلا کرتیں
«وَ لاَ وَلَدٌ یَحْزُنُهُ (یخزنه)،»۹۱اور نہ بال بچے تھے کہ ان کیلئے فکر و اندوہ کا سبب بنتے
«وَ لاَ مَالٌ یَلْفِتُهُ،»۹۲اور نہ مال و متاع تھا کہ ان کی توجہ کو موڑتا
«وَ لاَ طَمَعٌ یُذِلُّهُ،»۹۳اور نہ کوئی طمع تھی کہ انہیں رسوا کرتی
«دَابَّتُهُ رِجْلاَهُ،»۹۴ان کی سواری ان کے دونوں پاؤں
«وَ خَادِمُهُ یَدَاهُ!»۹۵اور خادم ان کے دونوں ہاتھ تھے
۵. محطّات في حياة النّبىّ (صلىاللهعليهوآلهوسلم) «فَتَأَسَّ بِنَبِیِّکَ الاَْطْیَبِ الاَْطْهَرِ (صَلَّىاللّهُعَلَيْهِوَآلِهِ)،»۹۶تم اپنے پاک و پاکیزہ نبیؐ کی پیروی کرو
«فَإِنَّ فِيهِ أُسْوَةً لِمَنْ تَأَسَّی،»۹۷چونکہ ان کی ذات اتباع کرنے والے کیلئے نمونہ
«وَ عَزَاءً لِمَنْ تَعَزَّی.»۹۸اور صبر کرنے والے کیلئے ڈھارس ہے
«وَ أَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللهِ الْمُتَأَسِّی بِنَبِیِّهِ،»۹۹ان کی پیروی کرنے والا ہی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے
«وَ الْمُقْتَصُّ لاَِثَرِهِ.»۱۰۰اور ان کے نقش قدم پر چلنے والا
«قَضَمَ الدُّنْیَا قَضْماً،»۱۰۱جنہوں نے دنیا کو (صرف ضرورت بھر) چکھا
«وَ لَمْ يُعِرْهَا طَرْفاً،»۱۰۲اور اسے نظر بھر کر نہیں دیکھا
«أَهْضَمُ أَهْلِ الدُّنْیَا کَشْحاً،»۱۰۳وہ دنیا میں سب سے زیادہ شکم تہی میں بسر کرنے والے
«وَ اَخْمَصُهُمْ مِنَ الدُّنْیَا بَطْناً،»۱۰۴اور خالی پیٹ رہنے والے تھے
«عُرِضَتْ عَلَيْهِ الدُّنْیَا فَأَبَی أَنْ یَقْبَلَهَا،»۱۰۵ان کے سامنے دنیا کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا
«وَ عَلِمَ أَنَّ اللهَ سُبْحانَهُ أَبْغَضَ شَیْئاً فَأَبْغَضَهُ،»۱۰۶اور (جب) جان لیا کہ اللہ نے ایک چیز کو برا جانا ہے تو آپؐ نے بھی اسے برا ہی جانا
«وَ حَقَّرَ شَیْئاً فَحَقَّرَهُ،»۱۰۷اور اللہ نے ایک چیز کو حقیر سمجھا ہے تو آپؐ نے بھی اسے حقیر ہی سمجھا
«وَ صَغَّرَ شَیْئاً فَصَغَّرَهُ.»۱۰۸اور اللہ نے ایک چیز کو پست قرار دیا ہے تو آپؐ نے بھی اسے پست ہی قرار دیا
«وَ لَوْ لَمْ یَکُنْ فِينَا إِلاَّ حُبُّنَا مَا أَبْغَضَ اللهُ وَ رَسُولُهُ،»۱۰۹اگر ہم میں صرف یہی ایک چیز ہو کہ ہم اس شے کو چاہنے لگیں جسے اللہ اور رسولؐ برا سمجھتے ہیں
«وَ تَعْظِیمُنَا مَا صَغَّرَ اللهُ وَ رَسُولُهُ،»۱۱۰اور اس چیز کو بڑا سمجھنے لگیں جسے وہ حقیر سمجھتے ہیں
«لَکَفَی بِهِ شِقَاقاً لِلّهِ، وَ مُحَادَّةً عَنْ أَمْرِ اللهِ.»۱۱۱تو اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سرتابی کیلئے یہی بہت ہے
«وَ لَقَدْ کَانَ (صَلَّىاللّهُعَلَيْهِوَآلِهِ) یَأْکُلُ عَلَى الاَْرْضِ،»۱۱۲رسول اللہ ﷺ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے
«وَ یَجْلِسُ جِلْسَةَ الْعَبْدِ،»۱۱۳اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے
«وَ یَخْصِفُ بِیَدِهِ نَعْلَهُ،»۱۱۴اپنے ہاتھ سے جوتی ٹانکتے تھے
«وَ یَرْقَعُ بِیَدِهِ ثَوْبَهُ،»۱۱۵اور اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے
«وَ یَرْکَبُ الْحِمَارَ الْعَارِیَ،»۱۱۶اور بے پالان کے گدھے پر سوار ہوتے تھے
«وَ یُرْدِفُ خَلْفَهُ،»۱۱۷اور اپنے پیچھے کسی کو بٹھا بھی لیتے تھے
«وَ یَکُونُ السِّتْرُ عَلَى بَابِ بَیْتِهِ فَتَکُونُ فِيهِ التَّصَاوِیرُ»۱۱۸گھر کے دروازہ پر (ایک دفعہ) ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں
«فَیَقُولُ:»۱۱۹تو آپؐ نے اپنے ازواج میں سے ایک کو مخاطب کرکے فرمایا
««يَا فُلاَنَةُ ـ لاِِحْدَی أَزْوَاجِهِ ـ غَیَّبِیهِ عَنِّي،»۱۲۰کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو
«فَإِنِّي إِذَا نَظَرْتُ إِلَيْهِ ذَکَرْتُ الدُّنْیَا وَ زَخَارِفَهَا.»»۱۲۱جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اور اس کی آرائشیں یاد آ جاتی ہیں
«فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْیَا بِقَلْبِهِ،»۱۲۲آپؐ نے دنیا سے دل ہٹا لیا تھا
«وَ أَمَاتَ ذِکْرَهَا مِنْ نَفْسِهِ،»۱۲۳اور اس کی یاد تک اپنے نفس سے مٹا ڈالی تھی
«وَ أَحَبَّ أَنْ تَغِیبَ زِینَتُهَا عَنْ عَیْنِهِ،»۱۲۴اور یہ چاہتے تھے کہ اس کی سج دھج نگاہوں سے پوشیدہ رہے
«لِكَيْلاَ یَتَّخِذَ مِنْهَا رِیَاشاً،»۱۲۵تاکہ نہ اس سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کریں
«وَ لاَ یَعْتَقِدَهَا قَرَاراً،»۱۲۶اور نہ اسے اپنی منزل خیال کریں
«وَ لاَ یَرْجُوَ فِيهَا مُقَاماً،»۱۲۷اور نہ اس میں زیادہ قیام کی آس لگائیں
«فَأَخْرَجَهَا مِنَ النَّفْسِ،»۱۲۸انہوں نے اس کا خیال نفس سے نکال دیا تھا
«وَ أَشْخَصَهَا عَنِ الْقَلْبِ،»۱۲۹اور دل سے اسے ہٹا دیا تھا
«وَ غَیَّبَهَا عَنِ الْبَصَرِ.»۱۳۰اور نگاہوں سے اسے اوجھل رکھا تھا
«وَ كَذلِكَ مَنْ أَبْغَضَ شَیْئاً أَبْغَضَ أَنْ یَنْظُرَ إِلَيْهِ،»۱۳۱یونہی جو شخص کسی شے کو برا سمجھتا ہے تو نہ اسے دیکھنا چاہتا ہے
«وَ أَنْ یُذْکَرَ عِنْدَهُ.»۱۳۲اور نہ اس کا ذکر سننا گوارا کرتا ہے
«وَ لَقَدْ کَانَ فِي رَسُولِ اللهِ (صَلَّیاللّهُعَلَیْهِوَآلِهِ) مَا یُدُلُّکَ عَلَى مَسَاوِئِ الدُّنْیَا وَ عُیُوبِهَا:»۱۳۳رسول اللہ ﷺ (کے عادات و خصائل) میں ایسی چیزیں ہیں کہ جو تمہیں دنیا کے عیوب و قبائح کا پتہ دیں گی
«إِذْ جَاعَ فِيهَا مَعَ خَاصَّتِهِ،»۱۳۴جبکہ آپؐ اس دنیا میں اپنے خاص افراد سمیت بھوکے رہا کرتے تھے
«وَ زُوِیَتْ عَنْهُ زَخَارِفُهَا مَعَ عَظِیمِ زُلْفَتِهِ.»۱۳۵اور باوجود انتہائی قربِ منزلت کے اس کی آرائشیں ان سے دور رکھی گئیں
«فَلْیَنْظُرْ نَاظِرٌ بِعَقْلِهِ:»۱۳۶چاہیے کہ دیکھنے والا عقل کی روشنی میں دیکھے
«أَکْرَمَ اللهُ مُحَمَّداً بِذلِكَ أَمْ أَهَانَهُ!»۱۳۷کہ اللہ نے انہیں دنیا نہ دے کر ان کی عزت بڑھائی ہے یا اہانت کی ہے؟
«فَإِنْ قَالَ: أَهَانَهُ،»۱۳۸اگر کوئی یہ کہے کہ اہانت کی ہے
«فَقَدْ کَذَبَ ـ وَاللهِ الْعَظِیمِ ـ»۱۳۹تو اس نے جھوٹ کہا ہے
«بِالاِْفْکِ الْعَظِیمِ،»۱۴۰اور بہت بڑا بہتان باندھا
«وَ إِنْ قَالَ: أَکْرَمَهُ،»۱۴۱اور اگر یہ کہے کہ عزت بڑھائی ہے
«فَلْیَعْلَمْ أَنَّ اللهَ قَدْ أَهَانَ غَیْرَهُ حَيْثُ بَسَطَ الدُّنْیَا لَهُ،»۱۴۲تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ نے دوسروں کی بے عزتی ظاہر کی
«وَ زَوَاهَا عَنْ أَقْرَبِ النَّاسِ مِنْهُ.»۱۴۳جبکہ انہیں دنیا کی زیادہ سے زیادہ وسعت دے دی اور اس کا رخ اپنے مقرب ترین بندے سے موڑ رکھا
«فَتَأَسَّی مُتَأَسٍّ بِنَبِیِّهِ،»۱۴۴پیروی کرنے والے کو چاہیے کہ ان کی پیروی کرے
«وَ اقْتَصَّ أَثَرَهُ،»۱۴۵اور ان کے نشان قدم پر چلے
«وَ وَلَجَ مَوْلِجَهُ،»۱۴۶اور انہی کی منزل میں آئے
«وَ إِلاَّ فَلاَ یَأْمَنِ الْهَلَکَةَ،»۱۴۷ورنہ ہلاکت سے محفوظ نہیں رہ سکتا
«فَإِنَّ اللهَ جَعَلَ مُحَمَّداً (صَلَّیاللّهُعَلَیْهِوَآلِهِ) عَلَماً لِلسَّاعَةِ،»۱۴۸کیونکہ اللہ نے ان کو (قرب) قیامت کی نشانی
«وَ مُبَشِّراً بِالْجَنَّةِ،»۱۴۹اور جنت کی خوشخبری سنانے والا
«وَ مُنْذِراً بِالْعُقُوبَةِ.»۱۵۰اور عذاب سے ڈرانے والا قرار دیا ہے
«خَرَجَ مِنَ الدُّنْیَا خَمِیصاً،»۱۵۱دنیا سے آپؐ بھوکے نکل کھڑے ہوئے
«وَ وَرَدَ الاْخِرَةَ سَلِیماً.»۱۵۲اور آخرت میں سلامتیوں کے ساتھ پہنچ گئے
«لَمْ یَضَعْ حَجَراً عَلَى حَجَر، حَتَّى مَضَی لِسَبِیلِهِ، وَ أَجَابَ دَاعِیَ رَبِّهِ.»۱۵۳آپؐ نے تعمیر کیلئے کبھی پتھر پر پتھر نہیں رکھا، یہاں تک کہ آخرت کی راہ پر چل دئیے اور اللہ کی طرف بلاوا دینے والے کی آواز پر لبیک کہی
«فَمَا أَعْظَمَ مِنَّةَ اللهِ عِنْدَنَا حِینَ أَنْعَمَ عَلَيْنَا بِهِ سَلَفاً نَتَّبِعُهُ،»۱۵۴یہ اللہ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسے پیشرو و پیشوا جیسی نعمت عظمیٰ بخشی
«وَ قَائِداً نَطَأُ عَقِبَهُ!»۱۵۵کہ جن کی ہم پیروی کرتے ہیں اور قدم بہ قدم چلتے ہیں
«وَ اللهِ لَقَدْ رَقَّعْتُ مِدْرَعَتِی هذِهِ حَتَّى اسْتَحْیَیْتُ مِنْ رَاقِعِهَا.»۱۵۶(انہی کی پیروی میں) خدا کی قسم! میں نے اپنی اس قمیص میں اتنے پیوند لگائے ہیں کہ مجھے پیوند لگانے والے سے شرم آنے لگی ہے
«وَ لَقَدْ قَالَ لِي قَائِلٌ:»۱۵۷مجھ سے ایک کہنے والے نے کہا
«أَلاَ تَنْبِذُهَا عَنْكَ؟»۱۵۸کہ کیا آپؑ اسے اتاریں گے نہیں؟
«فَقُلْتُ: اغْرُبْ (اعزب) عَنِّي،»۱۵۹تو میں نے اسے کہا کہ: میری (نظروں سے) دور ہو
«فَعِنْدَ الصَّبَاحِ یَحْمَدُ الْقَوْمُ السُّرَی!»۱۶۰کہ صبح کے وقت ہی لوگوں کو رات کے چلنے کی قدر ہوتی ہے اور وہ اس کی مدح کرتے ہیں
(۱) قرآن مجید کی
آیت ۲۵۵ سوره بقره کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
(۲) قرآن مجید کی
آیت ۴۱ سوره الرحمان کی طرف اشارہ ہے۔
(۳)
قصص/سوره۲۸، آیت۲۴۔