• خواندن
  • نمایش تاریخچه
  • ویرایش
 

خطبہ ۱۶۰ نہج البلاغہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



خرابی کی رپورٹ
ہر لفظ کے معنی اور تفصیل دیکھنے کے لیے اس پر کلک کریں۔



عقائدية ، تاريخية ، اخلاقية



وَ مِنْ خُطْبَة لَهُ (عَلَيْهِ‌السَّلامُ)
امامؑ کے خطبات میں سے
خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی

۱. معرفة الله

«أَمْرُهُ قَضَاءٌ وَ حِکْمَةٌ،»۱
اس کا حکم فیصلہ کن اور حکمت آمیز



«وَ رِضَاهُ أَمَانٌ وَ رَحْمَةٌ،»۲
اور اس کی خوشنودی امان اور رحمت ہے



«یَقْضِی بِعِلْمٍ،»۳
وہ اپنے علم سے فیصلہ کرتا ہے



«وَ یَعْفُو بِحِلْمٍ۴
اور اپنے حلم سے عفو کرتا ہے



«اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى مَا تَأْخُذُ وَ تُعْطِی،»۵
بارالٰہا! تو جو کچھ (دے کر) لے لیتا ہے اور جو کچھ عطا کرتا ہے



«وَ عَلَى مَا تُعَافِی وَ تَبْتَلِی۶
اور جن (مرضوں سے) شفا دیتا ہے اور جن آزمائشوں میں ڈالتا ہے (سب پر) تیرے لئے حمد و ثنا ہے



«حَمْداً یَکُونُ أَرْضَی الْحَمْدِ لَكَ، وَ أَحَبَّ الْحَمْدِ إِلَيْكَ، وَ أَفْضَلَ الْحَمْدِ عِنْدَكَ.»۷
ایسی حمد جو انتہائی درجے تک تجھے پسند آئے اور انتہائی درجے تک تجھے محبوب ہو اور تیرے نزدیک ہر ستائش سے بڑھ چڑھ کر ہو



«حَمْداً یَمْلَأُ مَا خَلَقْتَ،»۸
ایسی حمد جو کائنات کو بھر دے



«وَ یَبْلُغُ مَا أَرَدْتَ۹
اور جو تو نے چاہا ہے اس کی حد تک پہنچ جائے



«حَمْداً لَا یُحْجَبُ عَنْكَ،»۱۰
ایسی حمد کہ جس کے آگے تیری بارگاہ تک پہنچنے سے کوئی حجاب ہے



«وَ لَا یُقْصَرُ دُونَکَ،»۱۱
اور نہ اس کیلئے کوئی بندش



«حَمْداً لَا یَنْقَطِعُ عَدَدُهُ،»۱۲
ایسی حمد کہ جس کی گنتی نہ کہیں پر ٹوٹے



«وَ لَا یَفْنَی مَدَدُهُ۱۳
اور نہ اس کا سلسلہ ختم ہو



«فَلَسْنَا نَعْلَمُ کُنْهَ عَظَمَتِکَ،»۱۴
ہم تیری عظمت و بزرگی کی حقیقت کو نہیں جانتے



«إِلَّا أَنَّا نَعْلَمُ»۱۵
مگر اتنا کہ



«أَنَّكَ «حَیٌّ قَیُّومٌ، لَا تَأْخُذُکَ سِنَةٌ وَ لَا نَوْمٌ»(۱)»۱۶
تو زندہ و کار ساز (عالم) ہے نہ تجھے غنودگی ہوتی ہے اور نہ نیند آتی ہے



«لَمْ یَنْتَهِ إِلَيْكَ نَظَرٌ،»۱۷
نہ تارِ نظر تجھ تک پہنچ سکتا ہے



«وَ لَمْ یُدْرِکْکَ بَصَرٌ۱۸
اور نہ نگاہیں تجھے دیکھ سکتی ہیں



«أَدْرَکْتَ الْأَبْصَارَ،»۱۹
تو نے نظروں کو پا لیا ہے



«وَ أَحْصَیْتَ الْأَعْمَالَ،»۲۰
اور عمروں کا احاطہ کر لیا ہے



«وَ أَخَذْتَ «بِالنَّوَاصِی وَ الْأَقْدَامِ»(۲)»۲۱
اور پیشانی کے بالوں کو پیروں (سے ملا کر) گرفت میں لے لیا ہے



«وَ مَا الَّذِي نَرَی مِنْ خَلْقِکَ،»۲۲
یہ تیری مخلوق کیا ہے جو ہم دیکھتے ہیں



«وَ نَعْجَبُ لَهُ مِنْ قُدْرَتِکَ،»۲۳
اور اس میں تیری قدرت (کی کارسازیوں) پر تعجب کرتے ہیں



«وَ نَصِفُهُ مِنْ عَظِیمِ سُلْطَانِکَ،»۲۴
اور تیری عظیم فرمانروائی (کی کارفرمائیوں) پر اس کی توصیف کرتے ہیں



«وَ مَا تَغَیَّبَ عَنَّا مِنْهُ،»۲۵
حالانکہ درحقیقت وہ (مخلوقات) جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے



«وَ قَصُرَتْ أَبْصَارُنَا عَنْهُ،»۲۶
اور جس تک پہنچنے سے ہماری نظریں عاجز



«وَ انْتَهَتْ عُقُولُنَا دُونَهُ،»۲۷
اور عقلیں درماندہ ہیں



«وَ حَالَتْ سُتُورُ الْغُیُوبِ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهُ أَعْظَمُ۲۸
اور ہمارے اور جن کے درمیان غیب کے پردے حائل ہیں اس سے کہیں زیادہ با عظمت ہے

۲. طُرُق معرفة اللّه

«فَمَنْ فَرَّغَ قَلْبَهُ،»۲۹
جو شخص (وسوسوں سے) اپنے دل کو خالی کرکے



«وَ أَعْمَلَ فِکْرَهُ،»۳۰
اور غور و فکر (کی قوتوں) سے کام لے لے کر



«لِیَعْلَمَ کَیْفَ أَقَمْتَ عَرْشَکَ،»۳۱
یہ جاننا چاہے کہ تو نے کیونکر عرش کو قائم کیا ہے



«وَ کَیْفَ ذَرَأْتَ خَلْقَکَ،»۳۲
اور کس طرح مخلوقات کو پیدا کیا ہے



«وَ کَیْفَ عَلَّقْتَ فِي الْهَواءِ سَمَاوَاتِکَ،»۳۳
اور کیونکر آسمانوں کو فضا میں لٹکایا ہے



«وَ کَیْفَ مَدَدْتَ عَلَى مَوْرِ الْمَاءِ أَرْضَکَ،»۳۴
اور کس طرح پانی کے تھپیڑوں پر زمین کو بچھایا ہے



«رَجَعَ طَرْفُهُ حَسِیراً،»۳۵
تو اس کی آنکھیں تھک کر



«وَ عَقْلُهُ مَبْهُوراً،»۳۶
اور عقل مغلوب ہو کر



«وَ سَمْعُهُ وَالِهاً،»۳۷
اور کان حیران



«وَ فِکْرُهُ حَائِراً۳۸
و سراسیمہ اور فکر گم گشتہ راہ ہو کر پلٹ آئے گی

۳. الرّجاء و الأمل

مِنْـها
اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے

«یَدَّعِی بِزَعْمِهِ أَنَّهُ یَرْجُو اللهَ،»۳۹
وہ اپنے خیال میں اس کا دعویدار بنتا ہے کہ اس کا دامنِ امید اللہ سے وابستہ ہے



«کَذَبَ وَالْعَظِیمِ۴۰
خدائے برتر کی قسم! وہ جھوٹا ہے



«مَا بَالُهُ لَا یَتَبَیَّنُ رَجَاؤُهُ فِي عَمَلِهِ؟»۴۱
(اگر ایسا ہی ہے) تو پھرکیوں اس کے اعمال میں اس امید کی جھلک نمایاں نہیں ہوتی



«فَكُلُّ مَنْ رَجَا»۴۲
جبکہ ہر امیدوار کے کاموں میں



«عُرِفَ رَجَاؤُهُ فِي عَمَلِهِ»۴۳
امید کی پہچان ہو جایا کرتی ہے



«وَ كُلُّ رَجَاء - إِلَّا رَجَاءَ اللهِ تَعَالَی۴۴
سوائے اس امید کے کہ جو اللہ سے لگائی جائے



«فَإِنَّهُ مَدْخُولٌ»۴۵
کہ اس میں کھوٹ پایا جاتا ہے



«وَ كُلُّ خَوْف مُحَقَّقٌ،»۴۶
اور ہر خوف و ہراس جو (دوسروں سے ہو) ایک مسلمہ حقیقت رکھتا ہے



«إِلَّا خَوْفَ اللهِ فَإِنَّهُ مَعْلُولٌ۴۷
مگر اللہ کا خوف غیر یقینی سا ہے



«یَرْجُو اللهَ فِي الْکَبِیرِ،»۴۸
وہ اللہ سے بڑی چیزوں کا امیدوار ہوتا ہے



«وَ یَرْجُو الْعِبَادَ فِي الصَّغِیرِ،»۴۹
اور بندوں سے چھوٹی چیزوں کا



«فَیُعْطِی الْعَبْدَ مَا لَا یُعْطِی الرَّبَّ۵۰
پھر بھی جو عاجزی کا رویہ بندوں سے رکھتا ہے وہ رویہ اللہ سے نہیں برتتا



«فَمَا بَالُ اللهِ جَلَّ ثَنَاؤُهُ یُقَصَّرُ بِهِ عَمَّا یُصْنَعُ بِهِ لِعِبَادِهِ؟»۵۱
تو آخر کیا بات ہے کہ اللہ کے حق میں اتنا بھی نہیں کیا جاتا جتنا بندوں کیلئے کیا جاتا ہے



«أَتَخَافُ أَنْ تَکُونَ فِي رَجَائِکَ لَهُ کَاذِباً؟»۵۲
کیا تمہیں کبھی اس کا بھی اندیشہ ہوا ہے کہ کہیں تم ان امیدوں (کے دعووں) میں جھوٹے تو نہیں؟



«أَوْ تَکُونَ لاَ تَرَاهُ لِلرِّجَاءِ مَوْضِعاً؟»۵۳
یا یہ کہ تم اسے محل امید ہی نہیں سمجھتے



«وَ كَذلِكَ إِنْ هُوَ خَافَ عَبْداً مِنْ عَبِیدِهِ،»۵۴
یوں ہی انسان اگر اس کے بندوں میں سے کسی بندے سے ڈرتا ہے



«أَعْطَاهُ مِنْ خَوْفِهِ مَا لاَ یُعْطِی رَبَّهُ،»۵۵
تو جو خوف کی صورت اس کیلئے اختیار کرتا ہے اللہ کیلئے ویسی صورت اختیار نہیں کرتا



«فَجَعَلَ خَوْفَهُ مِنَ الْعِبَادِ نَقْداً،»۵۶
انسانوں کا خوف تو اس نے نقد کی صورت میں رکھا ہے



«وَ خَوْفَهُ مِنْ خَالِقِهِ ضِماراً وَ وَعْداً۵۷
اور اللہ کا ڈر صرف ٹال مٹول اور (غلط سلط) وعدے



«وَ كَذلِكَ مَنْ عَظُمَتِ الدُّنْیَا فِي عَیْنِهِ،»۵۸
یوں ہی جس کی نظروں میں دنیا عظمت پا لیتی ہے



«وَ کَبُرَ مَوْقِعُهَا مِنْ قَلْبِهِ،»۵۹
اور اس کے دل میں اس کی عظمت و وقعت بڑھ جاتی ہے



«آثَرَهَا عَلَى اللهِ تَعَالی،»۶۰
تو وہ اسے اللہ پر ترجیح دیتا ہے



«فَانْقَطَعَ إِلَيْهَا،»۶۱
اور اس کی طرف مڑتا ہے



«وَ صَارَ عَبْداً لَهَا.»۶۲
اور اسی کا بندہ ہو کر رہ جاتا ہے

۴. سيرة النّبىّ (صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم) و الانبياء الالهيّين

«وَ لَقَدْ کَانَ فِي رَسُولِ اللهِ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ) کَاف لَكَ فِي الاُْسْوَةِ،»۶۳
تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کا قول و عمل پیروی کیلئے کافی ہے



«وَ دَلِیلٌ لَكَ عَلَى ذَمِّ الدُّنْیَا وَ عَیْبِهَا،»۶۴
اور ان کی ذات دنیا کے عیب و نقص اور اس کی رسوائیوں



«وَ کَثْرَةِ مَخَازِیهَا وَ مَسَاوِیهَا،»۶۵
اور برائیوں کی کثرت دکھانے کیلئے رہنما ہے



«إِذْ قُبِضَتْ عَنْهُ أَطْرَافُهَا،»۶۶
اس لئے کہ اس دنیا کے دامنوں کو ان سے سمیٹ لیا گیا



«وَ وُطِئَتْ لِغَیْرِهِ أَکْنَافُهَا،»۶۷
اور دوسروں کیلئے اس کی وسعتیں مہیا کر دی گئیں



«وَ فُطِمَ عَنْ رَضَاعِهَا،»۶۸
اور اس (زالِ دنیا کی چھاتیوں سے) آپؐ کا دودھ چھڑا دیا گیا



«وَ زُوِیَ عَنْ زَخَارِفِهَا۶۹
اور اس کی آرائشوں سے آپؐ کا رخ موڑ دیا گیا



«وَ إِنْ شِئْتَ ثَنَّیْتُ بِمُوسَی کَلِیمِ اللهِ (عليه‌السلام) حَيْثُ یَقُولُ۷۰
اگر دوسرا نمونہ چاہو تو موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام ہیں کہ جنہوں نے اپنے اللہ سے کہا کہ:



(رَبِّ إِنِّی لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْر فَقِیرٌ)

(۳)۷۱
«پروردگار! تو جو کچھ بھی اس وقت تھوڑی بہت نعمت بھیج دے گا میں اسی کا محتاج ہوں»



«وَ اللهِ، مَا سَأَلَهُ إِلاَّ خُبْزاً یَأْکُلُهُ،»۷۲
خدا کی قسم! انہوں نے صرف کھانے کیلئے روٹی کا سوال کیا تھا



«لاَِنَّهُ کَانَ یَأْکُلُ بَقْلَةَ الاَْرْضِ،»۷۳
چونکہ وہ زمین کا ساگ پات کھاتے تھے



«وَ لَقَدْ کَانَتْ خُضْرَةُ الْبَقْلِ تُرَی مِنْ شَفِیفِ صِفَاقِ بَطْنِهِ، لِهُزَالِهِ وَ تَشَذُّبِ لَحْمِهِ۷۴
اور لاغری اور (جسم پر) گوشت کی کمی کی وجہ سے ان کے پیٹ کی نازک جلد سے گھاس پات کی سبزی دکھائی دیتی تھی



«وَ إِنْ شِئْتَ ثَلَّثْتُ بِدَاوُودَ (علیه‌السلام)»۷۵
اگر چاہو تو تیسری مثال داؤد علیہ السلام کی سامنے رکھ لو آیه قبل



«صَاحِبِ الْمَزَامِیرِ،»۷۶
جو صاحب زبور



«وَ قَارِئِ أَهْلِ الْجَنَّةِ،»۷۷
اور اہل جنت کے قاری ہیں



«فَلَقَدْ کَانَ یَعْمَلُ سَفَائِفَ الْخُوصِ بِیَدِهِ،»۷۸
وہ اپنے ہاتھ سے کھجور کی پتیوں کی ٹوکریاں بُنا کرتے تھے



«وَ یَقُولُ لِجُلَسَائِهِ۷۹
اور اپنے ساتھیوں سے فرماتے تھے



«أَيُّكُمْ یَکْفِینِی بَیْعَهَا۸۰
کہ تم میں سے کون ہے جو انہیں بیچ کر میری دستگیری کرے



«وَ یَأْکُلُ قُرْصَ الشَّعِيرِ مِنْ ثَمَنِهَا۸۱
(پھر) جو اس کی قیمت ملتی اس سے جو کی روٹی کھا لیتے تھے



«وَ إِنْ شِئْتَ قُلْتُ فِي عِیسَی بْنِ مَرْیَمَ (علیهاالسلام)،»۸۲
اگر چاہو تو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا حال کہوں



«فَلَقَدْ کَانَ یَتَوَسَّدُ الْحَجَرَ،»۸۳
کہ جو (سر کے نیچے) پتھر کا تکیہ رکھتے تھے



«وَ یَلْبَسُ الْخَشِنَ،»۸۴
سخت اور کھردرا لباس پہنتے تھے



«وَ یَأْکُلُ الْجَشِبَ،»۸۵
وہ ایسی غذائیں کھاتے جو لذیذ نہیں ہوتی تھیں



«وَ کَانَ إِدَامُهُ الْجُوعَ،»۸۶
اور (کھانے) میں سالن کے بجائے بھوک



«وَ سِرَاجُهُ بِاللَّیْلِ الْقَمَرَ،»۸۷
اور رات کے چراغ کی جگہ چاند



«وَ ظِلاَلُهُ فِي الشِّتَاءِ مَشَارِقَ الاَْرْضِ وَ مَغَارِبَهَا،»۸۸
اور سردیوں میں سایہ کے بجائے (ان کے سر پر) زمین کے مشرق و مغرب کا سائبان ہوتا تھا



«وَ فَاکِهَتُهُ وَ رَیْحَانُهُ مَا تُنْبِتُ الاَْرْضُ لِلْبَهَائِمِ۸۹
اور زمین جو گھاس پھوس چوپاؤں کیلئے اُگاتی تھی وہ ان کیلئے پھل پھول کی جگہ تھی



«وَ لَمْ تَکُنْ لَهُ زَوْجَةٌ تَفْتِنُهُ،»۹۰
نہ ان کی بیوی تھیں جو انہیں دنیا (کے جھنجٹوں) میں مبتلا کرتیں



«وَ لاَ وَلَدٌ یَحْزُنُهُ (یخزنه)،»۹۱
اور نہ بال بچے تھے کہ ان کیلئے فکر و اندوہ کا سبب بنتے



«وَ لاَ مَالٌ یَلْفِتُهُ،»۹۲
اور نہ مال و متاع تھا کہ ان کی توجہ کو موڑتا



«وَ لاَ طَمَعٌ یُذِلُّهُ،»۹۳
اور نہ کوئی طمع تھی کہ انہیں رسوا کرتی



«دَابَّتُهُ رِجْلاَهُ،»۹۴
ان کی سواری ان کے دونوں پاؤں



«وَ خَادِمُهُ یَدَاهُ۹۵
اور خادم ان کے دونوں ہاتھ تھے

۵. محطّات في حياة النّبىّ (صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم)

«فَتَأَسَّ بِنَبِیِّکَ الاَْطْیَبِ الاَْطْهَرِ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ)،»۹۶
تم اپنے پاک و پاکیزہ نبیؐ کی پیروی کرو



«فَإِنَّ فِيهِ أُسْوَةً لِمَنْ تَأَسَّی،»۹۷
چونکہ ان کی ذات اتباع کرنے والے کیلئے نمونہ



«وَ عَزَاءً لِمَنْ تَعَزَّی۹۸
اور صبر کرنے والے کیلئے ڈھارس ہے



«وَ أَحَبُّ الْعِبَادِ إِلَى اللهِ الْمُتَأَسِّی بِنَبِیِّهِ،»۹۹
ان کی پیروی کرنے والا ہی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے



«وَ الْمُقْتَصُّ لاَِثَرِهِ۱۰۰
اور ان کے نقش قدم پر چلنے والا



«قَضَمَ الدُّنْیَا قَضْماً،»۱۰۱
جنہوں نے دنیا کو (صرف ضرورت بھر) چکھا



«وَ لَمْ يُعِرْهَا طَرْفاً،»۱۰۲
اور اسے نظر بھر کر نہیں دیکھا



«أَهْضَمُ أَهْلِ الدُّنْیَا کَشْحاً،»۱۰۳
وہ دنیا میں سب سے زیادہ شکم تہی میں بسر کرنے والے



«وَ اَخْمَصُهُمْ مِنَ الدُّنْیَا بَطْناً،»۱۰۴
اور خالی پیٹ رہنے والے تھے



«عُرِضَتْ عَلَيْهِ الدُّنْیَا فَأَبَی أَنْ یَقْبَلَهَا،»۱۰۵
ان کے سامنے دنیا کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا



«وَ عَلِمَ أَنَّ اللهَ سُبْحانَهُ أَبْغَضَ شَیْئاً فَأَبْغَضَهُ،»۱۰۶
اور (جب) جان لیا کہ اللہ نے ایک چیز کو برا جانا ہے تو آپؐ نے بھی اسے برا ہی جانا



«وَ حَقَّرَ شَیْئاً فَحَقَّرَهُ،»۱۰۷
اور اللہ نے ایک چیز کو حقیر سمجھا ہے تو آپؐ نے بھی اسے حقیر ہی سمجھا



«وَ صَغَّرَ شَیْئاً فَصَغَّرَهُ۱۰۸
اور اللہ نے ایک چیز کو پست قرار دیا ہے تو آپؐ نے بھی اسے پست ہی قرار دیا



«وَ لَوْ لَمْ یَکُنْ فِينَا إِلاَّ حُبُّنَا مَا أَبْغَضَ اللهُ وَ رَسُولُهُ،»۱۰۹
اگر ہم میں صرف یہی ایک چیز ہو کہ ہم اس شے کو چاہنے لگیں جسے اللہ اور رسولؐ برا سمجھتے ہیں



«وَ تَعْظِیمُنَا مَا صَغَّرَ اللهُ وَ رَسُولُهُ،»۱۱۰
اور اس چیز کو بڑا سمجھنے لگیں جسے وہ حقیر سمجھتے ہیں



«لَکَفَی بِهِ شِقَاقاً لِلّهِ، وَ مُحَادَّةً عَنْ أَمْرِ اللهِ۱۱۱
تو اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سرتابی کیلئے یہی بہت ہے



«وَ لَقَدْ کَانَ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ) یَأْکُلُ عَلَى الاَْرْضِ،»۱۱۲
رسول اللہ ﷺ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے



«وَ یَجْلِسُ جِلْسَةَ الْعَبْدِ،»۱۱۳
اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے



«وَ یَخْصِفُ بِیَدِهِ نَعْلَهُ،»۱۱۴
اپنے ہاتھ سے جوتی ٹانکتے تھے



«وَ یَرْقَعُ بِیَدِهِ ثَوْبَهُ،»۱۱۵
اور اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے



«وَ یَرْکَبُ الْحِمَارَ الْعَارِیَ،»۱۱۶
اور بے پالان کے گدھے پر سوار ہوتے تھے



«وَ یُرْدِفُ خَلْفَهُ،»۱۱۷
اور اپنے پیچھے کسی کو بٹھا بھی لیتے تھے



«وَ یَکُونُ السِّتْرُ عَلَى بَابِ بَیْتِهِ فَتَکُونُ فِيهِ التَّصَاوِیرُ»۱۱۸
گھر کے دروازہ پر (ایک دفعہ) ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں



«فَیَقُولُ۱۱۹
تو آپؐ نے اپنے ازواج میں سے ایک کو مخاطب کرکے فرمایا



««يَا فُلاَنَةُ ـ لاِِحْدَی أَزْوَاجِهِ ـ غَیَّبِیهِ عَنِّي،»۱۲۰
کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو



«فَإِنِّي إِذَا نَظَرْتُ إِلَيْهِ ذَکَرْتُ الدُّنْیَا وَ زَخَارِفَهَا.»»۱۲۱
جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اور اس کی آرائشیں یاد آ جاتی ہیں



«فَأَعْرَضَ عَنِ الدُّنْیَا بِقَلْبِهِ،»۱۲۲
آپؐ نے دنیا سے دل ہٹا لیا تھا



«وَ أَمَاتَ ذِکْرَهَا مِنْ نَفْسِهِ،»۱۲۳
اور اس کی یاد تک اپنے نفس سے مٹا ڈالی تھی



«وَ أَحَبَّ أَنْ تَغِیبَ زِینَتُهَا عَنْ عَیْنِهِ،»۱۲۴
اور یہ چاہتے تھے کہ اس کی سج دھج نگاہوں سے پوشیدہ رہے



«لِكَيْلاَ یَتَّخِذَ مِنْهَا رِیَاشاً،»۱۲۵
تاکہ نہ اس سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کریں



«وَ لاَ یَعْتَقِدَهَا قَرَاراً،»۱۲۶
اور نہ اسے اپنی منزل خیال کریں



«وَ لاَ یَرْجُوَ فِيهَا مُقَاماً،»۱۲۷
اور نہ اس میں زیادہ قیام کی آس لگائیں



«فَأَخْرَجَهَا مِنَ النَّفْسِ،»۱۲۸
انہوں نے اس کا خیال نفس سے نکال دیا تھا



«وَ أَشْخَصَهَا عَنِ الْقَلْبِ،»۱۲۹
اور دل سے اسے ہٹا دیا تھا



«وَ غَیَّبَهَا عَنِ الْبَصَرِ۱۳۰
اور نگاہوں سے اسے اوجھل رکھا تھا



«وَ كَذلِكَ مَنْ أَبْغَضَ شَیْئاً أَبْغَضَ أَنْ یَنْظُرَ إِلَيْهِ،»۱۳۱
یونہی جو شخص کسی شے کو برا سمجھتا ہے تو نہ اسے دیکھنا چاہتا ہے



«وَ أَنْ یُذْکَرَ عِنْدَهُ.»۱۳۲
اور نہ اس کا ذکر سننا گوارا کرتا ہے



«وَ لَقَدْ کَانَ فِي رَسُولِ اللهِ (صَلَّی‌اللّهُ‌عَلَیْهِ‌وَآلِهِ) مَا یُدُلُّکَ عَلَى مَسَاوِئِ الدُّنْیَا وَ عُیُوبِهَا۱۳۳
رسول اللہ ﷺ (کے عادات و خصائل) میں ایسی چیزیں ہیں کہ جو تمہیں دنیا کے عیوب و قبائح کا پتہ دیں گی



«إِذْ جَاعَ فِيهَا مَعَ خَاصَّتِهِ،»۱۳۴
جبکہ آپؐ اس دنیا میں اپنے خاص افراد سمیت بھوکے رہا کرتے تھے



«وَ زُوِیَتْ عَنْهُ زَخَارِفُهَا مَعَ عَظِیمِ زُلْفَتِهِ۱۳۵
اور باوجود انتہائی قربِ منزلت کے اس کی آرائشیں ان سے دور رکھی گئیں



«فَلْیَنْظُرْ نَاظِرٌ بِعَقْلِهِ۱۳۶
چاہیے کہ دیکھنے والا عقل کی روشنی میں دیکھے



«أَکْرَمَ اللهُ مُحَمَّداً بِذلِكَ أَمْ أَهَانَهُ۱۳۷
کہ اللہ نے انہیں دنیا نہ دے کر ان کی عزت بڑھائی ہے یا اہانت کی ہے؟



«فَإِنْ قَالَ: أَهَانَهُ،»۱۳۸
اگر کوئی یہ کہے کہ اہانت کی ہے



«فَقَدْ کَذَبَ ـ وَاللهِ الْعَظِیمِ ـ»۱۳۹
تو اس نے جھوٹ کہا ہے



«بِالاِْفْکِ الْعَظِیمِ،»۱۴۰
اور بہت بڑا بہتان باندھا



«وَ إِنْ قَالَ: أَکْرَمَهُ،»۱۴۱
اور اگر یہ کہے کہ عزت بڑھائی ہے



«فَلْیَعْلَمْ أَنَّ اللهَ قَدْ أَهَانَ غَیْرَهُ حَيْثُ بَسَطَ الدُّنْیَا لَهُ،»۱۴۲
تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ نے دوسروں کی بے عزتی ظاہر کی



«وَ زَوَاهَا عَنْ أَقْرَبِ النَّاسِ مِنْهُ.»۱۴۳
جبکہ انہیں دنیا کی زیادہ سے زیادہ وسعت دے دی اور اس کا رخ اپنے مقرب ترین بندے سے موڑ رکھا



«فَتَأَسَّی مُتَأَسٍّ بِنَبِیِّهِ،»۱۴۴
پیروی کرنے والے کو چاہیے کہ ان کی پیروی کرے



«وَ اقْتَصَّ أَثَرَهُ،»۱۴۵
اور ان کے نشان قدم پر چلے



«وَ وَلَجَ مَوْلِجَهُ،»۱۴۶
اور انہی کی منزل میں آئے



«وَ إِلاَّ فَلاَ یَأْمَنِ الْهَلَکَةَ،»۱۴۷
ورنہ ہلاکت سے محفوظ نہیں رہ سکتا



«فَإِنَّ اللهَ جَعَلَ مُحَمَّداً (صَلَّی‌اللّهُ‌عَلَیْهِ‌وَآلِهِ) عَلَماً لِلسَّاعَةِ،»۱۴۸
کیونکہ اللہ نے ان کو (قرب) قیامت کی نشانی



«وَ مُبَشِّراً بِالْجَنَّةِ،»۱۴۹
اور جنت کی خوشخبری سنانے والا



«وَ مُنْذِراً بِالْعُقُوبَةِ۱۵۰
اور عذاب سے ڈرانے والا قرار دیا ہے



«خَرَجَ مِنَ الدُّنْیَا خَمِیصاً،»۱۵۱
دنیا سے آپؐ بھوکے نکل کھڑے ہوئے



«وَ وَرَدَ الاْخِرَةَ سَلِیماً۱۵۲
اور آخرت میں سلامتیوں کے ساتھ پہنچ گئے



«لَمْ یَضَعْ حَجَراً عَلَى حَجَر، حَتَّى مَضَی لِسَبِیلِهِ، وَ أَجَابَ دَاعِیَ رَبِّهِ۱۵۳
آپؐ نے تعمیر کیلئے کبھی پتھر پر پتھر نہیں رکھا، یہاں تک کہ آخرت کی راہ پر چل دئیے اور اللہ کی طرف بلاوا دینے والے کی آواز پر لبیک کہی



«فَمَا أَعْظَمَ مِنَّةَ اللهِ عِنْدَنَا حِینَ أَنْعَمَ عَلَيْنَا بِهِ سَلَفاً نَتَّبِعُهُ،»۱۵۴
یہ اللہ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسے پیشرو و پیشوا جیسی نعمت عظمیٰ بخشی



«وَ قَائِداً نَطَأُ عَقِبَهُ۱۵۵
کہ جن کی ہم پیروی کرتے ہیں اور قدم بہ قدم چلتے ہیں



«وَ اللهِ لَقَدْ رَقَّعْتُ مِدْرَعَتِی هذِهِ حَتَّى اسْتَحْیَیْتُ مِنْ رَاقِعِهَا۱۵۶
(انہی کی پیروی میں) خدا کی قسم! میں نے اپنی اس قمیص میں اتنے پیوند لگائے ہیں کہ مجھے پیوند لگانے والے سے شرم آنے لگی ہے



«وَ لَقَدْ قَالَ لِي قَائِلٌ۱۵۷
مجھ سے ایک کہنے والے نے کہا



«أَلاَ تَنْبِذُهَا عَنْكَ؟»۱۵۸
کہ کیا آپؑ اسے اتاریں گے نہیں؟



«فَقُلْتُ: اغْرُبْ (اعزب) عَنِّي،»۱۵۹
تو میں نے اسے کہا کہ: میری (نظروں سے) دور ہو



«فَعِنْدَ الصَّبَاحِ یَحْمَدُ الْقَوْمُ السُّرَی۱۶۰
کہ صبح کے وقت ہی لوگوں کو رات کے چلنے کی قدر ہوتی ہے اور وہ اس کی مدح کرتے ہیں



(۱) قرآن مجید کی آیت ۲۵۵ سوره بقره     کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
(۲) قرآن مجید کی آیت ۴۱ سوره الرحمان     کی طرف اشارہ ہے۔
(۳) قصص/سوره۲۸، آیت۲۴۔    




جعبه ابزار