• خواندن
  • نمایش تاریخچه
  • ویرایش
 

خطبہ ۱۹۲ نہج البلاغہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



خرابی کی رپورٹ
ہر لفظ کے معنی اور تفصیل دیکھنے کے لیے اس پر کلک کریں۔



عقائدية ، تاريخية ، سياسية ، اخلاقية ، علمية



وَ مِنْ خُطْبَة لَهُ (عَلَيْهِ‌السَّلامُ)
امامؑ کے خطبات میں سے

وَ مِنَ النّاسِ مَنْ يُسَمّى هذِهِ الْخُطْبَةَ بِالْقاصِعَةِ
کچھ لوگ اس خطبہ کو "قاصعہ" (تکبر کرنے والوں کو کچلنے والا) کہتے ہیں۔

وَ هِىَ تَضَمَّنُ ذَمَّ اِبْليسَ لَعْنَهُ اللّهُ عَلَى اسْتِكْبارِهِ وَ تَرْكِهِ السُّجُودَ لِآدَمَ (عَلَيْهِ‌السّلامُ)، وَ اَنَّهُ اَوَّلُ مَنْ اَظْهَرَ الْعَصَبِيَّةَ وَ تَبِعَ الْحَمِيَّةَ، وَ تَحْذيرَ النّاسِ مِنْ سُلُوكِ طَريقَتِهِ.
جس میں ابلیس کی مذمت ہے، اس کے تکبر و غرور اور آدم علیہ السلام کے آگے سر بسجود نہ ہونے پر اور یہ کہ وہ پہلا فرد ہے جس نے عصبیّت کا مظاہرہ کیا اور غرور و نخوت کی راہ اختیار کی اور لوگوں کو اس کے طور طریقوں پر چلنے سے تنبیہ کی گئی ہے۔

۱. علوّ شأن البارى تعالى

«الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي لَبِسَ الْعِزَّ وَ الْکِبْرِیَاءَ،»۱
ہر تعریف اس اللہ کیلئے ہے جو عزت و کبریائی کی ردا اوڑھے ہوئے ہے



«وَ اخْتَارَهُمَا لِنَفْسِهِ دُونَ خَلْقِهِ،»۲
اور جس نے ان دونوں صفتوں کو بلا شرکت غیرے



«وَ جَعَلَهُمَا حِمًی»۳
صرف اپنے لئے انہیں منتخب کیا ہے



«وَ حَرَماً عَلَى غَیْرِهِ،»۴
اور دوسروں کیلئے ممنوع و ناجائز قرار دیتے ہوئے



«وَ اصْطَفَاهُمَا لِجَلَالِهِ،»۵
اپنی ذات کیلئے مخصوص کیا ہے



«وَ جَعَلَ اللَّعْنَةَ عَلَى مَنْ نَازَعَهُ فِيهِمَا مِنْ عِبَادِهِ۶
اور اس کے بندوں میں سے جو ان صفتوں میں سے اس سے ٹکر لے اس پر لعنت کی ہے



«ثُمَّ اخْتَبَرَ بِذلِكَ مَلَائِکَتَهُ الْمُقَرَّبِینَ،»۷
اور اسی کی رُو سے اس نے اپنے مقرب فرشتوں کا امتحان لیا



«لَِیمِیزَ الْمُتَوَاضِعِینَ مِنْهُمْ مِنَ الْمُسْتَکْبِرِینَ،»۸
تاکہ ان میں سے فروتنی کرنے والوں کو گھمنڈ کرنے والوں سے چھانٹ کر الگ کر دے



«فَقَالَ سُبْحانَهُ وَ هُوَ الْعَالِمُ بِمُضْمَرَاتِ الْقُلُوبِ، وَ مَحْجُوبَاتِ الْغُیُوبِ۹
چنانچہ اللہ سبحانہ نے باوجودیکہ وہ دل کے بھیدوں اور پردۂ غیب میں چھپی ہوئی چیزوں سے آگاہ ہے فرمایا:



(إِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِّن طِینٍفَإِذَا سَوَّیْتُهُ وَ نَفَخْتُ فِیهِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَفَسَجَدَ الْمَلَائِکَةُ کُلُّهُمْ أَجْمَعُونَإِلَّا إِبْلِیسَ)

(۱)
«میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔ جب میں اس کو تیار کر لوں اور اپنی خاص روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا۔ سب کے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس اسے سجدہ کرنے میں عار آئی »



«اعْتَرَضَتْهُ الْحَمِیَّةُ»۱۰
اور اپنے مادہ تخلیق کی بنا پر



«فَافْتَخَرَ عَلَى آدَمَ بِخَلْقِهِ۱۱
آدمؑ کے مقابلے میں گھمنڈ کیا

۲. تكبّر الشيطان و مذمّة ذلك

«وَ تَعَصَّبَ عَلَيْهِ لِأَصْلِهِ۱۲
اور اپنی اصل کے لحاظ سے ان کے سامنے اکڑ گیا



«فَعَدُوُّ اللهِ إِمَامُ الْمُتَعَصِّبِینَ،»۱۳
چنانچہ یہ دشمن خدا عصبیت برتنے والوں کا سرغنہ



«وَ سَلَفُ الْمُسْتَکْبِرِینَ،»۱۴
اور سرکشوں کا پیشرو ہے



«الَّذِي وَضَعَ أَسَاسَ الْعَصَبِیَّةِ،»۱۵
کہ جس نے تعصب کی بنیاد رکھی



«وَ نَازَعَ اللهَ رِدَاءَ الْجَبْرِیَّةِ،»۱۶
اللہ سے اس کی ردائے عظمت و کبریائی کو چھیننے کا تصور کیا



«وَ ادَّرَعَ لِبَاسَ التَّعَزُّزِ،»۱۷
تکبر و سر کشی کا جامہ پہن لیا



«وَ خَلَعَ قِنَاعَ التَّذَلُّلِ۱۸
اور عجز و فروتنی کی نقاب اتار ڈالی



«أَلَا تَرَوْنَ كَيْفَ صَغَّرَهُ اللهُ بِتَکَبُّرِهِ،»۱۹
پھر تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے اسے بڑے بننے کی وجہ سے کس طرح چھوٹا بنایا



«وَ وَضَعَهُ بِتَرَفُّعِهِ،»۲۰
اور بلندی کے زعم کی وجہ سے کس طرح پستی دی



«فَجَعَلَهُ فِي الدُّنْیَا مَدْحُوراً،»۲۱
دنیا میں اسے راندۂ درگاہ بنایا



«وَ أَعَدَّ لَهُ فِي الْآخِرَةِ سَعِیراً؟!»۲۲
اور آخرت میں اس کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کی

۳. علاج التّكبّر

«وَ لَوْ أَرَادَ اللهُ أَنْ یَخْلُقَ آدَمَ مِنْ نُور یَخْطَفُ الْأَبْصَارَ ضِیَاؤُهُ، وَ یَبْهَرُ الْعُقُولَ رُوَاؤُهُ، وَ طِیب یَأْخُذُ الْأَنْفَاسَ عَرْفُهُ، لَفَعَلَ۲۳
اور اگر اللہ چاہتا تو آدم علیہ السلام کو ایک ایسے نور سے پیدا کرتا کہ جس کی روشنی آنکھوں کو چندھیا دے اور اس کی خوشنمائی عقلوں پر چھا جائے اور ایسی خوشبو سے کہ جس کی مہک سانسوں کو جکڑ لے



«وَ لَوْ فَعَلَ لَظَلَّتْ لَهُ الْأَعْنَاقُ خَاضِعَةً،»۲۴
اور اگر ایسا کرتا تو ان کے آگے گردنیں خم ہو جاتیں



«وَ لَخَفَّتِ الْبَلْوَی فِيهِ عَلَى الْمَلَائِکَةِ۲۵
اور فرشتوں کی ان کے بارے میں آزمائش ہلکی ہو جاتی



«وَ لكِنَّ اللهُ سُبْحانَهُ یَبْتَلِی خَلْقَهُ بِبَعْضِ مَا یَجْهَلُونَ أَصْلَهُ،»۲۶
لیکن اللہ سبحانہ اپنی مخلوقات کو ایسی چیزوں سے آزماتا ہے کہ جن کى اصل و حقیقت سے وہ ناواقف ہوتے ہیں



«تَمْیِیزاً بِالْإِخْتِبَارِ لَهُمْ،»۲۷
تاکہ اس آزمائش کے ذریعے (اچھے اور برے افراد میں) امتیاز کر دے



«وَ نَفْیاً لِلْإِسْتِکْبَارِ عَنْهُمْ،»۲۸
ان سے نخوت و برتری کو الگ



«وَ إِبْعَاداً لِلْخُیَلَاءِ مِنْهُمْ.»۲۹
اور غرور و خود پسندی کو دور کر دے



«فَاعْتَبِرُوا بِمَا کَانَ مِنْ فِعْلِ اللهِ بِإِبْلِیسَ»۳۰
تمہیں چاہیے کہ اللہ نے شیطان کے ساتھ جو کیا اس سے عبرت حاصل کرو



«إِذْ أَحْبَطَ عَمَلَهُ الطَّوِیلَ، وَ جَهْدَهُ الْجَهِیدَ،»۳۱
کہ اس کی طول طویل عبادتوں اور بھر پور کوششوں پر اس کے ایک گھڑی کے گھمنڈ سے پانی پھیر دیا



«وَ کَانَ قَدْ عَبَدَ اللهَ سِتَّةَ آلَافِ سَنَة،»۳۲
حالانکہ اس نے چھ ہزار برس تک عبادت کی تھی



«لا یُدْرَی مِنْ سِنِیِ الدُّنْیَا أَمْ مِنْ سِنِی الْآخِرَةِ، عَنْ کِبْرِ سَاعَة وَاحِدَة۳۳
جو پتہ نہیں دنیا کے سال تھے یا آخرت کے



«فَمَنْ ذَا بَعْدَ إِبْلِیسَ یَسْلَمُ عَلَى اللهِ بِمِثْلِ مَعْصِیَتِهِ؟»۳۴
تو اَب ابلیس کے بعد کون رہ جاتا ہے جو اس جیسی معصیت کر کے اللہ کے عذاب سے محفوظ رہ سکتا ہو؟



«كَلَّا! مَا کَانَ اللهُ سُبْحانَهُ لِیُدْخِلَ الْجَنَّةَ بَشَراً بِأَمْر أَخْرَجَ بِهِ مِنْهَا مَلَکاً۳۵
ہرگز نہیں! یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ نے جس چیز کی وجہ سے ایک مَلک کو جنت سے نکال باہر کیا ہو اسی پر کسی بشر کو جنت میں جگہ دے



«إِنَّ حُکْمَهُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ وَ أَهْلِ الْأَرْضِ لَوَاحِدٌ۳۶
اس کا حکم تو اہل آسمان اور اہل زمین میں یکساں ہے



«وَ مَا بَیْنَ اللهِ وَ بَیْنَ أَحَد مِنْ خَلْقِهِ هَوَادَةٌ فِي إِبَاحَةِ حِمًى حَرَّمَهُ عَلَى الْعَالَمِينَ.»۳۷
اللہ اور مخلوقات میں سے کسی فرد خاص کے درمیان دوستی نہیں کہ اس کو ایسے امر ممنوع کی اجازت ہو کہ جسے تمام جہان والوں کیلئے اس نے حرام کیا ہو

۴. التحذير من عداوة الشيطان

«فَاحْذَرُوا عِبَادَ اللهِ عَدُوَّ اللهِ»۳۸
خدا کے بندو! اللہ کے دشمن سے ڈرو



«أَنْ یُعْدِیَکُمْ بِدَائِهِ،»۳۹
کہ کہیں وہ تمہیں اپنا روگ نہ لگا دے



«وَ أَنْ یَسْتَفِزَّکُمْ بِنَدَائِهِ،»۴۰
اپنی پکار سے تمہیں بہکا نہ دے



«وَ أَنْ یُجْلِبَ عَلَيْكُمْ بِخَیْلِهِ وَ رَجِلِهِ۴۱
اور اپنے سوار و پیادے لے کر تم پر چڑھ نہ دوڑے



«فَلَعَمْرِی لَقَدْ فَوَّقَ لَكُمْ سَهْمَ الْوَعِیدِ،»۴۲
اس لئے کہ میری جان کی قسم!اس نے شر انگیزی کے تیر کو چلہ کمان میں جوڑ رکھا ہے



«وَ أَغْرَقَ إِلَيْكُمْ بَالنَّزْعِ الشَّدِیدِ،»۴۳
کمان کو زور سے کھینچ لیا ہے



«وَ رَمَاکُمْ مِنْ مَکَان قَرِیب،»۴۴
اور قریب کی جگہ سے تمہیں اپنے نشانہ کی زد پر رکھا ہے



«فَقَالَ:»۴۵
جیسا کہ اللہ نے اس کی زبانی فرمایا ہے:

(رَبِّ بِمَا أَغْوَیْتَنِی لَأُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْأَرْضِ وَ لَأُغْوِیَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ)

(۲)
«اے میرے پروردگار! چونکہ تو نے مجھے بہکا دیا ہے، اب میں بھی ان کے سامنے زمین میں گناہوں کو سج کر پیش کروں گا اور ان سب کو گمراہ کروں گا»



«قَذْفاً بِغَیْب بَعِید،»۴۶
اور غلط گمان کی بنا پر (اندھیرے میں) تیر چلایا تھا



«وَ رَجْماً بِظَنٍّ غَیْرِ مُصِیب،»۴۷
حالانکہ یہ اس نے بالکل اٹکل پچو کہا تھا



«صَدَّقَهُ بِهِ أَبْنَاءُ الْحَمِیَّةِ،»۴۸
لیکن فرزندانِ رعونت



«وَ إِخْوَانُ الْعَصَبِیَّةِ،»۴۹
برادرانِ عصبیت



«وَ فُرْسَانُ الْکِبْرِ وَ الْجَاهِلِیَّةِ۵۰
اور شہسواران غرور و جاہلیت نے اس کی بات کو سچ کر دکھایا



«حَتَّى إِذَا انْقَادَتْ لَهُ الْجَامِحَةُ مِنْكُمْ،»۵۱
یہاں تک کہ جب تم میں سے سرکش اور منہ زور لوگ اس کے فرمانبردار ہو گئے



«وَ اسْتَحْکَمَتِ الطَّمَاعِیَّةُ مِنْهُ فِيكُمْ،»۵۲
اور تمہارے بارے میں اس کی ہوس و طمع قوی ہو گئی



«فَنَجَمَتِ الْحَالُ مِنَ السِّرِّ الْخَفِیِّ إِلَى الْأَمْرِ الْجَلِیِّ،»۵۳
اور صورت حال پردۂ خفا سے نکل کر کھلم کھلا سامنے آ گئی



«اسْتَفْحَلَ سُلْطَانُهُ عَلَيْكُمْ،»۵۴
تو اس کا پورا پورا تسلط تم پر ہو گیا



«وَ دَلَفَ بِجُنُودِهِ نَحْوَکُمْ،»۵۵
اور وہ اپنے لشکر و سپاہ کو لے کر تمہاری طرف بڑھ آیا



«فَأَقْحَمُوکُمْ وَلَجَاتِ الذُّلِّ،»۵۶
اور انہوں نے تمہیں ذلت کے غاروں میں دھکیل دیا



«وَ أَحَلُّوکُمْ وَرَطَاتِ الْقَتْلِ،»۵۷
اور قتل و خون کے بھنوروں میں لا گرایا



«وَ أَوْطَؤُوکُمْ إِثْخَانَ الْجِرَاحَةِ،»۵۸
اور گھاؤ پر گھاؤ لگا کر تمہیں کچل دیا



«طَعْناً فِي عُیُونِکُمْ،»۵۹
تمہاری آنکھوں میں نیزے گاڑ کر



«وَ حَزّاً فِي حُلُوقِکُمْ،»۶۰
تمہارے گلے کاٹ کر،



«وَ دَقّاً لِمَنَاخِرِکُمْ،»۶۱
تمہارے نتھنوں کو پارہ پارہ کر کے



«وَ قَصْداً لِمَقَاتِلِکُمْ،»۶۲
تمہارے ایک ایک جوڑ بند کو توڑ کر اور تمہاری ناک میں غلبہ و تسلط کی نکیلیں ڈال کر



«وَ سَوْقاً بِخَزَائِمِ الْقَهْرِ إِلَى النَّارِ الْمُعَدَّةِ لَكُمْ.»۶۳
تمہیں اس آگ کی طرف کھینچے لئے جاتا ہے جو تمہارے لئے تیار کی گئی ہے



«فَاَصْبَحَ أَعْظَمَ فِى دِیْنِکُمْ حَرْجاً»۶۴
زیادہ بڑھ چڑھ کر وہ تمہارے دین کو مجروح کرنے والا



«وَ أَوْرَی فِى دُنْیَاکُمْ قَدْحاً»۶۵
اور دنیا میں تمہارے لئے (فتنہ و فساد) کے شعلے بھڑکانے والا ہے



«مِنَ الَّذينَ أَصْبَحْتُمْ لَهُمْ مُنَاصِبِینَ،»۶۶
اسی طرح ان دشمنوں سے جن سے کھلم کھلا تمہاری مخالفت ہے



«وَ عَلَيْهِمْ مُتَأَلِّبِینَ۶۷
اور جن کے مقابلے کیلئے تم فوجیں جمع کرتے ہو



«فَاجْعَلُوا عَلَيْهِ حَدَّکُمْ،»۶۸
لہٰذا تمہیں لازم ہے کہ اپنے جوش و غضب کا پورا مرکز اسے قرار دو



«وَ لَهُ جَدَّکُمْ،»۶۹
اور پوری کوشش اس کے خلاف صرف کرو



«فَلَعَمْرُ اللهِ لَقَدْ فَخَرَ عَلَى أَصْلِکُمْ،»۷۰
کیونکہ اس نے شروع ہی میں تمہاری اصل (آدمؑ) پر فخر کیا



«وَ وَقَعَ فِي حَسَبِکُمْ،»۷۱
تمہارے حسب (قدر و منزلت) پر حرف رکھا



«وَ دَفَعَ فِي نَسَبِکُمْ،»۷۲
تمہارے نسب (اصل و طینت) پر طعن کیا



«وَ أَجْلَبَ بِخَیْلِهِ عَلَيْكُمْ،»۷۳
اور اپنے سواروں کو لے کر تم پر یورش کی



«وَ قَصَدَ بِرَجِلِهِ سَبِیلَکُمْ،»۷۴
اور اپنے پیادوں کو لے کر تمہارے راستہ کا قصد کیا ہے



«یَقْتَنِصُونَکُمْ بِكُلِّ مَکَان،»۷۵
وہ ہر جگہ سے تمہیں شکار کرتے ہیں



«وَ یَضْرِبُونَ مِنْكُمْ كُلَّ بَنَان۷۶
اور تمہاری (انگلی کی) ایک ایک پور پر چوٹیں لگاتے ہیں



«لَا تَمْتَنِعُونَ بِحِیلَة،»۷۷
نہ کسی حیلہ و تدبیر سے تم اپنا بچاؤ



«وَ لَا تَدْفَعُونَ بِعَزِیمَة،»۷۸
اور نہ پورا تہیہ کر کے اس کی روک تھام کر سکتے ہو



«فِي حَوْمَةِ ذُلٍّ،»۷۹
درآنحالیکہ تم رسوائی کے بھنور



«وَ حَلْقَةِ ضِیق،»۸۰
تنگی و ضیق کے دائرہ



«وَ عَرْصَةِ مَوْت،»۸۱
موت کے میدان



«وَ جَوْلَةِ بَلَاء۸۲
اور مصیبت و بلا کی جولانگاہ میں ہو



«فَأَطْفِئُوا مَا كَمَنَ فِي قُلُوبِکُمْ مِنْ نِیرَانِ الْعَصَبِیَّةِ وَ أَحْقَادِ الْجَاهِلِیَّةِ،»۸۳
تمہیں لازم ہے کہ اپنے دلوں میں چھپی ہوئی عصبیت کی آگ اور جاہلیت کے کینوں کو فرو کرو



«فَإِنَّمَا تِلْكَ الْحَمِیَّةُ تَکُونُ فِي الْمُسْلِمِ مِنْ خَطَرَاتِ الشَّیْطَانِ وَ نَخَوَاتِهِ، وَ نَزَغَاتِهِ وَ نَفَثَاتِهِ۸۴
کیونکہ مسلمان میں یہ غرور اور خود پسندی، شیطان کی وسوسہ اندازی، نخوت پسندی،فتنہ انگیزی اور فسوں کاری ہی کا نتیجہ ہوتی ہے



«وَ اعْتَمِدُوا وَضْعَ التَّذَلُّلِ عَلَى رُؤُوسِکُمْ،»۸۵
عجز و فروتنی کو سر کا تاج بنانے



«وَ إِلْقَاءَ التَّعَزُّزِ تَحْتَ أَقْدَامِکُمْ،»۸۶
کبر و خود بینی کو پیروں تلے روندنے



«وَ خَلْعَ التَّکَبُّرِ مِنْ أَعْنَاقِکُمْ۸۷
اور تکبر و رعونت کا طوق گردن سے اتارنے کا عزم بالجزم کر لو



«وَ اتَّخِذُوا التَّوَاضُعَ مَسْلَحَةً بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ عَدُوِّکُمْ إِبْلِیسَ وَ جُنُودِهِ۸۸
اپنے اور اپنے دشمن شیطان اور اس کی سپاہ کے درمیان تواضع و فروتنی کا مورچہ قائم کرو



«فَإِنَّ لَهُ مِنْ كُلِّ أُمَّة جُنُوداً وَ أَعْوَاناً، وَ رَجِلا وَ فُرْسَاناً۸۹
کیونکہ ہر جماعت میں اس کے لشکر، یار و مددگار اور سوار و پیادے موجود ہیں



«وَ لَا تَکُونُوا کَالْمُتَکَبِّرِ عَلَى ابْنِ أُمِّهِ مِنْ غَیْرِ»۹۰
تم اس کی طرح نہ بنو کہ جس نے اپنے ماں جائے بھائی کے مقابلے میں غرور کیا



«مَا فَضْل جَعَلَهُ اللهُ فِيهِ سِوَی مَا أَلْحَقَتِ الْعَظَمَةُ بِنَفْسِهِ مِنْ عَدَاوَةِ الْحَسَدِ،»۹۱
بغیر کسی فضیلت و بلندی کے کہ جو اللہ نے اس میں قرار دی ہو، سوا اس کے کہ حاسدانہ عداوت سے اس میں اپنی بڑائی کا احساس پیدا ہوا



«وَ قَدَحَتِ الْحَمِیَّةُ فِي قَلْبِهِ مِنْ نَارِ الْغَضَبِ،»۹۲
اور خود پسندی نے اس کے دل میں غیظ و غضب کی آگ بھڑکا دی



«وَ نَفَخَ الشَّیْطَانُ فِي أَنْفِهِ مِنْ رِیحِ الْکِبْرِ»۹۳
اور شیطان نے اس کی ناک میں کبر و غرور کی ہوا پھونک دی



«الَّذِي أَعْقَبَهُ اللهُ بِهِ النَّدَامَةَ،»۹۴
کہ جس کی وجہ سے اللہ نے ندامت و پشیمانی کو اس کے پیچھے لگا دیا



«وَ أَلْزَمَهُ آثَامَ الْقَاتِلِینَ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ۹۵
اور قیامت تک کے قاتلوں کے گناہ اس کے ذمہ ڈال دیے

۵. تجنّب الاخلاق الجاهليّة

«أَلَا وَ قَدْ أَمْعَنْتُمْ فِي الْبَغْیِ،»۹۶
دیکھو! تم نے ظلم و تعدی کی انتہا کر دی



«وَ أَفْسَدْتُمْ فِي الْأَرْضِ،»۹۷
اور زمین میں فساد مچا دیا



«مُصَارَحَةً لِلّهِ بِالْمُنَاصَبَةِ،»۹۸
تم نے اللہ سے کھلم کھلا دشمنی پر اتر کر



«وَ مُبَارَزَةً لِلْمُؤْمِنِینَ بِالُْمحَارَبَةِ۹۹
اور مومنین سے آمادۂ پیکار ہو کر



«فَاللهَ اللهَ فِي کِبْرِ الْحَمِیَّةِ»۱۰۰
تم فخر و غرور کرنے سے اللہ کا خوف کھاؤ



«وَ فَخْرِ الْجَاهِلِیَّةِ۱۰۱
زمانہ جاہلیت والی خود بینی



«فَإِنَّهُ مَلَاقِحُ الشَّنَآنِ،»۱۰۲
کیونکہ یہ دشمنی و عناد کا سر چشمہ



«وَ مَنَافِخُ الشَّیْطَانِ،»۱۰۳
اور شیطان کی فسوں کاری کا مرکز ہے



«الَّتِي خَدَعَ بِهَا الْأُمَمَ الْمَاضِیَةَ، وَ الْقُرُونَ الْخَالِیَةَ۱۰۴
جس سے اس نے گزشتہ اُمتوں اور پہلی قوموں کو ورغلایا



«حَتَّى أَعْنَقُوا فِي حَنَادِسِ جَهَالَتِهِ، وَ مَهَاوِی ضَلَالَتِهِ،»۱۰۵
یہاں تک کہ وہ اس کے اندھیاریوں اور ضلالت کے گڑھوں میں تیزی سے جا پڑیں



«ذُلُلا عَنْ سِیَاقِهِ،»۱۰۶
یہاں تک کہ وہ اس کے دھکیلنے



«سُلُساً فِي قِیَادِهِ۱۰۷
اور آگے سے کھینچنے پر



«أَمْراً تَشَابَهَتِ الْقُلُوبُ فِيهِ،»۱۰۸
ایسی صورت سے جس میں ایسے لوگوں کے تمام دل ملتے جلتے ہوئے ہیں



«وَ تَتَابَعَتِ الْقُرُونُ عَلَيْهِ،»۱۰۹
اور صدیوں کا حال ایک ہی سا رہا ہے



«وَ کِبْراً تَضَایَقَتِ الصُّدُورُ بِهِ.»۱۱۰
اور ایسا غرور جس کے چھپانے سے سینوں کی وسعتیں تنگ ہوتی ہیں

۶. اجتناب الامراء المتكبّرين

«أَلَا فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ مِنْ طَاعَةِ سَادَاتِکُمْ وَ کُبَرَائِکُمْ۱۱۱
دیکھو! اپنے ان سرداروں اور بڑوں کا اتباع کرنے سے ڈرو



«الَّذِينَ تَکَبَّرُوا عَنْ حَسَبِهِمْ،»۱۱۲
کہ جو اپنی جاہ وحشمت پر اکڑتے



«وَ تَرَفَّعُوا فَوْقَ نَسَبِهِمْ،»۱۱۳
اور اپنے نسب کی بلندیوں پر غرہ کرتے ہوں



«وَ أَلْقُوا الْهَجِینَةَ عَلَى رَبِّهِمْ،»۱۱۴
اور بدنما چیزوں کو اللہ کے سر ڈال دیتے ہوں



«وَ جَاحَدُوا اللهَ عَلَى مَا صَنَعَ بِهِمْ،»۱۱۵
اس کے احسانات سے یکسر انکار کر دیتے ہوں



«مُکَابَرَةً لِقَضَائِهِ،»۱۱۶
اور اس کی قضا و قدر سے ٹکر لینے



«وَ مُغَالَبَةً لِآلَائِهِ»۱۱۷
اور اس کی نعمتوں پر غلبہ پانے کیلئے



«فَإِنَّهُمْ قَوَاعِدُ أَسَاسِ الْعَصَبِیَّةِ،»۱۱۸
یہی لوگ تو عصبیت کی عمارت کی گہری بنیاد



«وَ دَعَائِمُ أَرْکانِ الْفِتْنَةِ،»۱۱۹
فتنہ کے کاخ و ایوان کے ستون



«وَ سُیُوفُ اعْتِزَاءِ الْجَاهِلِیَّةِ۱۲۰
اور جاہلیت کے نسبی تفاخر کی تلواریں ہیں



«فَاتَّقُوا اللهَ»۱۲۱
لہٰذا اللہ سے ڈرو



«وَ لَا تَکُونُوا لِنِعَمِهِ عَلَيْكُمْ أَضْدَاداً،»۱۲۲
اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کے دشمن نہ بنو



«وَ لَا لِفَضْلِهِ عِنْدَكُمْ حُسَّاداً۱۲۳
اور نہ اس کے فضل و کرم کے جو تم پر ہے حاسد بنو



«وَ لَا تُطِیعُوا الْأَدْعِیَاءَ الَّذِينَ شَرِبْتُمْ بِصَفْوِکُمْ کَدَرَهُمْ،»۱۲۴
اور اُن جھوٹے مدعیانِ اسلام کی پیروی نہ کرو کہ جن کا گدلا پانی تم اپنے صاف پانی میں سمو کر پیتے ہو



«وَ خَلَطْتُمْ بِصِحَّتِکُمْ مَرَضَهُمْ،»۱۲۵
اور اپنی درستگی کے ساتھ ان کی خرابیوں کو خلط ملط کر لیتے ہو



«وَ أَدْخَلْتُمْ فِي حَقِّکُمْ بَاطِلَهُمْ۱۲۶
اور اپنے حق میں ان کے باطل کیلئے بھی راہ پیدا کر دیتے ہو



«وَ هُمْ أَسَاسُ الْفُسُوقِ،»۱۲۷
وہ فسق و فجور کی بنیاد ہیں



«وَ أَحْلَاسُ الْعُقُوقِ»۱۲۸
اور نافرمانیوں کے ساتھ چسپیدہ ہیں



«اتَّخَذَهُمْ إِبْلِیسُ مَطَایَا ضَلَال،»۱۲۹
جنہیں شیطان نے گمراہی کی بار بردار سواری قرار دے رکھا ہے



«وَ جُنْداً بِهِمْ یَصُولُ عَلَى النَّاسِ،»۱۳۰
اور ایسا لشکر جس کو ساتھ لے کر لوگوں پر حملہ کرتا ہے



«وَ تَرَاجِمَةً یَنْطِقُ عَلَى أَلْسِنَتِهِمْ،»۱۳۱
اور ایسے ترجمان کہ جن کی زبان سے وہ گویا ہوتا ہے



«اسْتِرَاقاً لِعُقُولِکُمْ»۱۳۲
تاکہ تمہاری عقلیں چھین لے



«وَ دُخُولا فِي عُیُونِکُمْ،»۱۳۳
تمہاری آنکھوں میں گھس جائے



«وَ نَفْثاً فِي أَسْمَاعِکُمْ۱۳۴
اور تمہارے کانوں میں پھونک دے



«فَجَعَلَکُمْ مَرْمَی نَبْلِهِ، وَ مَوْطِئَ قَدَمِهِ، وَ مَأْخَذَ یَدِهِ۱۳۵
اس طرح اس نے تمہیں اپنے تیروں کا ہدف، اپنے قدموں کی جولانگاہ اور اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنا لیا ہے

۷. الاعتبار بالماضيين

«فَاعْتَبِرُوا بِمَا أَصَابَ الْأُمَمَ الْمُسْتَکْبِرِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ مِنْ بَأْسِ اللهِ وَ صَوْلَاتِهِ، وَ وَقَائِعِهِ وَ مَثُلَاتِهِ،»۱۳۶
تمہیں لازم ہے کہ تم سے قبل سرکش اُمتوں پر جو قہر و عذاب اور عتاب و عقاب نازل ہوا، اس سے عبرت لو



«وَ اتَّعِظُوا بِمَثَاوِی خُدُودِهِمْ، وَ مَصَارِعِ جُنُوبِهِمْ،»۱۳۷
اور ان کے رخساروں کے بل لیٹنے اور پہلوؤں کے بل گرنے کے مقامات سے نصیحت حاصل کرو



«وَ اسْتَعِیذُوا بِاللهِ مِنْ لَوَاقِحِ الْکِبْرِ،»۱۳۸
مغرور و سرکش بنانے والی چیزوں سے اللہ کے دامن میں پناہ مانگو



«كَمَا تَسْتَعِیذُونَهُ مِنْ طَوَارِقِ الدَّهْرِ۱۳۹
جس طرح زمانہ کی مصیبتوں سے پناہ مانگتے ہو



«فَلَوْ رَخَّصَ اللهُ فِي الْکِبْرِ لِأَحَد مِنْ عِبَادِهِ»۱۴۰
اگر خداوند عالم اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو بھی کبر و رعونت کی اجازت دے سکتا ہوتا



«لَرَخَّصَ فِيهِ لِخَاصَّةِ أَنْبِیَائِهِ وَ أَوْلِیَائِهِ۱۴۱
تو وہ اپنے مخصوص انبیاء اور اولیاء علیہم السلام کو اس کی اجازت دیتا



«وَ لكِنَّهُ سُبْحانَهُ کَرَّهَ إِلَيْهِمُ التَّکَابُرَ،»۱۴۲
لیکن اس نے ان کو کبر و غرور سے بیزار ہی رکھا



«وَ رَضِیَ لَهُمُ التَّوَاضُعَ،»۱۴۳
اور ان کیلئے عجز و مسکنت ہی کو پسند فرمایا



«فَأَلْصَقُوا بِالْأَرْضِ خُدُودَهُمْ،»۱۴۴
چنانچہ انہوں نے اپنے رخسارے زمین سے پیوستہ



«وَ عَفَّرُوا فِي التُّرَابِ وُجُوهَهُمْ۱۴۵
اور چہرے خاک آلودہ رکھے



«وَ خَفَضُوا أَجْنِحَتَهُمْ لِلْمُؤْمِنِینَ،»۱۴۶
اور مومنین کے آگے تواضع و انکسار سے جھکتے رہے



«وَکَانُوا قوْماً مُسْتَضْعَفِینَ۱۴۷
اور وہ دنیا میں کمزور و بے بس تھے



«قَدِ اخْتَبَرَهُمُ اللهُ بِالْمَخْمَصَةِ،»۱۴۸
جنہیں اللہ نے بھوک سے آزمایا



«وَ ابْتَلَاهُمْ بِالَمجْهَدَةِ،»۱۴۹
تعب و مشقت میں مبتلا کیا



«وَ امْتَحَنَهُمْ بِالَمخَاوِفِ،»۱۵۰
خوف و خطر کے موقعوں سے ان کا امتحان لیا



«وَ مَخَضَهُمْ بِالْمَکَارِهِ۱۵۱
اور ابتلا و مصیبت سے انہیں تہ و بالا کیا



«فَلَا تَعْتَبِرُوا الرِّضَی وَ السُّخْطَ بِالْمَالِ وَ الْوَلَدِ جَهْلاً بِمَوَاقِعِ الْفِتْنَةِ، وَ الْإِخْتِبَارِ فِي مَوْضِعِ الْغِنَی وَ الْإِقْتِدَارِ،»۱۵۲
لہٰذا خدا کی خوشنودی و ناخوشنودی کا معیار اولادو مال کو قرار نہ دو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اللہ دولت اور اقتدار سے بھی کس کس طرح بندوں کا امتحان لیتا ہے



«فَقَدْ قَالَ سُبْحانَهُ وَ تَعَالی۱۵۳
چنانچہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:

(أَیَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِ مِن مَّالٍ وَ بَنِینَنُسَارِعُ لَهُم فِی الْخَیْرَاتِ ۚ بَل لَّا یَشْعُرُونَ)

(۳)
«وہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو مال و اولاد سے انہیں سہارا دیتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ بھلائیاں کرنے میں سرگرم ہیں مگر (جو اصل واقعہ ہے اسے) یہ لوگ سمجھتے نہیں»

۸. حكمة الاختبار

«فَإِنَّ اللهَ سُبْحانَهُ یَخْتَبِرُ عِبَادَهُ الْمُسْتَکْبِرِینَ فِي أَنْفُسِهِمْ بِأَوْلِیَائِهِ الْمُسْتَضْعَفِینَ فِي أَعْیُنِهِمْ۱۵۴
اسی طرح واقعہ یہ ہے کہ اللہ اپنے ان بندوں کا جو بجائے خود اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھتے ہیں امتحان لیتا ہے اپنے ان دوستوں کے ذریعہ سے جو ان کی نظروں میں عاجز و بے بس ہیں



«وَ لَقَدْ دَخَلَ مُوسَی بْنُ عِمْرَانَ وَ مَعَهُ أَخُوهُ هَارُونُ (عَلَیْهماالسّلامُ) عَلَى فِرْعَوْنَ،»۱۵۵
(چنانچہ اس کی مثال یہ ہے کہ) موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو ساتھ لے کر اس حالت میں فرعون کے پاس آئے



«وَ عَلَيْهِمَا مَدَارِعُ الصُّوفِ،»۱۵۶
کہ ان کے جسم پر اونی کُرتے



«وَ بِأَیْدِیهِمَا الْعِصِیُّ،»۱۵۷
اور ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں



«فَشَرَطَا لَهُ ـ إِنْ أَسْلَمَ ـ بَقَاءَ مُلْکِهِ، وَ دَوَامَ عِزِّهِ۱۵۸
اور اس سے یہ قول و قرار کیا کہ اگر وہ اسلام قبول کرلے تو اس کا ملک بھی باقی رہے گا اور اس کی عزت بھی برقرار رہے گی



«فَقَالَ: «أَلَا تَعْجَبُونَ مِنْ هذَيْنِ یَشْرِطَانِ لِي دَوَامَ الْعِزِّ، وَ بَقَاءَ الْمُلْکِ۱۵۹
تو اس نے (اپنے حاشیہ نشینوں سے) کہا کہ: تمہیں ان پر تعجب نہیں ہوتا کہ یہ دونوں مجھ سے یہ معاملہ ٹھہرا رہے ہیں کہ میری عزت بھی برقرار رہے گی اور میرا ملک بھی باقی رہے گا



«وَ هُمَا بِمَا تَرَوْنَ مِنْ حَالِ الْفَقْرِ وَ الذُّلِّ،»۱۶۰
اور جس پھٹے حال اور ذلیل صورت میں یہ ہیں تم دیکھ ہی رہے ہو



«فَهَلَّا أُلْقِیَ عَلَيْهِمَا أَسَاوِرَةٌ مِنْ ذَهَب؟»»۱۶۱
(اگر ان میں اتنا ہی دم خم تھا تو پھر) ان کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن کیوں نہیں پڑے ہوئے



«إِعْظَاماً لِلذَّهَبِ وَ جَمْعِهِ،»۱۶۲
یہ اس لئے کہ وہ سونے کو اور اس کی جمع آوری کو بڑی چیز سمجھتا تھا



«وَ احْتِقَاراً لِلصُّوفِ وَ لُبْسِهِ۱۶۳
اور بالوں کے کپڑوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا



«وَ لَوْ أَرَادَ اللهُ سُبْحانَهُ لِأَنْبِیَائِهِ حَيْثُ بَعَثَهُمْ»۱۶۴
اگر خداوند عالم یہ چاہتا کہ جس وقت اس نے نبیوں کو مبعوث کیا



«أَنْ یَفْتَحَ لَهُمْ کُنُوزَ الذِّهْبَانِ، وَ مَعَادِنَ الْعِقْیَانِ، وَ مَغَارِسَ الْجِنَانِ،»۱۶۵
تو ان کیلئے سونے کے خزانوں اور خالص طلا کی کانوں کے منہ کھول دیتا اور باغوں کی کشت زاروں کو ان کیلئے مہیا کر دیتا



«وَ أَنْ یَحْشُرَ مَعَهُمْ طُیُورَ السَّمَاءِ وَ وُحُوشَ الْأَرَضِینَ لَفَعَلَ۱۶۶
اور فضا کے پرندوں اور زمین کے صحرائی جانوروں کو ان کے ہمراہ کر دیتا تو کر سکتا تھا



«وَ لَوْ فَعَلَ لَسَقَطَ الْبَلَاءُ،»۱۶۷
اور اگر ایسا کرتا تو پھر آزمائش ختم



«وَ بَطَلَ الْجَزَاءُ،»۱۶۸
جزا و سزا بیکار



«وَ اضْمَحَلَّتِ الْأَنْبَاءُ،»۱۶۹
اور (آسمانی)خبریں اَکارت ہو جاتیں



«وَ لَمَا وَجَبَ لِلْقَابِلِینَ أُجُورُ الْمُبْتَلِینَ،»۱۷۰
اور آزمائش میں پڑنے والوں کا اجر اس طرح کے ماننے والوں کیلئے ضروری نہ رہتا



«وَ لَا اسْتَحَقَّ الْمُؤْمِنُونَ ثَوَابَ الُْمحْسِنِینَ،»۱۷۱
اور نہ ایسے ایمان لانے والے نیک کرداروں کی جزا کے مستحق رہتے



«وَ لَا لَزِمَتِ الْأَسْمَاءُ مَعَانِیهَا۱۷۲
او رنہ الفاظ اپنے معنی کا ساتھ دیتے



«وَلكِنَّ اللهَ سُبْحانَهُ جَعَلَ رُسُلَهُ أُولِي قُوَّة فِي عَزَائِمِهِمْ، وَ ضَعَفَةً فِيَما تَرَی الْأَعْیُنُ مِنْ حَالَاتِهِمْ،»۱۷۳
لیکن اللہ سبحانہ اپنے رسولوں کو ارادوں میں قوی اور آنکھوں کو دکھائی دینے والی ظاہری حالت میں کمزور و ناتواں قرار دیتا ہے



«مَعَ قَنَاعَة تَمْلَاً الْقُلُوبَ وَ الْعُیُونَ غِنًی،»۱۷۴
اور انہیں ایسی قناعت سے سرفراز کرتا ہے جو (دیکھنے اور سننے والوں کے) دلوں اور آنکھوں کو بے نیازی سے بھر دیتی ہے



«وَ خَصَاصَة تَمْلَاً الْأَبْصَارَ وَ الْأَسْمَاعَ أَذًی۱۷۵
اور ایسا افلاس ان کے دامن سے وابستہ کر دیتا ہے کہ جس سے آنکھوں کو دیکھ کر اور کانوں کو سن کر اذیت ہوتی ہے



«وَ لَوْ کَانَتِ الْأَنْبِیَاءُ أَهْلَ قُوَّة لَا تُرَامُ،»۱۷۶
اگر انبیاء علیہم السلام ایسی قوت و طاقت رکھتے کہ جسے دبانے کا قصد و ارادہ بھی نہ ہو سکتا ہوتا



«وَ عِزَّة لَا تُضَامُ،»۱۷۷
اور ایسا تسلط و اقتدار رکھتے کہ جس پر تعدی ممکن ہی نہ ہوتی



«وَ مُلْک تُمَدُّ نَحْوَهُ أَعْنَاقُ الرِّجَالِ،»۱۷۸
اور ایسی سلطنت کے مالک ہو تے کہ جس کی طرف لوگوں کی گردنیں مڑتیں



«وَ تُشَدُّ إِلَيْهِ عُقَدُ الرِّحَالِ،»۱۷۹
اور اس کے رخ پر سواریوں کے پالان کسے جاتے



«لَکَانَ ذلِكَ أَهْوَنَ عَلَى الْخَلْقِ فِي الْإِعْتِبَارِ،»۱۸۰
تو یہ چیز نصیحت پذیری کیلئے بڑی آسان



«وَ أَبْعَدَ لَهُمْ فِي الْإِسْتِکْبَارِ (الاستکثار)،»۱۸۱
اور اس سے انکار و سرتابی بہت بعید ہوتی



«وَ لَآمَنُوا عَنْ رَهْبَة قَاهِرَة لَهُمْ، أَوْ رَغْبَة مَائِلَة بِهِمْ،»۱۸۲
اور لوگ چھائے ہوئے خوف یا مائل کرنے والے اسباب رغبت کی بنا پر ایمان لے آتے



«فَکَانَتِ النِّیَّاتُ مُشْتَرَکَةً،»۱۸۳
تو اس صورت میں ان کی نیتیں مشترک



«وَ الْحَسَنَاتُ مُقْتَسَمَةً۱۸۴
اور نیک عمل بٹے ہوئے ہوتے



«وَ لكِنَّ اللهَ سُبْحانَهُ أَرَادَ»۱۸۵
لیکن اللہ سبحانہ نے تو یہ چاہا



«أَنْ یَکُونَ الْإِتِّبَاعُ لِرُسُلِهِ،»۱۸۶
کہ اس کے پیغمبروں کا اتباع



«وَ التَّصْدِیقُ بِکُتُبِهِ،»۱۸۷
اس کی کتابوں کی تصدیق



«وَ الْخُشُوعُ لِوَجْهِهِ،»۱۸۸
اس کے سامنے فروتنی



«وَ الْإِسْتِکَانَةُ لِأَمْرِهِ،»۱۸۹
اس کے احکام کی فرمانبرداری



«وَ الْإِسْتِسْلَامُ لِطَاعَتِهِ،»۱۹۰
اور اس کی اطاعت



«أُمُوراً لَهُ خَاصَّةً،»۱۹۱
یہ سب چیزیں اسی کیلئے مخصوص ہوں



«لَا تَشُوبُهَا مِنْ غَیْرِهَا شَائِبَةٌ۱۹۲
اور ان میں کوئی دوسرا شائبہ تک نہ ہو



«وَ كُلَّمَا کَانَتِ الْبَلْوَی وَ الْإِخْتِبَارُ أَعْظَمَ»۱۹۳
اور جتنی آزمائش کڑی ہو گی



«کَانَتِ الْمَثُوبَةُ وَ الْجَزَاءُ أَجْزَلَ۱۹۴
اتنا ہی اجر و ثواب زیادہ ہو گا

۹. فلسفة الحج

«أَلَا تَرَوْنَ أَنَّ اللهَ سُبْحانَهُ، اخْتَبَرَ الْأَوَّلِینَ مِنْ لَدُنْ آدَمَ (عَلَیْهِ‌السّلامُ)، إِلَى الْآخِرِینَ مِنْ هذَا الْعَالَمِ; بِأَحْجَار»۱۹۵
تم دیکھتے نہیں کہ اللہ سبحانہ نے آدم علیہ السلام سے لے کر اس جہان کے آخر تک کے اگلے پچھلوں کو ایسے پتھروں سے آزمایا ہے



«لَا تَضُرُّ وَ لَا تَنْفَعُ،»۱۹۶
کہ جو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ



«وَ لَا تُبْصِرُ وَ لَا تَسْمَعُ،»۱۹۷
نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں



«فَجَعَلَهَا بَیْتَهُ الْحَرَامَ الَّذِي جَعَلَهُ لِلنَّاسِ قِیَاماً۱۹۸
اس نے ان پتھروں ہی کو اپنا محترم گھر قرار دیا کہ جسے لوگوں کیلئے (امن کے) قیام کا ذریعہ ٹھہرایا ہے



«ثُمَّ وَضَعَهُ بِأَوْعَرِ بِقَاعِ الْأَرْضِ حَجَراً،»۱۹۹
پھر یہ کہ اس نے اسے زمین کے رقبوں میں سے ایک سنگلاخ رقبہ



«وَ أَقَلِّ نَتَائِقِ الدُّنْیَا مَدَراً،»۲۰۰
اور دنیا میں بلندی پر واقع ہونے والی آبادیوں میں سے ایک کم مٹی والے مقام



«وَ أَضْیَقِ بُطُونِ الْأَوْدِیَةِ قُطْراً،»۲۰۱
اور گھاٹیوں میں سے ایک تنگ اطراف والی گھاٹی میں قرار دیا



«بَیْنَ جِبَال خَشِنَة،»۲۰۲
کھرے اور کھردرے پہاڑوں



«وَ رِمَال دَمِثَة،»۲۰۳
نرم رتیلے میدانوں



«وَ عُیُون وَشِلَة،»۲۰۴
کم آب چشموں



«وَ قُریً مُنْقَطِعَة۲۰۵
اور متفرق دیہاتوں کے درمیان



«لَا یَزْکُو بِهَا خُفٌّ، وَ لَا حَافِرٌ وَ لَا ظِلْفٌ۲۰۶
کہ جہاں اونٹ، گھوڑا اور گائے بکری نشو و نما نہیں پا سکتے



«ثُمَّ أَمَرَ آدَمَ (عَلَیْهِ‌السّلامُ) وَ وَلَدَهُ»۲۰۷
پھر بھی اس نے آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو حکم دیا



«أَنْ یَثْنُوا أَعْطَافَهُمْ نَحْوَهُ۲۰۸
کہ اپنے رخ اس کی طرف موڑیں



«فَصَارَ مَثَابَةً لِمُنْتَجَعِ أَسْفَارِهِمْ،»۲۰۹
چنانچہ وہ ان کے سفروں سے فائدہ اٹھانے کا مرکز



«وَ غَایَةً لِمُلْقَی رِحَالِهِمْ۲۱۰
اور پالانوں کے اترنے کی منزل بن گیا



«تَهْوِی إِلَيْهِ ثِمَارُ الْأَفْئِدَةِ،»۲۱۱
نفوس انسانی ادھر متوجہ ہوتے ہیں



«مِنْ مَفَاوِزِ قِفَار سَحِیقَة،»۲۱۲
کہ دور افتادہ بے آب و گیاه بیابانوں



«وَ مَهَاوِی فِجَاج عَمِیقَة،»۲۱۳
دور و دراز گھاٹیوں کے نشیبی راہوں



«وَ جَزَائِرِ بِحَار مُنْقَطِعَة،»۲۱۴
اور (زمین سے) کٹے ہوئے دریاؤں کے جزیروں



«حَتَّى یَهُزُّوا مَنَاکِبَهُمْ ذُلُلا»۲۱۵
یہاں تک کہ وہ پوری فرمانبرداری سے



«یُهَلِّلُونَ لِلّهِ حَوْلَهُ،»۲۱۶
اپنے کندھوں کو ہلاتے ہوئے اس کے گرد لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ کی آوازیں بلند کرتے ہیں اور اپنے پیروں سے پویا دوڑ لگاتے ہیں



«وَ یَرْمُلُونَ عَلَى أَقْدَامِهِمْ شُعْثاً غُبْراً لَهُ.»۲۱۷
اس حالت میں کہ ان کے بال بکھرے ہوئے اور بدن خاک میں اَٹے ہوتے ہیں



«قَدْ نَبَذُوا السَّرَابِیلَ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ،»۲۱۸
انہوں نے اپنا لباس پشت پر ڈال دیا ہوتا ہے



«وَ شَوَّهُوا بِإِعْفَاءِ الشُّعُورِ مَحَاسِنَ خَلْقِهِمُ،»۲۱۹
اور بالوں کو بڑھا کر اپنے کو بدصورت بنا لیا ہوتا ہے



«ابْتِلَاءً عَظِیماً،»۲۲۰
یہ بڑی ابتلا



«وَ امْتِحَاناً شَدِیداً،»۲۲۱
کڑی آزمائش



«وَ اخْتِبَاراً مُبِیناً،»۲۲۲
کھلم کھلا امتحان



«وَ تَمْحِیصاً بَلِیغاً،»۲۲۳
اور پوری پوری جانچ ہے



«جَعَلَهُ اللهُ سَبَباً لِرَحْمَتِهِ،»۲۲۴
اللہ نے اسے اپنی رحمت کا ذریعہ



«وَ وُصْلَةً إِلَى جَنَّتِهِ۲۲۵
اور جنت تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا ہے



«وَ لَوْ أَرَادَ سُبْحانَهُ»۲۲۶
اور اگر خداوند عالم یہ چاہتا



«أَنْ یَضَعَ بَیْتَهُ الْحَرَامَ، وَ مَشَاعِرَهُ الْعِظَامَ،»۲۲۷
کہ وہ اپنا محترم گھر اور بلند پایہ عبادت گاہیں ایسی جگہ پر بنائے



«بَیْنَ جَنَّاتٍ وَ أَنْهَارٍ،»۲۲۸
کہ جس کے گرد باغ و چمن کی قطاریں



«وَ سَهْلٍ وَ قَرَارٍ، جَمَّ الْأَشْجَارِ،»۲۲۹
اور بہتی ہوئی نہریں ہوں، زمین نرم و ہموار ہو کہ (جس میں) درختوں کے جھنڈ



«دَانِیَ الِّثمَارِ،»۲۳۰
اور (ان میں) جھکے ہوئے پھلوں کے خوشے ہوں



«مُلْتَفَّ الْبُنَی،»۲۳۱
جہاں عمارتوں کا جال بچھا ہوا



«مُتَّصِلَ الْقُرَی،»۲۳۲
اور آبادیوں کا سلسلہ ملا ہوا ہو



«بَیْنَ بُرَّة سَمْرَاءَ،»۲۳۳
خوبصورت گندمزار کے درمیان



«وَ رَوْضَة خَضْرَاءَ،»۲۳۴
جہاں سرخی مائل گیہوں کے پودے



«وَ أَرْیَاف مُحْدِقَة،»۲۳۵
سر سبز مرغزار



«وَ عِرَاص مُغْدِقَة،»۲۳۶
چمن درکنار، سبزہ زار، پانی میں شرابور میدان



«وَ رِیَاض نَاضِرَة،»۲۳۷
لہلہاتے ہوئے کھیت



«وَ طُرُق عَامِرَة،»۲۳۸
اور آباد گزرگاہیں ہوں



«لَکَانَ قَدْ صَغُرَ قَدْرُ الْجَزَاءِ عَلَى حَسَبِ ضَعْفِ الْبَلَاءِ۲۳۹
تو البتہ وہ جزا و ثواب کو اسی اندازہ سے کم کر دیتا ہے کہ جس اندازہ سے ابتلا و آزمائش میں کمی واقع ہوئی ہے



«وَ لَوْ کَانَ الْإِسَاسُ المَحْمُولُ عَلَيْهَا،»۲۴۰
اگر وہ بنیاد کہ جس پر اس گھر کی تعمیر ہوئی ہے



«وَ الْأَحْجَارُ الْمَرْفُوعُ بِهَا،»۲۴۱
اور وہ پتھر کہ جس پراس کی عمارت اٹھائی گئی ہے،



«بَیْنَ زُمُرُّدَة خَضْرَاءَ،»۲۴۲
زمرد سبز



«وَ یَاقُوتَة حَمْرَاءَ،»۲۴۳
و یاقوت سرخ کے ہوتے



«وَ نُور وَ ضِیَاء،»۲۴۴
اور (ان میں) نور و ضیاء ( کی تابانی) ہوتی



«لَخَفَّفَ ذلِكَ مُضَارَعَةَ الشَّکِّ فِي الصُّدُورِ،»(۴)۲۴۵
تو یہ چیز سینوں میں شک و شبہات کے ٹکراؤ کو کم کر دیتی



«وَ لَوَضَعَ مُجَاهَدَةَ إِبْلِیسَ عَنِ الْقُلُوبِ،»۲۴۶
اور دلوں سے شیطان کی دوڑ دھوپ (کا اثر) مٹا دیتی



«وَ لَنَفَی مُعْتَلَجَ الرَّیْبِ مِنَ النَّاسِ،»۲۴۷
اور لوگوں سے شکوک کے خلجان دور کر دیتی



«وَ لكِنَّ اللهَ یَخْتَبِرُ عِبَادَهُ بِأَنْوَاعِ الشَّدَائِدِ،»۲۴۸
لیکن اللہ سبحانہ اپنے بندوں کو گو ناگوں سختیوں سے آزماتا ہے



«وَ یَتَعَبَّدُهُمْ بِأَنْوَاعِ الْمَجَاهِدِ،»۲۴۹
اور ان سے ایسی عبادت کا خواہاں ہے کہ جو طرح طرح کی مشقتوں سے بجا لائی گئی ہو



«وَ یَبْتَلِیهِمْ بِضُرُوبِ الْمَکَارِهِ،»۲۵۰
اور انہیں قسم قسم کی ناگواریوں سے جانچتا ہے



«إِخْرَاجاً لِلتَّکَبُّرِ مِنْ قُلُوبِهِمْ،»۲۵۱
تاکہ ان کے دلوں سے تمکنت و غرور کو نکال باہر کرے



«وَ إِسْکَاناً لِلتَّذَلُّلِ فِي نُفُوسِهِمْ،»۲۵۲
اور ان کے نفوس میں عجز و فروتنی کو جگہ دے



«وَ لِیَجْعَلْ ذلِكَ أَبْوَاباً فُتُحاً إِلَى فَضْلِهِ،»۲۵۳
اور یہ کہ اس ابتلا و آزمائش(کی راہ) سے اپنے فضل و امتنان کے کھلے ہوئے دروازوں تک (انہیں ) پہنچائے



«وَ أَسْبَاباً ذُلُلا لِعَفْوِهِ۲۵۴
اور اسے اپنی معافی و بخشش کا آسان وسیلہ و ذریعہ قرار دے

۱۰. الحث على إجتناب من الظلم

«فَاللهَ اللهَ فِي عَاجِلِ الْبَغْیِ،»۲۵۵
اللہ کا خوف کھاؤ دنیا میں سرکشی کی پاداش



«وَ آجِلِ وَخَامَةِ الظُّلْمِ،»۲۵۶
اور آخرت میں ظلم کی گرانباری کے عذاب



«وَ سُوءِ عَاقِبَةِ الْکِبْرِ،»۲۵۷
اور غرور و نخوت کے برے انجام کے خیال سے



«فَإِنَّهَا مَصْیَدَةُ إِبْلِیسَ الْعُظْمَی،»۲۵۸
کیونکہ یہ (سرکشی، ظلم او رغرور و تکبر) شیطان کا بہت بڑا جال



«وَ مَکِیدَتَهُ الْکُبْرَی،»۲۵۹
اور بہت بڑا ہتھکنڈا ہے



«الَّتِي تُسَاوِرُ قُلُوبَ الرِّجَالِ مُسَاوَرَةَ السُّمُومِ الْقَاتِلَةِ،»۲۶۰
کہ جو لوگوں کے دلوں میں زہر قاتل کی طرح اتر جاتا ہے



«فَمَا تُکْدِی أَبَداً،»۲۶۱
نہ اس کا اثر کبھی رائیگاں جاتا ہے



«وَ لَا تُشْوِی أَحَداً،»۲۶۲
نہ اس کا وار کسی سے خطا کرتا ہے



«لَا عَالِماً لِعِلْمِهِ،»۲۶۳
نہ عالم سے اس کے علم کے باوجود



«وَ لَا مُقِلَّاً فِي طِمْرِهِ۲۶۴
اور نہ پھٹے پرانے چیتھڑوں میں کسی فقیر بے نوا سے

۱۱. فلسفة العبادة

«وَ عَنْ ذلِكَ مَا حَرَسَ اللهُ عِبَادَهُ الْمُؤْمِنِینَ»۲۶۵
یہی وہ چیز ہے جس سے خداوند عالم ایمان سے سرفراز ہونے والے بندوں کو



«بِالصَّلَوَاتِ وَ الزَّکَوَاتِ،»۲۶۶
نماز، زکوٰة



«وَ مُجَاهَدَةِ الصِّیَامِ فِي الْأَیَّامِ الْمَفْرُوضَاتِ،»۲۶۷
اور مقرر دنوں میں روزوں کے جہاد کے ذریعہ محفوظ رکھتا ہے



«تَسْکِیناً لِأَطْرَافِهِمْ،»۲۶۸
اور اس طرح ان کے ہاتھ پیروں (کی طغیانیوں) کو سکون کی سطح پر لاتا ہے



«وَ تَخْشِیعاً لِأَبْصَارِهِمْ،»۲۶۹
ان کی آنکھوں کو عجزو شکستگی سے جھکا کر



«وَ تَذْلِیلا لِنُفُوسِهِمْ،»۲۷۰
نفس کو رام



«وَ تَخْفِیضاً لِقُلُوبِهِمْ،»۲۷۱
اور دلوں کو متواضع بنا کر



«وَ إِذْهَاباً لِلْخُیَلَاءِ عَنْهُمْ،»۲۷۲
رعونت و خود پسندی کو ان سے دور کرتا ہے



«وَ لِمَا فِي ذلِكَ مِنْ تَعْفِیرِعِتَاقِ الْوُجُوهِ بِالتُّرَابِ تَوَاضُعاً،»۲۷۳
(نماز میں) نازک چہروں کو



«وَ الْتِصَاقِ کَرَائِمِ الْجَوَارِحِ بِالْأَرْضِ تَصَاغُراً،»۲۷۴
عجز و نیاز مندی کی بنا پر خاک آلودہ کیا جاتا ہے



«وَ لُحُوقِ الْبُطُونِ بِالْمُتُونِ مِنَ الصِّیَامِ تَذَلُّلا۲۷۵
اور روزوں میں از روئے فرمانبرداری پیٹ پیٹھ سے مل جاتے ہیں



«مَعَ مَا فِي الزَّکَاةِ مِنْ صَرْفِ ثَمَرَاتِ الْأَرْضِ وَ غَيْرِ ذلِكَ إِلَى أَهْلِ الْمَسْکَنَةِ وَ الْفَقْرِ۲۷۶
اور زکوٰة میں زمین کی پیداوار وغیرہ کو فقرا اور مساکین تک پہنچایا جاتا ہے



«انْظُرُوا إِلَى مَا فِي هذِهِ الْأَفْعَالِ»۲۷۷
دیکھو! کہ ان اعمال و عبادات میں



«مِنْ قَمْعِ نَوَاجِمِ الْفَخْرِ،»۲۷۸
غرور کے ابھرے ہوئے اثرات کو مٹانے



«وَ قَدْعِ طَوَالِعِ الْکِبْرِ۲۷۹
اور تمکنت کے نمایاں ہونے والے آثار کو دبانے کے کیسے کیسے فوائد مضمر ہیں

۱۲. التّعصب الممدوح و المذموم

«وَ لَقَدْ نَظَرْتُ فَمَا وَجَدْتُ أَحَداً مِنَ الْعَالَمِينَ»۲۸۰
میں نے نگاہ دوڑائی تو دنیا بھر میں ایک فرد کو بھی ایسا نہ پایا



«یَتَعَصَّبُ لِشَیْء مِنَ الْأَشْیَاءِ»۲۸۱
کہ وہ کسی چیز کی پاسداری کرتا ہو



«إِلَّا عَنْ عِلَّة تَحْتَمِلُ تَمْوِیهَ الْجُهَلَاءِ،»۲۸۲
مگر یہ کہ اس کی نظروں میں اس کی کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے کہ جو جاہلوں کے اشتباہ کا باعث بن جاتی ہے



«أَوْ حُجَّة تَلِیطُ بِعُقُولِ السُّفَهَاءِ غَیْرَکُمْ۲۸۳
یا کوئی ایسی دلیل ہوتی ہے جو بیوقوفوں کی عقلوں سے چپک جاتی ہے



«فَإِنَّكُمْ تَتَعَصَّبُونَ لِأَمْرٍ مَا یُعْرَفُ لَهُ سَبَبٌ وَ لَا عِلَّةٌ۲۸۴
سوا تمہارے کہ تم ایک چیز کی جنبہ داری تو کرتے ہو مگر اس کی کوئی علت اور وجہ نہیں معلوم ہوتی



«أَمَّا إِبْلِیسُ فَتَعَصَّبَ عَلَى آدَمَ لِأَصْلِهِ،»۲۸۵
ابلیس ہی کو لو کہ اس نے آدم علیہ السلام کے سامنے حمیت و جاہلیت کا مظاہرہ کیا تو اپنی اصل (آگ) کی وجہ سے



«وَ طَعَنَ عَلَيْهِ فِي خِلْقَتِهِ،»۲۸۶
اور ان پر چوٹ کی تو اپنی خلقت و پیدائش کی بنا پر



«فَقَالَ: « أَنَا نَارِیٌّ وَ أَنْتَ طِینِیٌّ.»»۲۸۷
چنانچہ اس نے آدم علیہ السلام سے کہا کہ: میں آگ سے بنا ہوں اور تم مٹی سے



«وَ أَمَّا الْأَغْنِیَاءُ مِنْ مُتْرَفَةِ الْأُمَمِ،»۲۸۸
(یونہی) خوش حال قوموں کے مالدار لوگ



«فَتَعَصَّبُوا لاِثَارِ مَوَاقِعِ النِّعَمِ،»۲۸۹
اپنی نعمتوں پر اتراتے ہوئے



«فَـ»

(قَالُوا نَحْنُ أَکْثَرُ أَمْوَالا وَ أَوْلَاداً وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِینَ)

(۵)
بڑا بول بولے: «ہم مال و اولاد میں بڑھے ہوئے ہیں، ہمیں کیونکر عذاب کیا جا سکتا ہے»



«فَإِنْ کَانَ لَا بُدَّ مِنَ الْعَصَبِیَّةِ»۲۹۰
اب اگر تمہیں فخر ہی کرنا ہے



«فَلْیَکُنْ تَعَصُّبُکُمْ لِمَکَارِمِ الْخِصَالِ،»۲۹۱
تو فخر و ناز کرو پاکیزگی اخلاق



«وَ مَحَامِدِ الْأَفْعَالِ،»۲۹۲
بلندیٔ کردار



«وَ مَحَاسِنِ الْأُمُورِ،»۲۹۳
اور حسن سیرت پر



«الَّتِي تَفَاضَلَتْ فِيهَا الُْمجَدَاءُ وَ النُّجَدَاءُ مِنْ بُیُوتَاتِ الْعَرَبِ وَ یَعَاسِیِبِ الْقَبَائِلِ۲۹۴
کہ جس میں عرب گھرانوں کے با عظمت و بلند ہمت سردارانِ قوم ایک دوسرے پر برتری ثابت کرتے تھے



«بِالْأَخْلَاقِ الرَّغِیبَةِ،»۲۹۵
خوش اطواریوں



«وَ الْأَحْلَامِ الْعَظِیمَةِ،»۲۹۶
بلند پایہ دانائیوں



«وَ الْأَخْطَارِ الْجَلِیلَةِ،»۲۹۷
اعلیٰ مرتبوں



«وَ الْآثَارِ الْمَحْمُودَةِ۲۹۸
اور پسندیدہ کارناموں کی وجہ سے



«فَتَعَصَّبُوا لِخِلَالِ الْحَمْدِ مِنَ»۲۹۹
تم بھی ان قابل ستائش خصلتوں کی طرفداری کرو



«الْحِفْظِ لِلْجِوَارِ،»۳۰۰
جیسے ہمسایوں کے حقوق کی حفاظت کرنا



«وَ الْوَفَاءِ بِالذِّمَامِ،»۳۰۱
عہد و پیمان کو نبھانا



«وَ الطَّاعَةِ لِلْبِرِّ،»۳۰۲
نیکوں کی اطاعت



«وَ الْمَعْصِیَةِ لِلْکِبْرِ،»۳۰۳
اور سرکشوں کی مخالفت کرنا



«وَ الْأَخْذِ بِالْفَضْلِ،»۳۰۴
حسن سلوک کا پابند



«وَ الْکَفِّ عَنِ الْبَغْیِ،»۳۰۵
اور ظلم و تعدی سے کنارہ کش رہنا



«وَ الْإِعْظَامِ لِلْقَتْلِ،»۳۰۶
خونریزی سے پناہ مانگنا



«وَ الْإِنْصَافِ لِلْخَلْقِ،»۳۰۷
خلق خدا سے عدل و انصاف برتنا



«وَ الْکَظْمِ لِلْغَیْظِ،»۳۰۸
غصہ کو پی جانا



«وَ اجْتِنَابِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ۳۰۹
زمین میں شر انگیزی سے دامن بچانا

۱۳. أسباب انتصار الشّعوب و هزيمتها

«وَ احْذَرُوا مَا نَزَلَ بِالْأُمُمِ قَبْلَکُمْ مِنَ الْمَثُلَاتِ بِسُوءِ الْأَفْعَالِ، وَ ذَمِیمِ الْأَعْمَالِ۳۱۰
تمہیں ان عذابوں سے ڈرنا چاہیے جو تم سے پہلی اُمتوں پر ان کی بد اعمالیوں اور بد کرداریوں کی وجہ سے نازل ہوئے



«فَتَذَکَّرُوا فِي الْخَیْرِ وَ الشَّرِّ أَحْوَالَهُمْ،»۳۱۱
اور (اپنے) اچھے اور برے حالات میں ان کے احوال و واردات کو پیش نظر رکھو



«وَ احْذَرُوا أَنْ تَکُونُوا أَمْثَالَهُمْ۳۱۲
اور اس امر سے خائف و ترساں رہو کہ کہیں تم بھی انہی کے ایسے نہ ہو جاؤ



«فَإِذَا تَفَکَّرْتُمْ فِي تَفَاوُتِ حَالَیْهِمْ،»۳۱۳
اگر تم نے ان کی دونوں (اچھی بری) حالتوں پر غور کر لیا ہے



«فَالْزَمُوا كُلَّ أَمْر لَزِمَتِ الْعِزَّةُ بِهِ حَالَهُمْ،»(۶)۳۱۴
تو پھر ہر اس چیز کی پابندی کرو کہ جس کی وجہ سے عزت و برتری نے ہر حال میں ان کا ساتھ دیا



«وَ زَاحَتِ الْأَعْدَاءُ لَهُ عَنْهُمْ،»۳۱۵
اور دشمن ان سے دور دور رہے



«وَ مُدَّتِ الْعَافِیَةُ بِهِ عَلَيْهِمْ،»۳۱۶
اور عیش و سکون کے دامن ان پر پھیل گئے



«وَ انْقَادَتِ النِّعْمَةُ لَهُ مَعَهُمْ،»۳۱۷
اور نعمتیں سرنگوں ہو کر ان کے ساتھ ہو لیں



«وَ وَصَلَتِ الْکَرَامَةُ عَلَيْهِ»۳۱۸
اور عزت و سرفرازی نے اپنے بندھن ان سے جوڑ لئے



«حَبْلَهُمْ مِنَ الْإِجْتِنَابِ لِلْفُرْقَةِ،»۳۱۹
(وہ کیا چیزیں تھیں؟) یہ کہ وہ افتراق سے بچے



«وَ اللُّزُومِ لِلْأُلْفَةِ،»۳۲۰
اور اتفاق و یکجہتی پر قائم رہے



«وَ التَّحَاضِّ عَلَيْهَا،»۳۲۱
اسی پر ایک دوسرے کو ابھارتے تھے



«وَ التَّوَاصِی بِهَا.»۳۲۲
او راسی کی باہم سفارش کرتے تھے



«وَ اجْتَنِبُوا كُلَّ أَمْر کَسَرَ فِقْرَتَهُمْ، وَ أَوْهَنَ مُنَّتَهُمْ۳۲۳
اور تم ہر اس امر سے بچ کر رہو کہ جس نے ان کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ ڈالا اور قوت و توانائی کو ضعف سے بدل دیا



«مِنْ تَضَاغُنِ الْقُلُوبِ،»۳۲۴
(اور وہ یہ تھا) کہ انہوں نے دلوں میں کینہ



«وَ تَشَاحُنِ الصُّدُورِ،»۳۲۵
اور سینوں میں بغض رکھا



«وَ تَدَابُرِ النُّفُوسِ،»۳۲۶
ایک دوسرے کی مدد سے پیٹھ پھرا لی



«وَ تَخَاذُلِ الْأَیْدِی۳۲۷
اور باہمی تعاون سے ہاتھ اٹھا لیا



«وَ تَدَبَّرُوا أَحْوَالَ الْمَاضِینَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ قَبْلَکُمْ،»۳۲۸
اور تم کو لازم ہے کہ گزشتہ زمانہ کے اہل ایمان کے وقائع و حالات میں غور و فکر کرو



«كَيْفَ کَانُوا فِي حَالِ الَّتمْحِیصِ وَ الْبَلَاءِ۳۲۹
کہ (صبر آزما) ابتلاؤں اور (جانکاہ) مصیبتوں میں ان کی کیا حالت تھی



«أَلَمْ یَکُونُوا أَثْقَلَ الْخَلَائِقِ أَعْبَاءً،»۳۳۰
کیا وہ ساری کائنات سے زیادہ گرانبار



«وَ أَجْهَدَ الْعِبَادِ بَلَاءً،»۳۳۱
تمام لوگوں سے زائد مبتلائے تعب و مشقت



«وَ أَضْیَقَ أَهْلِ الدُّنْیَا حَالاً۳۳۲
اور دنیا جہان سے زیادہ تنگی و ضیق کے عالم میں نہ تھے؟



«اتَّخَذَتْهُمُ الْفَرَاعِنَةُ عَبِیداً»۳۳۳
کہ جنہیں دنیا کے فرعونوں نے اپنا غلام بنا رکھا تھا



«فَسَامُوهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ،»۳۳۴
اور انہیں سخت سے سخت اذیتیں پہنچاتے



«وَ جَرَّعُوهُمُ الْمُرَارَ،»۳۳۵
اور تلخیوں کے گھونٹ پلاتے تھے



«فَلَمْ تَبْرَحِ الْحَالُ بِ هِمْ فِي ذُلِّ الْهَلَکَةِ وَ قَهْرِ الْغَلَبَةِ،»۳۳۶
اور ان کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ وہ تباہی و ہلاکت کی ذلتوں اور غلبہ و تسلط کی قہر سامانیوں میں گھرتے چلے جا رہے تھے



«لَا یَجِدُونَ حِیلَةً فِي امْتِنَاع، وَ لَا سَبِیلا إِلَى دِفَاع۳۳۷
نہ انہیں بچاؤ کی کوئی تدبیر اور نہ روک تھام کا کوئی ذریعہ سو جھتا تھا



«حَتَّى إِذَا رَأَی اللهُ سُبْحانَهُ جِدَّ الصَّبْرِ مِنْهُمْ عَلَى الْأَذَی فِي مَحَبَّتِهِ، وَ الْإِحْتَِمالَ لِلْمَکْرُوهِ مِنْ خَوْفِهِ،»۳۳۸
یہاں تک کہ جب اللہ سبحانہ نے یہ دیکھا کہ یہ میری محبت میں اذیتوں پر پوری کد و کاوش سے صبر کئے جا رہے ہیں اور میرے خوف (کے خیال) سے مصیبتوں کو جھیل رہے ہیں



«جَعَلَ لَهُمْ مِنْ مَضَایِقِ الْبَلَاءِ فَرَجاً،»۳۳۹
تو ان کیلئے مصیبت و ابتلا کی تنگنائے سے وسعت کی راہیں نکالیں



«فَأَبْدَلَهُمُ الْعِزَّ مَکَانَ الذُّلِّ، وَ الْأَمْنَ مَکَانَ الْخَوْفِ،»۳۴۰
اور ان کی ذلت کو عزت اور خوف و ہراس کو امن سے بدل دیا



«فَصَارُوا مُلُوکاً حُکّاماً، وَ أَئِمَّةً أَعْلَاماً،»۳۴۱
چنانچہ وہ تخت ِ فرمانروائی پر سلطان اور مسند ِ ہدایت پر رہنما ہوئے



«وَ قَدْ بَلَغَتِ الْکَرَامَةُ مِنَ اللهِ لَهُمْ»۳۴۲
اللہ کی طرف سے عزت و سرفرازی حاصل ہوئی



«مَا لَمْ تَذْهَبِ الْآمَالُ إِلَيْهِ بِهِمْ.»۳۴۳
انہیں امیدوں سے بڑھ چڑھ کر



«فَانْظُرُوا كَيْفَ کَانُوا حَيْثُ»۳۴۴
غور کرو! اس وقت ان کا عالم کیا تھا؟



«کَانَتِ الْأَمْلَاءُ مُجْتَمِعَةً،»۳۴۵
کہ جب ان کی جمعیتیں یکجا



«وَ الْأَهْوَاءُ مُؤْتَلِفَةً،»۳۴۶
خیالات یکسو



«وَ الْقُلُوبُ مُعْتَدِلَةً،»۳۴۷
اور دل یکساں تھے



«وَ الْأَیْدِی مُتَرَادِفَةً،»۳۴۸
اور ان کے ہاتھ ایک دوسرے کو سہارا دیتے



«وَ السُّیُوفُ مُتَنَاصِرَةً،»۳۴۹
اور تلواریں ایک دوسرے کی معین و مددگار تھیں



«وَ الْبَصَائِرُ نَافِذَةً،»۳۵۰
اور ان کی بصیرتیں تیز



«وَ الْعَزَائِمُ وَاحِدَةً۳۵۱
اور ارادے متحد تھے



«أَلَمْ یَکُونُوا أَرْبَاباً فِي أَقْطَارِ الْأَرَضِینَ،»۳۵۲
کیا وہ اطراف زمین میں فرمانروا



«وَ مُلُوکاً عَلَى رِقَابِ الْعَالَمِينَ!»۳۵۳
اور دنیا والوں کی گردنوں پر حکمران نہ تھے؟



«فَانْظُرُوا إِلَى مَا صَارُوا إِلَيْهِ فِي آخِرِ أُمُورِهِمْ،»۳۵۴
اور تصویر کا یہ رخ بھی دیکھو



«حِینَ وَقَعَتِ الْفُرْقَةُ،»۳۵۵
کہ جب ان میں پھوٹ پڑ گئی



«وَ تَشَتَّتَتِ الْأُلْفَةُ،»۳۵۶
یکجہتی درہم و برہم ہو گئی



«وَ اخْتَلَفَتِ الْکَلِمَةُ وَ الْأَفْئِدَةُ،»۳۵۷
ان کی باتوں اور دلوں میں اختلافات کے شاخسانے پھوٹ نکلے



«وَ تَشَعَّبُوا مُخْتَلِفِینَ،»۳۵۸
اور وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے



«وَ تَفَرَّقُوا مُتَحَارِبِینَ،»۳۵۹
اور الگ الگ جتھے بن کر ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے لگے



«قَدْ خَلَعَ اللهُ عَنْهُمْ لِبَاسَ کَرَامَتِهِ،»۳۶۰
تو ان کی نوبت یہ ہو گئی کہ اللہ نے ان سے عزت و بزرگی کا پیراہن اتار لیا



«وَ سَلَبَهُمْ غَضَارَةَ نِعْمَتِهِ،»۳۶۱
اور نعمتوں کی آسائشیں ان سے چھین لیں



«وَ بَقِیَ قَصَصُ أَخْبَارِهِمْ فِيكُمْ عِبَراً لِلْمُعْتَبِرِینَ مِنْكُمْ.»۳۶۲
اور تمہارے درمیان ان کے واقعات کی حکایتیں عبرت حاصل کرنے والوں کیلئے عبرت بن کر رہ گئیں



«فَاعْتَبِرُوا بِحَالِ وَلَدِإِسْمَاعِیلَ وَ بَنِی إِسْحَاقَ وَ بَنِی إِسْرَائِیلَ (عَلَیْهُم‌السّلامُ)۳۶۳
(اب ذرا) اسماعیل علیہ السلام کی اولاد، اسحاق علیہ السلام کے فرزندوں اور یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کے حالات سے عبرت و نصیحت حاصل کرو



«فَمَا أَشَدَّ اعْتِدَالَ الْأَحْوَالِ،»۳۶۴
حالات کتنے ملتے ہوئے ہیں



«وَ أَقْرَبَ اشْتِبَاهَ الْأَمْثَالِ۳۶۵
اور طور طریقے کتنے یکساں ہیں



«تَأَمَّلُوا أَمْرَهُمْ فِي حَالَ تَشَتُّتِهِمْ وَ تَفَرُّقِهِمْ،»۳۶۶
ان کے منتشر و پراگندہ ہو جانے کی صورت میں جو واقعات رونما ہوئے، ان میں فکر و تامل کرو



«لَیَالِیَ کَانَتِ الْأَکَاسِرَةُ وَ الْقَیَاصِرَةُ أَرْبَاباً لَهُمْ،»۳۶۷
کہ جب شاہانِ عجم اور سلاطین روم ان پر حکمران تھے



«یَحْتَازُونَهُمْ عَنْ رِیفِ الْآفَاقِ، وَ بَحْرِ الْعِرَاقِ، وَ خُضْرَةِ الدُّنْیَا،»۳۶۸
وہ انہیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں عراق کے دریاؤں



«إِلَى مَنَابِتِ الشَّیْحِ،»۳۶۹
اور دنیا کی شادابیوں سے خار دار جھاڑیوں



«وَ مَهَافِی الرِّیحِ،»۳۷۰
ہواؤں کی بے روگ گزر گاہوں



«وَ نَکَدِ الْمَعَاشِ،»۳۷۱
اور معیشت کی دشواریوں کی طرف دھکیل دیتے تھے



«فَتَرَکُوهُمْ عَالَةً مَسَاکِینَ إِخْوَانَ دَبَرٍ وَ وَبَرٍ،»۳۷۲
اور آخر انہیں فقیر و نادار اور زخمی پیٹھ والے اونٹوں کا چرواہا اور بالوں کی جھونپڑیوں کا باشندہ بنا کر چھوڑتے تھے



«أَذَلَّ الْأُمَمِ دَاراً،»۳۷۳
ان کے گھر بار دنیا جہان سے بڑھ کر خستہ و خراب



«وَ أَجْدَبَهُمْ قَرَاراً،»۳۷۴
اور ان کے ٹھکانے خشک سالیوں سے تباہ حال تھے



«لَا یَأْوُونَ إِلَى جَنَاحِ دَعْوَة یَعْتَصِمُونَ بِهَا،»۳۷۵
نہ ان کی کوئی آواز تھی جس کے پرو بال کا سہارا لیں



«وَ لَا إِلَى ظِلِّ أُلْفَة یَعْتَمِدُونَ عَلَى عِزِّهَا۳۷۶
نہ انس و محبت کی چھاؤں تھی جس کے بل بوتے پر بھروسا کریں



«فَالْأَحْوَالُ مُضْطَرِبَةٌ،»۳۷۷
ان کے حالات پراگندہ



«وَ الْأَیْدِی مُخْتَلِفَةٌ،»۳۷۸
ہاتھ الگ الگ تھے



«وَ الْکَثْرَةُ مُتَفَرِّقَةٌ۳۷۹
کثرت و جمعیت بٹی ہوئی



«فِي بَلَاءِ أَزْلٍ،»۳۸۰
جانگداز مصیبتوں



«وَ أَطْبَاقِ جَهْلٍ۳۸۱
اور جہالت کی تہ بہ تہ تہوں میں پڑے ہوئے تھے



«مِنْ بَنَاتِ مَوْؤُودَةٍ،»۳۸۲
یوں کہ لڑکیاں زندہ درگور تھیں



«وَ أَصْنَام مَعْبُودَة،»۳۸۳
(گھر گھر) مورتی پوجا ہوتی تھی



«وَ أَرْحَام مَقْطُوعَة،»۳۸۴
رشتے ناتے توڑے جا چکے تھے



«وَ غَارَات مَشْنُونَة۳۸۵
اور لوٹ کھسوٹ کی گرم بازاری تھی

۱۴. مكتسبات البعثة النبّويّة

«فَانْظُرُوا إِلَى مَوَاقِعِ نِعَمِ اللهِ عَلَيْهِمْ حِینَ بَعَثَ إِلَيْهِمْ رَسُولا،»۳۸۶
دیکھو! کہ اللہ نے ان پر کتنے احسانات کئے کہ ان میں اپنا رسول بھیجا



«فَعَقَدَ بِمِلَّتِهِ طَاعَتَهُمْ،»۳۸۷
کہ جس نے اپنی اطاعت کا انہیں پابند بنایا



«وَ جَمَعَ عَلَى دَعْوَتِهِ أُلْفَتَهُمْ۳۸۸
اور انہیں ایک مرکز ِوحدت پر جمع کر دیا



«كَيْفَ نَشَرَتِ النِّعْمَةُ عَلَيْهِمْ جَنَاحَ کَرَامَتِهَا،»۳۸۹
اور کیونکر خوشحالی نے اپنے پر و بال ان پر پھیلا دیئے



«وَ أَسَالَتْ لَهُمْ جَدَاوِلَ نَعِیمِهَا،»۳۹۰
اور ان کیلئے بخشش و فیضان کی نہریں بہا دیں



«وَ الْتَفَّتِ الْمِلَّةُ بِهِمْ فِي عَوَائِدِ بَرَکَتِهَا؟»۳۹۱
اور شریعت نے انہیں اپنی برکت کے بے بہا فائدوں میں لپیٹ لیا



«فَأَصْبَحُوا فِي نِعْمَتِهَا غَرِقِینَ،»۳۹۲
چنانچہ وہ اس کی نعمتوں میں شرابور



«وَ فِي خُضْرَةِ عَیْشِهَا فَکِهِینَ (فاکهین).»۳۹۳
اور اس کی زندگی کی تر و تازگیوں میں خوشحال



«قَدْ تَرَبَّعَتِ الْأُمُورُ بِهِمْ، فِي ظِلِّ سُلْطَان قَاهِر،»۳۹۴
ان (کی زندگی) کے تمام شعبے (نظم و ترتیب سے) قائم ہو گئے



«وَ آوَتْهُمُ الْحَالُ إِلَى کَنَفِ عِزٍّ غَالِب،»۳۹۵
اور ان کے حالات (کی درستگی) نے انہیں غلبہ و بزرگی کے پہلو میں جگہ دی



«وَ تَعَطَّفَتِ الْأُمُورُ عَلَيْهِمْ فِي ذُرَی مُلْک ثَابِت۳۹۶
اور ایک مضبوط سلطنت کی سر بلند چوٹیوں میں (دین و دنیا کی) سعادتیں ان پر جھک پڑیں



«فَهُمْ حُکَّامٌ عَلَى الْعَالَمِينَ،»۳۹۷
وہ تمام جہان پر حکمران



«وَ مُلُوکٌ فِي أَطْرَافِ الْأَرَضِینَ۳۹۸
اور زمین کی پہنائیوں میں تخت و تاج کے مالک بن گئے



«یَمْلِکُونَ الْأُمُورَ عَلَى مَنْ کَانَ یَمْلِکُهَا عَلَيْهِمْ،»۳۹۹
اور جن پابندیوں کی بنا پر دوسروں کے زیر دست تھے، اب یہ انہیں پابند بنا کر ان پر مسلّط ہو گئے



«وَ یُمْضُونَ الْأَحْکَامَ فِيمَنْ کَانَ یُمْضِیهَا فِيهِمْ!»۴۰۰
اور جن کے زیر ِ فرمان تھے ان کے فرمانروا بن گئے



«لَا تُغْمَزُ لَهُمْ قَنَاةٌ،»۴۰۱
نہ ان کا دم خم ہی نکالا جا سکتا ہے



«وَ لَا تُقْرَعُ لَهُمْ صَفَاةٌ۴۰۲
اور نہ ہی ان کا کس بل توڑا جا سکتا ہے

۱۵. علل ذمّ الكوفيّين

«أَلَا وَ إِنَّكُمْ قَدْ نَفَضْتُمْ أَیْدِیَکُمْ مِنْ حَبْلِ الطَّاعَةِ،»۴۰۳
دیکھو! تم نے اطاعت کے بندھنوں سے اپنے ہاتھوں کو چھڑا لیا



«وَ ثَلَمْتُمْ حِصْنَ اللهِ الْمَضْرُوبَ عَلَيْكُمْ، بِأَحْکَامِ الْجَاهِلِیَّةِ۴۰۴
اور زمانۂ جاہلیت کے طور طریقوں سے اپنے گرد کھچے ہوئے حصار میں رخنہ ڈال دیا



«فَإِنَّ اللهَ سُبْحانَهُ قَدِ امْتَنَّ عَلَى جَمَاعَةِ هذِهِ الْأُمَّةِ فِيَما عَقَدَ بَیْنَهُمْ مِنْ حَبْلِ هذِهِ الْأُلْفَةِ الَّتِي یَنْتَقِلُونَ فِي ظِلِّهَا، وَ یَأْوُونَ إِلَى کَنَفِهَا، بِنِعْمَة»۴۰۵
خداوند عالم نے اس اُمت کے لوگوں پر اس نعمت بے بہا کے ذریعہ سے لطف و احسان فرمایا ہے اور وہ یہ کہ ان کے درمیان انس و یکجہتی کا رابطہ (اسلام) قائم کیا کہ جس کے سایہ میں وہ منزل کرتے ہیں اور جس کے کنار (عاطفت) میں پناہ لیتے ہیں



«لَا یَعْرِفُ أَحَدٌ مِنَ الْمَخْلُوقِینَ لَهَا قِیمَةً،»۴۰۶
کہ جس کی قدر و قیمت کو مخلوقات میں سے کوئی نہیں پہچانتا



«لِأَنَّهَا أَرْجَحُ مِنْ كُلِّ ثَمَن،»۴۰۷
کیونکہ وہ ہر (ٹھہرائی ہوئی) قیمت سے گراں تر



«وَ أَجَلُّ مِنْ كُلِّ خَطَر۴۰۸
اور ہر شرف و بلندی سے بالاتر ہے



«وَ اعْلَمُوا أَنَّكُمْ صِرْتُمْ بَعْدَ الْهِجْرَةِ أَعْرَاباً،»۴۰۹
یہ جانے رہو کہ تم (جہالت و نادانی) کو خیر باد کہہ دینے کے بعد پھر صحرائی بدو



«وَ بَعْدَ الْمُوَالَاةِ أَحْزَاباً،»۴۱۰
اور باہمی دوستی کی بعد پھر مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہو



«مَا تَتَعَلُّقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا بِاسْمِهِ،»۴۱۱
اسلام سے تمہارا واسطہ نام کو رہ گیا ہے



«وَ لَا تَعْرِفُونَ مِنَ الْإِیمَانِ إِلَّا رَسْمَهُ۴۱۲
اور ایمان سے چند ظاہری لکیروں کے علاوہ تمہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا



«تَقُولُونَ: النَّارَ وَ لَا الْعَارَ۴۱۳
تمہارا قول یہ ہے کہ: آگ میں کود پڑیں گے مگر عار قبول نہ کریں گے



«كَأَنَّكُمْ تُرِیدُونَ أَنْ تُکْفِئُوا الْإِسْلَامَ عَلَى وَجْهِهِ،»۴۱۴
گویا تم یہ چاہتے ہو کہ اسے منہ کے بَل اوندھا کر دو



«انْتِهَاکاً لِحَرِیمِهِ،»۴۱۵
اسلام کی ہتک حرمت



«وَ نَقْضاً لِمِیثَاقِهِ الَّذِي وَضَعَهُ اللهُ لَكُمْ حَرَماً فِي أَرْضِهِ، وَ أَمْناً بَیْنَ خَلْقِهِ۴۱۶
اور اس کا عہد توڑ کر وہ عہد کہ جسے اللہ نے زمین میں پناہ اور مخلوقات میں امن قرار دیا ہے۔



«وَ إِنَّكُمْ إِنْ لَجَأْتُمْ إِلَى غَیْرِهِ»۴۱۷
(یاد رکھو!کہ ) اگر تم نے اسلام کے علاوہ کہیں اور کا رخ کیا



«حَارَبَکُمْ أَهْلُ الْکُفْرِ۴۱۸
تو کفار تم سے جنگ کیلئے اٹھ کھڑے ہوں گے



«ثُمَّ لَا جَبْرَائِیلُ وَ لَا مِیکَائِیلُ وَ لَا مُهَاجِرُونَ وَ لَا أَنْصَارٌ یَنْصُرُونَکُمْ»۴۱۹
پھر نہ جبرئیلؑ و میکائیلؑ ہیں اور نہ انصار و مہاجر ہیں کہ تمہاری مدد کریں



«إِلَّا الْمُقَارَعَةَ بِالسَّیْفِ،»۴۲۰
سوا اس کے کہ تلواروں کو کھٹکھٹاؤ



«حَتَّى یَحْکُمَ اللهُ بَیْنَکُمْ۴۲۱
یہاں تک کہ اللہ تمہارے درمیان فیصلہ کر دے



«وَ إِنَّ عِنْدَكُمُ الْأَمْثَالَ مِنْ بَأْسِ اللهِ وَ قَوارِعِهِ، وَ أَیَّامِهِ وَ وَقَائِعِهِ،»۴۲۲
خدا کا سخت عذاب، جھنجھوڑنے والا عقاب، ابتلاؤں کے دن اور تعزیر و ہلاکت کے حادثے تمہارے سامنے ہیں



«فَلَا تَسْتَبْطِئُوا وَعِیدَهُ جَهْلا بِأَخْذِهِ، وَ تَهَاوُناً بِبَطْشِهِ، وَ یَأْساً مِنْ بَأْسِهِ۴۲۳
اس کی گرفت سے انجان بن کر اور اس کی پکڑ کو آسان سمجھ کر اور اس کی سختی سے غافل ہو کر اس کے قہر و عذاب کو دور نہ سمجھو



«فَإِنَّ اللهَ سُبْحانَهُ لَمْ یَلْعَنِ الْقَرْنَ الْمَاضِیَ بَیْنَ أَیْدِیکُمْ»۴۲۴
خداوند عالم نے گزشتہ اُمتوں کو محض اس لئے اپنی رحمت سے دور رکھا



«إِلَّا لِتَرْکِهِمُ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ۴۲۵
کہ وہ اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے سے منہ موڑ چکے تھے



«فَلَعَنَ اللهُ السُّفَهَاءَ لِرُکُوبِ الْمَعَاصِی وَ الْحُلَمَاءَ (الحکماء) لِتَرْکِ التَّنَاهِی۴۲۶
چنانچہ اللہ نے بے وقوفوں پر ارتکاب گناہ کی وجہ سے اور دانشمندوں پر خطاؤں سے باز نہ آنے کے سبب سے لعنت کی ہے



«أَلَا وَ قَدْ قَطَعْتُمْ قَیْدَ الْإِسْلَامِ،»۴۲۷
دیکھو! تم نے اسلام کی پابندیاں توڑ دیں



«وَ عَطَّلْتُمْ حُدُودَهُ،»۴۲۸
اور اس کی حدیں بیکار کر دیں



«وَ أَمَتُّمْ أَحْکَامَهُ۴۲۹
اور اس کے احکام سرے سے ختم کر دیئے

۱۶. ثبات الامام في جهاد المنحرفين

«أَلَا وَ قَدْ أَمَرَنِیَ اللهُ بِقِتَالِ أَهْلِ الْبَغْیِ وَ النَّکْثِ وَ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ،»۴۳۰
معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ نے مجھے باغیوں، عہد شکنوں اور زمین میں فساد پھیلانے والوں سے جہاد کا حکم دیا



«فَأَمَّا النَّاکِثُونَ فَقَدْ قَاتَلْتُ،»۴۳۱
چنانچہ میں نے عہد شکنوں (اصحاب جمل)سے جنگ کی



«وَ أَمَّا الْقَاسِطُونَ فَقَدْ جَاهَدْتُ،»۴۳۲
نافرمانوں (اہل صفین ) سے جہاد کیا



«وَ أَمَّا الْمَارِقَةُ فَقَدْ دَوَّخْتُ،»۴۳۳
اور بے دینوں (خوارج نہروان ) کو بھی پوری طرح ذلیل کرکے چھوڑا



«وَ أَمَّا شَیْطَانُ الرَّدْهَةِ فَقَدْ کُفِیتُهُ بِصَعْقَة سُمِعَتْ لَهَا وَجْبَةُ قَلْبِهِ وَ رَجَّةُ صَدْرِهِ،»۴۳۴
مگر گڑھے (میں گر کر مرنے) والا شیطان، میرے لئے اس کی مہم سر ہو گئی، ایک ایسی چنگھاڑ کے ساتھ کہ جس میں اس کے دل کی دھڑکن اور سینے کی تھرتھری کی آواز میرے کانوں میں پہنچ رہی تھی



«وَ بَقِیَتْ بَقِيَّةٌ مِنْ أَهْلِ الْبَغْیِ۴۳۵
اب باغیوں میں سے کچھ رہے سہے باقی رہ گئے ہیں



«وَ لَئِنْ أَذِنَ اللهُ فِي الْکَرَّةِ عَلَيْهِمْ لَاَدِیلَنَّ مِنْهُمْ»۴۳۶
اگر اللہ نے پھر مجھے ان پر دھاوا بولنے کی اجازت دی تو میں انہیں تہس نہس کر کے دولت و سلطنت کا رخ دوسری طرف موڑ دوں گا



«إِلَّا مَا یَتَشَذَّرُ فِي أَطْرَافِ الْأَرْضِ تَشَذُّراً(۷)۴۳۷
(پھر) وہی لوگ بچ سکیں گے جو مختلف شہروں کی دور و دراز حدوں میں تتر بتر ہوچکے ہوں گے

۱۷. شجاعة الامام (عليه‌السلام) و فضائله

«أَنَا وَضَعْتُ فِي الصِّغَرِ بِکَلَاکِلِ الْعَرَبِ،»۴۳۸
میں نے تو بچپن ہی میں عرب کا سینہ پیوند زمین کر دیا تھا



«وَ کَسَرْتُ نَوَاجِمَ قُرُونِ رَبِیعَةَ وَ مُضَرَ۴۳۹
اور قبیلہ ربیعہ و مضر کے ابھرے ہوئے سینگوں کو توڑ دیا تھا



«وَ قَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِی مِنْ رَسُولِ اللهِ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ‌وَسَلَّمَ) بِالْقَرَابَةِ الْقَرِیبَةِ، وَ الْمَنْزِلَةِ الْخَصِیصَةِ۴۴۰
تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہ ﷺ سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام ان کے نزدیک کیا تھا



«وَضَعَنِی فِي حِجْرِهِ وَ أَنَا وَلیدٌ»(۸)۴۴۱
میں بچہ ہی تھا کہ رسول ﷺ نے مجھے گود میں لے لیا تھا



«یَضُمُّنِی إِلَى صَدْرِهِ،»۴۴۲
اپنے سینے سے چمٹائے رکھتے تھے



«وَ یَکْنُفُنِی فِي فِرَاشِهِ،»۴۴۳
بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے



«وَ یُمِسُّنِی جَسَدَهُ،»۴۴۴
اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کرتے تھے



«وَ یُشِمُّنِی عَرْفَهُ۴۴۵
اور اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے تھے



«وَ کَانَ یَمْضَغُ الشَّیْءَ ثُمَّ یُلْقِمُنِیهِ،»۴۴۶
پہلے آپؐ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے



«وَ مَا وَجَدَ لِي کَذْبَةً فِي قَوْل، وَ لَا خَطْلَةً فِي فِعْل۴۴۷
انہوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی



«وَ لَقَدْ قَرَنَ اللهُ بِهِ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ‌وَسَلَّمَ) مِنْ لَدُنْ»۴۴۸
اللہ نے آپؐ کی دودھ بڑھائی کے وقت ہی سے



«أَنْ کَانَ فَطِیماً أَعْظَمَ مَلَک مِنْ مَلَائِکَتِهِ،»۴۴۹
فرشتوں میں سے ایک عظیم المرتبت ملک (روح القدس) کو آپؐ کے ساتھ لگا دیا تھا



«یَسْلُکُ بِهِ طَرِیقَ الْمَکَارِمِ، وَ مَحَاسِنَ أَخْلَاقِ الْعَالَمِ، لَیْلَهُ وَ نَهَارَهُ۴۵۰
جو انہیں شب و روز بزرگ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں کی راہ پر لے چلتا تھا



«وَ لَقَدْ کُنْتُ أَتَّبِعُهُ اتِّبَاعَ الْفَصِیلِ أَثَرَ أُمِّهِ،»۴۵۱
اور میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے



«یَرْفَعُ لِي فِي كُلِّ یَوْم مِنْ أَخْلَاقِهِ عَلَماً،»۴۵۲
آپؐ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے تھے



«وَ یَأْمُرُنِی بِالْإِقْتِدَاءِ بِهِ.»۴۵۳
اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے



«وَ لَقَدْ کَانَ یُجَاوِرُ فِي كُلِّ سَنَة بِحِرَاءَ»۴۵۴
اور ہر سال (کوہ)حرا میں کچھ عرصہ قیام فرماتے تھے



«فَأَرَاهُ،»۴۵۵
میں ان کو دیکھتا



«وَ لَا یَرَاهُ غَیْرِی۴۵۶
اور وہاں میرے علاوہ کوئی انہیں نہیں دیکھتا تھا



«وَ لَمْ یَجْمَعْ بَیْتٌ وَاحِدٌ يَوْمَئِذ فِي الْإِسْلَامِ غَیْرَ رَسُولِ اللهِ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ‌وَسَلَّمَ) وَ خَدِیجَةَ»۴۵۷
اس وقت رسول اللہ ﷺ اور (اُمّ المومنین) خدیجہؑ کے گھر کے علاوہ کسی گھر کی چار دیواری میں اسلام نہ تھا



«وَ أَنَا ثَالِثُهُمَا۴۵۸
البتہ تیسرا ان میں مَیں تھا



«أَرَی نُورَ الْوَحْیِ وَ الرِّسَالَةِ،»۴۵۹
میں وحی و رسالت کا نور دیکھتا تھا



«وَ أَشُمُّ رِیحَ النُّبُوَّةِ۴۶۰
اور نبوت کی خوشبو سو نگھتا تھا



«وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّیْطَانِ حِینَ نَزَلَ الْوَحْیُ عَلَيْهِ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ‌وَسَلَّمَ)»۴۶۱
جب آپؐ پر (پہلے پہل) وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی



«فَقُلْتُ: «يَا رَسُولَ اللهِ مَا هذِهِ الرَّنَّةُ؟»»۴۶۲
جس پر میں نے پوچھا کہ: یا رسول اللہؐ! یہ آواز کیسی ہے؟



«فَقَالَ: «هذَا الشَّیْطَانُ»۴۶۳
آپؐ نے فرمایا کہ: «یہ شیطان ہے



«قَدْ أَیِسَ مِنْ عِبَادَتِهِ۴۶۴
کہ جو اپنے پوجے جانے سے مایوس ہو گیا ہے



«إِنَّكَ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ،»۴۶۵
(اے علیؑ!) جو میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو



«وَ تَرَی مَا أَرَی،»۴۶۶
اور جو میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو



«إِلَّا أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِیٍّ،»۴۶۷
فرق اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو



«وَلكِنَّكَ لَوَزِیرٌ وَ إِنَّكَ لَعَلَى خَیْر.»»۴۶۸
بلکہ (میرے) وزیر و جانشین ہو اور یقیناً بھلائی کی راہ پر ہو»

۱۸. عداوة قريش و غرورها

«وَ لَقَدْ کُنْتُ مَعَهُ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ‌وَسَلَّمَ) لَمَّا أَتَاهُ الْمَلَأَ مِنْ قُرَیْش،»۴۶۹
میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا کہ قریش کی ایک جماعت آپؐ کے پاس آئی



«فَقَالُوا لَهُ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّكَ قَدِ ادَّعَیْتَ عَظِیماً»۴۷۰
اور انہوں نے آپؐ سے کہا کہ: اے محمدؐ! آپؐ نے ایک بہت بڑا دعویٰ کیا ہے



«لَمْ یَدَّعِهِ آبَاؤُکَ وَ لَا أَحَدٌ مِنْ بَیْتِکَ،»۴۷۱
ایسا دعویٰ نہ تو آپؐ کے باپ دادا نے کیا نہ آپؐ کے خاندان والوں میں سے کسی اور نے کیا



«وَ نَحْنُ نَسْأَلُکَ أَمْراً إِنْ أَنْتَ أَجَبْتَنَا إِلَيْهِ وَ أَرَیْتَنَاهُ،»۴۷۲
ہم آپؐ سے ایک امر کا مطالبہ کرتے ہیں، اگر آپؐ نے اسے پورا کر کے ہمیں دکھلا دیا



«عَلِمْنَا أَنَّكَ نَبِیٌّ وَ رَسُولٌ،»۴۷۳
تو پھر ہم بھی یقین کر لیں گے کہ آپؐ نبی و رسول ہیں



«وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ عَلِمْنَا أَنَّكَ سَاحِرٌ کَذَّابٌ۴۷۴
اور اگر نہ کر سکے تو ہم جان لیں گے کہ (معاذ اللہ!) آپؐ جادوگر اور جھوٹے ہیں



«فَقَالَ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ‌وَسَلَّمَ) : «وَ مَا تَسْأَلُونَ؟»»۴۷۵
حضرتؐ نے فرمایا کہ: «وہ تمہارا مطالبہ ہے کیا»؟



«قَالُوا: تَدْعُو لَنَا هذِهِ الشَّجَرَةَ»۴۷۶
انہوں نے کہا کہ آپؐ ہمارے لئے اس درخت کو پکاریں



«حَتَّى تَنْقَلِعَ بِعُرُوقِهَا»۴۷۷
کہ یہ جڑ سمیت اکھڑ آئے



«وَ تَقِفَ بَیْنَ یَدَیْکَ۴۷۸
اور آپؐ کے سامنے آ کر ٹھہر جائے



«فَقَالَ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ‌وَسَلَّمَ):»۴۷۹
آپؐ نے فرمایا:



««إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَیْء قَدِیرٌ،»۴۸۰
«بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے



«فَإِنْ فَعَلَ اللهُ لَكُمْ ذلِكَ،»۴۸۱
اگر اس نے تمہارے لئے ایسا کر دکھایا



«أَ تُؤْمِنُونَ وَ تَشْهَدُونَ بِالْحَقِّ؟»»۴۸۲
تو کیا تم ایمان لے آؤ گے اور حق کی گواہی دو گے»



«قَالُوا: نَعَمْ.»۴۸۳
انہوں نے کہا کہ: ہاں!



«قَالَ: «فَإِنِّي سَأُرِیکُمْ مَا تَطْلُبُونَ،»۴۸۴
آپؐ نے فرمایا کہ: «اچھا! جو تم چاہتے ہو تمہیں دکھائے دیتا ہوں



«وَ إِنِّي لّأَعْلَمُ أَنَّكُمْ لَا تَفِیئُونَ إِلَى خَیْر،»۴۸۵
اور میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم بھلائی کی طرف پلٹنے والے نہیں ہو



«وَ إِنَّ فِيكُمْ مَنْ یُطْرَحُ فِي الْقَلِیبِ،»۴۸۶
یقیناً تم میں کچھ لوگ تو وہ ہیں جنہیں چاہ (بدر) میں جھونک دیا جائے گا (جنگ بدر میں)



«وَ مَنْ یُحَزِّبُ الْأَحْزَابَ»»۴۸۷
اور کچھ وہ ہیں جو (جنگ) احزاب میں جتھا بندی کریں گے»



«ثُمَّ قَالَ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ‌وَسَلَّمَ):»۴۸۸
پھر آپؐ نے فرمایا:



««يَا أَيَّتُهَا الشَّجَرَةُ إِنْ کُنْتِ تُؤْمِنِینَ بِاللهِ وَ الْیَوْمِ الآخِرِ،»۴۸۹
«اے درخت! اگر تو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے



«وَ تَعْلَمِینَ أَنِّي رَسُولُ الله،»۴۹۰
اور یہ یقین رکھتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں



«فَانْقَلِعِی بِعُرُوقِکِ حَتَّى تَقِفِی بَیْنَ یَدَیَّ بِإِذْنِ اللهِ»»۴۹۱
تو اپنی جڑ سمیت اُکھڑ آ، یہاں تک کہ تو بحکم خدا میرے سامنے آ کر ٹھہر جائے»



«فَوَ الَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ»۴۹۲
(رسول ﷺ کا یہ فرمانا تھا کہ) اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا!



«لَانْقَلَعَتْ بِعُرُوقِهَا،»۴۹۳
وہ درخت جڑ سمیت اکھڑ آیا



«وَ جَاءَتْ وَ لَهَا دَوِیٌّ شَدِیدٌ، وَ قَصْفٌ کَقَصْفِ أَجْنِحَةِ الطَّیْرِ۴۹۴
اور اس طرح آیا کہ اس سے سخت کھڑکھڑاہٹ اور پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کی سی آواز آتی تھی



«حَتَّى وَقَفَتْ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللهِ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ‌وَسَلَّمَ) مُرَفْرِفَةً،»۴۹۵
یہاں تک کہ وہ لچکتا جھومتا ہوا رسول اللہ ﷺ کے رو برو آ کر ٹھہر گیا



«وَ أَلْقَتْ بِغُصْنِهَا الْأَعْلَی عَلَى رَسُولِ اللهِ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ‌وَسَلَّمَ) و بِبَعْضِ أغْصَانِهَا عَلى مَنْکِبی»۴۹۶
اور بلند شاخیں ان پر اور کچھ شاخیں میرے کندھے پر ڈال دیں



«وَ کُنْتُ عَنْ یَمَینِهِ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ‌وَسَلَّمَ)،»۴۹۷
اور میں آپؐ کی دائیں جانب کھڑا تھا



«فَلَمَّا نَظَرَ الْقَوْمُ إِلَى ذلِكَ،»۴۹۸
جب قریش نے یہ دیکھا



«قَالُوا ـ عُلُوّاً وَ اسْتِکْبَاراً ـ :»۴۹۹
تو نخوت و غرور سے کہنے لگے



«فَمُرْهَا فَلْیَأْتِکَ نِصْفُهَا»۵۰۰
کہ اسے حکم دیں کہ آدھا آپؐ کے پاس آئے



«وَ یَبْقَی نِصْفُهَا۵۰۱
اور آدھا اپنی جگہ پر رہے



«فَأَمَرَهَا بِذلِكَ،»۵۰۲
چنانچہ آپؐ نے اسے یہی حکم دیا



«فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ نِصْفُهَا کَأَعْجَبِ إِقْبَال وَ أَشَدِّهِ دَوِیّاً،»۵۰۳
تو اس کا آدھا حصہ آپؐ کی طرف بڑھ آیا، اس طرح کہ اس کا آنا (پہلے آنے سے بھی) زیادہ عجیب صورت سے اور زیادہ تیز آواز کے ساتھ تھا



«فَکَادَتْ تَلْتَفُّ بِرَسُولِ اللهِ (صَلَّی‌اللّهُ‌عَلَیْهِ‌وَآلِهِ‌وَسَلَّمَ).»۵۰۴
اور اب کے قریب تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے لپٹ جائے



«فَقَالُوا ـ کُفْراً وَ عُتُوّاً ـ :»۵۰۵
اب انہوں نے کفر و سرکشی سے کہا:



«فَمُرْ هذَا النِّصْفَ فَلْیَرْجِعْ إِلَى نِصْفِهِ كَمَا کَانَ،»۵۰۶
اچھا اب اس آدھے کو حکم دیجیے کہ یہ اپنے دوسرے حصے کے پاس پلٹ جائے جس طرح پہلے تھا



«فَأَمَرَهُ (صَلَّى‌اللّهُ‌عَلَيْهِ‌وَآلِهِ‌وَسَلَّمَ) فَرَجَعَ۵۰۷
چنانچہ آپؐ نے حکم دیا اور وہ پلٹ گیا



«فَقُلْتُ أَنَا: لَا إِلهَ إِلَّا اللهُ۵۰۸
میں نے (یہ دیکھ کر) کہا کہ: لاالہ الا اللہ



«إِنِّي أَوَّلُ مُؤْمِن بِكَ يَا رَسُولَ اللهِ،»۵۰۹
اے اللہ کے رسولؐ! میں آپؐ پر سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں



«وَ أَوَّلُ مَنْ أَقَرَّ»۵۱۰
اور سب سے پہلے اس کا اقرار کرنے والا ہوں



«بِأَنَّ الشَّجَرَةَ فَعَلَتْ مَا فَعَلَتْ بِأَمْرِ اللهِ تَعَالی»۵۱۱
کہ اس درخت نے بحکم خدا



«تَصْدِیقاً بِنُبُوَّتِکَ،»۵۱۲
اور آپؐ کے کلام کی عظمت و برتری دکھانے کیلئے



«وَ إِجْلَالاً لِکَلِمَتِکَ۵۱۳
جو کچھ کیا ہے وہ امر واقعی ہے (کوئی آنکھ کا پھیر نہیں)



«فَقَالَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ:»۵۱۴
یہ سن کر وہ ساری قوم کہنے لگی:



«بَلْ سَاحِرٌ کَذَّابٌ،»۵۱۵
یہ (پناہ بخدا!) پرلے درجے کے جھوٹے اور جادوگر ہیں



«عَجِیبُ السِّحْرِ خَفِیفٌ فِيهِ،»۵۱۶
ان کا سحر عجیب و غریب ہے اور ہیں بھی اس میں چابک دست



«وَ هَلْ یُصِدِّقُکَ فِي أَمْرِکَ إِلَّا مِثْلُ هذَا! (یَعْنُونَنِی۵۱۷
اس امر پر آپؐ کی تصدیق ان جیسے ہی کر سکتے ہیں اور اس سے مجھے مراد لیا۔

۱۹. نموذج المؤمن الكامل

«وَ إِنِّي لَمِنْ قَوْم لَا تَأْخُذُهُمْ فِي اللهِ لَوْمَةُ لَائِم،»۵۱۸
(جو چاہیں کہیں) میں تو اس جماعت میں سے ہوں کہ جن پر اللہ کے بارے میں کوئی ملامت اثر انداز نہیں ہوتی



«سِیَماهُمْ سِیَما الصِّدِّیقِینَ،»۵۱۹
وہ جماعت ایسی ہے جن کے چہرے سچوں کی تصویر



«وَ کَلَامُهُمْ کَلَامُ الْأَبْرَارِ،»۵۲۰
اور جن کا کلام نیکوں کے کلام کا آئینہ دار ہے



«عُمَّارُ اللَّیْلِ»۵۲۱
وہ شب زندہ دار



«وَ مَنَارُ النَّهَارِ۵۲۲
دن کے روشن مینار



«مُتَمَسِّکُونَ بِحَبْلِ الْقُرْآنِ۵۲۳
اور خدا کی رسی سے وابستہ ہیں



«یُحْیُونَ سُنَنَ اللهِ وَ سُنَنَ رَسُولِهِ۵۲۴
یہ لوگ اللہ کے فرمانوں اور پیغمبر ﷺ کی سنتوں کو زندگی بخشتے ہیں



«لَا یَسْتَکْبِرُونَ وَ لَا یَعْلُونَ،»۵۲۵
نہ سر بلندی دکھاتے ہیں



«وَ لَا یَغُلُّونَ وَ لَا یُفْسِدُونَ۵۲۶
نہ خیانت کرتے ہیں اور نہ فساد پھیلاتے ہیں



«قُلُوبُهُمْ فِي الْجِنَانِ،»۵۲۷
ان کے دل جنت میں اٹکے ہوئے



«وَ أَجْسَادُهُمْ فِي الْعَمَلِ۵۲۸
اور جسم اعمال میں لگے ہوئے ہیں۔



(۱) ص/سوره۳۸، آیات۷۱-۷۴۔    
(۲) حجر/سوره۱۵، آیت۳۹۔    
(۳) مؤمنون/سوره۲۳، آیات۵۵-۵۶۔    
(۴) کچھ نسخوں میں «لَخَفَّفَ ذلِكَ مُصَارَعَةَ الشَّکِّ...» وارد ہوا ہے۔
(۵) سبأ/سوره۳۴، آیت۳۵۔    
(۶) کچھ نسخوں میں «... لَزِمَتِ الْعِزَّةُ بِهِ شَأْنَهُمْ،» وارد ہوا ہے۔
(۷) کچھ نسخوں میں «... فِي أَطْرَافِ الْبِلَادِ ...» وارد ہوا ہے۔
(۸) کچھ نسخوں میں «... وَ أَنَا وَلَدٌ» وارد ہوا ہے۔




جعبه ابزار