• خواندن
  • نمایش تاریخچه
  • ویرایش
 

غریب ۳ نہج البلاغہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



خرابی کی رپورٹ



اِجْتِنَابُ الْعَدَاوَةِ
دشمنی سے پرہیز

في حديثه (عَلَيْهِ‌السَّلامُ):
امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت ہے:

«إنَّ لِلْخُصُومَةِ قُحَماً۱
لڑائی جھگڑے کا نتیجہ قحم ہوتے ہیں۔

يُريدُ بِالْقُحَمِ الْمَهالِكَ، لاَِنَّها تُقْحِمُ اَصْحابَها فِى الْمَهالِكِ وَ الْمَتالِفِ فِى الاَْكْثَرِ، وَ مِنْ ذلِكَ قُحْمَةُ الاَْعْرابِ، وَ هُوَ اَنْ تُصيبَهُمُ السَّنَةُ فَتَتَعَرَّقَ اَمْوالَهُمْ، فَذلِكَ تَقَحُّمُها فيهِمْ. وَ قيلَ فيهِ وَجْهٌ آخَرُ وَ هُوَ اَنَّها تُقْحِمُهُمْ بِلادَ الرّيفِ، اَىْ تُحْوِجُهُمْ اِلى دُخُولِ الْحَضَرِ عِنْـدَ مُحُـولِ الْبَـدْوِ.
(سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ:) قحم سے تباہیاں مراد ہیں، کیونکہ (اِقحام کے معنی دھکیلنے کے ہیں اور) لڑائی جھگڑا عموماً لڑنے جھگڑنے والوں کو مہلکوں اور تباہیوں میں دھکیل دیتا ہے۔ اور اسی سے قحمۃ الاعراب (کا لفظ) ماخوذ ہے اور وہ یہ ہوتی ہے کہ بادیہ نشین عرب خشک سالیوں میں اس طرح مبتلا ہو جائیں کہ ان کے چوپائے صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو کر رہ جائیں اور یہی اس بلا کا انہیں دھکیل دینا ہے۔ اور اس کی ایک اور بھی توجیہ کی گئی ہے اور وہ یہ کہ: سختی و شدت چونکہ انہیں شاداب حصوں کی طرف دھکیل دیتی ہے، یعنی صحرائی زندگی کی سختی و قحط سالی انہیں شہروں میں چلے جانے پر مجبور کر دیتی ہے، (اس لئے اسے قحمة کہا جاتا ہے)۔





جعبه ابزار