خرابی کی رپورٹ
تَكَفُّلُ أُمُورِ النِّسَاءِ عورتوں کے امور کی ذمہ داری
في حديثه (عَلَيْهِالسَّلامُ): امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت ہے:
«إِذَا بَلَغَ النِّسَاءُ نَصَّ الْحِقَاقِ فَالْعَصَبَةُ أَوْلَی.»۱جب لڑکیاں نص الحقائق کو پہنچ جائیں تو ان کیلئے ددہیالی رشتہ دار زیادہ حق رکھتے ہیں۔
وَ يُرْوى «نَصَّ الْحَقائِقِ». وَ النَّصُّ: مُنْتَهَى الاَْشْياءِ وَ مَبْلَغُ اَقْصاها كَالنَّصِّ فِى السَّيْرِ، لاَِنَّهُ اَقْصى ما تَقْدِرُ عَلَيْهِ الدّابَّةُ. وَ تَقُولُ: «نَصَصْتُ الرَّجُلَ عَنِ الاَْمْر» اِذَا اسْتَقْصَيْتَ مَسْاَلَتَهُ عَنْهُ لِتَسْتَخْرِجَ ما عِنْدَهُ فيهِ. سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: نص الحقائق کی جگہ نص الحقاق بھی وارد ہوا ہے۔ نص چیزوں کی انتہا اور ان کی آخری حد کو کہتے ہیں۔ جیسے چوپایہ کی وہ انتہائی رفتار کہ جو وہ دوڑ سکتا ہے نص کہلاتی ہے اور یونہی نَصَصْتُ الرَّجُلَ عَنِ الْاَمْرِ اس موقع پر کہا جائے گا جب کسی شخص سے پوری طرح پوچھ گچھ کرنے کے بعد اس سے سب کچھ اگلوا لیا ہو۔ فَنَصُّ الْحِقاقِ يُريدُ بِهِ الاِْدْراكَ، لاَِنَّهُ مُنْتَهَى الصِّغَرِ، وَ الْوَقْتُ الَّذى يَخْرُجُ مِنْهُ الصَّغيرُ اِلى حَدِّ الْكَبيرِ. وَ هُوَ مِنْ اَفْصَحِ الْكِناياتِ عَنْ هذَا الاَْمْرِ وَ اَغْرَبِها. تو حضرتؑ نے نص الحقاق سے حد کمال تک پہنچنا مراد لیا ہے کہ جو بچپن کی حد آخر اور وہ زمانہ ہوتا ہے کہ کم سن کم سنی کے حدود سے نکل کر بڑوں کی صف میں داخل ہوتا ہے اور یہ بلوغ کیلئے نہایت فصیح اور بہت عجیب کنایہ ہے۔ يَقُولُ: فَاِذا بَلَغَ النِّساءُ ذلِكَ فَالْعَصَبَةُ اَوْلى بِالْمَرْاَةِ مِنْ اُمِّها اِذا كانُوا مَحْرَماً مِثْلَ الاِْخْوَةِ وَ الاَْعْمامِ، وَ بِتَزْويجِها اِنْ اَرادُوا ذلِكَ. حضرتؑ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ: جب لڑکیاں اس حد تک پہنچ جائیں تو ددہیالی رشتہ دار جبکہ وہ محرم بھی ہوں، جیسے بھائی اور چچا، وہ ان کا رشتہ کہیں کرنا چاہیں تو وہ ان کی ماں سے زیادہ رشتہ کے انتخاب کا حق رکھتے ہیں۔
وَ الْحِقاقُ مُحاقَّةُ الاُْمِّ لِلْعَصَبَةِ فِى الْمَرْاَةِ، وَ هُوَ الْجِدالُ وَالْخُصُومَةُ وَ قَوْلُ كُلِّ واحِد مِنْهُما لِلاْخَرِ: «اَنَا اَحَقُّ مِنْكَ بِهذا». يُقالُ مِنْهُ: «حاقَقْتُهُ حِقاقاً» مِثْلَ «جادَلْتُهُ جِدالاً». وَ قَدْ قيلَ: اِنَّ نَصَّ الْحِقاقِ بُلُوغُ الْعَقْلِ، وَ هُوَ الاِْدْراكُ، لاَِنَّهُ عَلَيْهِ السّلامُ اِنَّما اَرادَ مُنْتَهَى الاَْمْرِ الَّذى تَجِبُ فيهِ الْحُقُوقُ وَالاَْحْكامُ. وَ مَنْ رَواهُ «نَصَّ الْحَقائِقِ» فَاِنَّما اَرادَ جَمْعَ حَقيقَة. اور حقاق سے (لڑکی کی) ماں کا ددہیالی رشتہ داروں سے جھگڑنا مراد ہے اور ہر ایک کا اپنے کو دوسرے سے زیادہ حقدار ثابت کرنا ہے۔ اور اسی سے حاققتہ حقاقا بر وزن جادلتہ جدالا ہے۔ یعنی میں نے اس سے لڑائی جھگڑا کیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ نص الحقاق سے مراد بلوغ، عقل اور حد رشد و کمال تک پہنچنا ہے۔ کیونکہ حضرتؑ نے وہ زمانہ مراد لیا ہے کہ جس میں لڑکی پر حقوق و فرائض عائد ہو جاتے ہیں اور جس نے نص الحقائق کی روایت کی ہے اس نے حقائق کو حقیقت کی جمع لیا ہے۔ هذا مَعْنى ما ذَكَرَهُ اَبُوعُبَيْد الْقاسِمُ بْنُ سَلاّم، وَ الَّذى عِنْدى اَنَّ الْمُرادَ بِنَصِّ الْحِقاقِ ههُنا بُلُوغُ الْمَرْاَةِ اِلَى الْحَدِّ الَّذى يَجُوزُ فيهِ تَزْويجُها وَ تَصَرُّفُها فى حُقُوقِها، تَشْبيهاً بِالْحِقاقِ مِنَ الاِْبِلِ وَ هِىَ جَمْعُ حِقَّة وَ حِقٍّ، وَ هُوَ الَّذِى اسْتَكْمَلَ ثَلاثَ سِنينَ وَ دَخَلَ فِى الرّابِعَةِ، وَ عِنْدَ ذلِكَ يَبْلُغُ اِلَى الْحَدِّ الَّذى يُتَمَكَّنُ فيهِ مِنْ رُكُوبِ ظَهْرِهِ وَ نَصِّهِ فِى سَيْرِهِ. وَالْحَقائِقُ اَيْضاً جَمْعُ حِقَّة. فَالرِّوايَتانِ جَميعاً تَرْجِعانِ اِلى مَعْنىً واحِد، وَ هذا اَشْبَهُ بِطَريقَةِ الْعَرَبِ مِنَ الْمَعْنَى الْمَذْكُورِ اَوَّلاً. یہ مفاد ہے اس کا جو ابوعبیدہ قاسم ابن سلام نے کہا ہے۔ مگر میرے خیال میں اس مقام پر نص الحقاق سے مراد یہ ہے کہ لڑکیاں اس حد تک پہنچ جائیں کہ جس میں ان کیلئے عقد اور اپنے حقوق کا خود استعمال جائز ہوتا ہے۔ اس طرح اسے سہ سالہ اونٹنیوں سے تشبیہ دی گئی ہے اور حقاق، حق اور حقّۃ کی جمع ہے۔ یہ اس اونٹنی اور اونٹ کو کہتے ہیں جو تین سال ختم کرنے کے بعد چوتھے سال میں داخل ہو، اور اونٹ اس عمر میں سواری اور تیز دوڑانے کے قابل ہو جاتے ہیں اور حقائق بھی حقّہ کی جمع ہے۔ اس بنا پر دونوں روایتوں کے ایک ہی معنی ہوں گے۔ اور یہ معنی جو ہم نے بیان کئے ہیں، پہلے معنی سے زیادہ اسلوب کلامِ عرب سے میل کھاتے ہیں۔