• خواندن
  • نمایش تاریخچه
  • ویرایش
 

غریب ۶ نہج البلاغہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



خرابی کی رپورٹ



ضَرُورَةُ دَفْعِ الزَّكَاةِ
زکات ادا کرنے کی ضرورت

في حديثه (عَلَيْهِ‌السَّلامُ):
امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت ہے:

«إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا کَانَ لَهُ الدَّيْنُ الظَّنُونُ»۱
جو شخص کوئی «دین ظنون» وصول کرے



«یَجِبُ عَلَيْهِ أَنْ یُزَکِّیَهُ لِمَا مَضَی إِذَا قَبَضَهُ۲
تو جتنے سال اس پر گزرے ہوں گے ان کی زکوٰة دینا ضروری ہے۔

فَالظَّنُونُ الَّذى لايَعْلَمُ صاحِبُهُ اَيَقْبِضُهُ مِنَ الَّذى هُوَ عَلَيْهِ اَمْ لا، فَكَاَنَّهُ الَّذى يُظَنُّ بِهِ، فَمَرَّةً يَرْجُوهُ وَ مَرَّةً لايَرْجُوهُ. وَ هذا مِنْ اَفْصَح ِ الْكَلامِ.
(سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ:) «دین ظنون» وہ قرضہ ہوتا ہے کہ قرض خواہ یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ وہ اسے وصول ہو گا یا نہیں، کبھی امید پیدا ہو اور کبھی نا امیدی۔ اور یہ بہت فصیح کلام ہے۔

وَ كَذلِكَ كُلُّ اَمْر تَطْلُبُهُ وَ لاتَدْرى عَلى اَىِّ شَىْء اَنْتَ مِنْهُ فَهُوَ ظَنُونٌ. وَ عَلى ذلِكَ قَوْلُ الاَْعْشى:
یونہی ہر وہ چیز جس کی تمہیں طلب ہو اور یہ نہ جان سکو کہ تم اسے حاصل کرو گے یا نہیں، وہ «ظنون» کہلاتی ہے۔ چنانچہ اعشیٰ کا یہ قول اسی معنی کا حامل ہے جس کا مضمون یہ ہے:

ما يُجْعَلُ الْجُدُّ الظَّنُونُ الَّذى ••• جُنِّبَ صَوْبَ اللَّجِبِ الْماطِرِ
وہ «جد ظنون» جو گرج کر برسنے والے اَبر کی بارش سے بھی محروم ہو

مِثْلَ الْفُراتِىِّ اِذا ما طَما ••• يَقْذِفُ بِالْبُوصِىِّ وَ الْماهِرِ
دریائے فرات کے مانند نہیں قرار دیا جا سکتا جبکہ وہ ٹھاٹھیں مار رہا ہو اور کشتی اور اچھے تیراک کو دھکیل کر دور پھینک رہا ہو۔

وَ الْجُدُّ: الْبِئْرُ الْعادِيَةُ فِى الصَّحْراءِ.
«جد» پرانے کنوئیں کو کہتے ہیں جو کسی بیابان میں واقع ہو

وَ الظَّنُونُ: الَّتى لايُعْلَمُ هَلْ فيها ماءٌ اَمْ لا.
اور «ظنون» وہ ہے کہ جس کے متعلق یہ خبر نہ ہو کہ اس میں پانی ہے یا نہیں۔





جعبه ابزار