خرابی کی رپورٹ
الْأَمَلُ فِي الْاِنْتِصَارِ فتح کی امید
في حديثه (عَلَيْهِالسَّلامُ): امیرالمومنین علی علیہ السلام سے روایت ہے:
«كَالْيَاسِرِ الْفَالِجِ»۱وہ اس یاسر فالج کے مانند ہے
«یَنْتَظِرُ أَوَّلَ فَوْزة مِنْ قِدَاحِهِ.»۲جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے ہی داؤں میں کامیابی کا متوقع ہوتا ہے۔
الْياسِرُونَ: هُمُ الَّذينَ يَتَضارَبُونَ بِالْقِداحِ عَلَى الْجَزُورِ. (سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ:) یاسرون وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو نحر کی ہوئی اونٹنی پر جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینکتے ہیں۔ وَ الْفالِجُ: الْقاهِرُ الْغالِبُ، يُقالُ: قَدْ فَلَجَ عَلَيْهِمْ وَ فَلَجَهُمْ. اور فالج کے معنی جیتنے والے کے ہیں۔ یوں کہا جاتا ہے: قَدْ فَلَجَعَلَیْهِمْ وَ فَلَجَهُمْ (وہ ان پر غالب ہوا)۔ قالَ الرّاجزُ: لَمّا رَاَيْتُ فالِجاً قَدْ فَلَجا چنانچہ مشہور رجز نظم کرنے والے شاعر کا قول ہے: جب میں نے کسی فالج کو دیکھا کہ اس نے فلج حاصل کی۔