امام رضاؑ کی شہادتپی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریںامام علی بن موسی الرضاؑ شیعہ امامیہ کے آٹھویں پیشوا ہیں۔ راہ خدا میں شہادت تمام آئمہؑ کی مشترکہ فضیلت ہے۔ امام رضاؑ کی شہادت کے حوالے سے کتب میں مختلف روایات منقول ہیں کہ جن کا اس تحریر میں جائزہ لیا جائے گا۔ فہرست مندرجات۲ - امام رضاؑ کی شہادت کے حوالے سے روایات ۳ - شہادت کی عام روایت ۳.۱ - روایت کی سند کا جائزہ ۳.۱.۱ - محمد بن موسی بن متوکل ۳.۱.۲ - علی بن ابراہیم ۳.۱.۳ - ابراہیم بن ہاشم ۳.۱.۴ - ابو الصلت ہروی ۴ - خاص روایات ۴.۱ - شہادت کی روایات ۴.۱.۱ - پہلی روایت ۴.۱.۲ - دوسری روایت ۴.۱.۲.۱ - سند کا جائزہ ۴.۱.۳ - تیسری روایت ۴.۱.۳.۱ - سند کا جائزہ ۴.۱.۴ - چوتھی روایت ۴.۲ - شہادت کے وقوع کی روایات ۴.۲.۱ - پہلی روایت ۴.۲.۱.۱ - سند کا جائزہ ۴.۲.۲ - دوسری روایت ۴.۲.۳ - تیسری روایت ۵ - جمعبندی ۶ - حوالہ جات ۷ - ماخذ مقدمہ[ترمیم]کچھ روایات کی بنیاد پر تمام شیعہ آئمہؑ منجملہ امام رضاؑ کی زندگی کا اختتام شہادت پر ہوا۔ ان عمومی روایات کے علاوہ کچھ مخصوص روایات امام رضاؑ کی شہادت کے حوالے سے موجود ہیں۔ ان میں سے بعض کے مطابق آٹھویں امام نے اپنی شہادت کی خبر دی تھی اور بعض دوسری روایات حضرتؑ کی مامون عباسی کے ہاتھوں شہادت کی حکایت کرتی ہیں۔ اس مضمون پر مشتمل عام اور خاص روایات اچھی خاصی تعداد میں امامیہ کی روائی میراث میں موجود ہیں، یہاں تک کہ ان کی صحت پر اطمینان حاصل کیا جا سکتا ہے؛ اس کے ساتھ ساتھ ان میں سے چند روایات منفرد طور پر بھی علم رجال کے میزان کی رو سے معتبر ہیں۔ آٹھویں شیعہ امام ہونے کے عنوان سے امام رضاؑ کے بہت سے مناقب ہیں۔ راہ خدا میں شہادت تمام آئمہؑ منجملہ امام رضاؑ کی مشترکہ فضیلت ہے۔ اس تحریر میں چند امامیہ کتب سے مستند روایات پیش کی جائیں گی کہ جن میں حضرتؑ کی شہادت کا ذکر ہے۔ امام رضاؑ کی شہادت کے حوالے سے روایات[ترمیم]امام رضاؑ کی شہادت سے مربوط روایات؛ عام اور خاص دو اقسام میں تقسیم ہوتی ہیں۔ یہ تمام روایات امامیہ کی حدیثی و غیر حدیثی میراث میں موجود ہے۔ ان روایات کو ایک دوسرے کے ساتھ ضم کرنے سے ان کی درستگی پر اطمینان ہو جاتا ہے، اسی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کی سند کا علیٰحدہ علیٰحدہ جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح آگے چل کر بیان کیا جائے گا کہ موجودہ علم رجال کی رو سے اس موضوع پر متعدد معتبر روایات موجود ہیں۔ ہم شہادت کے موضوع پر ایک عام روایت اور چھ خاص روایات کو صرف ایک ماخذ یعنی شیخ صدوقؒ کی کتاب عیون اخبار الرضاؑ سے پیش کریں گے۔ یہ روایات ابوالصلت ہروی، یاسر الخادم اور ریان بن شبیب کے توسط سے ہم تک پہنچی ہیں۔ شہادت کی عام روایت[ترمیم]کچھ روایات کی بنا پر تمام معصومینؑ کی زندگی کا اختتام شہادت پر ہے۔ ان روایات کے مطابق یہ قبول کرنا ضروری ہے کہ امام رضاؑ کی زندگی بھی شہادت پر ختم ہوئی ہے۔ اس بارے میں روایات متعدد ہیں۔ کچھ روایات کے مطابق تمام معصومینؑ کی زندگی کا اختتام شہادت ہے۔ ان روایات کے مطابق یہ قبول کرنا ضروری ہے کہ امام رضاؑ کی زندگی کا اختتام بھی شہادت پر ہوا۔ اس بارے میں روایات متعدد ہیں، تاہم یہاں پر ہم ان روایات کے حوالے سے مستقل تحریر پیش کرنا چاہتے ہیں؛ لہٰذا امام رضاؑ کی جانب سے ایک معتبر سند کی حامل روایت پر اکتفا کریں گے۔ شیخ صدوقؒ اس روایت کو ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں: [۱]
القمی، ابی جعفر الصدوق، محمد بن علی بن الحسین بن بابویه (متوفای۳۸۱ه)، عیون اخبار الرضا (علیهالسّلام) ج۲، ص۲۵۶۔
عبد السلام بن صالح ہروی (امام رضاؑ کے خادم) کہتے ہیں: میں نے امام رضاؑ سے سنا کہ فرمایا: خدا کی قسم! ہم معصومینؑ میں سے کوئی نہیں ہے مگر یا مقتول ہے یا شہید ہے۔ ← روایت کی سند کا جائزہاس روایت کی سند نہایت معتبر و متقن ہے۔ آگے چل کر اس کا جائزہ لیں گے۔ ←← محمد بن موسی بن متوکلاس کے پہلے راوی مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی بْنِ الْمُتَوَکِّلِ ہیں۔ ان کی وثاقت ذیل کے قرائن سے ثابت ہے۔ اول یہ کہ: شیخ صدوقؒ نے ان سے متعدد روایات اپنی مختلف کتب میں نقل کی ہیں، ایسا امر ان کی نسبت شیخ صدوقؒ کے اعتماد و تائید کی علامت ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے کچھ علما کا یہ ماننا ہے کہ اگر ثقہ راوی بالخصوص کلینیؒ اور شیخ صدوقؒ ایک راوی سے زیادہ روایات نقل کرتے ہیں تو یہ راوی پر ان کے اعتماد کی علامت ہے [۲]
نگ: ترابی شهر رضایی، اکبر، پژوهشی در علم رجال، ص۳۴۵۔
اور بعض علما ان راویوں کو ثقہ قرار دیتے ہیں؛ منجملہ مرحوم آیت اللہ بروجردیؒ اپنے ایک قول میں نقل کرتے ہیں: [۳]
الفاضل اللنکرانی، نهایة التقریر فی مباحث الصلاة، تقریر بحث البروجردی، ج۳ ص۲۳۲، ناشر:مرکز فقه الائمة الاطهار علیهم السّلام۔
ظاہر یہ ہے کہ راوی کی وثاقت کو ان شاگردوں کے طریق سے کہ جنہوں نے اس سے حدیث اخذ کی ہے، حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پس جب حدیث اخذ کرنے والے شیخ طوسی، شیخ مفید، شیخ صدوقؒ اور ان جیسے بزرگ ہوں، بالخصوص یہ کہ اس راوی سے زیادہ روایات نقل کریں، تو اس راوی کی وثاقت میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔ دوم یہ کہ: سید بن طاؤس ان کی وثاقت کو متفق علیہ قرار دیتے ہیں۔ آیت اللہ خوئی اس بارے میں کہتے ہیں: [۴]
الموسوی الخوئی، السید ابو القاسم (متوفای۱۴۱۱ه)، معجم رجال الحدیث، ج۱۸، ص۳۰۰، الطبعة الخامسة، ۱۴۱۳ه ۱۹۹۲م۔
سید بن طاووس، کتاب فلاح السائل میں جہاں امام صادقؑ کی روایت "انه ما احب الله من عصاه" نقل کرتے ہیں؛ وہاں پر مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی بْنِ الْمُتَوَکِّلِ، کی وثاقت پر اتفاق کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ←← علی بن ابراہیمدوسرے راوی علی بن ابراہیم ہے۔ نجاشی اس بارے میں کہتے ہیں: علی بن ابراهیم بنهاشم ثقة فی الحدیث ثبت معتمد صحیح المذهب. [۵]
النجاشی الاسدی الکوفی، ابوالعباس احمد بن علی بن احمد بن العباس (متوفای۴۵۰ه)، فهرست اسماء مصنفی الشیعة المشتهر برجال النجاشی، ص۲۶۰، تحقیق:السید موسی الشبیری الزنجانی، ناشر:مؤسسة النشر الاسلامی قم، الطبعة:الخامسة، ۱۴۱۶ھ۔
علی بن ابراہیم حدیث میں ایک ثقہ، قابل اعتماد اور صحیح المذہب شخصیت ہیں۔ ←← ابراہیم بن ہاشماس سلسلے میں تیسرے راوی علی بن ابراہیم کے والد (ابراہیم بن ہاشم) ہیں۔ آیت اللہ خوئی ان کے سوانح حیات میں لکھتے ہیں: [۶]
الموسوی الخوئی، السید ابو القاسم (متوفای۱۴۱۱ه)، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۲۹۱، الطبعة الخامسة، ۱۴۱۳ه ۱۹۹۲م۔
ابراہیم بن ہاشم کی وثاقت میں کوئی تردید نہیں ہے کیونکہ: اولا: ان کے فرزند (علی بن ابراہیم) نے اپنی تفسیر میں ان سے روایت نقل کی ہے جبکہ وہ ملتزم تھے کہ اپنی تفسیر میں ثقہ افراد سے روایت نقل کریں گے۔ ثانیا: سید بن طاؤس نے دعویٰ کیا ہے ابراہیم بن ہاشم کی وثاقت اجماعی ہے۔ ثالثا: وہ پہلے فرد ہیں جو اہل بیتؑ کی احادیث کو قم لائے اور قمیوں کو ان کی روایات پر اعتماد تھا حالانکہ قمیوں میں ایسے افراد موجود تھے جو امرِ حدیث میں سخت گیر تھے، اگر وہ انہیں قابل اعتماد نہ سمجھتے تو اس طرح ان کی احادیث کو قبول نہ کرتے۔ ←← ابو الصلت ہرویاس سلسلے کے آخری راوی ابو الصّلت ہروی ہیں۔ نجاشی ان کی ان الفاظ میں تعریف کرتے ہیں: [۷]
النجاشی الاسدی الکوفی، ابوالعباس احمد بن علی بن احمد بن العباس (متوفی۴۵۰ه)، فهرست اسماء مصنفی الشیعة المشتهر برجال النجاشی، ص۲۴۵، تحقیق:السید موسی الشبیری الزنجانی، ناشر:مؤسسة النشر الاسلامی قم، الطبعة:الخامسة، ۱۴۱۶ھ۔
عبد السلام بن صالح ثقہ ہے اور ان کی احادیث درست ہیں۔ جیسا کہ آپ نے ملاحطہ کیا مذکورہ بالا روایت علم حدیث کے اعتبار سے معتبر ہے اور مقبول ہے۔ یہ روایت معصومینؑ کی شہادت کے اثبات کیلئے بذات خود کافی ہے۔ تاہم مزید اطمینان کیلئے اس تحریر میں مخصوص روایات بھی ذکر کریں گے۔ خاص روایات[ترمیم]امام رضاؑ کی شہادت کے حوالے سے مخصوص روایات کے دو حصے ہیں، ان میں سے کچھ روایات حضرتؑ کی مستقبل میں شہادت کی خبر دیتی ہیں اور ان میں سے کچھ مامون کے ہاتھوں امامؑ کی شہادت کی خبر دیتی ہیں۔ ہر حصے میں چند روایات بطور نمونہ ذکر کریں گے۔ ← شہادت کی روایاتچند روایات کے مطابق امام رضاؑ نے اپنی شہادت کی خبر دی ہے۔ امامیہ کے نزدیک معصومؑ جس واقعے کی خبر دیتے ہیں، وہ ضرور وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس بنا پر اگر امامؑ نے اپنی شہادت کی خبر دی ہو تو وہ حتما شہید ہوتے ہیں؛ اسی وجہ سے اس قبیل کی روایات کو امام رضاؑ کی شہادت کی سند قرار دیا جا سکتا ہے۔ آگے چل کر اس مضمون کی چار روایات کو نقل کریں گے۔ ←← پہلی روایت [۸]
القمی، ابی جعفر الصدوق، محمد بن علی بن الحسین بن بابویه (متوفای۳۸۱ه)، عیون اخبار الرضا (علیهالسّلام) ج۲، ص۲۵۶۔
عبد السّلام بن صالح ہروی (خادم امام رضاؑ) کہتے ہیں: میں نے امام رضاؑ سے سنا کہ فرمایا: ۔۔۔ زمانہ حاضر میں خدا کی بدترین مخلوق مجھے زہر سے قتل کرے گی۔ سند کا جائزہ یہ روایت وہی ہے جسے ہم نے شہادت کی کلی روایات کے سلسلے میں نقل کیا ہے۔ اس کے روات کے معتبر ہونے کو ہم وہاں ثابت کر چکے ہیں۔ ←← دوسری روایت [۹]
القمی، ابی جعفر الصدوق، محمد بن علی بن الحسین بن بابویه (متوفای۳۸۱ه)، عیون اخبار الرضا (علیهالسّلام)، ج۲، ص۲۶۱، تحقیق:تصحیح وتعلیق وتقدیم:الشیخ حسین الاعلمی، ناشر:مؤسسة الاعلمی للمطبوعات - بیروت – لبنان، سال چاپ:۱۴۰۴ - ۱۹۸۴ م۔
حسن بن علی وشاء کہتے ہیں: امام رضاؑ نے فرمایا کہ میں جلد ہی زہر سے قتل کر دیا جاؤں گا۔ ←←← سند کا جائزہمذکورہ بالا روایت کے راوی نہایت معتبر ہیں۔ آگے چل کر ان میں سے ہر ایک کے حالات زندگی کو نقل کریں گے۔ محمد بن الحسن بن اَحمدنجاشی نے ان کے بارے میں نقل کیا ہے: [۱۰]
النجاشی الاسدی الکوفی، ابوالعباس احمد بن علی بن احمد بن العباس (متوفای۴۵۰ه)، فهرست اسماء مصنفی الشیعة المشتهر برجال النجاشی، ص۳۸۳، تحقیق:السید موسی الشبیری الزنجانی، ناشر:مؤسسة النشر الاسلامی قم، الطبعة:الخامسة، ۱۴۱۶ھ۔
وہ شیخ، فقیہ، قمیوں کے بزرگ اور نہایت موثق ہیں۔ محمد بن الحسن الصفارانہوں نے صفار کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے: کان وجها فی اصحابنا القمیین، ثقة، عظیم القدر. [۱۱]
النجاشی الاسدی الکوفی، ابوالعباس احمد بن علی بن احمد بن العباس (متوفای۴۵۰ه)، فهرست اسماء مصنفی الشیعة المشتهر برجال النجاشی، ص۳۵۴، تحقیق:السید موسی الشبیری الزنجانی، ناشر:مؤسسة النشر الاسلامی قم، الطبعة:الخامسة، ۱۴۱۶ھ۔
وہ قمی اصحاب میں سے عظیم منزلت کے حامل ہیں، موثق اور عظیم انسان ہیں۔ احمد بن محمد بن عیسیٰشیخ طوسیؒ، احمد بن محمد بن عیسیٰ اشعری کے بارے میں یہ نقل کرتے ہیں: [۱۲]
الطوسی، الشیخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علی بن الحسن (متوفای۴۶۰ه)، الفهرست، ص۶۸، تحقیق:الشیخ جواد القیومی، ناشر:مؤسسة نشر الفقاهة، چاپخانه:مؤسسة النشر الاسلامی، الطبعة الاولی۱۴۱۷۔
ابو جعفر، احمد بن محمد بن عیسیٰ اہل قم کے بزرگ اور ان کے نزدیک عظیم مقام کے حامل ہیں الحسن بن علی الوشاءنجاشی ان کے بارے میں لکھتے ہیں: [۱۳]
النجاشی الاسدی الکوفی، ابوالعباس احمد بن علی بن احمد بن العباس (متوفای۴۵۰ه)، فهرست اسماء مصنفی الشیعة المشتهر برجال النجاشی، ص۳۹، تحقیق:السید موسی الشبیری الزنجانی، ناشر:مؤسسة النشر الاسلامی قم، الطبعة:الخامسة، ۱۴۱۶ھ۔
آپ امام رضاؑ کے صحابی اور امامیہ کے بزرگ ہیں۔ ←← تیسری روایت [۱۴]
القمی، ابی جعفر الصدوق، محمد بن علی بن الحسین بن بابویه (متوفای۳۸۱ه)، عیون اخبار الرضا علیه السلام، ج۱، ص۲۲۷۔
ابو الصلت کہتے ہیں: امام رضاؑ نے فرمایا: میں جلد زہر کی وجہ سے رحلت کر جاؤں گا اور ہارون کے نزدیک دفن کیا جاؤں گا۔ ←←← سند کا جائزہیہ روایت بھی اپنی جگہ قابل اعتماد راویوں سے منقول ہے۔ ان تمام کے حالات پہلے راوی کے سوا، اوپر بیان کیے جا چکے ہیں۔ پہلے راوی بھی ان میں سے ہیں کہ جن سے صدوقؒ نے متعدد روایات نقل کی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ امر شیخ صدوقؒ کے ان پر اعتماد کی علامت ہو سکتا ہے اور ہم نے کہا ہے کچھ علما کا یہ خیال ہے کہ اگر ثقہ راوی بالخصوص کلینیؒ اور شیخ صدوقؒ جیسے افراد ایک راوی سے بہت سی روایات نقل کریں تو یہ ان کے اس راوی پر اعتماد کی علامت ہے اور کچھ علما اس طرح کے افراد کو ثقہ قرار دیتے ہیں۔ علامہ حلیؒ شیخ صدوقؒ کے منصور بن حازم تک طریق کہ جن میں ’’ماجیلویہ‘‘ موجود ہے؛ کو معتبر اور صحیح طریق قرار دیتے ہیں۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ علامہ حلیؒ کی نگاہ میں بھی وہ مورد اعتماد ہے۔ علامہؒ کا متن یہ ہے: [۱۵]
الحلی الاسدی، جمال الدین ابو منصور الحسن بن یوسف بن المطهر (متوفای۷۲۶ه)، خلاصة الاقوال فی معرفة الرجال، ص۴۳۸، تحقیق:فضیلة الشیخ جواد القیومی، ناشر:مؤسسة نشر الفقاهة، الطبعة:الاولی، ۱۴۱۷ھ۔
صدوقؒ کا کتاب من لا یحضرہ الفقیہ میں منصور بن حازم تک طریق (سلسلہ راویان) درست اور صحیح ہے۔ ←← چوتھی روایت [۱۶]
القمی، ابی جعفر الصدوق، محمد بن علی بن الحسین بن بابویه (متوفای۳۸۱ه)، عیون اخبار الرضا (علیهالسّلام)، ج۲، ص۲۵۴۔
یاسر خادم کہتا ہے: امام رضاؑ نے فرمایا کہ مجھے زہر اور ظلم و ستم سے شہید کیا جائے گا۔ ← شہادت کے وقوع کی روایاتکچھ روایات کے مطابق امام رضاؑ خلیفہ وقت مامون عباسی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اس قبیل کی چند روایات ملاحظہ کیجئے: ←← پہلی روایت [۱۷]
القمی، ابی جعفر الصدوق، محمد بن علی بن الحسین بن بابویه (متوفای۳۸۱ه)، عیون اخبار الرضا (علیهالسّلام)، ج۲، ص۲۴۲۔
ابو الصلت کہتے ہیں: امام رضاؑ نے مجھے فرمایا: اس سرزمین کہ جہاں پر ہارون دفن ہے، جاؤ اور ہر کونے سے ایک ایک مٹھی مٹی میرے پاس لاؤ، میں گیا اور حسب منشا مٹی لے آیا، جب آپ کے سامنے پہنچا تو فرمایا: اس چار مٹھی خاک میں سے ایک ایک مجھے دو، میں نے حضرتؑ کو دی، آپؑ نے اسے سونگھا اور زمین پر گرا کر فرمایا: وہاں میرے لیے ایک قبر تیار کرو۔۔۔ ۔ اے ابا صلت! کل میں اس فاجر (مامون) کے پاس جاؤں گا، اگر وہاں سے برہنہ سر نکلا تو میرے ساتھ بات کرنا اور میں تمہارا جواب دوں گا؛ لیکن اگر میرا سر ڈھانپا ہو تو میرے ساتھ بات نہ کرو؛ ابو الصلت کہتا ہے: جب صبح ہوئی ۔۔۔ امامؑ مامون کے پاس گئے، مامون کے سامنے انگوروں کا طشت تھا ۔۔۔ اس نے امامؑ سے کہا کہ اس سے تناول کیجئے۔ امامؑ نے فرمایا: مجھے اس سے معاف رکھو، کہنے لگا: ضرور کھانا پڑے گا۔۔۔ امامؑ نے اس سے لے کر تین دانے منہ میں رکھے۔۔۔ پھر عبا سر پر ڈال کر باہر آ گئے، ابو صلت کہتا ہے: میں نے بات نہیں کی یہاں تک کہ گھر میں تشریف لے گئے اور فرمایا: دروازے بند کر دو۔۔۔اس وقت میں نے دیکھا کہ ایک خوبرو جوان امام جوادؑ گھر میں داخل ہوئے۔۔۔ پھر اپنے والد کے پاس گئے ۔۔۔ امام رضاؑ بھی اتنے میں شہادت پر فائز ہو گئے۔ ←←← سند کا جائزہاس روایت کے تمام راوی بھی معتبر ہیں۔ آخری طبقے یعنی صدوقؒ کے مشائخ کے سوا؛ دیگر راویوں کی وثاقت منجملہ علی بن ابراہیم، ان کے والد اور ابو الصلت ذکر کی جا چکی ہے۔ مشائخ صدوقؒ کے طبقے میں بھی سات افراد ہیں کہ جن میں سے ایک ایک کی سوانح حیات کا جائزہ لازمی نہیں ہے بلکہ اس طبقے کا اعتبار ثابت کرنے کیلئے ان میں سے ایک ہی کی وثاقت کافی ہے، اسی وجہ سے ان میں سے صرف ایک شخص کے حالات یعنی اَحْمَدُ بْنُ زِیَادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَمَدَانِیُّ کو بطور مثال آپ کے سامنے پیش کریں گے۔ شیخ صدوقؒ کی گواہی کے مطابق وہ ایک متدین اور قابل اعتماد شخص ہیں؛ انہوں نے ان کے بارے میں لکھا ہے: کان رجلا ثقة دینا فاضلا. [۱۸]
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین (متوفای۳۸۱ه)، کمال الدین و تمام النعمة، ص۳۶۹، ناشر: اسلامیة تهران، الطبعة الثانیة، ۱۳۹۵ ھ۔
وہ ایک موثق، دیندار اور فاضل شخصیت تھے۔ ←← دوسری روایت [۱۹]
القمی، ابی جعفر الصدوق، محمد بن علی بن الحسین بن بابویه (متوفای۳۸۱ه)، عیون اخبار الرضا (علیهالسّلام)، ج۲، ص۲۳۹۔
احمد بن علی انصاری کہتے ہیں: میں نے ابو الصلت سے سوال کیا کہ مامون کیسے امام رضاؑ کو قتل کرنے پر آمادہ ہو گیا حالانکہ وہ حضرتؑ کا احترام کرتا تھا اور آپؑ سے محبت کرتا تھا؟! ابو الصلت نے کہا: مامون، حضرتؑ کے فضائل کو جاننے کی وجہ سے ان سے محبت کرتا تھا اور اس نے آپؑ کو ولی عہد بنا دیا تاکہ لوگوں کو یہ دکھا سکے کہ حضرتؑ بھی دنیا کی طرف رغبت رکھتے ہیں اور اس طرح آپؑ کا مقام لوگوں کی نگاہوں میں متزلزل کر دے، مگر یہ امر امامؑ کی لوگوں کے سامنے منزلت بڑھنے کا سبب بنا، مامون ہر شہر کے متکلمین کو جمع کرتا تھا اس امید پر کہ ان میں سے کوئی حضرتؑ کو مغلوب کر دے اور لوگوں کی نگاہ میں آپؑ کا مقام گھٹا سکے؛ تاہم یہود، نصاریٰ، مجوس، صائبین، برہمنوں، دہریوں اور اسلامی فِرَق میں سے کسی نے بحث نہیں کی مگر یہ کہ حضرتؑ نے انہیں مغلوب کر دیا، لوگ کہتے تھے: خدا کی قسم! وہ مامون سے زیادہ خلافت کے سزاوار ہیں۔ جاسوس یہ خبریں مامون کو دیتے تھے اور اسی وجہ سے وہ غصے میں تھا اور اس کا امامؑ کی نسبت حسد بہت زیادہ ہو گیا، امامؑ مامون کی بالکل طرفداری نہیں کرتے تھے، نہ اس کی مدد کرتے تھے؛ اکثر اوقات اسے ایسا جواب دیتے تھے جو اسے ناپسند ہوتا تھا، پس انہی وجوہات سے اس کا امامؑ کی نسبت کینہ اور غصہ زیادہ ہو گیا، مگر اس کا اظہار نہیں کرتا تھا؛ جب حضرتؑ کو فریب دینے سے عاجز ہو گیا تو مکاری سے حضرتؑ کو زہر دے کر شہید کر دیا۔ ←← تیسری روایت [۲۰]
القمی، ابی جعفر الصدوق، محمد بن علی بن الحسین بن بابویه (متوفای۳۸۱ه)، عیون اخبار الرضا (علیهالسّلام)، ج۲، ص۲۳۹۔
جمعبندی[ترمیم]مذکورہ بالا تحریر میں امام رضاؑ کی شہادت کو دو طرح کی روایات؛ عام و خاص کے ذریعے ثابت کیا گیا ہے۔ بیان کیا کہ یہ روایات متعدد ہیں یوں کہ ان تمام کو دیکھا جائے تو امرِ شہادت کا اطمینان ہو جاتا ہے اور ہمیں سند کا جائزہ لینے کی احتیاج بھی نہیں رہتی۔ اس کے علاوہ جیسا کہ ملاحظہ کیا گیا، ان میں سے کچھ روایات تن و تنہا بھی علم رجال کی رو سے یقین کا باعث ہیں۔ حوالہ جات[ترمیم]ماخذ[ترمیم]موسسہ ولیعصر، ماخوذ از مقالہ گزارشهای شهادت امام رضا (علیهالسّلام) بر اساس کتاب عیون اخبار الرضا (علیهالسلام)۔ اس صفحے کے زمرہ جات : امام رضاؑ کی شہادت | اہل سنت کے شبہات | حدیثی مباحث | کلامی مباحث | وہابیت کے شبہات
|