واجب الوجود تمام جہات سے واجب الوجود ہے

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



فلسفہِ اسلامی میں واجب الوجود بالذات سے مراد وہ وجود ہے جس کا وجود کسی دوسرے کی جانب سے عنایت نہیں ہوا بلکہ اس کی ذات اس کے وجود اور حتمی طور پر ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔ لہذا اس کا موجود ہونا ہی اس کے وجود کے لیے کافی ہے۔ وہ اپنے وجود کے لیے اپنے غیر یا کسی دوسرے وجود کا محتاج نہیں ہے۔ واجب الوجود یعنی وجود کا ہونا واجب و لازم ہے اور بالذات یعنی یہ وجوب اور لزوم کسی غیر کی جانب سے نہیں بلکہ اس کی اپنی ذات کا تقاضا ہے۔ اس اعتبار سے واجب الوجود بالذات کا اطلاق فقط اللہ سبحانہ پر ہوتا ہے۔


قاعدہ فلسفی ضروری الوجود

[ترمیم]

واجب الوجود بالذات سے ربط و تعلق رکھنے والے فلسفی قواعد میں سے ایک قاعدہ ضروری الوجود ہے۔ قاعدہِ ضروری الوجود کا مطلب یہ ہے کہ واجب الوجود کی تمام جہات و صفات و خصوصیات کا وجود اس کی ذات کے لیے ضروری و واجب ہے۔ بالفاظِ دیگر واجب الوجود کی صفات اس کے لیے ضروری الوجود ہیں۔ پس واجب الوجود کی ذات میں ممکن الوجود کی کوئی جہت یا صفت یا خصوصیت نہیں پائی جاتی بلکہ اس کی ہر جہت و صفت اور ہر خصوصیت اس کی ذات کی مانند واجب اور ضروری ہے۔ لہذا واجب الوجود بالذات میں جہتِ امکان نہیں کی اصلًا کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ واجب الوجود بالذات تمام جہات اور تمام صفات و خصوصیات میں واجب اور واحد ہے۔ واقع میں واجب الوجود میں کوئی تعدد اور اعتبار نہیں پایا جاتا۔

قاعدہ فلسفی کے مختلف نتائج

[ترمیم]
قاعدہِ ضروری الوجود کا اثر الہیات کے باب میں نمایاں طور پر سامنے آتا ہے اور اس کے ذریعے واجب الوجود بالذات سے مربوط کئی نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔ یہ نتائج اپنی جگہ واضح اور بدیہی ہیں اور اگر کہیں دلیل بھی قائم کی گئی ہے تو وہ دلیل متنبہ کرنے اور غافل اذہان کو توجہ دلانے کے لیے ہے۔ ذیل میں اس قاعدہ سے جنم لینے والے چند اہم نتائج ذکر کیے جاتے ہیں:

← واجب الوجود کا وجود واجب ہے


واجب الوجود سے مراد یہ ہے کہ وہ وجود جس کا ہونا ضروری اور واجب ہے۔ واجب الوجود کی ذات کا تقاضا ہے کہ وہ حتمًا موجود ہو۔ اس کی ذات کے غیر نے اس کو وجود نہیں دیا اور نہ اس کے غیر کی وجہ سے اس کا ہونا ضروری و واجب قرار پایا ہے بلکہ خود اس کی ذات کا تقاضا ہے کہ وہ ضروری اور وجوبی طور پر ہو۔ اسی طرح اس تمام صفات و جہات کا اس کے لیے ہونا واجب ہے۔ اس کی صفات میں کوئی صفت ایسی نہیں ہے جو ممکن ہو کیونکہ ممکن کے لیے اس کی ذات تک رسائی حاصل کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ وہ واجب ہوتے ہوئے ممکن قرار نہیں پا سکتا ورنہ اس کو واجب نہیں کہا جا سکے گا۔

← واجب الوجود تمام جہات سے واجب ہے


اس قاعدہ کے اہم نتائج میں سے ہے کہ واجب الوجود بالذات تمام جہات سے واجب ہے کیونکہ اگر ایک طرف سے بھی اس کے وجوب کی نفی کی جائے تو اعتبار سے واجب کا ممکن ہونا ثابت ہو گا کہ جو واضح طور پر باطل ہے۔ پس واجب الوجود کی ذات، صفات و خصوصیات اس کے لیے واجب ہیں۔ اگر ہم واجب الوجود کو تمام جہات سے واجب قرار نہ دیں تو اس کے علاوہ بھی کئی محالات اور ناممکن امور لازم آتے ہیں جس کا بیان زیر نظر سطور میں آ رہا ہے۔

← واجب الوجود کے لیے حالت انتظار نہیں


اس قاعدہِ فلسفی کے اہم ترین نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ واجب الوجود بالذات پر انتظار کی حالت طاری نہیں ہوتی۔ واجب الوجود بالذات ہر نوع کی حالتِ انتظار سے مبرّا ہے لہذا یہ احتمال نہیں دیا جا سکتا کہ اس کی بعض صفات یا خصوصیات اس کے لیے ممکن ہوں اور وہ انہیں حاصل کر سکتا ہو لیکن وہ اس میں پائی نہیں جاتیں۔ اس قاعدہ کی رُو سے واجب الوجود بالذات کی صفات و خصوصیات ممکن کے دائرہ سے مافوق ہیں اور ممکن کی رسائی ان صفات و خصوصیات تک نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ واجب الوجود بالذات کے تمام حالات، صفات اور خصوصیات واجب و ضروری ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کی بعض صفات و خصوصیات اللہ تعالی میں نہیں موجود یا اللہ تعالی بعد میں ان سے متصف ہوا یا وہ بعد میں وجود میں آئیں گی تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس پہلو سے یہ صفات و خصوصیات واجب نہیں ہیں بلکہ ممکن ہیں اور ممکن خود واجب کے مقابلے میں ہے۔ پس ایک جہت سے واجب الوجود واجب ہو اور دوسری جہت سے ممکن تو یہ واضح طور پر باطل ہے۔
خلاصہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس قاعدہ کے مطابق ہر وہ صفت جو واجب الوجود کے لیے محال و ممتنع نہیں ہے بلکہ اس کے لیے امکان عام ہے تو وہ حتمی طور اس کی ذات میں پائی جائے گی کیونکہ واجب ہونے کا معنی ہی یہ ہیں کہ وہ صفت حتمی اور ضروری طور پر اللہ تعالی میں پائی جائے۔ اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ اس قاعدہ کی رُو سے ہر وہ چیز جو وجود بما ھو وجود کے اعتبار سے کمالِ مطلق شمار ہوتی ہے اس کا واجب الوجود بالذات یعنی اللہ تعالی کے لیے ثابت قرار دینا لازم، ضروری و واجب ہے۔
[۵] میرداماد، محمد باقر، قبسات، ص۳۱۶۔

اس طرف توجہ رہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اس بحث کے نتائج میں سے ایک واجب الوجود کے لیے حالتِ انتظار کا نہ ہونا ہے تو اس سے مراد یہ نہیں کہ یہ سب کے سب نتائج فقط واجب الوجود کے ساتھ مختص ہیں۔ کیونکہ یہ نتائج اصلِ قاعدہ کے معنی پر مشتمل نہیں بلکہ اس سے اخذ کیے گئے ہیں۔ پس ایک اصلِ قاعدہ کا معنی اور مفہوم ہے اور ایک اس معنی سے حاصل ہونے والے نتائج ہیں۔ اصلِ قاعدہ بلا شک و شبہ واجب الوجود کے ساتھ مختص ہے لیکن اس سے حاصل ہونے والے نتائج اعم ہیں جو واجب الوجود کے علاوہ دیگر کو بھی شامل ہو سکتے ہیں؛ مثلا دیگر مفارقات کہ جو امکانِ استعدادی، قوت اور حرکت نہیں رکھتے میں بھی حالتِ انتظار نہیں پائی جاتی۔

← واجب الوجود میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی


اس قاعدہ سے حاصل کیے گئے دیگر نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ واجب الوجود بالذات میں تغیر و تبدل نہیں آ سکتا۔ ہر وہ چیز جس کا حصول واجب الوجود بالذات کے لیے ممکن ہے وہ عملی طور پر بالفعل اس کو حاصل ہے۔ لہذا وہ تام ہے۔
[۷] رازی، فخرالدین، المباحث المشرقیۃ، ج۲، ص۴۹۴۔
بعض فلاسفہ نے تصریح کی ہے کہ اس بحث کو برپا کرنے کا کلی طور پر ہدف یہ ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ واجب الوجود کی صفات واجب، ثابت اور غیر متغیر ہیں جو کبھی تبدیل نہیں ہوتیں اور وہ اپنی صفات کے اعتبار سے ازلی و ابدی ہے۔

اس قاعدہ کی بناء پر واجب الوجود پر چند دلائل

[ترمیم]

واجب الوجود کے اثبات کے بہت سے دلائل پیش کیے جاتے ہیں جن میں سے چند دلائل زیر نظر سطور میں پیش کیے جا رہے ہیں جو مذکورہ قاعدہِ فلسفی کی بناء پر قائم کیے گئے ہیں:

← پہلی دلیل


اسلامی فلاسفہ نے اس قاعدہ کی بناء دلیل قائم کرتے ہوئے ذکر کیا ہے:
اگر ہم فرض کریں کہ واجب الوجود بالذات کی صفات میں سے کوئی ایک صفت ممکن ہے اور واجب نہیں ہے؛ تو اس کا معنی یہ ہو گا کہ ذاتِ واجب الوجود میں وہ صفت فی نفسہ مفقود ہے۔ کیونکہ واجب الوجود ہوتے ہوئے اس کے ساتھ ممکن کی نسبت قائم نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ جب ایک صفت کو ممکن قرار دیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ صفت واجب الوجود میں نہیں پائی جاتی اور اس میں وہ معدوم ہے۔ اس کا لازمہ یہ نکلتا ہے کہ ذاتِ واجب الوجود کو عدم کے ساتھ متصف کیا جائے۔ فی نفسہ سے مراد یہ ہے کہ ہر چیز سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اگر ملاحظہ کیا جائے تو اس ذات کا تقاضا ہے کہ وہ صفت اس میں قرار دی جائے۔ پس اگر ذاتِ واجب الوجود فی نفسہ صفت سے متصف ہے اور وہ اس میں موجود ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ صفت ذاتِ واجب الوجود کے لیے ضروری و واجب ہے جبکہ یہ ہمارے فرض کے خلاف ہے کیونکہ ہم نے فرض یہ کیا تھا کہ کوئی ایک صفت ممکن ہے۔
یہاں سے ثابت ہوا کہ واجب الوجود کی صفات میں سے کسی صفت کو ممکن قرار دینے سے چند محالات لازم آتے ہیں۔ کیونکہ ذاتِ واجب الوجود کی صفت کو ممکن قرار دینے سے یہ لازم آئے گا کہ وہ صفت باوجود اس کے کہ صفتِ کمال ہے لیکن ذاتِ واجب الوجود میں متحقق اور واقع نہیں ہے۔ نیز اس صورت میں کہنا پڑے گا کہ ذاتِ واجب الوجود وجود اور عدم سے مرکب اور عدم سے متصف ہے؛ کیونکہ اس ذات اور اس کی بعض صفات وجود رکھتی ہیں جبکہ کم سے کم ایک صفت معدوم و مفقود ہے۔ واجب الوجود بالذات کے مورد میں گزر چکا ہے کہ وہ ہر قسم کی ترکیب حتی وجود اور عدم کی ترکیب سے مبرا ہے اور اس کا مرکب ہونا محال ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ واجب الوجود بالذات کی کوئی صفت ممکن قرار پائے یا اس کو واجب نہ قرار دیا جائے۔

← دوسری دلیل


فلسفہ اسلامی میں دوسری دلیل جو اس قاعدہ کی بناء پر قائم کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ واجب الوجود بالذات کی صفات و جہات میں سے ہر صفت اور ہر جہت اس کی عینِ ذات ہے؛ چنانچہ جس طرح ذات واجب ہے اسی طرح صفات بھی واجب قرار پائیں گی۔ پس واجب الوجود بالذات کے اعتبار سے اس کی ہر صفت بھی واجب قرار پائے گی۔ لہذا یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم واجب قرار دینے میں اس کی ذاتِ واجب اور اس کی صفات میں فرق اور جدائی و تفکیک کے قائل ہو جائیں۔
[۹] میر داماد، محمد باقر، مصنفات، ص ۱۹۶۔


← تیسری دلیل


اس قاعدہ کی بناء پر تیسری دلیل فلسفہ اسلامی میں اس طرح قائم کی جاتی ہے کہ ہم فرض کرتے ہیں کہ واجب الوجود بالذات کی کوئی صفت ممکن ہے۔ اس فرض کا نتیجہ تناقض نکلتا ہے؛ کیونکہ ہم نے فرض کیا تھا کہ جس صفت کو ہم نے ممکن قرار دیا ہے وہ صفت واجب الوجود بالذات کی صفت ہے۔ اس جہت سے ہمارا اس صفت کو ممکن فرض کرنا کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ذاتِ واجب الوجود خود اپنے وجود میں اس صفت کے ہونے کے لیے کسی دیگر وجود کی محتاج قرار پائے۔ یعنی وہ ذات جس میں یہ صفت پائی جاتی ہے وہ واجب الوجود بالذات نہیں کیونکہ واجب اور غیر واجب آپس میں متناقض ہیں۔ اس بناء پر واجب الوجود کے لیے جس صفت کے ممکن ہونے کو فرض کیا گیا ہے اس سے تناقض جنم لیتا ہے اور تناقض محال ہے۔ پس اس فرض کا متحقق ہونا بھی محال قرار پائے گا۔
بالفاظِ دیگر، اگر واجب الوجود کی صفات میں سے کوئی صفت اس کے لیے واجب قرار نہ دی جائے تو واجب الوجود بالذات ایک جہت سے واجب اور ایک جہت سے ممکن ہو جائے گا اور یہ محال ہے۔ قیاس استثنائی اس طرح تشکیل پاتا ہے کہ اگر واجب الوجود کی صفات میں سے کوئی صفت واجب نہ قرار دی جائے بلکہ ممکن قرار دی جائے تو واجب الوجود ایک جہت سے واجب اور دوسری جہت سے ممکن کہلائے گا۔ پس تالی باطل ہے تو مقدم بھی اس کی مانند باطل ہے۔ اس دلیل میں مقدم محال ہے کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ واجب الوجود کی صفات میں سے کوئی صفت واجب نہ ہو۔ نیز تالی بھی بھی محال ہے کیوکہ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ واجب الوجود بالذات ایک جہت سے واجب اور دوسری جہت سے ممکن ہو!! کیونکہ اگر یہ صورت درست قرار دی جائے تو لازم یہ آئے گا کہ کسی صفت کا واجب سے متصف ہونے یا اس سے سلب ہونے کے لیے اس کی ذات کافی نہیں ہے بلکہ وہ اپنی ذات سے ہٹ کر وجود اور عدم کے لیے کسی غیر کا محتاج ہے۔ جب واجب الوجود کسی صفت کے ثبوت یا عدمِ ثبوت کے لیے کسی دوسرے پر موقوف قرار پائے تو ہم جانتے ہیں ایک ذات جس شیء پر موقوف ہے وہ شیء بھی پھر کسی اور شیء پر موقوف ہو گی۔ لہذا ذاتِ واجب اپنے غیر کا محتاج قرار پانے کی صورت میں اس کا وجود غیر سے متعلق ہو جائے گا اور یہ اس کے واجب ہونے کے خلاف ہے اور تناقض ہے جوکہ محال ہے۔

←← چوتھی دلیل


اس قاعدہ کی بناء پر اگر علت و معلول کی جہت سے جائزہ لیں تو اس طرح برہان قائم کی جائے گی:
فرض کریں اگر واجب الوجود بالذات کی صفاتِ کمالیہ میں سے کوئی صفت ایسی ہو جس کو واجب کی بجائے ممکن قرار دیا جائے۔ اس صورت میں واجب الوجود معلول قرار پائے گا کیونکہ اس کی ذات اس صفت کا لازمی طور پر تقاضا نہیں کر رہی بلکہ اس کی ذات سے خارج کوئی ایسا سبب موجود ہے جس کی بناء پر اس ممکن کی نسبت واجب الوجود کی طرف دی جا رہی ہے۔ اب واجب الوجود بالذات یا تو اس صفت کے وجود کے اعتبار سے واجب ہے یا اس صفت کے عدم کے اعتبار سے واجب ہے۔ فرض یہ ہے کہ ہر دو صورتوں میں اس صفت کی علت اس کا غیر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وجودِ واجب الوجود کا وجوب اپنے غیر کا معلول قرار پا جائے۔ لہذا واجب بالذات واجب بالذات نہیں رہے گا اور یہ ہمارے فرض کے خلاف ہے جس سے خلف لازم آئے گا۔
پس اس قاعدہ کے ثابت ہونے سے یہ مطلب ہمارے سامنے آتا ہے کہ واجب الوجود بالذات کسی صفت یا جہت میں اپنے غیر کا نہ معلول ہے اور نہ محتاج۔ بلکہ اس کی ذات تمام صفات و حثیثات و جہات کا منشأ و مصدر ہے۔
[۱۴] میر داماد، محمد باقر، مصنفات، ص۱۹۸۔
چنانچہ یہ نتیجہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ ہر وہ شیء جو واجب الوجود کی جہت سے امکانِ عام ہے وہ اس کے لیے واجب ہے۔ پس واجب بالذات فعلیِ محض ہے جس میں بالقوۃ کا کوئی شائبہ موجود نہیں۔ حتی کسی ایک حیثیت یا صفت یا جہت کے اعتبار سے بھی وہ بالقوۃ نہیں بلکہ عملًا اس سے متصف ہے۔ لہذا اس کی ذات میں کوئی ایسا تحرک یا تغیر و تبدل جنم نہیں لیتا جو اس کو بالقوۃ سے فعلیت کی طرف منتقل کر دے۔ نہ ہی وہ کسی صفت یا کسی حالت یا شان سے نکل کر کسی اور صفت یا حالت میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ امور واجب الوجود میں محال ہیں۔ واجب الوجود کی نسبت تمام معلولات سے نسبتِ ابدی، احاطی اور غیر متغیر ہے۔ اس کی ذات میں جدّت، نیا پن، تجدُّد اور تبدُّل نہیں آتا کیونکہ اس سے اس کا معلول ہونا یا محتاج ہونا لازم آتا ہے اور واجب الوجود اس طرح کے نقائص سے پاک ومبرا ہے۔
[۱۵] میرداماد، محمد باقر، قبسات، ص۱۱۷۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. سبزواری، ہادی، شرح المنظومۃ، ج۱، ص۳۷۷۔    
۲. ابن سینا، حسین بن عبد اللہ، التعلیقات، ص۱۱۷۔    
۳. شیرازی، صدر الدین، الاسفار الاربعۃ، ج۱، ص۱۲۹۔    
۴. شیرازی، صدرالدین، الاسفارالاربعۃ، ج۱، ص۱۲۲۔    
۵. میرداماد، محمد باقر، قبسات، ص۳۱۶۔
۶. شیرازی، صدر الدین، الاسفار الاربعۃ، ج۱، ص۱۲۹۔    
۷. رازی، فخرالدین، المباحث المشرقیۃ، ج۲، ص۴۹۴۔
۸. اسفراینی، فخرالدین نیشاپوری، شرح النجاه لابن سینا، ص۱۸۹۔    
۹. میر داماد، محمد باقر، مصنفات، ص ۱۹۶۔
۱۰. طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص ۷۱۔    
۱۱. شیرازی، صدر الدین، الاسفار الاربعۃ، ج۱، ص۱۲۳۔    
۱۲. ابن سینا، حسین بن عبد اللہ، کتاب النجاۃ، ص ۵۵۱۔    
۱۳. شیرازی، صدر الدین، الاسفار الاربعۃ، ج۱، ص۱۲۳۔    
۱۴. میر داماد، محمد باقر، مصنفات، ص۱۹۸۔
۱۵. میرداماد، محمد باقر، قبسات، ص۱۱۷۔


مأخذ

[ترمیم]
سایت پژوھہ، ماخوذ از مقالہ قاعده واجب الوجود بالذات واجب من جمیع الجہات۔    






جعبه ابزار