ابن ابی شیبہ کی کتاب
المصنف میں
خلیفہ دوم کے ہاتھوں
حضرت فاطمہ زہراؑ کے گھر کو جلا ڈالنے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ مگر معاصر وہابی مصنّف
عبد الرحمن دمشقیہ نے اس روایت کی سند پر اعتراض کیا ہے اور اس روایت کی
شیعوں کے بیت فاطمہؑ کو نذر آتش کیے جانے کے عقیدے پر دلالت کو باطل قرار دیا ہے۔ اس مطلب کے اثبات یا نفی کیلئے اس روایت کی سند و دلالت کا جائزہ لیں گے تاکہ پتہ چلے کہ یہ دعویٰ قابل اثبات ہے یا نہیں؟!
معاصر وہابی مصنف
عبدالرحمن دمشقیہ، نے
قصة حرق عمر لبیت فاطمة (رضیاللهعنها) کے عنوان سے ایک مقالے میں
ابن ابی شیبہ کی روایت کے بارے میں لکھا ہے:
علی ان ابن ابی شیبة قد اورد روایة اخری من طریق محمد بن بشر نا عبید الله بن عمر حدثنا زید بن اسلم عن ابیه اسلم انه حین بویع لابی بکر....
قلت: وهذه روایة منقطعة لان زید بن اسلم کان یرسل و احادیثه عن عمر منقطعة کما صرح به الحافظ ابن حجر (کذلک الشیخ الالبانی)ولئن احتججتم بهذه الروایة ابطلتم اعتقادکم بحصول التحریق الی التهدید بالتحریق. وابطلتم اعتقادکم بان علیا لم یبایع لان هذه الروایة تقول: فلم یرجعوا الی فاطمة حتی بایعوا ابا بکرابن ابی شیبہ کی روایت منطقع ہے کیونکہ
زید بن اسلم مرسل احادیث کو نقل کرتا ہے اور اس کی
عمر سے روایات منقطع ہیں جس طرح
ابن حجر اور
البانی نے بھی اس نکتے کو اشارۃ و صراحۃ بیان کیا ہے۔
اگر
شیعہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں تو بیت فاطمہؑ کو نذر آتش کیے جانے کے حوالے سے اپنے عقیدے کو باطل ثابت کریں گے۔ اسی طرح شیعوں کا یہ عقیدہ کہ
حضرت علیؑ نے
ابوبکر کی بیعت نہیں کی ہے؛ بھی زیر سوال چلا جائے گا۔
اس روایت کے صحت و سقم کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں:
ابن ابی شیبہ
المصنف میں لکھتے ہیں:
حدثنا محمد بن بِشْرٍ نا عُبید الله بن عمر حدثنا زید بن اسلَم عن ابیه اسلم اَنَّهُ حِینَ بُویِعَ لاِبِی بَکْرٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) کَانَ عَلِیٌّ وَالزُّبَیْرُ یَدْخُلان عَلی فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) فََیُشَاوِرُونَهَا وَیَرْتَجِعُونَ فی اَمرِهِمْ، فَلَمَّا بَلَغَ ذالِکَ عُمَرُ بنُ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّی دَخَلَ عَلی فَاطِمَةَ، فَقَالَ: یَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) مَا مِنَ الْخَلْقِ اَحَدٌ اَحَبُّ اِلَینا مِنْ اَبِیکِ، وَمَا مِنْ اَحَدٍ اَحَبُّ اِلَیْنَا بَعْدَ اَبِیکِ مِنْکِ، وَایْمُ اللَّهِ مَا ذَاکَ بِمَانِعِیَّ اِنِ اجْتَمَعَ هؤُلاَءِ النَّفَرُ عِنْدَکِ اَنْ آمُرَ بِهِمْ اَنْ یُحْرَقَ عَلیْهِمُ الْبَیتُُ، قَالَ فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاؤُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ اَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِی وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَیَحْرِقَنَّ عَلَیکُمُ الْبَیْتَ، وَایْمُ اللَّهِ لَیُمْضِیَنَّ مَا حَلَفَ عَلَیْهِ فَانْصَرِفُوا رَاشِدِینَ، فِرُّوا رَاْیَکُمْ وَلاَ تَرْجِعُوا اِلَیَّ، فَانْصَرَفُوا عَنْهَا وَلَمْ یَرْجِعُوا اِلَیْهَا حَتَّی بَایَعُوا لاَبِی بَکْرٍجب لوگوں نے ابوبکر کی
بیعت کر لی تو علی و زبیر بیت فاطمہؑ میں بات چیت اور مشاورت کیلئے جمع ہوئے، یہ خبر عمر بن خطاب تک پہنچی۔ وہ بیت فاطمہؑ پر آیا اور کہا: اے بنت رسول خداؐ! ہمارے نزدیک محبوب ترین فرد آپ کے والد ہیں اور ان کے بعد آپ!!! مگر خدا کی قسم! یہ محبت اس امر سے مانع نہیں ہے کہ اگر یہ افراد تیرے گھر میں جمع ہوں تو میں حکم دوں کہ گھر کو ان کے سمیت جلا ڈالیں۔
عمر یہ جملہ کہہ کر چلا گیا، جب علیؑ اور
زبیر گھر واپس آئے تو پیغمبرؐ کی لخت جگر نے علیؑ و زبیر سے کہا: عمر میرے پاس آیا تھا اور اس نے قسم اٹھائی ہے کہ اگر دوبارہ تم لوگ جمع ہوئے تو گھر کو تمہارے سمیت جلا ڈالے گا، خدا کی قسم! اس نے جو قسم کھائی ہے اسے انجام دے گا!»
سند کے اعتبار سے اس روایت میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، مگر عبد الرحمن دمشقیہ نے جو یہ کہا ہے
وهذه روایة منقطعة لان زید بن اسلم کانیرسلواحادیثه عنعمر منقطعة یہ ایک قسم کا فریب و تدلیس ہے؛ کیونکہ وہ خود ابتدا میں اس روایت کی سند کو اس طرح نقل کرتا ہے:
محمد بن بشر نا عبید الله بن عمر حدثنا زید بن اسلم عن ابیه اسلمپھر آگے چل کر دعویٰ کرتا ہے کہ زید بن اسلم عمر سے روایت نقل نہیں کر سکتا حالانکہ سند میں روایت کو زید بن اسلم نے اپنے والد سے اور اس نے عمر سے نقل کیا ہے نہ یہ کہ زید بن اسلم نے عمر سے روایت کو نقل کیا ہو۔ اس بنا پر انقطاعِ سند کا دعویٰ ایک بے بنیاد بات ہے۔
اس کے علاوہ بعض
اہل سنت بزرگوں نے اعتراف کیا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
ریاض کے ادارہ تعلیم و تربیت کے استاد و محقق ڈاکٹر
حسن بن فرحان مالکی نے اس بارے میں لکھا ہے:
ولکن حزب علی کان اقل عند بیعة عمر منه عند بیعة ابی بکر الصدیق نظراً لتفرقهم الاول عن علی بسبب مداهمة بیت فاطمة فی اول عهد ابی بکر، واکراه بعض الصحابة الذین کانوا مع علی علی بیعة ابی بکر، فکانت لهذه الخصومة والمداهمة، وهی ثابتة باسانید صحیحة وذکری مؤلمة لا یحبون تکرارها علیؑ کے حامی عمر کی بیعت کے وقت ابوبکر کی بیعت کے زمانے سے کم تھے؛ کیونکہ ابوبکر کی خلافت کے آغاز میں بیت
فاطمہؑ پر حملہ کیا گیا اور اسی وجہ سے بعض
صحابہ ابوبکر کی بیعت سے متنفر تھے۔ یہ دعویٰ صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہے۔
پھر اس کے حاشیے میں لکھتے ہیں:
کنت اظن المداهمة مکذوبة لا تصح، حتی وجدت لها اسانید قویة منها ما اخرجه ابن ابی شیبة فی المصنف. اقول: اذن هی ثابتة باسانید صحیحیة. بل هی ذکری مؤلمة کما قرر هذا الاستاذ المالکیمیں پہلے سوچتا تھا کہ حملے کا واقعہ جھوٹ ہے اور صحیح نہیں ہے مگر جب میں نے تحقیق کی تو اس کیلئے مضبوط اسناد مل گئیں کہ جن میں سے ایک سند ابن ابی شیبہ کا اپنی کتاب المصنف میں کلام ہے، پس یہ دلخراش سانحہ صحیح اسناد کے ساتھ ثابت ہے۔ (
مزید)