حضرت فاطمہ معصومہؑ کی سوانح حیات
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
حضرت معصومہؑ اہل بیتؑ کے گھرانے کی ایک بافضیلت اور باشخصیت خاتون ہیں۔
[ترمیم]
حضرت معصومہؑ کی زندگی دو اہم حصوں میں تقسیم ہوتی ہے:
۱۔
مدینہ میں ولادت اور بچپن
۲۔ ایران اور قم کی طرف روانگی
[ترمیم]
آپؑ کے والد بزرگوار شیعوں کے ساتویں امام حضرت
موسیٰ بن جعفرؑ ہیں۔
حضرت معصومہؑ کی والدہ گرامی نجمہ
امام رضاؑ کی بھی ماں ہیں۔
نجمہ ایک افضل خاتون ہونے کے علاوہ
تقویٰ و شرافت کا پیکر تھیں۔ آپ انسانی تاریخ کی ایک کم نظیر خاتون تھیں۔
[ترمیم]
حضرت فاطمہ معصومہؑ کی ولادت کے بارے میں اس امر پر اتفاق ہے کہ آپؑ کی ولادت ۱۷۱ھ میں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ
شیخ کلینی کی نقل کے مطابق ماہ
شوال سنہ ۱۷۹ھ میں ہارون الرشید نے امام موسیٰ کاظمؑ کو مدینہ سے
بغداد بلوا لیا تھا اور وہیں پر ماہ
رجب ۱۸۳ھ میں آپؑ کی رحلت ہوئی۔
دوسری جانب حضرت معصومہؑ کی زندگی ۲۳ برس سے کم ہے، لہٰذا آپؑ کی ولادت ۱۷۹ھ کے بعد نہیں ہو سکتی چونکہ اس دوران آپؑ کے والد بزرگوار زندان میں تھے۔
پس حضرتؑ کی ولادت کی تاریخ دقیق طور پر مشخص نہیں ہے۔ تاہم دستیاب اسناد کے مطابق حضرتؑ کی ولادت مدینہ میں ۱۷۳ھ میں ہوئی۔
[ترمیم]
حضرت موسیٰ بن جعفرؑ کے بچوں کی تعداد اور یہ کہ ان میں سے کتنی بیٹیوں کا نام فاطمہ تھا؛ کے بارے میں اختلاف ہے۔
شیخ مفیدؒ نے ان کی تعداد ۳۷ ذکر کی ہے: انیس بیٹے اور اٹھارہ بیٹیاں کہ جن میں سے دو کا نام فاطمہ تھا۔ فاطمہ کبریٰ اور فاطمہ صغریٰ۔
حضرت موسیٰ بن جعفرؑ کی اولاد میں سے امام رضاؑ کے بعد حضرت فاطمہ معصومہؑ علم و فضل میں سب سے نمایاں تھیں۔
[ترمیم]
حضرت معصومہؑ کا بچپن بہت بابرکت تھا۔ آپؑ ایک ایسے خاندان میں پرورش پا رہی تھیں کہ جس نے آپؑ کو
علم و
معرفت کے دریا سے روشناس کیا۔
ابھی آپ کی زندگی کی دس بہاریں نہیں گزری تھیں کہ آپؑ کے والد بزرگوار کو زہر جفا کے ساتھ ہارون کے زندان میں شہید کر دیا گیا اور غم و اندوہ کا طوفان آپ کے پاکیزہ دل پر آن پڑا۔
غم اور تنہائی کے ان ایام میں آپؑ کیلئے تسلی کا وسیلہ امام رضاؑ تھے مگر
مامون نے آٹھویں امامؑ کے وجود اقدس کو خاندان سے علیٰحدہ کر دیا اور زبردستی خراسان طلب کر لیا اور آپ کو خراسان میں رہائش پذیر ہونے پر مجبور کر دیا۔
حضرت معصومہؑ نے بھائی کا ایک سالہ فراق برداشت کیا۔
[ترمیم]
حضرت علی بن موسیٰ الرضاؑ کے
خراسان کی سرزمین پر جانے کے ایک سال بعد یعنی ۲۰۱ھ میں امام رضاؑ کی بہن حضرت معصومہؑ مدینہ سے خراسان کیلئے روانہ ہوئیں یا ایک روایت کے مطابق بھائی کی دعوت پر خراسان گئیں اگرچہ یہ روایت خاص اعتبار کی حامل نہیں ہے۔
جب آپؑ اہل قافلہ کے ساتھ ساوہ پہنچیں تو بیمار اور غمزدہ تھیں
اور جانتی تھیں کہ یہاں سے نزدیک ایک شہر ہے جس کے لوگ اہل بیت اطہارؑ کے چاہنے والے ہیں۔
اس امر سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ اہل
قم کے تشیع اور
اہل بیتؑ سے گہری عقیدت کی گونچ
مدینہ میں بھی پہنچ چکی تھی۔
بہرحال حضرتؑ نے پوچھا کہ یہاں سے قم کتنے فرسخ دور ہے؟!
کہا گیا: دس
فرسخ ہے اور حضرتؑ نے قم کی طرف چلنے کا حکم صادر فرما دیا۔
اس مقام پر یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اہل قم کو حضرت معصومہؑ کے قم پہنچنے کی اطلاع ہوئی اور وہ حضرتؑ کے استقبال کیلئے گئے اور آپؑ کو عزت و احترام کے ساتھ قم لائے یا خود حضرتؑ قم کی طرف روانہ ہوئیں۔
’’کتاب قم‘‘ کی نقل کے مطابق صحیح اور درست روایت یہ ہے کہ جب
آل سعد کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے اتفاق کیا کہ آپؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر قم آمد کی درخواست کریں۔
ان میں سے
موسی بن خزرج بن سعد اشعری شہر سے باہر نکلے اور حضرت معصومہؑ کی خدمت کا شرف حاصل کرنے کی غرض سے آپؑ کی اونٹنی کی نکیل کو تھام کر شہر کی جانب چل پڑے اور اپنے گھر میں لے آئے۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ معصومہؑ قم کی طرف روانہ ہو چکی تھیں اور موسیٰ بن خزرج راستے میں آپؑ کے قافلے سے ملحق ہوئے۔
موسیٰ بن خزرج کا گھر اور جس حجرے میں حضرت معصومہؑ عبادت کیا کرتی تھیں؛ اس وقت موجود ہے اور ہر خاص و عام کیلئے زیارت گاہ ہے۔
کتاب قم کے مطابق غسل و کفن اور نماز جنازہ کے بعد موسیٰ بن خزرج نے بابلان(مزار کی موجودہ جگہ) کی زمین میں حضرت معصومہؑ کو دفن کیا اور آپؑ کی قبر پر ایک سائبان تعمیر کرا دیا۔
[ترمیم]
کتاب قم کے مصنف لکھتے ہیں:
حسین بن علی بن حسین بن موسی بن بابوبہ نے محمد بن حسن بن احمد بن الولید سے اور ان سے دوسرے راویوں نے نقل کیا ہے کہ
غسل و
کفن کے بعد آپ کو بابلان کے مقبرے پر لے جایا گیا اور ایک سرداب کے کنارے رکھا گیا۔
آل سعد اشعری کا اس امر میں اختلاف ہو گیا کہ کون
سرداب میں جا کر حضرت فاطمہؑ کو لحد میں اتارنے کی شائستگی رکھتا ہے! اس وقت دو نقاب پوش گھڑ سوار ریگستان کی طرف سے آئے جب حضرت فاطمہؑ کے جنازے کے پاس پہنچے تو گھوڑوں سے اتر کر نماز جنازہ ادا کی پھر سرداب میں جا کر آپؑ کے پاک بدن کو دفن کر دیا۔ کسی کو علم نہیں ہو سکا کہ وہ دو سوار کون تھے۔
[ترمیم]
مورخین نے بلا اختلاف حضرتؑ کا سال وفات ۲۰۱ھ نقل کیا ہے مگر دن اور مہینے کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے دس
ربیع الثانی کے قول کو قوی قرار دیا ہے۔
[ترمیم]
(۱) صدوق، عیون الاخبار
(۲) طبرسی، اعلام الوری
(۳) طبری، امامی، دلائل الامامت
(۴) اثباه الهداه
(۵) ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب
(۶)محمد بن یعقوب کلینی، اصول کافی، انتشارات ولی عصر، تهران، ۱۳۷۵
(۷) شیخ علی نمازی، مستدرک سفینه
(۸) محمد بن نعمان (مفید)،الاِرشاد، موسسه آل البیت ـ علیه السلام
(۹) کتاب قم، چاپخانه مجلس، تهران
(۱۰) حسن قمی، تاریخ قم، چ قم
(۱۱) مجلسی، بحار الانوار
(۱۲) عاملی، اعیان الشیعه، چ بیروت
(۱۳) نائینیاردستانی، انوار المشعشعین
[ترمیم]
[ترمیم]
سائٹ اندیشہ قم، ماخوذ از مقالہ «زندگینامہ حضرت معصومہ»۔