اسم مفعول کی وضع

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



فعل جس پر واقع ہوا ہے اور جس پر انجام پایا ہے اس پر دلالت کرنے کے لیے اسم مفعول کو وضع کیا گیا ہے۔ اصول فقہ میں اس اسم مفعول کی وضع اور ساخت سے بحث کی جاتی ہے۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

وہ الفاظ جو اسم مفعول کے معنی پر دلالت کریں انہیں اسم مفعول کی وضع سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسم مفعول فعل مضارع مجہول سے مشتق ہے جس سے مراد وہ شیء یا فرد ہے جس پر فعل واقع ہوا ہے۔ اسم مفعول اسم فاعل کے مقابلے میں ہے۔ فعل انجام پانے والے کو اسم فاعل کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے اور جس پر فعل واقع ہو اس کو اسم مفعول سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اسم مفعول کی وضع

[ترمیم]

دیگر مشتقات کی مانند اسم مفعول کی دو وضع ہیں:
۱. مادہ کی وضع: اس سے مراد وہ الفاظ ہیں جو اسم مفعول کے وزن میں قرار دیئے جاتے ہیں، مثلاً منصور میں ن-ص-ر مادہِ اسم مفعول کہلائے گا۔ پس یہاں منصور کی وضع ن-ص-ر ہے۔
۲. ہیئت کی وضع: اسم مفعول کی ہیئت مبدأ کا ذات پر واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے، مثلا ضرب کا زید کی ذات پر واقع ہونا۔ اسی ہیئت کو ہم اسم مفعول کا وزن بھی کہہ سکتے ہیں۔
کتاب محاضرات فی اصول الفقہ میں وارد ہوا ہے: و اما اسماء المفعولین فلان الهیئة فیها وضعت لان تدل علی وقوع المبدأ علی الذات؛ اور اسماءِ مفعول کی ہیئت اس لیے وضع کی گئی ہے تاکہ اس پر دلالت کرے کہ مبدأ ذات پر واقع ہے۔

اسم مفعول کی وضع نوعی ہے

[ترمیم]

علم اصول میں اسم مفعول کی ہیئت سے دو مقامات پر بحث کی جاتی ہے:
۱) مشتق کی بحث میں اسم مفعول کی ہیئت سے بحث کی جاتی ہے۔
۲) مباحث الفاظ میں مفردات اور مرکبات کی وضع سے بحث کرتے ہوئے اسم مفعول کو زیر بحث لایا ہے۔
اصولیوں نے مفردات و مرکبات کی ہیئات کی وضع کے ذیل میں بیان کیا ہے کہ واضع جب لفظ کو معنی کے لیے وضع کرتا ہے تو وہ لفظ کا بھی تصور کرتا ہے اور معنی کا بھی تصور کرتا ہے۔ پس وضع کرنے کا عمل جس طرح معنی کے تصور پر موقوف ہے اسی طرح لفظ کے تصور پر بھی موقوف ہے۔ واضع جب لفظ کا تصور کرتا ہے تو اس کو دو طرح سے تصور کرتا ہے:
۱) یا تو وہ بذاتِ خود لفظ کو تصور کرے گا ، یعنی ایک لفظ معین کو ایک معنی معین کے لیے ایجاد کرے گا۔ اس کو وضع شخصی کہتے ہیں، جیسے اسماء اجناس۔
۲) یا وہ بذاتِ خود لفظ کو تصور نہیں کرتا بلکہ ایک جامع عنوان کو تصور کرتا ہے اور اس عنوان کے ذریعے معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی واضع معنی کے لیے لفظ کی بجائے ایک ہیئت کو وضع کرتا ہے اور اس ہیئت کے ذریعے معنی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ عنوانِ جامع سے مراد یہی ہیئت ہے، اس کو اصطلاح میں وضعِ نوعی کہا جاتا ہے، مثلا اسم معفول، اسم فاعل، کہ اسم مفعول کی ہیئت اور وزن تمام اسماءِ مفعولی میں محفوظ رہتا ہے اور اس کے ذریعے فعل جس پر واقع ہوا ہے اس پر دلالت کی جاتی ہے۔ پس اسم مفعول کی ہیئت کی وضع نوعی ہے جو تمام اسماءِ مفعولی میں محفوظ رہتی ہے اور یہ ابنے خاص وزن سے پہچانی جاتی ہے۔
[۷] اشرفی، سید حسن، نہایۃ الایصال شرح فارسی اصول فقہ، ج ۱، ص ۱۷۹، ناشر: قدس، قم، اولی، ۱۴۲۷ھ ۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. خوئی، ابو القاسم، محاضرات فی اصول الفقہ، ج ۱، ص ۲۴۰-۲۳۹۔    
۲. جرجانی، محمد بن علی، کتاب التعریفات، ص ۲۶۔    
۳. اشکنانی، محمد حسین، خلاصۃ الحلقۃ الثانیۃ، ج ۱، ص ۵۶۔    
۴. شہید صدر، سید محمد باقر، دروس فی علم الاصول، ج ۱، ص ۱۸۸۔    
۵. مکارم شیرازی، ناصر، انوار الاصول، ج ۱، ص ۸۰۔    
۶. لنکرانی، محمد فاضل، ایضاح الکفایۃ، ج ۱، ص ۷۲۔    
۷. اشرفی، سید حسن، نہایۃ الایصال شرح فارسی اصول فقہ، ج ۱، ص ۱۷۹، ناشر: قدس، قم، اولی، ۱۴۲۷ھ ۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوين توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامي، برگرفتہ از مقالہ وضع اسم مفعول۔






جعبه ابزار