الفاظ مفرد
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
الفاظ مفرد ان الفاظ کو کہتے ہیں جن کے
لفظ کا جزء ان کے معنی کے جزء پر
دلالت نہ کرتا ہو۔
[ترمیم]
الفاظِ مفرد
الفاظِ مرکب کے مقابلے میں ہیں۔ مختلف علوم میں لفظِ مفرد کی مختلف تعریفیں ذکر کی گئی ہیں:
[ترمیم]
ان الفاظ کو الفاظِ مفرد کہا جاتا ہے جن الفاظ کے اجزاء ان کے معنی کے جزء پر
دلالت نہ کریں۔
رضی الدین استرآبادی نے لفظِ مفرد کی تعریف اس طرح کی ہے:
اللفظ المفرد: لفظ لا يدل جزؤه على جزء معناه؛ وہ لفظ جس کا جزء اس کے معنی کے جزء پر دلالت نہ کرے۔
ابن صبان نے تصریح کی ہے کہ لفظِ مفرد کی یہ
تفسیر کہ لفظ کا جزء معنی کے جزء پر دلالت نہ کرتا ہو حقیقت میں منطقیوں کی
اصطلاح ہے جس کو عربی ادبیات کی اصطلاحات سے خلط ملط کر دیا گیا ہے۔
چنانچہ بعض
نحویوں نے لفظِ مفرد کی تعریف ایسے لفظ سے کی ہے جس میں ایک
اعراب آئیں۔ یعنی جس کلمہ پر مستقل اعراب آئیں اس کو لفظ مفرد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جبکہ بعض نے لفظِ مفرد کو
کلام کے مقابل قرار دیا ہے۔
عرف میں ایک لفظ کے ذریعے جس معنی کو ادا کیا جائے اس کو لفظ مفرد سے تعبیر کرتے ہیں۔
علماء بلاغت نے بھی مفرد کی اسی طرح تعریف بیان کی ہے کہ لفظِ مفرد سے مراد وہ لفظ ہے جس کا جزء اس کے معنی کے جزء بر دلالت نہ کرے۔
[ترمیم]
اہل
منطق مفرد اور
مرکب لفظ کی صفت قرار دیتے ہیں۔ اہل منطق کی نظر میں لفظِ مفرد سے مراد درج ذیل ہے:
۱.وہ لفظ جس کا کوئی جزء نہ ہو، جیسے بالقلم میں باء،
وَقَی یَقِی سے
فعل امر قِ۔
علم نحو کے اعتبار سے قِ
کلام اور مرکب ہے لیکن
منطق کے اعتبار سے یہ لفظِ مفرد کہلائے گا کیونکہ اس لفظ کا اصلًا کوئی جزء نہیں ہے۔
۲. لفظ کا جزء ہو لیکن لفظ کا جزء معنی کے جزء پر
دلالت نہ کرتا ہو، جیسے عبد اللہ کسی شخص کا نام ہو، اس صورت میں
لفظ کے اجزاء ہیں لیکن کوئی جزء جدا طور پر معنی پر
دلالت نہیں کر رہا۔ علم نحو کے مطابق عبد اللہ مرکبِ ناقص ہے لیکن منطقی ضابطہ کے تحت یہ لفظِ مفرد کہلائے گا۔
اہل منطق نے لفظِ مفرد کی چار اقسام بیان کی ہیں:
۱. جس لفظ کا کوئی جزء نہ ہو، جیسے ہمزہ استفہام (أ)
۲. جس کے معنی کا کوئی جزء نہ ہو، بے کلمہ چند حروف سے مرکب ہے لیکن اس کے معنی کا کوئی جزء نہیں، جیسے لفظِ
اللہ،
۳. حس کے لفظ کا جزء اس کے معنی کے جزء پر دلالت نہ کرتا ہو، جیسے زید، عبد اللہ
۴. وہ لفظ جس کا جزء اس کے معنی کے جزء پر
دلالت کرتا ہے لیکن یہ
دلالت مقصود نہیں ہے، جیسے حیوان ناطق۔
[ترمیم]
علماءِ اصول نے بھی لفظِ مفرد کی تعریف اہل منطق کے انداز میں کی ہے۔ چنانچہ علم اصول کے مطابق لفظِ مفرد سے مراد ایک لفظ کے جزء کا معنی کے جزء پر دلالت نہ کرنا ہے،
مثلا:
حرفِ جر باء، اس لفظ کا جزئی وجود نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ اپنے معنی کے کسی جزء پر
دلالت نہیں کر رہا، اسی طرح لفظ عبد اللہ ہے کہ عبد اللہ نام ہے جو عبد اور اسم جلالہ اللہ دو اجزاء سے مرکب ہے لیکن لفظ اپنے معنی کے اجزاء پر جدا جدا
دلالت نہیں کر رہا۔ عبد اللہ کسی کا نام ہو تو اس میں
عبد سے مراد بند اور
اللہ سے مراد ذاتِ باری تعالی نہیں لی جاتی۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگنامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۲۴۰، برگرفتہ از مقالہ الفاظ مفرد۔ اکثر و بیشتر مطالب اور حوالہ جات ویکی فقہ اردو سے متعلق گروہِ محققین کی طرف سے اضافہ کیے گئے ہیں۔