امام علیؑ پر ضربت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
انیس
رمضان کو امیرِ کمالات،
اسلام کے شجاع ترین مجاہد و سپہ سالار اور
دین و
شریعت کے ہمیشگی مددگار کی جبینِ مبارک شقی ترین اور خبیث ترین انسان کی زہر آلود
شمشیر سے شکافتہ ہوئی اور آپ کے سفید محاسن سر کے
خون سے خضاب ہو گئے۔
[ترمیم]
امام علیؑ نے
پیغمبر اکرمؐ سے اپنی شہادت کی کیفیت کے بارے میں کئی مرتبہ ارشادات سماعت فرمائے تھے اور رسول خدا نے اپنے معجزانہ کلام کے ذریعے آئندہ کے تلخ اور ناگوار واقعات کے بارے میں حضرتؑ کو آگاہ فرما دیا تھا۔
روایت میں منقول ہے کہ
جنگ خندق میں جب امام علیؑ کفر و شرک کے جنگجو ’’عمرو‘‘ کے مقابلے پر گئے تو سر مبارک کے وسط پر عمرو کی تلوار لگنے سے آپؑ کا سارا چہرہ اور محاسن خون سے رنگین ہو گئے تھے، اس موقع پر پیغمبرؐ نے اپنے دست مبارک سے
امامؑ کے سر مبارک سے خون کو صاف کیا اور مرہم پٹی کی، پھر فرمایا:
این انا یوم یضربک اشقی الاخرین علی راسک ویخضب لحیتک من دم راسکیا علی! میں اس دن کہاں ہوں گا! جب شقی ترین انسان شمشیر ستم کے ساتھ تیرے سر پر ضربت لگائے گا اور سر کے خون سے تیرے محاسن کو خضاب کر دے گا۔
[ترمیم]
ماہ رمضان کے آغاز پر امامؑ اپنی بابرکت زندگی کی تریسٹھ بہاریں دیکھ چکے تھے۔ اس سال بھی گزشتہ سالوں کی طرح اپنے بچوں کے گھروں میں
افطار پر مدعو رہتے تھے اور
غذا کے تین لقموں سے زیادہ تناول نہیں فرماتے تھے۔
ایک رات امامؑ کے بچوں نے کم غذا تناول فرمانے کا سبب پوچھا تو حضرتؑ نے فرمایا: اب کچھ وقت ہی رہ چکا ہے کہ خدائے متعال کا امر آن پہنچے گا اور مجھے یہ بہت پسند ہے کہ اس حالت میں میرا شکم خالی ہو۔
انیس رمضان کی رات کو اپنی بیٹی ام کلثوم کے گھر پر مہمان تھے۔ اس
رات بھی امامؑ نے افطاری کے وقت تین لقموں سے زیادہ غذا تناول نہیں فرمائی۔
ام کلثوم بنت امیر المومنینؑ فرماتی ہیں: انیس رمضان کی رات والد گرامی میرے گھر پر مدعو تھے۔ حضرتؑ کے سامنے ایک طبق میں دو جو کی روٹیاں،
دودھ اور
نمک پیش کیا گیا۔ امامؑ، نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد دسترخوان پر تشریف فرما ہوئے۔ جب آپؑ نے غذا کو بغور دیکھا تو اپنے سر کو افسوس سے جنبش دی اور فرمایا: دودھ کا پیالہ اٹھا لو اور روٹی اور نمک سے افطار فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بعد
نماز و
مناجات میں مشغول ہو گئے۔ حضرتؑ مسلسل
رکوع،
سجود،
دعا اور
تضرع کی حالت میں رہے۔ امامؑ ساری رات بیدار رہے اور بلا وقفہ عبادت میں مشغول رہے۔ اس رات تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد حجرے سے باہر تشریف لے جاتے اور نیلگوں
آسمان کی طرف نگاہ کرتے ہوئے فرماتے: خدا کی قسم! یہ وہی رات ہے جس کا میرے محبوب نے مجھے وعدہ دیا ہے؛ خدا کی قسم، میں ہرگز
جھوٹ نہیں کہہ رہا اور میں نے رسول خدا سے جھوٹ نہیں سنا ہے، یہ وہی رات ہے جس میں مجھے شہادت کا وعدہ دیا گیا ہے۔
اس رات
سورہ یٰس کی تا آخر
تلاوت فرمائی اور اسی دوران کچھ دیر کیلئے آنکھ لگ گئی۔ اچانک نیند سے بیدار ہوئے اور فرمایا: خدایا! اپنی لقا کے وقت ہمیں برکت عطا فرما۔
بکثرت یہ ذکر فرماتے رہے:
لاحول ولا قوة الا بالله العلی العظیمآگے چل کر آپؑ کی دختر نیک اختر فرماتی ہیں کہ: اس رات بابا اپنے بچوں سے فرمانے لگے، عزیزو! آج کی رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے؛ میں چاہتا ہوں کہ تمہارے لیے بیان کروں۔
پھر فرمانے لگے: پیغمبر اکرمؐ کو خواب میں دیکھا ہے کہ مجھ سے فرما رہے تھے:
یا اباالحسن! انک قادم الینا عن قریب اے ابو الحسن! جلد ہمارے مہمان بننے والے ہو۔
یہ بھی فرمایا: شقی ترین شخص آپؑ کی طرف آئے گا اور آپؑ کے محاسن شریف کو سر کے
خون سے خضاب کرے گا۔
وانا والله مشتاق الیک، فهلم الینا فما عندنا خیر لک وابقی خدا کی قسم! میں آپ کے دیدار کا مشتاق ہوں اور آپ شھر اللہ کے تیسرے عشرے میں ہمارے مہمان بنیں گے، تشریف لے آئیں، جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ آپ کیلئے بہتر اور ماندگار تر ہے۔
جب اہل خانہ نے یہ قیامت کی خبر سنی تو سب رونے لگے اور بلند آواز سے رونے لگے۔ حضرتؑ نے انہیں سکوت کرنے کا کہا، جب سب خاموش ہو گئے تو انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرمایا۔ جیسے جیسے طلوع فجر کا وقت نزدیک ہو رہا تھا، اسی قدر امیر المومنینؑ کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔ آپؑ کی یہ خشیت عظمت و جلالت پروردگار کیلئے تھی نہ
موت اور
روح کی بدن سے جدائی کیلئے!
روایت میں منقول ہے کہ جب بھی نماز کا وقت داخل ہوتا تو امیر المومنینؑ کے رخسار کا رنگ تبدیل ہو جاتا تھا اور آپؑ کا
بدن لرزنے لگتا تھا۔ اسی وجہ سے ایک مرتبہ پھر ام کلثوم نے حضرتؑ سے عرض کی: آج کی رات آپ کی بیداری اور اضطراب کس لیے ہے؟! فرمایا: آج کی رات صبح کے وقت قتل کر دیا جاؤں گا۔
انیس کی رات اختتام پذیر ہو گئی، امامؑ آہستہ آہستہ
مسجد میں نماز جماعت کی ادائیگی کیلئے آمادہ ہوئے۔ گھر کے دروازے سے نکلتے وقت مرغابیوں نے راستہ روک لیا کہ امامؑ مسجد نہ جائیں۔ دروازے کی کنڈی کمر بند میں پھنس گئی جس سے وہ کھل کر زمین پر جا گرا۔ امامؑ نے اپنا کمربند باندھا اور مسجد کی طرف روانہ ہو گئے۔
مسجد کوفہ میں داخلے کے بعد تاریکی میں چند رکعت نماز ادا کی اور تعقیبات بجا لائے۔ پھر آذان دی اور مسجد میں سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کیا۔ پھر آہستہ آہستہ محراب کے نزدیک گئے اور حضور قلب کے ساتھ نماز میں مشغول ہو گئے۔
ابن ملجم بدبخت نے بھی اپنا خیانت آمیز منصوبہ تیار کر رکھا تھا کہ رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد یا
سجدہ سے سر اٹھاتے وقت آپؑ پر حملہ کرے گا۔ اسی لیے نماز کے آغاز کے بعد امامؑ کے نزدیک واقع ستون کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہو گیا تاکہ موقع پاتے ہی تاریخ بشریت کے سنگین ترین جرم کا ارتکاب کرے۔ جب امامؑ نے پہلے سجدے سے سر اٹھایا اس ملعون نے زہر آلود تلوار سے آپ کے سر مبارک پر وار کر دیا (ظالم نے کہا تھا کہ یہ زہر ہزار دینار سے خریدا گیا تھا اور مہلک ترین زہر تھا) یہ تلوار اسی جگہ پر لگی کہ جہاں جنگ خندق میں عمرو عامری کا وار ہوا تھا۔ امامؑ کا سر مبارک شکافتہ ہو گیا اور خون سے سر اور چہرہ رنگین ہو گیا۔ امیر کمالات و فضائل
محراب میں منہ کے بل زمین پر آئے اور اس دوران آپؑ کے کلمات یہ تھے:
بسم الله و بالله وعلی ملة رسول الله فزت و رب الکعبة رب
کعبہ کی قسم! میں رستگار و کامیاب ہو گیا۔ پھر فریاد بلند کی کہ: رب کعبہ کی قسم! ابن ملجم نے مجھے قتل کیا ہے، اس ملعون اس یہودیہ زادے نے مجھے قتل کیا ہے، اے لوگو! ابن ملجم بھاگنے نہ پائے۔
امامؑ نے اپنے قاتل کا نام اور علامت بتا کر یہ چاہا کہ کوئی بے گناہ قتل، زخمی یا گرفتار نہ ہو۔ ابن ملجم ملعون کی ضربت سے حضرتؑ کا سر اقدس پیشانی اور مقام سجدہ تک شکافتہ ہو گیا تھا۔
پیغمبروں کی تاریخ میں اس وقت تک یہ واقعہ پیش نہ آیا تھا کہ کسی کی رحلت یا شہادت کے
دن جبرئیل نے آسمان سے ندا بلند کی ہو۔ تاہم یہ امام علیؑ کی عظمت و معنویت تھی کہ جہالت و تعصب کی تلوار کے امامؑ کے سر اقدس پر پڑنے کے بعد
فرشتہ وحی نے آپؑ کی شہادت کی دردناک خبر کی ندا بلند کی۔ اس واقعے کی خبر تیز ہواؤں کی مانند کوفہ اور آس پاس کے علاقوں میں پھیل گئی اور
مرد ،
عورتیں اور پیر و جوان، تندرست و بیمار گھبرا کر اپنے گھروں سے نکلے اور آہ و بکا کرتے ہوئے خانہ علیؑ کے گرد جمع ہو گئے۔
دوسری طرف سے ملعون مرادی جو بھاگنے کی کوشش میں تھا؛ لوگوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا، خوف کے مارے اس کی سرخ آنکھیں گویا حلقوں سے باہر نکل رہی تھیں؛ اسے مسجد میں پیش کیا گیا۔ امام علیؑ نے جب اپنی آنکھیں کھولیں تو ابن ملجم کو دیکھا کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور شمشیر اس کی گردن پر آمادہ تھی، آپؑ نے نحیف آواز سے اور مہربانی سے فرمایا:
اے مرد! تو نے بہت بڑا گناہ کیا ہے! تو نے ایک بہت گھناؤنا عمل انجام دیا ہے، کیا میں تمہارے لیے برا امام تھا کہ مجھے تم نے یہ
بدلہ دیا ہے؟! کیا میں تمہارے ساتھ مہربان نہ تھا اور تمہیں دوسروں پر ترجیح نہ دیتا تھا اور کیا تیرے اوپر
احسان نہیں کرتا تھا؛ کیا لوگ نہیں کہتے تھے کہ تمہیں
قتل کر دوں ۔۔۔ مگر میں نے تمہیں کچھ نہیں کہا اور تمہیں آزاد رہنے دیا حالانکہ میں جانتا تھا کہ تم ضرور مجھے قتل کرو گے مگر میں نے یہ چاہا کہ حجت خدا تجھ پر تمام ہو جائے اور خدا تجھ سے میرا انتقام لے اور خدا کی بارگاہ میں تجھ پر غالب ہو جاؤں، میں چاہتا تھا کہ شاید اپنی
گمراہی سے پلٹ آؤ گے مگر تجھ پر شقاوت کا غلبہ ہوا اور تو نے مجھے قتل کر ڈالا، اے اشقی الاشقیا!
پھر امامؑ نے اپنے فرزند کی طرف رخ کر کے اس ملعون کے حق میں سفارش فرمائی: اے میرے بیٹے! اپنے اسیر کے ساتھ مہربانی سے پیش آؤ اور اس کے ساتھ نیکی، شفقت اور
رحمدلی سے سلوک کرو۔ اگر میں دنیا سے چلا گیا تو اس کا
قصاص کرو اور اسے ایک ضربت سے قتل کرو، اسے
آگ میں نہ جلاؤ اور اس کے اعضا مت کاٹو۔
اس ملعون نے حجت خدا کے حق میں ماہ خدا کی حرمت کا پاس نہ کیا اور جب حضرتؑ مشغول عبادت تھے تو اس دوران آپؑ کا خون بہایا۔ آسمانوں اور ملکوت اعلیٰ کے فرشتوں نے آپؑ پر خون کا گریہ کیا اور فرشتہ وحی نے حزن و ملال کے ساتھ یہ ندا بلند کی: ہدایت کے ارکان منہدم ہو گئے۔۔۔۔ لوگوں کو خبر ہو چکی تھی کہ اب ہادی ان کے درمیان موجود نہیں ہے۔
[ترمیم]
امیر المومنین؛
شہادت؛ راه خدا میں جان کا نذرانہ؛
حضرت علیؑ کی شہادت[ترمیم]
[ترمیم]
سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ ’’شب نوزدهم ماه رمضان و ضربت خوردن امیرالمومنین (ع)‘‘۔