امام کاظم کی شہادت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
ابو الحسن موسی بن جعفرؑ (۱۲۸-۱۸۳ ھ) مکتبِ تشیع
شیعہ اثنی عشر کے ساتویں امام اور
چہارده معصومینؑ میں سے نویں
معصوم ہیں۔ آپؑ مخلوق پر اللہ تعالی کی حجت اور امت کے ہادی و رہنما ہیں۔ امام کاظمؑ کی زندگانی امت کے لیے ایک عظیم نمونہ اور آثارِ رسول اللہ ﷺ کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ آپؑ نے اپنے میں امامت کی تمام ذمہ داریوں کو با خوبی انجام دیا اور انتہائی تدبیر کے ساتھ مکتبِ حقہ کو عالم اسلام میں تقویت دیا۔ امامؑ کی سیاسی و اجتماعی تدابیر اور بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے
عباسی خلفاء بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے اور گاہے بگاہے انہیں قید و بند کی صعوبتوں کا شکار کرتے رہے یہاں تک کہ ہراساں ہور ہارون الرشید نے آپؑ کو شہید کرنے کا عزم کر لیا اور سندی بن شاہک کے ذریعے زندان میں مسموم کروا کر شہید کر دیا اور شیطانی عزائم کی تکمیل کے لیے آپؑ کے جنازے پر علماء و فقہاء کو بلا کر جھوٹی گواہیاں دلاوئی گئیں کہ امامؑ کے جسم اقدس پر کسی تشدد اور ظلم کا نشان نہیں ہے اس لیے امامؑ اپنی طبعی موت سے ہمکنار ہوئے جس میں حکومتِ وقت کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس کے امامؑ کو انتہائی مظلومیت کے ساتھ بے یار و مدد گار مقابر قریش جسے آج کل کاظمین کہا جاتا ہے میں دفن کر دیا گیا۔ آج یہی مقام جسے دشمنِ وقت نے گمنام اور ویران رکھنے کی سر توڑ کوشش کی تھی جائے خلائق بن چکی ہے جس میں امت کے ہر طبقے اور ہر مکتب سے تعلق رکھنے والے لوگ امام کاظمؑ کی زیارت سے شرف یاب ہوتے ہیں اور ان کی قربانیوں اور مظلومیت کو یاد کر کے عزاداری برپا کرتے ہیں اور ان کے بیان کردہ دین کے ساتھ عہد و پیمان باندھ کر جاتے ہیں کہ جس مقصد کے لیے امام کاظمؑ نے اس قدر تکالیف اور صعوبتیں اٹھائی ہیں اس دین پر عمل کر کے اور اس کو نشر کر کے امامؑ کے مقاصد کو پائے تکمیل تک پہنچائیں گے۔
[ترمیم]
نام
موسی بن جعفر۔
کنیت
ابو ابراہیم، ابو الحسن، ابو الحسن اوّل، ابو الحسن ماضی، ابو علی و ابو اسماعیل۔
القاب
کاظم؛ زندگی میں مختلف مصائب و مشکلات پر
صبر کرنے کی بناء پر یہ لقب زیادہ مشہور ہے، صابر، صالح، امین و عبدِ صالح ( کثرتِ
عبادت و
زہد کی وجہ سے عبد صالح کا لقب پڑا۔
[[شیعیانِ حیدرِ کرارؑ آپ کو
باب الحوائج کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں۔
منصب
نویں معصوم اور ساتویں امام۔
تاریخ ولادت
سات
صفر سال ۱۲۸ ہجری۔
جاۓ پیدائش
مکہ و
مدینہ کے درمیان ابواء کے مقام پر پیدا ہوۓ۔ یہ جگہ
حجاز یعنی موجودہ
سعودی عرب میں ہے۔
امام صادقؑ نے آپ کی ولادت پر بھر پور اہتمام کیا اور اس پُر مسرت و باعظمت خوشی کے موقع پر
مدینہ کے لوگوں کو تین دن تک دعوت دی اور کھانا کھلایا۔
نسب
موسی بن جعفر بن
محمد بن
علی بن
حسین بن
علی بن ابی طالب علیہم السلام ہے۔
والدہ ماجدہ
حُمَيْدَه مصفّاة، آپ کو
حمیده بربریہ و حمیده اندلسیہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ آپ
اہل بربر یعنی مغرب یا اہل
اندلس میں سے تھیں۔ آپ کے والد کا نام صاعد بربری تھا۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ آپ احکام و مسائل میں ید طولی رکھتی تھیں۔ وارد ہوا ہے کہ
امام صادقؑ مسائل پوچھنے والی خواتین کو آپ کی طرف بھیجا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جاؤ حمیدہ سے رہنمائی حاصل کرو۔ نیز جناب حمیدہ بربریہ کے بارے میں امام صادقؑ سے وارد ہوا ہے کہ حمیده ہر برائی اور عیب سے پاک ہے، فرشتے ان کی اس وقت حفاظت کرتے رہیں ہیں یہاں تک کہ وہ ہمارے پاس پہنچ گی۔ آپ کے بطنِ طاہر سے امام کاظمؑ کے علاوہ
اسحاق و
محمد دیباج متولد ہوۓ۔
ظاہری خصوصیات
آپ کا قد مبارک درمیانہ، رنگ گندمی، آپ کے نگینے پر
حَسۡبِیَ الله نقش تھا۔
امامت کی مدت
امام جعفر صادقؑ کی شہادت
شوال ۱۴۸ ہجری سے لے کر رجب سال ۱۸۳ ہجری تک، یعنی ۳۵ برس آپ نے امامت فرمائی۔
تاریخ و سببِ شہادت
۲۵ رجب سال ۱۸۳ ہجری، ۵۵ برس کی عمر میں،
سندی بن شاہک کے ہاتھوں مسموم ہوۓ کہ جس کا حکم
ہارون الرشید کی جانب سے دیا دیا تھا۔
محل دفن
بغداد میں مقابر قریش کے مقام پر مدفون ہوئے جسے آج کل
کاظمین کہا جاتا ہے۔
[ترمیم]
اپنے والد بزرگوار امام صادقؑ ۱۴۸ ھ کی شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ۲۰ برس تھی۔ آپؑ نے مکتب تشیع و
شیعیان حیدرِکرارؑ کی ۳۵ برس رہبری فرمائی۔
رسول اللہ ﷺ مشہور و معروف حدیث جو کہ جناب
جابر انصاری سے منقول ہے میں صراحت کے ساتھ امام موسی کاظمؑ کی امامت کا ذکر کر موجود ہے۔ اسی طرح سے امام جعفر صادقؑ نے بھی اپنی زندگی میں چند مواقع پر اپنے بعد امام موسی کاظمؑ کی امامت کی طرف اشارہ فرمایا۔
اپنے زمانے کے لوگوں پر ہر قسم کی برتری رکھنا بھی آپ کے منصب امامت پر فائز ہونے کی نمایاں دلیل تھی۔ اہل سنت کے معروف مناظر
ابن حجر مکی امام کاظمؑ کی شخصیت پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: موسى كاظمؑ علم و معرفت و كمال و فضل میں اپنے بابا کے حقیقی وارث تھے۔ وہ سب سے زیادہ پارسا و دانا ترین اور سب سے زیادہ بخشنے والے انسان تھے۔
آپؑ کے دور میں مکتبِ اہل بیتؑ سے تعلق رکھنے والے اکثر و بیشتر افراد آپؑ کی جلالت و منزلت، قدر و علو و شأن اور مکارم اخلاق کی بناء پر امام جعفر صادقؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کی گرویدہ ہو گئی۔ نیز امام صادقؑ کے اصحاب و لائق ترین شاگردان مثلاً
مفضل بن عمر جعفی،
معاذ بن کثیر،
صفوان جمال،
یعقوب سراج وغیرہ آپؑ کی امامت کے معتقد ہو گئے۔ اس کی اہک اہم وجہ امام صادقؑ کا اپنی زندگی میں امام کاظمؑ کی امامت پر متعدد صریح احادیث ارشاد فرمانا اور مختلف اصحاب کو بطور امامؑ تعارف کروانا ہے۔
[ترمیم]
۱.
مروان بن محمد اموی – معروف بہ مروان حمار (۱۲۶ – ۱۳۲ ھ)؛
۲. ابو العباس
سفاح عباسی (۱۳۲ – ۱۳۶ ھ)؛
۳.
منصور عباسی (۱۳۶ – ۱۵۸ ھ)؛
۴.
مہدی عباسی (۱۵۸ – ۱۶۹ ھ)؛
۵.
ہادی عباسی (۱۶۹ – ۱۷۰ ھ)؛
۶.
ہارون الرشید (۱۷۰ – ۱۹۳ ھ)۔
[ترمیم]
امام کاظمؑ اپنی عبادت و زہد کی وجہ سے اس وقت کے معاشروں میں خاص مقام رکھتے تھے یہاں تک کہ آپ کا لقب عبد صالح معروف ہو گیا۔ لوگوں کے اندر یہ بحث عام ہوتی چلی گئی کہ امام کاظمؑ ہی دراصل
رسول اللہ ﷺ کے حقیقی جانشین اور ان کے علم و فضل کے وارث ہیں اور امامؑ کو ہی مسند خلافت پر براجمان ہونا چاہیے۔ کیونکہ وہ سب سے افضل اور امامت و خلافت کے لیے سب سے زیادہ سزاوار ہیں۔
مہدی عباسی نے جب یہ سب سنا تو اس کے پیروں سے زمین نکل گئی اور وہ بے تاب، مضطرب اور سرگردان ہو گیا اور اس بوکھلاہت میں اس نے امامؑ کو گرفتار کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ امامؑ کو گرفتار کر کے عباسی خلیفہ کے سامنے پیش کیا گیا اور اس کے بعد زندان میں ڈال دیا گیا۔ مہدی عباسی پہلی ملاقات میں ہی امامؑ کی با رعب شخصیت سے مرغوب ہو گیا اور امامؑ کی جلالت و عظمت کی وجہ سے راتوں کو ڈراؤنے خواب دیکھنے لگا یہاں تک کہ وہ مجبور ہو گیا کہ امامؑ سے معذرت کرتے ہوئے انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے آزاد کر دے۔
[ترمیم]
عباسی خلبیفہ ہادی کے بعد ہارون الرشید آیا جوکہ گذشتہ تمام عباسی بادشاہوں کی نسبت زیرک اور مکار تھا۔ ہارو رشید نے امام موسی کاظمؑ کو دوبارہ گرفتار کرنے کے احکامات جاری کیے جس کی بنیادی وجہ
شیخ مفید نے
الارشاد میں
یحیی بن خالد برمکی کا واقعہ قرار دیا ہے۔ شیخ مفید نے تحریر کیا ہے ہارون الرشید نے اپنے بیٹے
امین کو اپنے ایک قریبی ساتھی جس کا نام
جعفر بن محمد بن اشعث کے سپرد کیا ہوا تھا تاکہ وہ اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے۔ یہ شخص ایک عرصے تک
خراسان کا والی بھی رہ چکا تھا۔ یحیی بن خالد کو خوف تھا کہ اگر امین خلیفہ بنا تو امین جعفر بن محمد بن اشعث کو اپنی خلافت میں منصبوں اور عہدوں سے نوازے گا اور
برمکی خاندان اپنے مقام و منصب سے برطرف کر دئیے جائیں گے کیونکہ جعفر بن محمد بن اشعث شیعیانِ امام علیؑ میں سے ہیں اور امامتِ امام موسی کاظمؑ کے معتقد ہیں۔ اس بات کی خبر یحیی برمکی تھی۔ چنانچہ یحیی نے جعفر بن محمد کے اعتقادات و نظریات کی خبر خلیفہ ہارون الرشید کو دی تاکہ ہارون جعفر بن محمد کو اثر و رسوخ اور منصب و عہدہ نہ دے۔ یحیی بن خالد نے امامؑ کے بھائی جناب
اسماعیل بن جعفر کے بیٹے علی بن اسماعیل کو بھی
مدینہ سے بلوا لیا تاکہ وہ امامؑ کے بارے میں ہارون رشید کے حضور غلط بیانی کرے اور اس طرح جعفر بن محمد بن اشعث عباسی بادشاہوں بالخصوص ہارون رشید سے دور ہو جائے۔
امام موسی کاظمؑ نے اپنے بھتیجے
علی بن اسماعیل کو ملاقات کا پیغام بھیجا اور ملاقات میں مدینہ سے
بغداد سفر کرنے سے منع فرمایا۔ امامؑ چاہتے تھے کہ علی بن اسماعیل سفر نہ جائیں اور اگر سفر پر اس کو مجبور کیا جائے تو کسی قسم کی سازش کا شکار نہ ہو اور غیر مناسب حرکات سے اجتناب کرے۔ لیکن افسوس کہ علی بن اسماعیل نے امام کاظمؑ کی رہنمائی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور سفر میں نکل کھڑا ہوا اور یحیی برمکی سے جا ملا۔ یحیی برمکی نے علی بن اسماعیل کی
ہارون الرشید سے ملاقات کرائی اور ہارون کے سامنے علی بن اسماعیل نے امام کاظمؑ کے متعلق تمام راز اُگل دیئے اور ہارون کو بتایا کہ امام کاظمؑ کے پاس
مشرق و مغرب سے
خمس و
زکات کے اموال آتے ہیں اور امامؑ کا شیعوں سے گہرا رابطہ اور تعلق ہے اور دن بہ دن یہ طاقت زور پکڑ رہی ہے۔
ہارون الرشید اس سال سفر
حج کا ارادہ کیا اور حج کے مہینوں میں حج کے لیے روانہ ہو گیا۔ حج سے واپس پر ہارون
مدینہ آیا اور
رسول اللہ ﷺ کی قبرِ اقدس کی زیارت کی۔ ہارون اچھی طرح جانتا تھا کہ اس منصبِ خلافت کے اصل حقدار امام کاظمؑ ہیں اس لیے اس نے قبرِ رسول ﷺ پر کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ ﷺ! میں آپ ﷺ کی خدمت میں معذرت خواہ ہوں، میں چاہتا ہوں کہ موسی بن جعفر کو زندان میں ڈال دوں کیونکہ آپ ﷺ کا فرزند آپ ﷺ کی امت میں تفرقہ و انتشار اور قتل و غارت کو برپا کرنا چاہتا ہے۔ یہ کہہ کر ہارون باہر آیا اور حکم دیا کہ امامؑ کو گرفتار کر لیا جائے۔ نیز حکم دیا کہ جب گرفتار کرنے جایا جائے تو ان کی آنکھوں پر کپڑا ڈال دیا جائے اور
بصره کے والی عیسی بن جعفر بن منصور کے پاس بھیج دیا جائے۔
امت کے شقی ترین فرد ہارون الرشید کے ظالمانہ حکم کی وجہ سے امام کاظمؑ کو عیسی بن جعفر بن منصور کے پاس بھیج دیا گیا اور اس نے امامؑ بصرہ کے بدترین اور وحشتناک زندان میں بند کر دیا۔ امام کاظمؑ ایک عرصہ اسی زندان میں اسیر رہے یہاں تک کہ والی بصرہ عسی بن حعفر نے ہارون رشید کو خط لکھا کہ موسی بن جعفرؑ زندان میں فقط
نماز میں مشغول رہتے ہیں اور عبادت کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے کسی کو روانہ کیا جائے تاکہ وہ امامؑ کو بصرہ کے قید خانے سے لے جائے ورنہ میں امامؑ کو آزاد کر دوں گا۔
ہارون الرشید نے عسی بن جعفر بن منصور کا خطا پڑھا اور یہ سوچ بچار کے بعد یہ شیطانی منصوبہ بنایا کہ امامؑ کو بصرہ سے نکال کر
فضل بن ربیع کے حوالے کر دیا جائے۔ فضل بن ربیع جوکہ زیرک و ہوشیار، ریاست طلب اور شہوتِ منصب و حکومت کا دلدادہ تھا۔ چنانچہ ہارون الرشید نے فضل بن رییع کا انتخاب کیا اور خصوصی حکم دیا کہ امامؑ انتہائی سختی اور حبس کے عالم میں رکھا جائے اور مختلف طریقوں سے امامؑ کو تکلیف و اذیت پہنچائی جائے یہاں تک کہ نہ کوئی فرد ان سے ملاقات کرے اور نہ ہی وہ کسی سے رابطہ قائم کر سکیں۔ فضل بن ربیع نے ہارون الرشید کے عزائم کو بھانپ لیا اور بڑی زیرکی کے ساتھ اس کام کو انجام دینے سے معذرت خواہی کر لی۔ اس پر ہارون الرشید نے امامؑ کو
فضل بن یحیی بن خالد برمکی کے حوالے کر دیا۔
جب فضل بن ربیع نے امام کاظمؑ پر ظلم و ستم ڈھانے سے انکار کیا تو ہارون نے اس ظلم و ستم کے لے فضل بن یحیی برمکی کا انتخاب کیا۔ برمکی خاندان عرصہ دراز سے عباسی خلفاء کی نوکری و غلامی کرتے آئے تھے اور اپنے ذہانت و فطانت اور اسلوبِ سیاست و چاپلوسی کی وجہ سے عباسیوں کے دلوں میں رسوخ حاصل کر گئے تھے۔ فضل برمکی نے ہارون کے حکم پر امامؑ کو بدترین زندان میں ڈال دیا اور مسلسل ان کی نگرانی کرتا رہتا۔ امامؑ زندان میں دن رات عبادات نماز
روزه و
قراءت قرآن میں مشغول رہتے اور اپنے شب و روز کو طولانی سجدوں اور طویل مناجاتوں سے مصروف رکھتے۔ ہارون الرشید مسلسل امامؑ کے احوال دریافت کرتا رہتا یہاں تک کہ وہ امامؑ کی عبادت و تقوی اور ہر طریقہ اختیار کرنے کے باوجود امامؑ کو دباؤ میں لانے میں ناکام رہا اور عاجز آ گیا۔ بالآخر ہارون الرشید پر شقاوت طاری ہو گی اور اس نے امامؑ کو زہر دے کر شہید کرنے کا عزم کر لیا اور اس جرم کے لیے یحیی برمکی سے کہلوا کر
سندی بن شاہک کا انتخاب کیا۔ سندی بن شاہک ملعون نے ہارون کے ایماء پر امام کاظمؑ کو زہر دیا جس سے آپؑ کی شہادت واقع ہوئی۔ ستم فقط اس حد تک نہیں تھا بلکہ شہادت کے بعد بھی ہارون کو خوف تھا کہ شیعہ امامؑ کے جنازہ پر جمع ہو کر کوئی خروج نہ کر لیں یا امامؑ کی شہادت شیعوں پر پُر اثر نہ ہو جائے اس لیے سندی بن شاہک ملعون کو حکم دیا گیا کہ امام کاظمؑ کا جنازہ بغداد کے پل پر رکھ دیا جائے اور مخالف فقہاء و اعلام کو بلا کر شہادت و گواہیاں لی جائیں کہ امام کاظمؑ پر کسی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا اور ان کا جسم مبارک ہر قسم کے نشانات سے عاری ہے۔ جب مخالف فقہاء و بزرگان آ گئے تو ان سمیت گواہی دلاوائی گئی امام کاظمؑ پر کسی قسم کا تشدد نہیں ہوا اور وہ اپنی طبعی موت سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ اس کے بعد امام کاظمؑ کو مقابر قریش کے مقام پر دفن کردیا گیا۔
[ترمیم]
کتب میں وارد ہوا ہے کہ امام کاظمؑ کی شہادت
صفر کے ساتویں دن ہوئی۔ جبکہ بعض دیگر روایات میں ۲۵ رجب سنہ ۱۸۳ ھ میں شہادت کا تذکرہ بھی ملتا ہے اور یہی قول مشہور ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ شیعه، جمعی از نویسندگان، ج۱، ص۱۱۲۔ سید تقی واردی، خاندان عصمتؑ، ص۱۷۵-۱۸۶۔