بطؤ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



بَطُؤ (باء کے فتح اور طاء کے ضمہ کیساتھ) دیر کرنے اور تاخیر کرنے کے معنی میں ہے کہ حضرت علیؑ نے نہج البلاغہ کے خطوط میں مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے اس کلمے سے استفادہ کیا ہے۔


مفہوم کی شناخت

[ترمیم]

بَطُؤ (به فتح باء و ضم طاء) تاخیر کرنے کے معنی میں آیا ہے۔ جیسا کہ راغب راستے میں تاخیر جبکہ باقیوں نے مطلق تاخیر کو کہا ہے۔ باب افعال این واژه نیز لازم می‌آید. اس لفظ کا باب افعال بھی لازم ہوتا ہے۔

استعمال

[ترمیم]

امامؑ نے مالک اشتر کے حوالے سے فرمایا ہے: «فانّه ممّن لا یخاف وهنه ... و لا بطؤه عمّا الاسراع الیه احزم و لا اسراعه الی ما البطؤ عنه امثل؛
مالک ان لوگوں میں ہیں جن کی کمزوری اور لغزش کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور نہ وہ اس موقع پر سستی کرسکتے ہیں جہاں تیزی زیادہ مناسب ہو اور نہ وہاں تیزی کر سکتے ہیں جہاں سستی زیادہ قرین عقل ہو۔
«استبطاء»: طلبِ تاخیر کے معنی میں ہے جیسا کہ امامؑ نے فرمایا ہے: «فلا تستعجلوا ما هو کائن مرصد و لا تستبطئوا ما یجیی‌ء به الغد...؛
تم اس امر میں جلدی نہ کرو جو بہرحال ہونے والا ہے اور جس کا انتظار کیا جا رہا ہے اور اسے دور نہ سمجھو جو کل سامنے والا ہے۔
یہ کلام اس معنی میں ہے کہ ہر کام اپنے وقت کے مرہون منت ہے۔

اعداد و شمار

[ترمیم]

یہ لفظ اپنے مشتقات کے ہمراہ چوبیس مرتبہ ’’نہج البلاغہ‘‘ میں آیا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. راغب اصفهانی، المفردات فی غریب القرآن، ص۱۳۱۔    
۲. صبحی صالح، نهج البلاغه، ص۳۷۳، نامه۱۳۔    
۳. صبحی صالح، نهج البلاغه، ص۲۰۸، خطبه۱۵۰۔    
۴. صبحی صالح، نهج البلاغه، ص۱۶۹، خطبه۱۱۴۔    
۵. صبحی صالح، نهج البلاغه، ص۵۸، خطبه۱۶۔    
۶. صبحی صالح، نهج البلاغه، ص۳۹۹، نامه۳۱۔    


ماخذ

[ترمیم]

قرشی بنابی، علی‌اکبر، مفردات نهج البلاغه، ماخوذ از مقالہ «بَطُؤ»، ص۱۴۱۔    






جعبه ابزار