بعل (قرآن)

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



بعل قومِ الیاس کے معبود کا نام ہے۔ یہ معبود وہ بت تھا جو ان کے تمام بتوں کے اوپر شمار کیا جاتا تھا۔ بعل ایک خاتون کا نام تھا جس کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا وہ صاحب کے معنی میں ہے یا مالک کے معنی میں۔


عربی یا عجمی

[ترمیم]

کلمہ بَعْل عربی زبان کا لفظ ہے یا عجمی کا، اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ زبان عربی میں یہ کلمہ کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔

← عبری زبان میں لفظ بعل


عبری زبان میں یہ لفظ رب النوع کے معنی میں آتا ہے۔
[۵] کتاب مقدس، اول پادشاہان، ۱۶:۳۲۔
[۶] قاموس کتاب مقدس، ص‌۱۸۰‌-۱۸۱۔
؛ جہاں تک اس لفظ کے اصطلاحی معنی کا تعلق ہے تو اسلامی ثقافت میں بعل ایک بُت کا نام ہے اور اسی سے لبنان کا شہر بعلبک کا نام ہے۔ بنی‌ اسرائیل اس بت کی پوجا کرتے تھے۔ جب حضرت الیاسؑ کو ان کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا گیا تھا۔ جناب الیاسؑ تورات اور شریعتِ موسیؑ کے تابع تھے۔ آپ کے دور میں اس شہر کا یہ نام تجویز کیا گیا تھا۔

قرآنی استعمال

[ترمیم]

کلمہِ بعل قرآن میں تین مرتبہ آیا ہے۔ سورہ نساء آیت ۱۲۸ اور سورہ ہود آیت ۷۲ میں بعل بمعنی شوہر آیا ہے۔ جبکہ سورہ صافات آیت نمبر ۱۲۵ بعل بمعنی بت کا نام آیا ہے، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: واِنَّ اِلیاسَ لَمِنَ المُرسَلین اِذ قالَ لِقَومِهِ اَلا تَتَّقون‌ اَتَدعونَ بَعلاً‌و تَذَرونَ اَحسَنَ الخالِقین؛ ۔اور الیاس مرسلین میں سے ہیں، وہ وقت یاد کرو جب انہوں نے اپنی قوم کو کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو، کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور سب سے بہترین خالق کو چھوڑ دیتے ہو۔

مفسرین میں سورۃ صافات آیت ۱۲۵ میں بعل کے معنی اور مصداق کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مفسرین جیسے عکرمہ ، مجاہد، قتاده اور سدی اس آیت میں بعل بمعنی رب قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ابن‌ اسحاق کے مطابق بعل ایک خاتون کا نام ہے جس کی پرستش کی جاتی تھی۔ بعض دیگر مفسرین جیسے آلوسی نے ابن اسحاق کے اسی قول کو قبول کیا ہے۔ ابن‌عباس، حسن، ضحاک اور ابن‌ زید کے قول کے مطابق بعل شہرت سے ہے۔ لبنان کا معروف شہر بعلبک میں بعل اسی بت کے معنی میں آیا ہے۔ تفسیری اور لغوی منابع میں بعل نامی بت کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں کہ یہ سونا کا بنا ہوا ایک بلند قامت بت ہے جس کی اونچی ۲۰ ذراع ہے اور اس کی آنکھوں پر دو بڑے یاقوت نصب کیے گئے ہیں، یہ چونکڑی مار کر تخت پر بیٹھا ہوا ہے۔ ان کے اعتقاد کے مطابق شیطان اس کے پیٹ میں داخل ہو جایا کرتا تھا اور گمراہ کن شریعت میں گفتگو کرتا تھا۔ شیطان کا اس کے پیٹ میں داخل ہونے کی داستان کو مفسرین نے نقد کیا ہے اور اس کو اسرائیلیات میں شمار کیا ہے۔ ان خصوصیات پر مشتمل بت کی ایک تصویر فرانس کے میوزیم قصر لوفر میں موجود ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. طبری، محمد بن جریر، جامع البیان، ج۲۱، ص۹۷۔    
۲. فرہنگ و معارف قرآن، اعلام قرآن، ج۱، ص۲۸۔    
۳. فرہنگ و معارف قرآن، اعلام قرآن، ج۳، ص۱۳۴۔    
۴. راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات، ص‌۱۳۵، بعل۔    
۵. کتاب مقدس، اول پادشاہان، ۱۶:۳۲۔
۶. قاموس کتاب مقدس، ص‌۱۸۰‌-۱۸۱۔
۷. سیوطی، عبدالرحمن بن ابی بکر، الدر المنثور، ج‌۷، ص‌۱۱۶۔    
۸. نساء/سوره۴، آیت ۱۲۸۔    
۹. ہود/سوره۱۱، آیت ۷۲۔    
۱۰. صافات/سوره۳۷، آیت ۱۲۵۔    
۱۱. صافات/سوره۳۷، آیه۱۲۵۔    
۱۲. طوسی، محمد بن حسن، التبیان، ج‌۸‌، ص‌۵۲۵‌۔    
۱۳. سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، الدر المنثور، ج۷، ص‌۱۱۹۔    
۱۴. زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف، ج‌۴، ص‌۶۰‌۔    
۱۵. ابن عاشور، طاہر بن محمد، التحریر و التنویر، ج‌۲۳، ص‌۱۶۷۔    
۱۶. سیوطی،عبد الرحمن بن ابی بکر، الدر المنثور، ج‌۷، ص‌۱۱۷۔    
۱۷. ابن عاشور، طاہر بن محمد، التحریر و التنویر، ج‌۲۳، ص‌۱۶۷۔    


مأخذ

[ترمیم]

مرکز فرہنگ و معارف قرآن، فرہنگ قرآن، ج۶، ص۲۶۸، مقالہِ بعل سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : بت پرستی | شرک | قرآنی موضوعات | قصص قرآنی




جعبه ابزار