حضرت حجتؑ کی کم سنی میں امامت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
یہ کیسے ممکن ہے کہ
حضرت مہدیؑ جو اہل تشیع کے بارہویں امام ہیں، اپنے پدر گرامی
امام حسن عسکریؑ کی
شہادت کے بعد امامؑ بن جائیں، کیا یہ ممکن ہے کہ پانچ سالہ بچہ مسلمانوں کی پیشوائی کا حامل ہو؟
[ترمیم]
اگر
اہل بیتؑ کی روایات میں غور و فکر کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ
نبوت و
امامت کا مقام ایک ظاہری و ناچیز مقام نہیں ہے کہ جس کی ہر کوئی اہلیت رکھتا ہو بلکہ نبوت ایک ایسا بلند مقام ہے کہ جس میں ایک انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ
ارتباط رکھتا ہے اور غیبی عوالم کے افاضات و علوم سے برخوردار ہوتا ہے، الہٰی
احکام و قوانین کا اس کے نورانی قلب و باطن پر
الہام ہوتا ہے اور وہ اس عالم میں انہیں دریافت کرتا ہے کہ ہر قسم کی خطا و اشتباہ سے معصوم ہوتا ہے۔ اسی طرح
ولایت و امامت بھی ایک بزرگ مقام ہے کہ جس کا حامل خدائی احکام اور علوم نبوت کو اس طور ضبط کرتا ہے کہ اس کے مقدس وجود میں خطا، نسیان اور
عصیان کا شائبہ تک نہیں ہوتا اور وہ ہمیشہ غیبی عوالم سے رابطے میں ہوتا ہے اور الہٰی فیوض و اشراقات سے بہرہ مند ہوتا ہے۔
[ترمیم]
معصوم اپنے
علم و عمل کے ساتھ انسانیت کا امام و پیشوا اور
دین و الہٰی
حجت کا عملی نمونہ و مظہر ہے۔ یہ واضح ہے کہ ہر کوئی اس اعلیٰ و ارفع مقام کی
استعداد و قابلیت نہیں رکھتا بلکہ ضروری ہے کہ روحانی اعتبار سے انسانیت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہو تاکہ غیبی عوالم سے ارتباط اور علوم الہٰی کو دریافت و ضبط کرنے کی لیاقت کا حامل ہو اور جسمانی ترکیبات اور دماغی قوا کے لحاظ سے
اعتدال پر ہو تاکہ عالم وجود کے حقائق اور غیبی افاضات کو بغیر خطا و لغزش عالم الفاظ و معانی کے قالب میں لوگوں تک پہنچائے۔ پس پیغمبرؐ و امام کی
تخلیق ہی ممتاز و برجستہ ہے اور اسی استعداد و ذاتی
امتیاز کے پیش نظر
خدائے متعال نے انہیں نبوت و امامت کے مقام پر فائز کیا ہے۔ یہ اوصاف
بچپن سے ہی ان کی ذات کا حصہ ہیں مگر جب بھی مصلحت کا تقاضا ہوتا اور شرائط مہیا ہوتیں اور کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوتی تو ان برجستہ شخصیات کیلئے باقاعدہ طور پر نبوت و امامت کے
منصب کا اعلان کر دیا جاتا۔ یہ انتخاب اور ظاہری تقرری کبھی
بلوغت کے بعد ملتی ہے اور کبھی بچپن میں ہی نصیب ہو جاتی ہے۔
[ترمیم]
حضرت عیسیؑ نے گہوارے میں لوگوں سے بات کی اور خود کو پیغمبر اور صاحب کتاب کے طور پر متعارف کرایا۔ خدائے متعال
سورہ مریم میں فرماتا ہے:
فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ ۖ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا۞ قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا۞وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّاتو مریم نے اس لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بولے کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں(۳۰) بچے نے کہا کہ میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے (۳۱) اور میں جہاں ہوں (اور جس حال میں ہوں) مجھے صاحب برکت کیا ہے اور جب تک زندہ ہوں مجھ کو نماز اور زکوٰة کا ارشاد فرمایا ہے۔
اس آیت اور دیگر آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت عیسیؑ بچپن سے ہی
پیغمبرؐ اور صاحب کتاب تھے۔ اس بنا پر اس امر سے کوئی مانع نہیں ہے کہ پانچ سال کا بچہ غیبی عوالم کے ساتھ ارتباط رکھتا ہو اور احکام کے ضبط و
تبلیغ پر مامور ہو اور اپنے فریضے کی ادائیگی اور اس بزرگ
امانت کی بجا آوری کی شائستگی رکھتا ہو۔
[ترمیم]
امام جوادؑ اپنے والد گرامی کی وفات کے وقت نو سال یا سات سال کے تھے اور
امام رضاؑ نے آپؑ کو اپنے
جانشین کے عنوان سے متعارف فرمایا تھا۔
امام جوادؑ کے ارشادات اور مناظرے اور آپؑ کے توسط سے بڑی علمی و فقہی مشکلات کے حل نے اسلامی مفکرین بشمول شیعہ و سنی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا یہاں تک کہ سب نے امامؑ کی علمی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا۔ مثال کے طور پر
سبط ابن جوزی کہتا ہے: امام جوادؑ علم، تقویٰ اور
زہد میں اپنے پدر بزرگوار کے طریقے پر تھے۔
ابن حجر ہیثمی نے امام جوادؑ کی اعلمیت کا
اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:
مامون نے آپؑ کو اپنے داماد کے عنوان سے منتخب کیا کیونکہ آپؑ کم سنی کے باوجود علم و معرفت اور
حلم میں تمام مفکرین پر فوقیت رکھتے تھے۔
[ترمیم]
آئمہ اطہارؑ نے حضرتؑ کی کم سنی کی پیش گوئی بھی فرمائی اور اس کا اعلان بھی کیا تاکہ مخالفین
اعتراض نہ کر سکیں۔ بطور نمونہ:
صاحب هذالامر اصغرنا سناً و اخملنا شخصاً امام باقرؑ نے فرمایا: حضرت صاحب الامرؑ کا سن مبارک ہم سے کم ہے اور وہ ہم سے زیادہ گمنام ہیں۔
[ترمیم]
اگرچہ
انبیاء اور آئمہؑ کی تخلیق کچھ اس طرح ہے کہ اس کا عام انسانوں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کے باوجود عام معاشرے میں بھی ایسے نادر بچے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جو استعداد اور حافظے کے اعتبار سے
نابغہ روزگار ہوتے ہیں اور ان کی قوت ادراک اور جسمانی قوا چالیس سالہ مردوں سے بہتر ہوتی ہیں۔
بو علی سینا کا شمار نامی گرامی فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ ان کا یہ قول منقول ہے کہ: جب مجھے اچھے برے کی تمیز ہوئی تو مجھے معلم
قرآن کے پاس بھیجا گیا، پھر معلم
ادب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شاگرد جو کچھ استاد کے سامنے دہراتے تھے میں نے وہ سب کچھ حفظ کر لیا۔ اس کے علاوہ استاد نے مجھے درج ذیل کتب پڑھنے پر مامور کیا:
الصفات،
غریب المصنف،
ادب الکاتب،
اصلاح المنطق،
العین،
شعر و حماسہ،
دیوان رومی،
تصریف مازنی اور
نحو سیبویہ۔
میں نے یہ سب کتب ڈیڑھ سال کی مدت میں حفظ کر لیں اور اگر استاد تاخیر کرنے کا نہ کہتے تو اس سے کم مدت میں حفظ کر لیتا۔ اس کے بعد میں نے
فقہ کی تعلیم کا آغاز کیا اور جب بارہ سال کا ہوا تو
ابو حنیفہ کے مذہب کی روشنی میں فتویٰ دیتا تھا۔ اس کے بعد میں نے علم
طب کا آغاز کیا اور سولہ سال کے سن میں
القانون کی تالیف کی اور چوبیس سال کی عمر میں خود کو تمام اسلامی علوم میں ماہر سمجھتا تھا۔
فاضل ہندی کے بارے میں معروف ہے: وہ تیرہ برس کے سن تک پہنچنے سے پہلے تمام علوم معقول و منقول کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد
کتاب کی تصنیف میں مشغول ہو گئے۔
[ترمیم]
اس بنا پر جب نابغہ بچوں میں یہ استعداد ہو سکتی ہے کہ بچپن میں ہزارہا قسم کے مطالب کو حفظ کر سکتے ہیں اور علوم و فنون کے پیچیدہ مطالب کو حل کر لیتے ہیں اور ان کی حیرت انگیز استعداد باعث تعجب ٹھہرتی ہے تو یہ امر بعید نہیں کہ خدائے متعال
حضرت بقیۃ اللہ، حجتِ حق اور انسانیت کی بقا کے ضامن کو پانچ برس کے سن میں ولایت عطا فرما کر انہیں احکامِ الہٰی کا امین قرار دے۔
نتیجہ یہ کہ عقل اور خارجی حقائق دونوں کے اعتبار سے یہ امر بعید نہیں ہے کہ
صاحب الامر اللہ تعالیٰ کے حکم و ارادے سے پانچ برس کے سن میں مسلمانوں کے رہبر اور امام قرار پائیں۔
[ترمیم]
[ترمیم]
سائٹ اندیشہ قم، ماخوذ از مقالہ امامت امام زمان در کودکی، نظر ثانی ۹۵/۳/۳۰۔