خوارج

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



خوارج مسلمان فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے جو جنگ صفین کے اختتام پر امیر المؤمنینؑ سے مخالفت کی بناء وجود میں آیا۔ خوارج امام علیؑ کو نعوذ باللہ کافر قرار دیتے تھے اور امام علیؑ کے خلاف جنگ کو جائز سمجھتے تھے۔ جو لوگ اس طرزِ تفکر کے قائل تھے انہیں خوارج سے موسوم کیا جاتا ہے۔ روایات میں خوارج کو مارقین کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چونکہ خوارج نے امام علیؑ کے خلاف شورشیں بلند کیں اور ان کی بیعت کو توڑا اس لیے اسلامی لحاظ سے وہ باغی شمار ہوتے ہیں اور ان پر باغیوں کے احکام لاگو ہوں گے اگرچے وہ اعتقاد کے اعتبار سے کافر ہیں۔


خوارج کا اجمالی تعارف

[ترمیم]

خوارج کا شمار مسلمان فرقوں میں ہوتا ہے جن سے متعدد فقہی ابواب کے ذیل میں ان سے متعلق احکام بیان کرتے ہوئے بحث کی جاتی ہے، مثلا علم فقہ میں کتاب الصلاۃ ، کتاب الحج، کتاب النکاح، کتاب الصید و الذباحۃ اور کتاب الارث میں خوارج سے متعلق فقہی احکام ذکر کیے گئے ہیں۔ خوارج سے مراد وہ گروہ ہے جس نے امام علیؑ کی بیعت کو توڑا اور ان کے خلاف لشکر کشی کی۔ اس لشکر کشی اور بغاوت و خروج کی وجہ سے انہیں باغی اور خوارج کہا جاتا ہے۔ اسی طرح انہیں احادیث میں مارقین کہا گیا ہے۔

خوارج کا گروہ جنگ صفین میں مسئلہِ حکمیت کے بعد ظاہر ہوا اور اکثریت مسلمانوں سے جدا ہو کر انہوں نے اپنے متشددانہ اعتقادات گھڑے اور امام علیؑ کے خلاف جنگ کے لیے آمادہ ہو گئے۔ خوارج معتقد تھے کہ مسئلہِ حکمیت میں امام علیؑ کی شرکت اور اس حکمیت کو وجود دینے سے دونوں فریق گناہگار ہو گئے ہیں خصوصا امام علیؑ اور انہیں فورا توبہ کرنی چاہیے۔ چنانچہ جب جنگ صفین ختم ہوئی اور مسئلہ حکمیت تک نوبت پہنچی تو انہوں نے حکمیت کا واضح انکار کیا اور اس کو کفر سے تعبیر کیا اور امام علیؑ کو بھی اس سے روکا اور جب انہوں نے امام علیؑ کو اپنے رائے کے برخلاف پایا تو امام علیؑ پر کفر کا حکم لگایا اور ان کے خلاف جنگ کو جائز قرار دے دیا۔ چونکہ انہوں نے امام علیؑ کے خلاف خروج کیا اس لیے انہیں خوارج کہا جاتا ہے جبکہ احادیث میں ان کو مارقین سے موسوم کیا گیا ہے۔

خوارج خارجی کی جمع ہے جس کے عام اصطلاحی معنی سرکشی، بغاوت اور امام علیؑ جنہیں تمام مسلمانوں نے حاکم کے طور پر قبول کیا کے خلاف شورشیں کرنا ہے۔ اگر ہم خوارج کے خاص معنی مراد لیں تو اس سے مقصود مسلمانوں کے درمیان دوسرا بڑا اختلاف ہے جو ۳۶ اور ۳۷ ہجری کو جنگ صفین اور مسئلہ حکمیت کے قبول کرنے کی صورت میں پیش آیا۔ یہ حادثہ خوارج کے فرقہ کی پیدائش کی اصل وجہ بنا اور مسلمانوں میں اس فرقہ کا نام خوارج پڑ گیا۔ ظاہرا خوارج مسئلہِ حکمیت میں امام علیؑ کے بھی مخالف تھے اور معاویہ کے بھی لیکن انہوں نے جنگ امام علیؑ کے خلاف لڑی۔
[۴] منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ص۲۱۱ کے بعد، تحقیق عبد السلام محمد ہارون، القاہرة، المؤسسۃ العربیۃ الحدیثۃ، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۳۸۲، افست قم، منشورات مکتبۃ المرعشی النجفی۔
[۵] شہرستانی، ابو الفتح محمد، الملل و النحل، ج۱، ص۱۰۶، تحقیق احمد فہیمی محمد، بیروت - لبنان، دار الکتب العلمیۃ۔


جنگ صفین کے اختتام پر امام علیؑ سے اختلاف کی بناء پر عبد اللہ بن وہب کی رہبری و سرداری میں ۱۲ ہزار افراد کوفہ کے اطراف میں جمع ہو گئے۔ امام علیؑ نفس نفیس خوارج سے مذاکرات اور انہیں سمجھانے کی کوششوں میں مسلسل مصروف رہے اور اس کے ساتھ نامور معروف صحابہ کرام کو بھی خوارج سے مناظرہ اور بات چیت کے لیے بھیجا لیکن ان سب کوششوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ خوارج نے ایک بزرگ صحابی کو بدترین طریقے سے شہید کر دیا جس کی وجہ سے امام علیؑ نے مصمم ارادہ کیا کہ اس فتنہ کو جڑ سے اکھڑا جائے اور خوارج کا خاتمہ کیا جائے۔ خوارج کے ساتھ امام علیؑ کی جنگ نہروان کے مقام پر ہے جس کی مناسبت سے اس جنگ کو جنگ نہروان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں خوارج برے طریقے سے پسپا ہوئے اور ان کی اکثریت جنگ میں ماری گئی۔ جنگ نہروان کے بعد بچے گھچے خوارج عراق میں جا بسے اور رفتہ رفتہ اپںی فعالیت و سرگرمیاں مختلف اسلامی علاقوں میں انجام دینا شروع کیں۔

خوارج کی ایک بڑی تعداد جنگ نہروان میں قتل ہو گئی اور اس قتل و غارت سے باقیماندہ خوارج برے طریقے سے متاثر ہوئے اور انہوں نے امام علیؑ سے انتقام لینے کا مصمم ارادہ کیا۔ مشہور مؤرخین کے مطابق نہروان کی جنگ سے بچے ہوئے تین خوارج نے عزم کیا کہ تین شخصیات کو موقع پا کر قتل کریں گے اور امت اسلامیہ کی ان سے جان چھڑائیں گے، ان میں سے ایک امام علیؑ، دوسرا معاویہ ابن ابی سفیان اور تیسرا عمرو بن عاص ہے۔ عبد الرحمن بن ملجم مراد جوکہ قبیلہ حمیَر میں سے بنی مراد کی شاخ سے تعلق رکھتا تھا نے امام علیؑ کو شہید کرنے کی حامی بھری، البُرۡكُ ابن عَبْدِ اللَّهِ التَّمِيمِيُّ نے معاویہ بن ابی سفیان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور عَمْرُو بْنُ بَكْرٍ التَّمِيمِيُّ نے عمرو بن عاص کو قتل کرنے کی حامی بھری۔ تعجب آور بات ہے کہ ان میں صرف عبد الرحمن بن ملجم واحد خارجی تھا جو امام علیؑ کو شہید کرنے میں کامیاب ہوا۔ جبکہ بقیہ دونوں اپنے ارادے میں ناکام ہو گئے جوکہ خود سازش کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔

امام علیؑ نے جب خلافت کی باگ دوڑ سنبھالی تو چند ماہ نہیں گزرے تھے کہ اس گروہ کے تحرکات کوفہ و بصرہ میں سامنے آنے لگے اور امام علیؑ ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ امام علیؑ کی شہادت ابن ملجم مرادی لعین کے ہاتھوں ہوئی جوکہ ایک خارجی تھا۔ معاویہ بن ابی سفیان جب حکومت پر مسلط ہو گیا تو ۴۰ ہجری سے لے کر بنو امیہ کی آخری حکومت تک بنو امیہ کے سخت اور شدید سیاسی مخالف کے طور پر شمار کیے جاتے رہے یہاں تک کہ امویوں نے ان کے خلاف باقاعدہ انتظام کیا اور ان کو بھرپور طریقے سے دبایا۔
[۱۱] ابن اثیر، عز الدین، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج۲، ص۲۵، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۹/۱۹۸۹۔
فرقہ خوارج آہستہ آہستہ سیاسی فرقہ جات سے مذہبی اعتقادی فرقوں اور مختلف شاخوں میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔

خوارج کے فرقے

[ترمیم]

خوارج کے چھ اصلی فرقے ہیں: ازارقہ، نجدیہ، صفریہ، عجارده، اباضیۃ و ثعالبیہ۔ ان میں سے اہم ترین خوارج کے تین گروہ ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:
۱- ازارقۃ: یہ فرقہ نافع بن ازرق حنفی کے توسط سے وجود میں آیا۔ نافع پہلی شخصیت ہے جن نے خوارج میں گروہ بندی کی بنیاد ڈالی اور مختلف خوارج کی شاخیں نکالنے کا سبب قرار پایا۔
۲- نجدیۃ: یہ فرقہ نجدة بن عمر حنفی نے ایجاد کیا جوکہ نافع کے ساتھیوں میں سے تھا۔ نجدہ بن عمر نے ازراقیہ کی تندی اور فکری و عملی شدت پسندی کی وجہ سے الگ شاخ کی بنیاد رکھی اور اس فرقہ کو بعد میں نجدیہ اور نجدات کہا گیا۔
۳- اباضیۃ: اس فرقہ کا مؤسس اور بانی عبد الله بن اباض تمیمی ہے جوکہ احتمالاً‌ ۸۰ ہجری کو دنیا سے رخصت ہوا۔ یہ خوارج کا معتدل ترین فرقہ شمار ہوتا ہے۔
[۱۷] دائرة المعارف تشیع، زیر نظر: احمد صدر سید جوادی، کامران فانی، بہاء الدین خرمشاہی، حسن یوسفی اشکوری، تہران، نشر محبی، چاپ اول، ۱۳۸۶، ج۷، ص۲۹۵۔
خوارج کے ان کے علاوہ دیگر فرقے اور شاخیں بھی ہیں جن میں سے نامور محکمہ، حکمیۃ، حروریۃ، مارقۃ، وہبین، شراۃ ہیں۔

خوارج کے احکام

[ترمیم]

خوارج نے چونکہ امام علیؑ کے خلاف شورش کی اور ان کی بیعت توڑ کر بغاوت اور سرکشی پر اتر آئے اس لیے ان پر باغی کے شرعی احکام لاگو ہوتے ہیں۔ لیکن اعتقادی طور پر وہ دین کی ضروریات کا انکار کرنے اور امام علیؑ کے خون کو مباح قرار دینے اور نعوذ باللہ امام علیؑ پر کفر کا حکم لگانے اور امام علیؑ کے ساتھ دشمنی کو ایمان قرار دینے کی بناء پر ناصبی شمار ہوتے ہیں۔ ناصبی کے عنوان کی بناء پر خوارج کافر کے حکم میں آتے ہیں اور شرعی طور پر نجس شمار کیے جاتے ہیں۔اسی طرح خوارج کا ذبیحہ حرام شمار ہو گا اگرچے وہ اللہ کا نام لے کر جانور کو ذبح کریں،
[۲۰] مشکینی اردبیلی، علی، الفقہ المأثور، ص۳۵۹۔
نیز شرعی طور پر خوارج سے نکاح کرنا اور ان سے ازدواجی تعلقات استوار کرنا جائز نہیں اور ان سے کیا گیا نکاح فاسد و باطل شمار ہو گا۔
[۲۱] شیخ انصاری، مرتضی، كتاب الطہارة، ج۵، ص۱۴۴-۱۴۶۔
[۲۲] موسوی اصفہانی، ابو الحسن، وسيلۃ النجاة، ص۷۳۵۔


خوارج کی اموی دور میں شورشیں

[ترمیم]

ہجری میں جب معاویہ حکومت کے اوپر مسلط ہوا تو خوارج نے معاویہ اور امویوں کے خلاف قیام کرنا شروع کر دیا۔ جو جھڑپیں یا جنگی معاویہ کے ساتھ خوارج کی ہوئیں ان سب میں خوارج نے شکست کھائی ۔ ۴۳ ہجری میں اس گروہ نے مستورد بن علفہ خارجی کی سربراہی میں عراق میں سرکشی کی اور کوفہ کے والی مغیرہ بن شعبہ سے جنگ کی۔ ۵۸ ہجری میں عبید اللہ بن زیاد کی مطلق العنان فرمانروائی میں کثیر تعداد میں خوارج مارے گئے۔ زیاد بن ابیہ اور اس کے بیٹے نے عراق میں حکومت کرتے ہوئے خوارج کو شدت اور سختی کے ساتھ سرکوب کیا اور ان کی کو سر اٹھانے کا موقع نہیں دیا۔ نافع بن ازرق نے بصرہ نے قیام کیا۔ عراق کا دوسرا والی حجاج بن یوسف ثقفی ہے جس نے ۷۵ ھ میں عراق میں خوارج کو شدید طریقے سے دبایا اور سرکوب کیے رکھا۔

۷۷ ھ میں خوارج نے شبیب بن ورقاء اور قطری بن فجائت کی قیادت میں کوفہ اور اہواز میں قیام کیا۔ اسی سال شبیب بن ورقاء کے جنگ میں قتل ہو جانے کے بعد خوارج کے بعض گروہ قطری کی قیادت میں جمع ہوئے اور طبرستان کی طرف منتقل ہو گئے۔ ان سب کا تعلق خوارج کے ازارقہ فرقے سے تھے۔ حجاج بن یوسف نے خوارج کی طبرستان جانے والے خوارج کی سرکوبی کے لیے مہلّب کی قیادت میں لشکر بھیجا۔ ۱۰۰ ھ میں عراق کے خارجیوں نے شورش برپا کی جس ایک سال بھی دبا دیا گیا۔ ۱۱۹ ھ میں بہلول بن بشر نے عرف میں ایک دستہ کے ذریعے قیام کیا جنہیں ہشام بن عبد الملک کے عاملین کے ذریعے ناکام کر دیا گیا۔ اموی بادشاہت کے خاتمے کے آخری سالوں میں عراق میں خوارج نے عراق میں اور مختلف مقامات پر عسکری کاروائیاں تیز کر دیں۔ ۱۲۲ ھ سے ۱۲۴ ھ میں خوارج کی اموی حکومت کے خلاف بغاوت و شورشیں افریقا تک جا پہنچیں۔ ۱۲۶ ھ سے ۱۲۸ ھ میں سعید بن بہدل اور ضحّاک بن قیس کی قیادت میں عراق میں خوارج نے دوبارہ سر اٹھایا اور اسی سال ابو حمزہ خارجی اور عبید اللہ بن یحیی نے یمن میں حضرموت کے مقام پر خروج کیا۔ ۱۲۹ ھ میں شیبان بن عبد العزیز خارجی نے خروج کیا اور وہ عراق کے حاکم عمر بن ہبیرہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ ۱۳۰ ھ میں شیبان بن سلمہ خارجی نے خراسان میں طغیانیت و بغاوت کی۔ اموی دورِ حکومت کے آخر آخر میں خوارج نے موصل کے اکثر حصے کو اپنے قابو میں لے لیا۔ ان میں اکثر آل بکر اور بنی شیبان سے تعلق رکھنے والے تھے۔ اس دوران عراق میں اموی فرمانروا خالد قسری نے خوارج کو شدت سے دبا دیا۔

خوارج کی عباسی دور میں شورشیں

[ترمیم]

اموی دورِ حکومت کے تختہ الٹنے کے بعد جب عباسیوں کی خلافت آئی تو ان کے خلاف بھی خوارج نے اپنی سرکشی اور بغاوت جاری رکھی۔ ۱۳۲ ھ میں اباضیہ فرقے سے تعلق رکھنے والے خوارج نے خروج کیا اور صفریہ فرقہ سے تعلق رکھنے والے خوارج کے بعض گروہوں نے عمان میں خروج کیا جن میں سے اکثر بیشتر مارے گئے۔ ۱۳۶ ھ میں خوارج نے آذربائیجان میں خروج کیا۔ ۱۳۷ ھ میں معبد بن حرملہ شیبانی نے نے جزیرہ میں شورش کی اور ایک سال بعد یہ شورشی خوارج مارے گئے۔ خوارج کے فرقوں نے ۱۳۹ ھ میں ارمنستان میں قیام کیا اور ۱۴۰ ھ سے دوسری ہجری کے اختتام تک یمن ، موصل ، خراسان ، سجستان اور جزیرہ میں کئی بار مسلسل خوارج نے خروج کیا اور اکثر بیشتر نے شکست کھائی۔ دوسری صدی ہجری کے اواخر یعنی ۲۹۸ ھ میں ابو عبد اللہ شیعی کے ہاتھوں میں قیروان فتح ہوا اور اس کے بعد ۳۲۲ ھ میں عبید المہدی نے طاقت حاصل کر لی اور عبیدیان فاطمی نے شمال افریقا میں حکومت کی بنیاد رکھی۔ ابو یزید نُکاری نے فاطمی شیعوں کے خلاف وسیع پیمانے پر قیام کیا اور برے طریقے شکست کھائی۔ اس کے بعد خارجیوں کی شورشیں آہستہ آہستہ بیٹھتی چلی گئی۔

خوارج کے عقائدی اصول

[ترمیم]

خوارج کے عقائد کے اہم اصول درج ذیل ہیں:

← تکفیر کرنا


تمام خوارج متفق ہیں کہ گںاہِ کبیرہ کا مرتکب کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ اصحابِ جحیم میں سے ہیں۔ اس انحرافی عقیدہ کے مقابلے میں شیعہ عقائد ہیں اور مرجئہ و معتزلہ کے اعتقادات ہیں۔
[۲۶] مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج۳، ص۱۳۸، تحقیق اسعد داغر، قم، دارالہجرة۔
مرجئہ اور معتزلہ کے مختلف فرقوں کے ٹکرائے کا عکس العمل یہ نکلا کہ خوارج نے دو انتہائی شدت پسند نظریات اختیار کیے جس کی وجہ سے امت اسلامیہ کا بہت نقصان ہوا۔ وہ دو نظریات درج ذیل ہیں:

←← پہلا نظریہ


ہر وہ جگہ جہاں خوارج حاکم نہیں ہیں وہ دار الکفر ہیں اور جو بھی دار الکفر میں زندگی بسر کرتا ہے وہ کافر ہے اور اس کافر اور ریاستِ کفر کے خلاف بغاوت و خروج کرنا ضروری ہے۔ قدیمی دینی ادبیات میں رائج تعبیر کے مطابق جو خلیفہ یا امام ہو گا وہ اگر گناہ کبیرہ انجام دے تو وہ مسلمان نہیں ہے اور اس کے خلاف اقدام کرنا واجب و لازم ہے۔
[۲۷] مقدسی، مطہر بن طاہر، آفرینش و تاریخ، ج۱، ص۹۴۔
[۲۸] مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج۳، ص۱۳۸، تحقیق اسعد داغر، قم، دارالهجرة، چ دوم، ۱۴۰۹۔


←← دوسرا نظریہ


ایسا امام یا خلیفہ جو گناہ کبیرہ انجام دیتا ہے اس کی حاکمیت میں جو سر زمین ہے وہ سر زمینِ کفر ہے اور اس میں بسنے والے لوگوں اور باسیوں کا خون بہانا جائز ہے۔ اس بناء پر انہوں نے عوام کے قتل و غارت کی راہ ہموار کی اور اپںے سیاسی فعالیت کی طول زندگانی میں اس نظریہ کے تحت عوامی قتل و غارت میں مشغول رہے اور معاشرے کا امن و سکون برباد کرنا اپںا دینی وظیفہ سمجھتے تھے۔

← خلافت


خوارج کی نگاہ میں خلیفہ کا تعین نہ نص کے طریقے سے ہو سکتا ہے اور نہ استخلاف کے طور پر اور نہ قریشی ہونے بناء پر کوئی خلافت کا مستحق قرار پا سکتا ہے۔ بلکہ ضروری ہے کہ عوام الناس کی رائے سے خلیفہ کا انتخاب کیا جائے اور خلیفہ بننے کے بعد خلیفہ یہ حق نہیں رکھتا کہ حکومتی فیصلوں کے لیے کسی کو تحکیم کے طور پر یا فیصلہ کے لیے مقرر کرے۔
[۳۳] اشعری، علی بن اسماعیل، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین، ج۱، ۱۵۷، تحقیق محیی‌ الدین عبد الحمید، قاہره، مکتبۃ النہضۃ المصریۃ، ۱۳۶۹ق.
[۳۵] شہرستانی، ابو الفتح محمد، الملل و النحل، ج۱، ص۱۱۹، تحقیق احمد فہیمی محمد، بیروت - لبنان دارالکتب العلمی۔

اس بناء پر حضرت ابو بکر اور عمر بن خطاب کی خلاف اور عثمان بن عفان کی حکومت کے ابتدائی سال عین اسلام کے مطابق تھے اور جب خلیفہ سوم کی حکومت میں بدعتیں رواج پا گئیں تو خلیفہ سوم کا عزل ہونا واجب اور ضروری تھا۔ امام علیؑ کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ امامؑ کا انتخاب لوگوں کی رائے اور آزاد انتخابات کی صورت میں ہوا۔ حکومت امام علیؑ اور ان کی اولاد کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ لہٰذا جائز ہے کہ جہان میں کوئی امام نہ ہو۔ نیز امام علیؑ کی خلافت صحیح اور قابل قبول تھی لیکن فقط تحکیم کے مسئلہ میں نعوذ باللہ انہوں نے خطاء کی جس کی وجہ سے وہ کافر ہو گئے نعوذ باللہ۔ حکومت و امارت موروثی نہیں ہے۔ چنانچہ اگر امام سنت کے خلاف عمل کرے تو اس کے خلاف خروج کرنا واجب ہے۔ امام کا ہونا دو دلیلوں کی بناء پر ضروری ہے:
الف) نماز کی امامت کے لیے
ب) جہاد کی کمانڈ اور قیادت کرنے کے لیے

← عرب اور غلاموں کا برابر ہونا


خوارج کے نظریات میں سے ایک نظریہ یہ تھا کہ عربوں کے اور غلاموں کے درمیان حقوق اور شرعی تکلیف کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں برابر ہیں اور گناہ کار ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
[۳۹] بغدادی، ابو منصور، الفرق بین الفرق، ص۷۳ ـ ۷۴، تحقیق و تصحیح محمد محی‌ الدین عبد الحمید، مصر (قاہره): مکتبۃ محمد صبیح و اولاده۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. طباطبائی حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی، ج۱، ص۳۸۷۔    
۲. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۳۳، ص۳۲۵ ۳۴۰۔    
۳. شہرستانی، ابو الفتح محمد، الملل و النحل، ج۱، ص۱۳۱۔    
۴. منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ص۲۱۱ کے بعد، تحقیق عبد السلام محمد ہارون، القاہرة، المؤسسۃ العربیۃ الحدیثۃ، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۳۸۲، افست قم، منشورات مکتبۃ المرعشی النجفی۔
۵. شہرستانی، ابو الفتح محمد، الملل و النحل، ج۱، ص۱۰۶، تحقیق احمد فہیمی محمد، بیروت - لبنان، دار الکتب العلمیۃ۔
۶. ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون، ج۳، ص۱۷۸، تحقیق خلیل شحادة، بیروت، دارالفکر، ط الثانیۃ، ۱۴۰۸/۱۹۸۸۔    
۷. دینوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، ص۲۰۵ ۲۰۶۔    
۸. ابن اثیر، عز الدین، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج۳، ص۶۱۶ – ۶۱۷، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹/۱۹۸۹۔    
۹. ابن اثیر، عز الدین، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج۳، ص۶۱۶ – ۶۱۷، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹/۱۹۸۹۔    
۱۰. ابن قتیبۃ دینوری، عبد الله بن مسلم، الامامۃ و السیاسۃ، ج۱، ص۱۷۹، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالاضواء، ط الاولی، ۱۴۱۰/۱۹۹۰۔    
۱۱. ابن اثیر، عز الدین، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج۲، ص۲۵، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۹/۱۹۸۹۔
۱۲. دمشقی، ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، ج۸، ص۲۶۱، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷/ ۱۹۸۶۔    
۱۳. بغدادی، ابو منصور، الفرق بین الفرق، ص۱۷ ۱۸، تحقیق و تصحیح محمد محی‌ الدین عبد الحمید، مصر (قاہره)، مکتبۃ محمد صبیح و اولاده، بی‌تا۔    
۱۴. شہرستانی، ابو الفتح محمد، الملل و النحل، ج۱، ص۱۳۱، تحقیق احمد فہیمی محمد، بیروت - لبنان دار الکتب العلمیۃ۔    
۱۵. شہرستانی، ابو الفتح محمد، الملل و النحل، ج۱، ص۱۳۳، تحقیق احمد فہیمی محمد، بیروت- لبنان دار الکتب العلمیۃ۔    
۱۶. علامہ حلی، حسن بن یوسف، منتہی المطلب، ج۲، ص۹۹۰۔    
۱۷. دائرة المعارف تشیع، زیر نظر: احمد صدر سید جوادی، کامران فانی، بہاء الدین خرمشاہی، حسن یوسفی اشکوری، تہران، نشر محبی، چاپ اول، ۱۳۸۶، ج۷، ص۲۹۵۔
۱۸. نراقی، احمد بن محمد مہدی، مستند الشیعۃ، ج۱، ص۲۰۴۔    
۱۹. امام خمینی، روح الله، تحریر الوسیلۃ، ج۲، ص۱۴۶۔    
۲۰. مشکینی اردبیلی، علی، الفقہ المأثور، ص۳۵۹۔
۲۱. شیخ انصاری، مرتضی، كتاب الطہارة، ج۵، ص۱۴۴-۱۴۶۔
۲۲. موسوی اصفہانی، ابو الحسن، وسيلۃ النجاة، ص۷۳۵۔
۲۳. مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، ج۵، ص۱۴۲، بور سعید، مکتبة الثقافة الدینیة، بی‌تا۔    
۲۴. ابن عبری، غریغوریوس الملطی، تاریخ مختصر الدول، ص۹۷، تحقیق انطون صالحانی الیسوعی، بیروت، دار الشرق، ط الثالثة، ۱۹۹۲۔    
۲۵. مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، ج۵، ص۱۴۲، بور سعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ۔    
۲۶. مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج۳، ص۱۳۸، تحقیق اسعد داغر، قم، دارالہجرة۔
۲۷. مقدسی، مطہر بن طاہر، آفرینش و تاریخ، ج۱، ص۹۴۔
۲۸. مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج۳، ص۱۳۸، تحقیق اسعد داغر، قم، دارالهجرة، چ دوم، ۱۴۰۹۔
۲۹. دینوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، ص۲۰۵ ۲۰۶۔    
۳۰. ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون، ج۲، ص۶۳۹۔    
۳۱. ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون، ج۳، ص۱۸۲۔    
۳۲. اشعری، علی بن اسماعیل، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین، ج۱، ۴۵۴۔    
۳۳. اشعری، علی بن اسماعیل، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین، ج۱، ۱۵۷، تحقیق محیی‌ الدین عبد الحمید، قاہره، مکتبۃ النہضۃ المصریۃ، ۱۳۶۹ق.
۳۴. شہرستانی، ابو الفتح محمد، الملل و النحل، ج۱، ص۱۳۴، تحقیق احمد فہیمی محمد، بیروت - لبنان دار الکتب العلمیۃ۔    
۳۵. شہرستانی، ابو الفتح محمد، الملل و النحل، ج۱، ص۱۱۹، تحقیق احمد فہیمی محمد، بیروت - لبنان دارالکتب العلمی۔
۳۶. شہرستانی، ابو الفتح محمد، الملل و النحل، ج۱، ص۱۳۵، تحقیق احمد فہیمی محمد، بیروت - لبنان دار الکتب العلمیۃ۔    
۳۷. شہرستانی، ابو الفتح محمد، الملل و النحل، ج۱، ص۱۳۲، تحقیق احمد فہیمی محمد، بیروت - لبنان دارالکتب العلمیٍۃ    
۳۸. بغدادی، ابو منصور عبد القاہر بن طاہر تمیمی، الفرق بین الفرق، ص۲۵، تحقیق و تصحیح محمد محی‌ الدین عبد الحمید، مصر (قاہره)، مکتبۃ محمد صبیح و اولاده۔    
۳۹. بغدادی، ابو منصور، الفرق بین الفرق، ص۷۳ ـ ۷۴، تحقیق و تصحیح محمد محی‌ الدین عبد الحمید، مصر (قاہره): مکتبۃ محمد صبیح و اولاده۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت (علیہم‌السلام)، ج۳، ص۵۱۴ ۵۱۵۔    
سایت پژوہہ، یہ تحریر مقالہ فرق اسلامی دوره اموی (۲) سے مأخوذ ہے۔ مشاہدہِ لنک کی تاریخ:۱۳۹۵/۰۴/۲۱۔    
فرہنگ-علوم-انسانی-و-اسلامی-موضوعی تاریخ اسلام ائمہ-علیہم السلام خوارج a-۱۳۳۱-۴۶۳۴۶-۹۴۶۱-۹۴۶۲-۳۳۷۰۲-۱۰۵۰۰.aspx سایت پژوہہ، یہ تحریر مقالہ خوارج سے مأخوذ ہے۔ مشاہدہِ لنک کی تاریخ:۱۳۹۵/۱۰/۱۶۔    






جعبه ابزار