دھہ فجر
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
’’عشرہ فجر انقلاب اسلامی‘‘ ایرانی قوم کے سرنوشت ساز دنوں کی یادگار؛ ۱۲ سے ۲۲ بہمن ۱۳۵۷شمسی پر محیط ہے۔ ان ایام میں امام خمینیؒ کی ۱۵ سالہ جلاوطنی کے بعد وطن واپسی، عارضی حکومت کی تشکیل کا اعلان، بہت سے فوجیوں کا
اسلامی انقلاب سے الحاق، ائیرفورس کی جانب سے امامؒ کی
بیعت،
امام خمینیؒ کے حکم پر لوگوں کی بڑے پیمانے پر مظاہروں میں شرکت کے باعث
فوجی حکومت کی شکست، اہم قومی مراکز جیسے ٹیلی وژن اور فوجی چھاؤنیوں کی تسخیر جیسے واقعات پیش آئے جو آخر کار اسلامی انقلاب کی کامیابی پر منتہی ہوئے۔ ایرانی عوام عشرہ فجر اور
عالمی استکبار سے اپنی آزادی و استقلال کے دن کی مناسبت سے ہر سال جشن کا انعقاد کرتے ہیں۔ یہ عظیم انقلاب شہدا کے پاک خون، ایرانی قوم کی جدوجہد اور امام خمینیؒ کی قیادت کا مرہون منت ہے اور ایرانی قوم کو یقین ہے کہ یہ انقلاب
حضرت مہدیؑ کے عالمی انقلاب سے متصل ہو گا اور وہ
حضرت قائمؑ کے زمانہ ظہور میں الہٰی عادلانہ حکومت کے قیام کا جشن بھی منائیں گے۔
[ترمیم]
عشرہ فجر کی اصطلاح سورہ مبارکہ
فجر کی ابتدائی آیات سے الہام لیتے ہوئے ۱۲ سے ۲۲ بہمن کی مدت کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ ’’فجر‘‘ کا اصل معنی وسیع پیمانے پر پھاڑنا ہے؛ چونکہ صبح کا نور رات کی تاریکی کو پھاڑ ڈالتا ہے، اس لیے اسے
فجر کہا جاتا ہے۔
بعض نے اس آیت میں فجر کے مطلق معنی یعنی’’صبح کی سفیدی‘‘ کو مراد لیا ہے جو مسلمہ طور پر خدا کی عظمت کی ایک نشانی ہے۔ یہ انسانوں اور تمام زمینی مخلوقات کی زندگی کا ایک اہم موڑ ہے، نور کی حاکمیت کا آغاز اور ظلمت کا اختتام ہے۔ زندہ موجودات کی حرکت کا آغاز اور نیند اور سکوت کا اختتام ہے اور اس بھرپور زندگی کے باعث خدا نے اس کی قسم کھائی ہے۔
لہٰذا
زمانہ جاہلیت کی تاریکی میں اسلام اور محمدیؐ نور کی ضو فشانی فجر کا ایک مصداق ہے اور اسی طرح دنیا کے تاریکی و ظلم میں غرق ہو جانے کے بعد امام مہدیؑ کے قیام کی روشن صبح اس کا ایک اور مصداق شمار ہوتی ہے۔ فجر کا ایک نمایاں مصداق امام حسینؑ کا
کربلا کے خونی صحرا میں عاشور کے دن کا قیام تھا کہ جس نے
بنو امیہ کے ظلم و ستم کے تاریک پردوں کو چاک کیا اور ان شیطانوں کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے برملا کر دیا۔ اسی طرح
کفر،
جہالت اور ظلم و ستم کے خلاف برسرپیکار تمام انقلاب جو ماضی اور حال میں رونما ہوئے؛ حتی گنہگاروں کے تاریک دلوں میں پیدا ہونے والی بیداری کی پہلی چنگاری جو انہیں توبہ کی دعوت دیتی ہے؛ بھی
فجر کے مصداق ہیں۔
اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عصر حاضر میں فجر کا ایک نمایاں ترین مصداق ایران کا اسلامی انقلاب ہے۔ عشرہ فجر کی اصطلاح قرآن کی نورانی آیات سے الہام لیتے ہوئے سنہ ۱۳۶۰ شمسی کو ارشاد اسلامی کے وزیر حجۃ الاسلام عبد المجید معادی خواہ کی تجویز پر امام خمینیؒ کی ۱۲ بھمن کو وطن واپسی کے دن سے ۲۲ بھمن کے ایام کیلئے مختص کی گئی۔
[ترمیم]
امام خمینیؒ نے تمام رکاوٹوں کے باوجود ۱۲ بھمن ۱۳۵۷شمسی کو مہرآباد ائیرپورٹ پر اپنے قدم رکھے اور ۳۳ کلومیٹر کے علاقے پر موجود عوام کے سمندر نے آپ کا بے نظیر استقبال کیا۔ پھر آپ
بہشت زہرا تشریف لے گئے اور مکمل عزم و یقین کے ساتھ اپنا موقف بیان کر کے حکومت کے سازشی عناصر کی تمام چالوں کو ناکام کر دیا۔
امام خمینیؒ کی ایران آمد سے اسلامی انقلاب کی کامیابی تک کے مختصر عرصے میں ملک کے اندر عظیم تبدیلیاں رونما ہوئیں جو اسلامی انقلاب کی کامیابی پر منتہی ہوئیں اور بعد میں اسے عشرہ فجر کا نام دیا گیا۔ اس مختصر دورانیے میں امام خمینیؒ نے نگران حکومت بھی تشکیل دے دی۔
ایرانی قوم کی تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے حکومت کا آخری حربہ مارشل لا کا نفاذ اور شب خون مارنا تھا۔ پہلوی حکومت کے کٹھ پتلی وزیراعظم بختیار نے امریکی حمایت اور ایک عوامی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے انقلاب کو ختم کرنے کی کوشش کی اور وہ اپنی حکومت کو قانونی ظاہر کر کے عوامی انقلاب کے شعلوں کو خاموش کرنا چاہتا تھا۔ اس نے امامؒ کی پیرس سے واپسی کی مخالفت کی اور پورے ملک کے ائیرپورٹ بند کرنے کا حکم صادر کر دیا۔
تاہم فوجی حکومت کو اہمیت نہ دینے پر مبنی امام کے تاریخی حکم نے حکومتی سازش کو ناکام کر دیا۔ اس اعلان کے بعد عوام نے فوجی حکومت کو گرا دیا اور لوگوں نے سڑکوں پر مورچے قائم کر لیے کہ جس کی وجہ سے منحرف فوجی دستوں کے گشت کا سلسلہ بند ہو گیا۔ اس موقع پر حکومتی باقیات کے ساتھ عوام کا مسلحانہ مقابلہ شروع ہو گیا۔ مختصر مدت میں انقلابی قوتوں نے فوجی ہیڈکوارٹر، وزیراعظم ہاؤس اور دیگر اہم دفاتر کا گھیراؤ کر لیا جبکہ دوسری طرف فوجی سپاہی جوق در جوق عوام کے ساتھ ملحق ہوتے چلے گئے۔
آخرکار وہ تاریخی لمحہ آن پہنچا کہ جب ۲۲ بھمن ۱۳۵۷شمسی کو شہنشاہیت کا ۲۵۰۰ سالہ بوسیدہ نظام ساقط ہو گیا اور امام خمینیؒ کی قیادت میں عوام کی پندرہ سالہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور ایران میں عظیم اسلامی انقلاب کامیاب ہو گیا۔
[ترمیم]
آیت اللہ سید مصطفیٰ خمینیؒ کی
نجف اشرف میں پہلوی حکومت کے آلہ کاروں کے ہاتھوں مشکوک
شہادت کے بعد اسلامی انقلاب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گیا اور اس کے باعث لوگوں کا جوش و خروش عروج پر پہنچ گیا۔ امام خمینیؒ نے اس سانحے کو اللہ تعالیٰ کے خفی الطاف میں سے قرار دیا۔
۱۷ دی ۱۳۵۶شمسی کو ’’ایران اور سرخ و سیاہ استعمار‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ احمد رشیدی مطلق کے مستعار نام سے روزنامہ اطلاعات میں شائع ہوا کہ جس میں
کشفِ حجاب کے دن کی مناسبت سے علما اور بالخصوص امامؒ کی توہین کی گئی کہ یہ لوگ ترقی اور آگے بڑھنے کے مخالف ہیں اور دقیانوسی نظریات کے حامل ہیں کہ جنہیں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئیے۔ اس مقالے کی اشاعت جو براہ راست دربار کے حکم پر کی گئی تھی؛ پورے ملک بالخصوص
حوزہ علمیہ قم میں شدید احتجاج کی باعث بنی اور ہزاروں کی تعداد میں طلبا، عوام اور علما نے جمع ہو کر مراجع کرام کے گھروں کی طرف مارچ کیا اور امامؒ کی توہین پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ ۱۹ دی کو قم میں منعقد ہونے والے مظاہروں پر پہلوی فورسز کی جانب سے خون کی ہولی کھیلی گئی کہ جس میں بہت سے مظاہرین شہید اور زخمی ہو گئے۔ اس قتل عام کے بعد چند دنوں تک حوزات علمیہ اور بازار بند ہو گئے جبکہ مختلف مقامات پر عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔
۲۹ بھمن ۱۳۵۶ شمسی کو
قم سے شروع ہونے والی لہر
تبریز میں ایک طوفان کی شکل اختیار کر گئی۔ اس دن اہل تبریز شہدائے قم کی فاتحہ خوانی کی مجلس میں شرکت کیلئے جب مسجد پہنچے تو دیکھا اس کو تالے لگے ہوئے ہیں۔ اس پر عوام اور پہلوی گماشتوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں اور بہت سے مظاہرین شہید اور زخمی ہو گئے۔
مظاہرین کے شہید اور زخمی ہونے کے بعد مشتعل ہجوم نے سینماؤں، شراب فروشی کے اڈوں اور بینکوں ۔۔۔ کو آگ لگا دی اور اس دن کے بعد یہ تحریک ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی۔
جمشید آموزگار جو سنہ ۱۳۵۶شمسی کو
امیر عباس ھویدا کی جگہ
وزیراعظم بنا تھا؛ بڑے پیمانے پر اسلامی انقلاب پھیل جانے کے بعد استعفا دینے پر مجبور ہو گیا اور
جعفر شریف امامی جو قومی حکومت کے دل فریب نعرے سے رائے عامہ کو گمراہ کرنا چاہتا تھا؛ وزیراعظم بن گیا۔ اس نے شہنشاہی کلینڈر کو لغو، جوئے کے اڈوں کو بند، اخبارات کو آزاد اور
حزب رستاخیز کو ختم کر دیا۔ مگر انقلاب کے رہبر کی زیرکی اور مسلمان عوام کی بیداری نے حکومت کی چال کو ناکام کر دیا۔
۱۳شھریور سنہ ۱۳۵۷شمسی کو تہران کے علاقے قیطریہ میں
عید فطر کی نماز آیت اللہ مفتح کی امامت میں ایک بے مثال انداز سے منعقد ہوئی۔ سنہ ۵۷ شمسی کی نماز عید فطر اور
ماہ رمضان کے آغاز پر بہت سی محافل و مجالس کے انعقاد سے ملک کے تمام شہروں میں اسلامی انقلاب کی تحریک بہت زور پکڑ گئی۔ مذہبی خطبا اور ذاکرین نے مساجد و محافل میں عوامی شعور کی سطح کو مزید بلند کیا۔ پورے ایران میں مظاہرے اور ریلیاں شروع ہو گئیں۔ پہلوی حکومت مظاہرین کا مقابلہ کرنے کیلئے تمام تر حربے بشمول قتل عام، فوجی حکومت کے اعلان اور فتنہ و فساد کو بروئے کار لا کر یہ کوشش کرتی رہی کہ عوامی مظاہروں کو کچل دے مگر ان سفاک اقدامات کا نتیجہ الٹ نکلتا تھا یوں کہ سنہ ۵۷شمسی کی نماز عید فطر کے بعد انسانوں کا سمندر سڑکوں پر امڈ آیا اور انہوں نے اسلامی حکومت کے قیام کا مطالبہ کر دیا۔ سنہ ۵۷ شمسی کی نماز عید الفطر نے عوامی جدوجہد اور علما کی تحریک میں امید کے نئے دریچے کھول دئیے کہ جسے ایران کی مظلوم اور پسی ہوئی ملت کے استعماری قوتوں اور ان کی کٹھ پتلی پہلوی حکومت کی قید سے رہائی کا نقطہ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔
عید الفطر کے ملین مظاہروں کے بعد تحریک پھیل گئی یوں کہ عید الفطر سے ۱۷ شھریور تک تہران کے لوگ روزانہ سڑکوں پر نکلتے اور شہنشاہی حکومت کے خاتمے اور اسلامی حکومت کے قیام کا مطالبہ کرتے۔ ۱۷ شہریور کے دن بھی گزشتہ دنوں کی مانند ریلیاں اور مظاہرے ہو رہے تھے۔
شاہ جو عوامی مظاہروں کی وجہ سے سخت ناراض تھا؛ چارہ جوئی کی تدبیر کرنے لگا۔ اسی وجہ سے اس نے تہران اور چند دوسرے شہروں میں مارشل لا نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ بڑے پیمانے پر قتل عام کر کے لوگوں کو مرعوب کرے اور اپنی خام خیالی کے مطابق کئی سالوں تک انقلاب کے شعلے کو ٹھنڈا کر دے۔ ۱۷ شھریور کی صبح کو لوگوں کی اکثریت مارشل لا کے نفاذ سے بے خبر تھی؛ لہٰذا وہ پہلے کی طرح میدان شہدا میں جمع ہوئے تاکہ ایک ریلی کا انعقاد کریں۔ اچانک شاہ کی فوج نے فضا اور زمین سے نہتے لوگوں پر فائرنگ شروع کر دی اور آس پاس کی سڑکیں خون سے رنگین ہو گئیں۔ یوں ۱۷ شھریور انقلاب کی تاریخ میں
جمعہ سیاہ کے عنوان سے معروف ہوا۔
امام خمینیؒ ۱۳ مھر ۱۳۵۷شمسی کو فرانس کیلئے روانہ ہوئے اور وہاں سے انقلابی عوام کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے میں مشغول ہو گئے۔ اس تاریخی ہجرت کے بعد دنیا ایران کی طرف متوجہ ہو گئی اور امام نے تقاریر اور انٹرویوز کے ذریعے ایرانی عوام کی آواز کو پوری دنیا تک پہنچا دیا اور آخر کار اپنی عاقلانہ قیادت کے ساتھ تمام اندرونی و بیرونی سازشوں کو ناکام کر دیا۔
فرانس کی جانب امام کی تاریخ ساز ہجرت کے بعد چند اہم واقعات پیش آئے؛ منجملہ مسجد جامع کرمان میں آتش زنی، ۱۳ ابان کا سانحہ اور امام رضاؑ کے صحن اور بارگاہ پر حملہ کہ جن میں سے ہر ایک انقلاب اسلامی کی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا مگر ماہ محرم کی جدوجہد سے شہنشاہیت کا محل لرزہ براندام ہو گیا اور کلمہ حق کے مقابلے میں سپر پاورز کو شکست ہوئی۔ امام خمینیؒ نے اپنے پیغام میں ایرانی قوم سے فرمایا: ’’ماہ محرم کے آغاز سے جدوجہد و شجاعت و فداکاری کا آغاز ہو چکا ہے۔۔۔پوری سربکف قوم پر لازم ہے کہ بھرپور طاقت کے ساتھ شاہ کی مخالفت کو جاری رکھیں، اس کا دائرہ کار وسیع کریں اور اس کے خطرناک اقتدار کا خاتمہ کریں۔
تاسوعا و
عاشورا کے مظاہرے عملی طور پر شہنشاہی حکومت کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت اختیار کر گئے اور لوگوں نے ’’استقلال، آزادی اور جمہوری اسلامی‘‘ کے حق میں آواز بلند کی۔
شاہ اور اس کے مغربی آقاؤں کے ترکش کا آخری تیر ’’قومی محاذ‘‘ کے پرانے رکن
شاپور بختیار کو وزیراعظم کے منصب پر فائز کرنا تھا جو
سول ڈیموکریسی کا نعرہ بلند کر کے برسراقتدار آیا اور خود کو طوفانوں میں پرواز کرنے والا پرندہ قرار دیتا تھا۔
بختیار کی حکومت جو امامؒ کی ایران میں موجودگی کو اپنے اہداف کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی تھی؛ نے ائیرپورٹ بند کر دئیے تاکہ امامؒ کا سفر موخر ہو جائے۔ شاہ کے فرار اور امامؒ کی آمد کے دوران اربعین اور ۲۸ صفر کے موقع پر دو بہت بڑے ملین مارچ منعقد ہوئے؛ اسی طرح تہران یونیورسٹی میں علما اور دینی طلبہ نے دھرنا دیا کہ جس سے پہلوی حکومت کی بنیادیں ہل گئیں اور آخرکار ۱۲ بھمن ۱۳۵۷ شمسی کو ۱۵ سال کے بعد حضرت امامؒ کی وطن واپسی کے موقع پر کئی ملین لوگوں نے آپ کا استقبال کیا۔ تہران پہنچنے کے بعد امام خمینیؒ بہشت زہرا میں انقلاب اسلامی کی راہ میں جانیں قربان کرنے والے ہزاروں شہدا کے قبرستان میں حاضر ہوئے اور اپنے خطاب میں بختیار کی حکومت کو غیر قانونی قرار دیا اور فرمایا کہ جلد ہی قوم کی رائے اور اپنے شرعی حق کی بنیاد پر حکومت متعین کروں گا۔
۱۶ بھمن کو امام نے
مہندس بازرگان کو عارضی حکومت کا وزیراعظم مقرر کر دیا۔ ۱۹ بھمن کو ائیرفورس کا اسٹاف امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؒ کی بیعت کر لی۔ ۲۱ بھمن کی شب کو تہران میں فضائیہ کے لوگوں اور امپیریل گارڈز کے درمیان مسلح جھڑپیں ہوئیں کہ جس کے بعد عوامی مداخلت کے نتیجے میں چھاؤنیوں کے دروازے عوام پر کھول دئیے گئے اور کچھ اسلحہ عوام کے ہاتھ لگ گیا۔ ایرانی قوم کے قیام کو کچلنے کا آخری حربہ فوجی بغاوت تھا۔ فوج کے سربراہان نے بغاوت میں حصہ لیا اور ۲۱ بھمن کو سہ پہر چار بجے مارشل لا کا اعلان کر دیا گیا۔ مگر امام نے فوجی حکومت کی نسبت بے توجہی پر مبنی تاریخی فرمان جاری کیا کہ جس سے یہ چال بھی ناکام ہو گئی۔
۲۲ بھمن کے دن عوام نے حکومتی، فوجی، انتظامی اور ریڈیو ٹیلی وژن کے دفاتر کو فتح کر لیا، بختیار کے ایران سے فرار اور فوج کی جانب سے غیر جانبدار رہنے کے اعلان کے بعد ۲۲ بھمن ۱۳۵۷شمسی کو ایران کا اسلامی انقلاب حضرت امام خمینیؒ کی بے نظیر قیادت، ایرانی عوام کی بلند ہمتی اور رضائے الہٰی کے حصول کی راہ میں سالہا سال کی جدوجہد اور فداکاری کے نتیجے میں حتمی کامیابی سے ہمکنار ہو گیا۔
[ترمیم]
عشرہ فجر کو اہمیت دینا اور منانا؛ بالخصوص ۲۲ بھمن کی ریلی میں شرکت درحقیقت امام اور انقلاب کی امنگوں سے تجدید بیعت کی عکاس، دشمن کی پسپائی کا عامل اور
الہٰی سنتوں کے احیا کا نام ہے۔ عشرہ فجر پر توجہ حقیقی انقلابی قوتوں میں نئی روح پھونکنے کے مترادف ہے اور اس مبارک عشرے کا احترام دراصل عظیم
الہٰی معجزے کا شکر بجا لانے کے مترادف ہے۔ ملکی امن و امان کا تحفظ اور اسلامی نظام کی خدمات اور کامیابیوں کو عوامی سطح پر بیان کرنا عشرہ فجر اور اسلامی انقلاب کی عظیم سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ پروگراموں کے اہداف میں سے ہے۔
۲۲ بھمن کی ریلی میں شرکت انقلاب کی کامیابی کے جشن میں ایک رسمی شرکت کا نام نہیں ہے بلکہ یہ شرکت انقلاب کے اصولوں اور امنگوں پر تاکید کے ساتھ ساتھ قومی فہم و بصیرت اور عوامی اقتدار کی علامت ہے؛ گویا پوری قوم انقلاب کے دفاع اور ترقی کیلئے مستعد اور چوکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جابر حکومتیں دیگر امور کی نسبت اس ریلی میں عوامی شرکت کا نزدیک سے جائزہ لیتی ہیں۔ عالمی استعمار کے مقابلے میں ایرانی عوام کی چار دہائیوں پر مشتمل مزاحمت اور ثابت قدمی کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ ایران ترقی کی منازل طے کر رہا ہے، مسلمانوں اور کمزوروں کے درمیان استعمار کے خلاف مزاحمت کی آئیڈیالوجی فروغ پا رہی ہے مگر اس کے ساتھ اسلامی نظام کے خلاف دشمنوں کی سازشیں بھی بہت زیادہ اور پیچیدہ ہو چکی ہیں۔ دشمنوں نے ایران کے خلاف انتہائی سخت اور سفاکانہ حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے تاکہ وہ اپنے گمان باطل میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کو انقلاب کے اصولوں اور امنگوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیں اور اسے استعمار کی خواہشات کا تابع بنا سکیں۔
[ترمیم]
آج ہمارا ملک عشرہ فجر اور سپرپاورز کے چنگل سے آزادی اور استقلال حاصل کرنے کی سالگرہ منا رہا ہے اور ہمیں امید ہے کہ جلد ہی
عراق کی بعثی حکومت کے سقوط پر بھی ہم جشن منائیں گے۔ میں اسلام اور ملک کی کامیابی پر معزز ایرانی عوام اور بالخصوص شہدا، زخمیوں، معذوروں، پسماندگان اور ان کے رشتہ داروں کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ملت کی کامیابیاں، سربلندیاں اور افتخارات ان عزیزوں اور ان کے ساتھیوں کی فداکاری کے مرہون منت ہے۔ یہ جاں نثار ملت کے بازو اور امت کی جبین کا افتخار ہیں۔ تاریخ ان کی جدوجہد کو لکھ رہی ہے جبکہ خدا کے فرشتے بھی ملکوتی دیوانوں میں اسے ثبت کر رہے ہیں۔ خدائے تبارک و تعالیٰ اپنی لامتناہی رحمت سے شہیدوں کو برخوردار کرے اور شہدا کے پسماندگان اور خاندانوں کو ہمیشہ کی سلامتی اور ابدی سعادت عنایت فرمائے۔
سلام ہو اس مجاہد ملت پر، رحمت ہو شہدا اور زخمیوں پر؛ حق کے دفاع میں محاذ جنگ پر برسرپیکار مجاہدین کو اللہ تعالیٰ عزت، سعادت اور کامیابی عطا کرے۔
[ترمیم]
عشرہ فجر طلوع اسلام کا آغاز، اسلامی اقدار کا سرچشمہ، ایرانی قوم کی نجات کا مرحلہ اور ہماری تاریخ کا ایک حصہ ہے کہ جس نے ماضی کو مستقبل سے جدا کر دیا ہے۔ عشرہ فجر میں اسلام کو ایک نئی زندگی ملی اور یہ عشرہ ایران کی تاریخ کا ایک سرنوشت ساز اور بے مثال موڑ ہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ایران میں اسلامی حکومت کا کوئی وجود نہیں تھا اور بادشاہوں کا عوام سے رابطہ ’’غالب و مغلوب‘‘ اور ’’سلطان و رعیت‘‘ والا تھا۔ بادشاہ یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے لوگوں پر غلبہ پا کر انہیں فتح کر لیا ہے۔ حضرت امام خمینیؒ نے یہ معیوب سلسلہ منقطع کیا اور ایران کی تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ آپ نے لوگوں کی شمشیر اسلام کو اسلام اور عوام کے دشمنوں اور استعمار پرستوں کے خلاف استعمال کیا۔
عشرہ انقلاب
اسلام کی تجلی ہے اور ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس میں اسلام کا خورشید ضو فشاں ہے۔ اس عشرے کو انتہائی شان و شوکت کے ساتھ منایا جائے۔ ان دنوں کی یاد کو صحیح جذباتی وابستگی کے ساتھ تازہ کیا جائے۔ ہمارے مذہب میں جذبات، خوشی اور غمی،
حب و
بغض اور عشق و نفرت کا مقام نہایت بلند ہے۔ اس اعتبار سے عشرہ فجر کے جشن کو مذہبی مجالس و محافل کی طرح عوامی سطح پر منایا جائے۔
ہمارے لیے ضروری ہے کہ عوام، حکام اور دیگر شخصیات بالخصوص جوان اور وہ لوگ کہ جن کا کلام موثر ہے؛ عملی میدان میں حاضر رہنے کے احساس سے خود کو محروم نہ ہونے دیں۔ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ میرا کام نہیں ہے، میری ذمہ داری نہیں ہے؛ بلکہ یہ سب کی ذمہ داری ہے۔۔۔ ۔
[ترمیم]
[ترمیم]
ویکی فقہ ریسرچ بورڈ۔