شبہہ موضوعی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
اگر کسی فعل کے حکمِ جزئی میں یا اس کے موضوعِ خارجی میں شک و تردد ہو تو اس کو شبہہِ موضوعی کہا جاتا ہے۔ شبہہِ موضوعی کا کلی طور پر تعلق ایک حکم کے موضوع میں شک و تردید سے ہے۔
[ترمیم]
شبہہِ موضوعی اس جگہ ہوتا ہے جہاں یا تو حکمِ جزئی میں شک ہو، جیسے ایک مائع یا مشروب کے پاک اور نجس ہونے میں شک ہو، یا جزئی موضوع میں شک ہو، جیسے یہ پانی
کُر ہے یا نہیں۔ شبہہِ موضوعی کے مقابلے میں
شبہہِ حکمی آتا ہے۔
[ترمیم]
شبہہِ موضوعی
شبہہِ حکمی کے مقابلے میں ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ حکمِ شرعی کے موضوع میں کلی طور پر شک ہو یعنی مجعول میں کلی طور پر شک کا ہونا جس کی وجہ مصداقِ خارجی میں اشتباہ کا شکار ہونا ہے۔ اس کے مقابلے میں جعل میں شک کا ہونا ہے جوکہ شبہہِ حکمی سے مربوط ہے۔ شبہہِ موضوعی کا دوسرا مورد حکمِ شرعیِ جزئی کے موضوع میں شک کا ہونا ہے جس کی وجہ مورِ خارجی میں اشتباہ کا شکار ہونا ہے، جیسے مکلف شک کرتا ہے کہ جو مشروب سامنے موجود ہے وہ شراب ہے یا سرکہ؟ حالانکہ شراب اور سرکا کا مفہوم مکلف جانتا ہے اور وہ شراب اور سرکہ ہر دو کے حکمِ شرعی سے بھی واقف ہے۔ لیکن مکلف کو شک ہے کہ اس کے سامنے خارج میں جو مشروب پڑا ہوا ہے وہ شراب ہے یا سرکہ؟ یعنی مکلف کو مفہوم اور حکم دونوں کا علم ہے لیکن مصداقِ خارجی میں شک ہے۔
اس کے علاوہ دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ مکلف شراب کا حکمِ موضوعی کلی طور پر جانتا ہے کہ شراب نجس اور اس کا پینا حرام ہے، لیکن شک کرتا ہے کہ اس برتن میں موجود شراب سرکہ میں تبدیل ہو چکی ہے یا نہیں ؟کیونکہ اگر شراب سرکہ میں تبدیل ہو چکی ہے تو برتن اور مشروب دونوں پاک اور اس کا پینا جائز ہے، لیکن اگر برتن میں شراب سرکہ میں تبدیل نہیں ہوئی تو وہ نجس اور اس کا پینا حرام ہے۔ پس مکلف کے شک کا تعلق برتن میں موجود مشروب کے شراب ہونے یا سرکہ ہونے سے ہے۔ یہاں اس مشروب یا مائع کے حکمِ جزئی میں شک پیدا ہو رہا ہے جس کا تعلق امورِ خارجی سے ہے کہ یہ سامنے موجود مشروب سرکہ میں تبدیل ہوا ہے یا نہیں بلکہ شراب ہی ہے؟
[ترمیم]
شبہاتِ حکمی میں شک ہونے کا سبب دلیل معتبر کا نہ ہونا ہے، یا روایت کا مجمل ہونا ہے، یا دو دلیلوں میں باہمی تعارض و ٹکراؤ پایا جائے؛ جیسے یہ شک ہونا کہ سیگریٹ کا کیا حکم ہے؟ اس شبہہ کو شبہہِ حکمی کہا جائے گا۔
[ترمیم]
شبہاتِ موضوعی میں شک ہونے کا سبب خارجی امر میں اشتباہ کا شکار ہونا ہے؛ جیسے یہ شک ہونا کہ یہ مائع یا مشروب شراب ہے یا سرکہ؟ اس کو شبہہِ موضوعی کہتے ہیں۔
[ترمیم]
شبہہِ موضوعی اور شبہہِ حکمی میں متعدد فرق بیان کیے گئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
۱. شبہاتِ موضوعی میں شک کا سبب خارجی امور میں شبہہ کا لاحق ہونا ہے، لیکن شبہاتِ حکمی میں سببِ شبہہ کسی معتبر نص کا نہ ہونا ہے، کیونکہ شارع کی جانب سے معتبر نص ہمارے پاس موجود نہیں ہے یا روایات میں اجمال کا ہونا ہے یا روایات میں باہمی تعارض کا ہونا ہے۔
۲. شبہاتِ حکمی میں شبہہ کو دور کرنے کے لیے شارع مقدس کی طرف رجوع کیا جائے گا جبکہ شبہاتِ موضوعی میں اہل فن و خبرگانِ عرف کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
۳. شبہاتِ حکمی میں مکلف کو حکمِ شرعیِ کلی میں شک ہوتا ہے لیکن شبہاتِ موضوعی میں مکلف کو حکمِ شرعی جزئی میں شک ہوتا ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگنامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۵۰۳، برگرفتہ از مقالہ شبہہ موضوعی۔ فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت ع، ج۴، ص۶۱۸۔