شرط متأخر
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
وہ شرط جو
شرطِ متقدم اور
شرطِ مقارن کے مقابلے آتی ہے اس کو اصول فقہ میں شرطِ متأخر کہتے ہیں۔
[ترمیم]
اس شرط کو شرطِ متأخر کہا جاتا ہے جو مشروط سے متأخر زمانے میں ہو۔ اس کا شمار شرطِ متقدم و مقارن کے مقابلے میں ہوتا ہے۔ اگر شرط
مشروط پر مقدم ہو تو اس کو شرطِ متقدم کہتے ہیں اور اگر زمانے کو مدنظر رکھتے ہوئے
شرط مشروط کے ہم زمان ہو تو اس کو شرطِ مقارن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر شرط مشروط سے مؤخر ہو تو اس کو شرطِ متأخر کہا جاتا ہے۔
[ترمیم]
شرطِ مقارن کے ممکن ہونے اور واقع ہونے میں کسی قسم کا شک نہیں ہے۔ لیکن شرطِ متأخر اور شرطِ متقدم کے وقوع میں اشکال وارد ہوا ہے۔ کیونکہ شرط کا شمار
علتِ تام کے اجزاء میں ہوتا ہے اور علت تامہ کے تمام اجزاء کا
معلول کے ہم زمان ہونا ضروری ہے۔ لہذا شرط کا مشروط سے مقدم ہونا یا مؤخر ہونا صحیح نہیں ہے۔ اصولِ فقہ کی کتب میں اس اشکال کے متعدد جوابات دیئے گئے ہیں۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت،ج۴،ص ۶۵۷۔