صحت سلب
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
صحتِ سلب سے مراد لفظ کو معنی سے سلب کیا جا سکنا ہے۔ اگر
لفظ کو معنی سے سلب کرنا صحیح قرار پائے تو اس کو صحت سلب کہتے ہیں۔ اس سے
اصول فقہ میں بحث کی جاتی ہے۔
[ترمیم]
اصول فقہ میں مباحثِ الفاظ کے باب میں
حقیقت اور مجاز سے جب بحث کی جاتی ہے تو وہاں علماءِ اصول نے حقیقی اور مجازی الفاظ میں جدائی کے لیے علامات پر بحث کی ہے۔ ان علامات سے لفظ حقیقی اور غیر حقیقی یعنی مجازی کی پہچان ہو جاتی ہے۔ اس طرف توجہ رہے کہ مباحث الفاظ میں
علائمِ وضع سے بھی بحث کی جاتی ہے جس میں حقیقی لفظ اور مجازی لفظ کو پہچاننے کے لیے
علائمِ حقیقت و مجاز کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔ جبکہ ایک مرتبہ استعمال کی بحث میں ہم علاماتِ حقیقت و مجاز سے بحث کرتے ہیں۔ اس صورت میں ان علامات کا تعلق ان اوصاف سے ہے جو
استعمال پر طاری ہوتے ہیں، جبکہ علائمِ وضع کا تعلق وضع کے بحث سے ہے۔
ان علامات کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب ایک لفظ کے معنی میں شک ہو جائے کہ یہ اس لفظ کا حقیقی معنی ہے یا مجازی معنی۔
علماءِ اصول نے ایک لفظ کے
مجاز ہونے کی علامت صحتِ سلب قرار دی ہے۔ اگر ایک
لفظ کسی مورد میں خاص معنی میں
استعمال ہوا ہے اور وہاں شک ہو جائے کہ آیا یہ معنی اس لفظ کا حقیقی معنی ہے یا نہیں تو اس علامت کے ذریعے ہم جان سکتے ہیں کہ یہ معنی اس لفظ کا حقیقی معنی یا مجازی۔ کیونکہ اگر لفظ اپنے حقیقی اور وضعی معنی میں
استعمال کیا جائے تو اس معنی کو لفظ سے کبھی بھی سلب اور جدا نہیں کر سکتے۔ پس جب لفظ کو معنی سے سلب کرنا صحیح قرار پائے اس کا مطلب ہو گا کہ یہ معنی اس لفظ کا غیر حقیقی یعنی مجازی معنی ہے، مثلا کسی کی شجاعت کا تذکرہ ہو اور بہادر شخص کو شیر کہا جائے۔ اس مثال میں گفتگو حقیقی شیر جوکہ درندہ جانور ہے کے بارے میں نہیں ہو رہی۔ پس لفظِ شیر کا استعمال بہادر شخص پر مجازی
استعمال کہلائے گا۔
بعض علماء نے فی الجملۃ اس کو علامتِ مجاز قرار دیا ہے اور کلی طور پر قبول نہیں کیا۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، زیر نظر آیت الله محمود ہاشمی شاہرودی، ج۵، ص۵۰، برگرفتہ از مقالہ صحت سلب۔ بعض مطالب اور حوالہ جات ویکی فقہ اردو کی طرف سے اضافہ کیے گئے ہیں۔